Saturday 19 May 2012

کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے January 14, 2012


تاریخ کا طالب علم ہونے کا ایک ”نقصان“ یہ ہوتا ہے کہ حالات و واقعات سے گزرتے ہوئے ماضی کے واقعات ذہن پر روشنی ڈالتے رہتے ہیں اور انسان ماضی و حال میں یکسانیت ڈھونڈھتا رہتا ہے۔ دراصل اسی کو تاریخ سے سبق سیکھنا کہتے ہیں کیونکہ اگر آپ میں ماضی کا شعور موجزن ہو تو اس سے حال میں رہنمائی ملتی ہے جو غلطیوں اور کوتاہیوں سے بچاتی ہے۔ میں نے کسی کتاب میں پڑھا تھا لیکن تفصیل یاد نہیں۔ ہندوستان کو آزاد ہوئے تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ ہندوستان کے آرمی چیف ملاقات کے لئے مولانا ابوالکلام آزاد سے ملنے گئے۔ ملاقات میں سیاسی باتیں بھی ہوئیں اور حالات حاضرہ پر تبصرہ بھی۔ آرمی چیف مل کر رخصت ہو گیا تو مولانا نے وزیراعظم جواہر لال نہرو کو فون کیا اور فوری ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔ نہرو ہچکچایا کیونکہ مولانا اس روز وزیراعظم سے صبح مل چکے تھے۔ بہرحال نہرو نے مولانا کی خواہش کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے۔ مولانا وزیراعظم سے ملے تو انہیں بتایا کہ تمہارے کمانڈر انچیف کے ذہن میں سیاسی جراثیم پرورش پا رہے ہیں اور آج ملاقات میں اس نے سیاست اور سیاستدان کو خاصی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ کتاب کے مطابق نہرو نے فوجی جنرل کو ڈسمس کر دیا اور فوج کو واضح پیغام دے دیا کہ سیاست سیاستدانوں کا کام ہے۔
1953 میں پاکستان غذائی قلت کا شکار تھا۔ وزیراعظم خواجہ ناظم الدین بھلے مانس اور ہمارے محبوب وزیراعظم گیلانی صاحب کی مانند سادہ لوح انسان تھے۔ وزیراعظم خواجہ ناظم الدین بھی گیلانی صاحب کی مانند بڑے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور گیلانی صاحب کی مانند ان کا نواب خاندان بھی مغلیہ دور سے لے کر انگریزوں تک اقتدار اور دربار کا حصہ رہا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ غذائی قلت کے سبب خواجہ ناظم الدین کی حکومت کے خلاف سڑکوں پر احتجاج ہوتا تھا اور خواجہ ناظم الدین کے موٹاپے کو ”خوش خوراکی“ کی علامت سمجھ کر غذائی قلت کا سبب قرار دیا جاتا تھا۔ آپس کی بات یہ ہے کہ میں جب بھی تاریخ پاکستان کے تاریخی کرداروں کا مطالعہ اور موازنہ کرتا ہوں تو مجھے خواجہ ناظم الدین اور میاں محمد نواز شریف میں بے حد مماثلت نظر آتی ہے۔ دونوں کشمیری النسل، گورے چٹے، درمیانہ قد اور بھاری بھرکم، دونوں خوش خوراک اور پاکستانی لباس زیب تن کرنے کے شوقین اور دونوں دولت مند گھرانوں کے چشم و چراغ اور دونوں کا تعلق مسلم لیگ سے… خواجہ ناظم الدین مشرقی پاکستان کے وزیر اعلیٰ رہے، گورنر جنرل بنے اور پھر وزیراعظم بن گئے۔ میاں صاحب پنجاب کے وزیر اعلیٰ اور پھر وزیراعظم بنے۔ گورنر جنرل کی جگہ اب صدر نے لے لی ہے اور ہو سکتا ہے میاں صاحب صدر بن جائیں اور ایوان صدارت میں کرکٹ کھیلا کریں۔ خواجہ ناظم الدین اور میاں نواز شریف دونوں کی حکومتوں کو اسمبلی میں اکثریت کے باوجود ڈسمس کیا گیا۔ خواجہ ناظم الدین کو گورنر جنرل نے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان کی مدد سے ڈسمس کیا جبکہ میاں صاحب کو صدر غلام اسحاق خان نے آرمی چیف کی مدد سے وزارت عظمیٰ سے ”دیس نکالا“ دیا اور بالآخر میاں صاحب اپنے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کو قابو کرتے کرتے فوجی انقلاب کا نشانہ بن گئے۔
معاف کیجئے گا میں اصل موضوع سے ذرا دور نکل گیا اور اسی لئے مجھے اپنی تیز رفتاری سے گلہ رہتا ہے۔ میں عرض کر رہا تھا کہ 1953 میں وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کے دور حکومت میں غذائی قلت کا بحران پیدا ہوا تو بجٹ اور غذائی بحران پر غور کرنے کے لئے ایک میٹنگ بلائی گئی۔ میٹنگ کی صدارت گورنر جنرل غلام محمد کر رہا تھا اور اس میں وزیراعظم، چند ایک وفاقی وزراء، کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان اور چند سینئر بیورو کریٹ موجود تھے۔ ڈاکومنٹس گواہی دیتے ہیں کہ اس میٹنگ میں جنرل ایوب خان نے وزیراعظم کی پنجابی محاورے کے مطابق ”پت“ اتار دی اور ان کی نااہلیت، حکومتی ناکامی اور نااہلی کو شدید تنقید کا ہدف بنایا۔ میں جن دنوں ”مسلم لیگ کا دور حکومت“ (1947-54) پر تحقیقی عرق ریزی کر رہا تھا تو مجھے واشنگٹن آرکائیوز میں ایسی خفیہ رپورٹیں دیکھنے کا موقع ملا جو پابندی سے تازہ تازہ آزاد ہوئی تھیں۔ اس رپورٹ میں لفظ (Abuse) استعمال ہوا تھا جس کا میں مطلب شدید تنقید ہی لوں گا۔ بعد ازاں عائشہ جلال نے بھی اپنی کتاب میں اس واقعے کا ذکر کیا۔ اس واقعے کے چند دن بعد گورنر جنرل غلام محمد نے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو اکثریت کی حمائت کے باوجود وزارت عظمیٰ سے نکال دیا۔ دوستو۔ یہ محض ایک واقعہ نہیں، یہ تاریخ ہے یعنی یہ ہمارا ماضی بھی ہے اور ہمارا حال بھی ہے۔ میں نے یہ قصہ محض آپ کے حافظے کو جھنجھوڑنے کے لئے لکھا ہے ورنہ اس طرح کے بہت سے واقعات میرے ذہن میں محفوظ ہیں۔ حال سے گزرتے ہوئے جب ماضی میرے ذہن پر دستک دیتا ہے تو میری حالت کچھ یوں ہوتی ہے۔
دل ہی ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں
اب آپ پوچھیں گے میں نے آپ کو تاریخ کی سیر کیوں کروائی؟ دراصل جب میں آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز پڑھ رہا تھا اور اس میں سنجیدہ نتائج اور دھمکیوں کی بازگشت سن رہا تھا تو مجھے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کی اپنے ماتحت کمانڈر انچیف کے ہاتھوں ”درگت“ بہت یاد آئی۔ گزشتہ دنوں صدر صاحب بیمار ہو کر دبئی گئے تو آرمی چیف کی وزیراعظم سے ملاقات کے دوران صدر صاحب کا فون آ گیا۔ ازراہ مروت وزیراعظم نے فون آرمی چیف کو دے دیا کہ وہ ان کی بیمار پرسی کر لیں۔ آرمی چیف نے انگریزی میں دو تین فقروں کے ذریعے صدر صاحب کی خریت دریافت کی۔ وزیراعظم صاحب نے خوش ہو کر خبر جاری کر دی جس کی فوراً آئی ایس پی آر نے وضاحت جاری کی کہ بات مگر ایک منٹ ہوئی، اس سے زیادہ نہیں۔ اس طرح مروت کا بھانڈا پھوڑ دیا گیا۔ وزیراعظم صاحب نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں جرنیلوں کے درمیان کھڑے چائے پی رہے تھے تو وہ مجھے حالات کا قیدی لگے۔ انہوں نے ایک سابق جرنیل سیکرٹری دفاع کو نکالا اور اپنی قوت کا اظہار کیا تو مجھے میاں نواز شریف یاد آئے۔ پرسوں وزیراعظم صاحب فرما رہے تھے کہ میں پہلی دفعہ اقتدار میں نہیں آیا، میں وفاقی وزیر اور سپیکر رہا ہوں، میرے والد اور دادا بھی اقتدار کا حصہ رہے اور میرے پردادا بھی مغلیہ خاندان کے درباری تھے تو مجھے بار بار وہ مصرعہ یاد آ رہا تھا
اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی
گزشتہ چند روز کے دوران وزیراعظم صاحب نے کئی بار یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ طاقت اور اقتدار کی کنجی ان کے پاس ہے۔ انہوں نے ریاست کے اندر ریاست کی بات کی اور پھر آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے سپریم کورٹ میں جوابات کو خلاف قانون قرار دیا تو میرا جی چاہا کہ میں وزیراعظم صاحب سے کہوں حضور! آپ پنڈت جواہر لال نہرو کی کرسی پر متمکن نہیں بلکہ آپ خواجہ ناظم الدین کی کرسی پر براجمان ہیں۔ حضور! تاریخ پڑھیئے۔ پاکستان جمہوری ملک نہیں بلکہ ملٹری اسٹیٹ ہے۔ حضور ذرا تحمل، اپنی حیثیت مت بھولئے…! کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے۔ 
 

No comments:

Post a Comment