Friday, 18 May 2012

امریکی جارحیت کے پھیلتے سائے September 27, 2011

پاکستان امریکہ تعلقات کی تقریباً ساٹھ سالہ تاریخ میرے سامنے ہے۔ اتار چڑھاؤ، گرمجوشی، سرد مہری اور پھر بے اعتنائی ان تعلقات کی نمایاں خصوصیت رہی ہے۔ شاید اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ نوزائیدہ ریاست کی ڈپلومیسی میں ناتجربہ کار حکمران سفارت کاری اور ریاستی مفادات کے بنیادی محرکات سے پوری طرح آگاہ نہیں تھے۔ کتابیں کہتی ہیں کہ پاکستان کا مغرب پر ضرورت سے زیادہ انحصار اس لئے ہوا کہ ہمارا حکمران اور پالیسی ساز طبقہ مغرب کا تعلیم یافتہ تھا اور مغرب سے ذہنی طور پر زیادہ قریب تھا۔ ایک طویل عرصے تک دانشور اور لکھاری ہمارے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو روسی دعوت نامہ ٹھکرا کر امریکہ یاترا پر جانے کے سبب معطون کرتے رہے اور جب کبھی امریکہ نظر بھی پھیر لیتا تو لیاقت علی خان کو معطون کرنے کے راگ کا آہنگ مزید بلند ہو جاتا۔ طویل عرصے کے بعد وزارت خارجہ کے کاغذات و مسودات سے پردہ اٹھا تو راز کھلا کہ روس نے دعوت نامہ تو بھجوا دیا تھا اور وزیراعظم دورے کیلئے پوری طرح تیار بھی تھا لیکن خود روسی حکومت نے اپنا دعوت نامہ کولڈ اسٹوریج میں ڈال دیا اور تاریخوں پر تاریخیں دینے لگی۔ مجبوراً وزیراعظم لیاقت علی جنہیں امریکہ سے دعوت نامہ مل چکا تھا امریکہ کے دورے پر روانہ ہو گئے۔ لیاقت علی خان کو امریکہ عشق کا طعنہ دینے والے امریکہ میں کی گئی لیاقت علی خان کی تقریریں تو پڑھ لیں۔ یہ تقریریں ایک آزاد خارجہ پالیسی اور مقتدر ملک کے وزیراعظم کے نظریات کی عکاسی کرتی ہیں۔ مطلب یہ کہ پاکستانی عوام طویل عرصے تک امریکہ دوستی کے رومانس اور واہمے میں گرفتار ہے۔ میرے اندازے کے مطابق 1965 کی جنگ نے پاکستانی عوام کو پہلی دفعہ جھنجوڑ کر اس خواب گراں سے جگایا اور پھر آہستہ آہستہ انہیں سمجھایا کہ ملکو ں کے درمیان دوستیاں پائیدار نہیں ہوتیں، ہر ملک اپنے مفادات سے محبت کرتا ہے نہ کہ کسی دوسرے ملک سے ۔ رہا امریکہ تو وہ اس تاجر کی مانند ہے جو ہر شے حتیٰ کہ ملکوں کو بھی ڈالر کے ذریعہ خریدتا ہے اور جب ضرورت نہیں رہتی تو ہاتھ کھینچ لیتاہے۔ لیاقت علی خان کے جھکاؤ کی مجبوری کمانڈر انچیف کا دباؤ تھا جسے ہندوستانی عزائم کے خلاف بہرحال ماڈرن اسلحہ درکار تھا۔ اسی لئے محققین کہتے ہیں کہ ہندوستان پہلے دن سے ہی پاکستان کے گلے کی پھانس رہا ہے، پاکستان کی خارجہ پالیسی سے لے کر تجارتی پالیسی تک کا بنیادی پتھر ہندوستان تھا یہی پڑوسی پاکستان کی سب سے بڑی بدقسمتی تھی۔ 
ہو سکتا ہے میرا اندازہ صحیح نہ ہو لیکن شاید یہ پہلا موقع ہے کہ امریکہ پاکستان کے سر پر بندوق تانے کھڑا ہے اور سنگین دھمکیاں دے رہا ہے۔ تعلقات کا اتار چڑھاؤ اپنی جگہ لیکن کبھی یوں پاکستان امریکہ جنگ کا منظر نامہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ امریکہ کا پاور فل ٹرائیکا مولن، پنٹا اور پیٹریاس پیشانیوں پر تیوریں چڑھا کر مسلسل کئی دنوں سے جو دھمکیاں دے رہے ہیں۔ یہ پہلی بار ہے کہ سبھی ایک ہی زبان بول رہے ہیں، اس بول میں ارادہ بھی ہے اور انتقام لینے ا ور سبق سکھانے کی واضح آرزو بھی۔ چنانچہ میرے نزدیک موجودہ صورت حال گزشتہ منظر ناموں سے مختلف ہے اور سنگین تر ہے۔ لیکن گھبرانے کی بات اس لئے نہیں کہ قوموں پر سخت اور سخت ترین ادوار آیا کرتے ہیں اور اگر بہادری اور اتحاد سے ان کا مقابلہ کیا جائے تو نہ صرف ابتلاء ختم ہو جاتی ہے بلکہ قوم بھی باطنی طور پر مضبوط ہو کر ابھرتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر امریکہ حقانی نیٹ ورکس کی کمر توڑنے کے لئے ہمارے علاقے میں جارحیت کا ارتکاب کرتا ہے تو یہ ہمارا چوائس نہیں ہمیں بہرحال اس کا مقابلہ کرنا ہے۔ 
موجودہ چیلنج نائن الیون کے سلسلے کی کڑی ہے۔ اگر مشرف امریکہ کے سامنے قالین کی مانند نہ لیٹتا بلکہ کچھ اپنی شرائط منواتا اور پھر پاکستان کو امریکی رزمگاہ نہ بناتا تو صورت مختلف ہوتی۔ ظاہر ہے کہ پاکستان کو دہشت گردی کی عالمی لہر کا ساتھ دینا تھا اور امریکہ کا ساتھ دینے کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں تھا لیکن اس موقع پر پاکستان کو امریکی جنگ سے فاصلے پر رکھنے کیلئے اور نہایت محدود حمایت دینے کے لئے جس طرح کی تربیت یافتہ اور ذہین قیادت کی ضرورت تھی پاکستان اس سے محروم تھا۔ پھر جس طرح مشرف بش کے سامنے بچھا، ہوائی اڈوں سے لے کر اپنی سرزمین ان کے حوالے کر دی اور ملک میں سی آئی اے کا جال بچھانے کی اجازت دے دی اس سے امریکہ کو پاکستان پر حکمرانی کرنے اور ڈکٹیشن دینے کا مزید چسکا پڑا۔ اب امریکہ یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ پاکستان اس کے حکم سے سرتابی کرے گا۔ شاید پاکستان ماضی کی مانند تابع محمل بنا رہتا لیکن یہ انداز عسکری قوت کو گوارہ نہیں کیونکہ پاکستان کے بھی کچھ اسٹرٹیجک مفادات اور قومی تقاضے ہیں جن کا افغانستان سے گہرا تعلق ہے، پاکستان کو سوچنا ہے کہ جب امریکہ وہاں سے نکل جائے گا تو پاکستان کے لئے کیا خطرات ہوں گے کیونکہ ہندوستان افغانستان میں قدم جما چکا ہے اور پاکستان کو افغانستان میں اثر و رسوخ درکار ہے اس لئے پاکستان اپنے گھوڑوں کو کمزور نہیں کرے گا۔ بھارت کا مفاد اس میں ہے کہ پاکستان کے گھوڑے کمزور ہوں اور ہو سکے تو انہیں امریکی توپوں سے ختم کروایا جائے چنانچہ امریکی ٹرائیکا کی دھمکیوں کی حمایت کرتے ہوئے بھارتی وزیر خارجہ کرشنا نے نیو یارک میں خوشی سے بغلیں بجاتے ہوئے کہا ہے کہ ہم تو مدت سے امریکہ کو سمجھا رہے تھے کہ آئی ایس آئی تمہارے خلاف کام کر رہی ہے، آئی ایس آئی کے امریکہ مخالف جہادیوں سے رابطے ہیں او ر آئی ایس آئی حقانی کے ذریعے امریکی اور نیٹو فوجیوں کو مروا رہی ہے۔ اب کابل پر حملے اور ممبئی پر حملے میں مماثلت کا راگ الاپ کر امریکہ انڈیا مشترکہ محاذ بنانے کی سعی کی جا رہی ہے جس کا مشترکہ ہدف پاکستان ہے۔ آئی ایس آئی سے امریکہ کی شکایات نئی نہیں۔ امریکہ گزشتہ کئی برسوں سے آئی ایس آئی پر ڈبل گیم کا الزام لگا رہا ہے اور کئی بار شواہد بھی دے چکا ہے لیکن جب تک امریکہ کو پاکستان کی سخت ضرورت تھی وہ صرف الزام تراشی کرتا رہا لیکن اب کابل پر حملے کے بعد اور افغانستان سے امریکی انخلاء کے پس منظر میں امریکہ کا رویہ جنگجوانہ رنگ اختیار کر چکا ہے۔ آئی ایس آئی کی مجبوری ہے کہ وہ پاکستان کی ایجنسی ہے اور اسے پاکستانی مفادات کی حفاظت کرنی ہے، وہ امریکہ کی خاطر پاکستانی مفادات پر سمجھوتہ نہیں کر سکتی۔ مشکل یہ آن پڑی ہے کہ امریکہ کے پاس حقانی گروپ کو کئے گئے فون کالز کا ثبوت ہے۔ یہ ثبوت پہلے بھی تھا لیکن اس وقت حقانی نے کابل پر حملہ کر کے امریکی اور نیٹو فوجی اس طرح نہیں مار تھے۔ ریمنڈ ڈیوس اور اسامہ آپریشن سے شروع ہونے والی کشیدگی اب کھل کر سامنے آ گئی ہے۔ سیاسی قیادت حسب معمول مصلحتوں کا شکار ہے اور حکومتی ہرکارے لوگوں کو ڈرانے پر مامور ہیں لیکن لگتا ہے کہ عسکری قیادت اپنی حکمت عملی طے کر چکی ہے اور وہ مشرف کے شروع کئے گئے سلسلے کا رخ موڑنا چاہتی ہے۔ بلا شبہ یہ حالات قومی اتحاد کے متقاضی ہیں۔ بلاشبہ یہ ہماری قومی تاریخ کا شدید ترین ابتلاء کا دور ہے کہ ایک طرف سیلاب و بارشوں کی تبا ہی دوسری طرف ڈینگی کا حملہ، تیسری طرف دہشت گردی کا گرم بازار چوتھی طرف بلوچستان میں جاری سول وار اور ان سب سے مستزاد اور بالا امریکی جارحیت کے طویل سایے ظاہر ہے قومی اتحاد اور جمہوری تقاضوں کے تحت اس گھمبیر صورتحال پر پارلیمنٹ میں بحث ہو گی وہاں سے قرارداد منظور ہو گی لیکن قرارداد تو پارلیمنٹ نے ڈرون حملوں پر بھی پاس کی تھی بعد میں پتہ چلا کہ حکمران امریکہ سے کہتے رہے تم حملے کرتے رہو ہم احتجاج کرتے رہیں گے۔ اب ایسی قیادت سے کیا توقع؟ امریکہ کا بھی کیا قصور کہ وہ ایسی منافق قیادت کا عادی ہو چکا ہے۔ وزیراعظم صاحب حزب مخالف کے لیڈروں کو فون بھی کریں گے، کل جماعتی کانفرنس بھی ہو گی، شور بھی مچایا جائے گا، جلوس بھی نکالے جائیں گے لیکن ان پر بھروسہ کون کرے؟ چنانچہ ساری ذمہ داری عسکری قیادت پر آن پڑی ہے۔ اگر عساکر پاکستان حقانی نیٹ ورک پر حملے کی آڑ میں وزیرستان پر جارحیت سے صرف نظر کرتی ہیں تو وہ قومی حمایت سے محروم ہو کر ناپسندیدگی کا نشانہ بن جائیں گی اور اگر وہ مقابلہ کرتی ہیں تو جارحیت کا دائرہ پھیل جائے گا۔ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ حکومت ابھی تک تساہل کا شکار ہے۔ حکومت نے ابھی تک عالمی رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرنے کے لئے اقدامات کئے ہیں نہ ہی دوست ملکوں کو خطرات ٹالنے کے لئے متحرک کیا ہے۔ چین اس خطرے کو ٹالنے میں اہم کردار سرانجام دے سکتا ہے۔ دیکھئے کیا ہوتا ہے؟


No comments:

Post a Comment