Sunday 20 May 2012

تاریخی جھروکے April 11, 2012


خیال آیا کہ سیاست کے بخیے ادھیڑنے اور سیاستدانوں کو تختہ مشق بنانے کی بجائے ایسا کالم لکھا جائے جس سے قارئین کی معلومات میں اضافہ ہو یا کم از کم ان کی تاریخی یادیں تازہ ہوں۔ آج کل ہمارے کچھ دانشور ہندو مصنفین کی پراپیگنڈہ کتابیں پڑھ کر لوگوں کو تاریخ کے نام پر گمراہ کر رہے ہیں حالانکہ تاریخ کو پڑھنے اور سمجھنے کے لئے ایک عمر درکار ہوتی ہے۔ ان لوگوں کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ گوشہ تنہائی میں بیٹھ کر تحقیقی کتابیں پڑھیں، ہر قسم کے شواہد اور دستاویزات کا بغور مطالعہ کریں اور پھر واقعات کے پس پردہ محرکات کو سمجھنے کی کوشش کریں کیونکہ انہیں باقی بہت سے کاموں کے علاوہ دانشوری کی دکان بھی سجانا ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ تاریخ کو بھی اخبار کی مانند پڑھتے اور سنسنی خیز بیانات دے کر کنفیوژن فروخت کرتے رہتے ہیں۔ ٹیلیویژن پروگرام کے سامنے بیچارے کالم کی حیثیت سورج کو چراغ دکھانے والی بات ہے تاہم اپنی اپنی استعداد کے مطابق جو کچھ ہو سکے وہ کر دینا چاہئے۔
بات ذرا دور نکل گئی۔ ہوا یوں کہ کل مجھے بلوچستان سے جماعت اسلامی کے دو بزرگ راہنما ملنے تشریف لائے، میرا گھر تو درویش کا ڈیرہ ہے ہر کسی کے لئے دروازے کھلے رہتے ہیں چنانچہ ہر قسم کے لوگ تشریف لاتے ہیں اور اپنے اپنے تجربات اور مطالعہ کی گٹھڑیاں کھول کر بیٹھ جاتے ہیں۔ میں ان سے سیکھتا ہوں اور اگر ضرورت پڑے تو اپنا نقطہ نظر بھی بیان کر دیتا ہوں۔ سیاسی جماعتوں کے علاوہ اساتذہ، طلبہ اور قوم کا درد رکھنے والے حضرات وقت اور فاصلے کی قربانی دے کر تشریف لاتے ہیں تو میری حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور میرا کمرہ ان کی محبت کی خوشبو سے معطر ہو جاتا ہے۔ کوئٹہ سے یہ حضرات مجھے پہلی بار ملنے آئے تھے۔ باتوں باتوں میں میں نے ان سے پوچھا کہ جماعت اسلامی کا قیام کس سال عمل میں آیا تھا۔ فوراً جواب ملا کہ 1941ء میں۔ میں نے چھیڑنے کے لئے پوچھا کہ بھلا جماعت کا سیکرٹری جنرل کون تھا؟ امیر کا اس لئے نہ پوچھا کہ امیر اور جماعت اسلامی کا نام لازم و ملزوم ہیں اور ہر شخص امیر جماعت اسلامی کا نام جانتا ہے وہ سوچ میں پڑ گئے، یہ ایک معمول کی بات تھی کیونکہ عام طور پر سپہ سالار اور پارٹیوں کے بڑے لیڈر اتنی بڑی شخصیات ہوتی ہیں کہ ان کے نائبین چراغ تلے اندھیرے میں گم ہو جاتے ہیں۔ میں نے ان سے یہ سوال اس لئے پوچھا تھا کہ پچھلے دنوں دستاویزات اور کتابوں میں جھانکتے ہوئے ایک دلچسپ واقع میری نظر سے گزرا جس کی کئی جہتیں ہیں اور جو اکثر قارئین کی معلومات میں اضافے کا باعث ہوگا۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ جماعت اسلامی کے 1941ء میں قیام کے کچھ عرصے بعد جماعت کے سیکرٹری جنرل جناب قمر الدین خان کو دہلی بھجوایا گیا جہاں جماعت کی درخواست پر ہندوستان کی ممتاز شخصیت راجہ محمود آباد نے ان کی قائداعظم محمد علی جناح سے ملاقات کا اہتمام کیا تھا۔ یہ ملاقات قائداعظم کی رہائش گاہ پر ہوئی اور کوئی پینتالیس(45)منٹ جاری رہی۔ اس ملاقات میں قمر الدین خان نے جماعت اسلامی کے منشور، سرگرمیوں اور پروگرام پر روشنی ڈالی اور قائداعظم سے کہا کہ وہ اسلامی ریاست کے قیام کا وعدہ کریں۔ قائداعظم نے مختصر مگر واضح جواب دیا اور کہا کہ آپ کے اور مسلم لیگ کے پروگرام میں کوئی تفاوت اور تضاد نہیں لیکن حالات جس قدر تیزی سے بدل رہے ہیں اور سیاست میں جس رفتار سے پیش رفت ہورہی ہے ہم صرف اسلامی ریاست کی نوعیت پر اٹک کر رہ نہیں سکتے۔ ان کے الفاظ تھے ”میں مسلمانوں کے لئے علیحدہ وطن کے لئے جدوجہد کرتا رہوں گا اور آپ بھی اس سلسلے میں اپنی کوششیں جاری رکھیں یہ ضروری نہیں کہ ہمارے پلیٹ فارم ایک ہی ہوں“ پھر قائداعظم نے رک کر کہا”میں مسجد کے لئے زمین چاہتا ہوں، جب ہمیں اس مقصد کے لئے زمین مل جائے اور تو ہم مل کر فیصلہ کرسکتے ہیں کہ مسجد کیسے تعمیر کرنی ہے“۔ قمر الدین خان قائداعظم کی بات سن کر اور خاص طور پر مسجد کے استعارے سے بہت خوش ہوئے۔ قائداعظم نے انہیں انتباہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک آزاد مسلمان ریاست کا قیام ہماری اولین ترجیح اور مقصد ہے جہاں تک روحانی پاکیزگی اور بالیدگی کا تعلق ہے وہ بعد کی بات ہے“۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کے قمر الدین خان نے روحانی پاکیزگی پر زور دیا تھا جبکہ قائداعظم کا خیال تھا کہ یہ معاملات بعد کی بات ہے پہلے ملک تو حاصل کرلیں۔ حالات قومی اتحاد اور مسلمانوں کے ایک پلیٹ فارم پر اجتماع کا تقاضا کرتے تھے اور قائداعظم کو احساس تھا کہ اگر اس وقت نازک مذہبی مسائل چھیڑ دیئے گئے تو مختلف مذہبی فرقے آپس میں جھگڑنا شروع کر دیں گے اور مسلمانوں کی قوت کمزور ہو جائے گی۔ یہ تھا وہ ذہنی پس منظرجس میں قائداعظم نے قیام پاکستان کے فوراً بعد عالم اسلام کے نامور مفکر اور ممتاز مصنف علامہ محمد اسد کو پاکستانی شہریت عطا کی، انہیں پاکستانی پاسپورٹ دیا اور ان سے ایک ایسا محکمہ قائم کرنے کی درخواست کی جو آئین پاکستان، قوانین اور نصاب تعلیم کو اسلامی اصولوں کے سانچے میں ڈھالے۔ یوں :
Department of Islamic Reconstruction
قائم کیا گیا جس کے پہلے سربراہ علامہ محمد اسد مقرر ہوئے۔ 18اکتوبر 1948ء کو علامہ محمد اسد نے ریڈیو پاکستان سے ایک نشری تقریر میں کہا کہ اس ادارے کے قیام کا مقصد پاکستان کے آئین اور قوانین کو اسلامی اصوبوں کے مطابق مرتب کرنا ہے جس کیلئے یہ ملک تخلیق کیا گیا تھا ۔ انگریزی کتاب ”روڈ ٹو مکہ“کے مصنف علامہ محمد اسد پوری دنیائے اسلام میں جانے پہچانے جاتے تھے اور علم و فضل کی صف میں اہم مقام رکھتے تھے۔ برادر عزیز اوریا مقبول جان اس موضوع پر خوب روشنی ڈال چکے ہیں اور مبارکباد کے مستحق ہیں۔ بدقسمتی سے قائداعظم کے انتقال کے بعد علامہ محمد اسد کی راہ میں اس طرح کی رکاوٹیں کھڑی کی گئیں کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے۔ اسی پس منظر میں جماعت اسلامی نے قیام پاکستان کے بعد اپنے پروگرام کا آغاز کیا اور مولانا مودودی کو ریڈیو پاکستان سے درس و تدریس کی اجازت دی گئی لیکن قائداعظم کے انتقال کے بعد جماعت اسلامی بھی زیر عتاب آگئی۔ میرے مطالعے کے مطابق جماعت اسلامی تقسیم ہند اور قیام پاکستان کی مخالف نہیں تھی البتہ مسلم لیگ کی قیادت پر تنقیدکرتی تھی کیونکہ جماعت اسلامی کو اندیشہ تھا کہ مسلم لیگ کی مغرب زدہ قیادت پاکستان میں اسلامی نظام نافذ نہیں کرسکے گی۔ جماعت اسلامی کی مسلم لیگی لیڈروں پر تنقید اور ان کی زندگیوں پر اعتراض سے یہ تاثر ابھرا کہ جماعت قیام پاکستان کے خلاف ہے۔ میرے مشاہدے کے مطابق ایوبی مارشل لاء نے اپنے سیاسی مقاصد کے لئے گیارہ برس تک جماعت اسلامی پر پاکستان کی مخالفت کے کوڑے کچھ اس طرح برسائے کہ یہ لیبل جماعت پر چپک کر رہ گیا اور جماعت کی وضاحتیں صدا بصحرا بن کر رہ گئیں۔(جو حضرات محترم قمر الدین خان اور قائداعظم کی ملاقات بارے پڑھنا چاہیں وہ شریف الدین پیرزادہ کی انگریزی کتاب ”ارتقائے پاکستان“ کا مطالعہ کریں)۔
مسجد کے ذکر سے مجھے ایک تاریخی واقعہ یاد آگیا جو برمحل ہوگا۔ بہت سے حضرات سمجھتے ہیں کہ مولانا ابوالکلام آزاد کی مانند جمعیت علمائے ہند کے تمام اکابرین نے پاکستان کے وجود کو دل سے تسلیم نہیں کیا تھا۔میرے نزدیک یہ تاثر صحیح نہیں ہے۔ یہ واقعہ اس تاثر کی نفی کرتا ہے اور اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تقسیم ہند کے بعد جمعیت علماء ہند کے ایک گروہ نے پاکستان کی حقیقت کو دل سے تسلیم کرلیا تھا۔ شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی۔ واقعات و کرامات مرتب مولانا سید رشید الدین حمیدی، مراد آباد (ہندوستان) نامی کتاب کے صفحہ نمبر 136پر یہ واقعہ درج ہے جسے آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں ”پاکستان بن جانے کے بعد ایک صاحب نے مجلس میں (حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی) سے یہ سوال کیا کہ ”پاکستان کے لئے اب آپ کا کیا خیال ہے“؟ تو حسب معمول سنجیدگی اور بشاشت کے ساتھ فرمایا کہ ”مسجد جب تک نہ بنے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن جب بن گئی تو وہ مسجد ہے“۔ 


No comments:

Post a Comment