Sunday 20 May 2012

وفا؟ March 18, 2012


پنجابی کی ایک عام سی کہاوت ہے کہ جا پتر چڑھ جا سولی رام بھلی کرے گا ۔یہ کہاوت عام طور پر اس وقت استعمال ہوتی ہے جب کسی شخص کو اپنے مفاد کے لئے قربان کرنا مقصود ہو۔اسے پیار سے کہا جاتا ہے کہ جا بیٹے چڑھ جا سولی رام بہتر کرے گا ۔ وفا کے اپنے اپنے پیمانے ہوتے ہیں کوئی کسی دوست یا باس یا حکمران سے وفا کرتے ہوئے یا اسکی خوشنودی کے لئے سزا برداشت کر لیتا ہے، کوئی محبوبہ کا رشتہ نہ ملنے پر وفا کے تقاضوں کو نبھانے کے لئے خودکشی کر لیتا ہے، کوئی چوروں لٹیروں کے ہاتھوں بیوی بچوں کو بچاتے بچاتے گولی کھا کر دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے، کوئی انعام واکرام کے لالچ میں میر جعفر اور صادق کی مانند اپنے سیاسی آقا سے بے وفائی کرکے غیر ملکی آقا سے وفا کرتا اور انعامات پاتا ہے ۔ یہ وفا دراصل لالچ اور اپنی ہوس سے ہوتی ہے، کوئی ملک و قوم یا دین سے وفا کے اعلیٰ تقاضے پورے کرتے ہوئے شہید ہو جاتا ہے اور شہادت کے اعلیٰ مرتبے پر ہمیشہ کے لئے متمکن ہو جاتا ہے، کوئی اپنے رب اور خالق سے وفا کے نشے میں ہر دم اللہ ھو کرتے کرتے جان مالک حقیقی کے سپرد کر دیتا ہے۔ گویا وفا کے اپنے اپنے پیمانے ہیں، اپنا اپنا تصور اور اپنا اپنا معیار ہے ۔ ایک وفا کتے کی ہے جو روکھی سوکھی کھا کر اپنے مالک کے در پر بیٹھا رہتا ہے اسے نہ سردی لگتی ہے نہ گرمی، وہ مالک کو دیکھ کر خوش ہوتا اور اسکے قدموں میں لوٹنے لگتا ہے اور کوئی اس کے مالک کو نقصان پہنچانا چاہے تو اس پر بھونکنا اور اسے کاٹنا شروع کر دیتا ہے ۔ مختصر یہ کہ وفا کی بہت سی قسمیں ہیں اور بہت سے درجے ہیں کوئی وفا کے اعلیٰ ترین درجے نشان حیدر کا مستحق ٹھہرتا ہے تو کوئی لعن طعن اور نفرت کی علامت بن کر تاریخ میں جگہ پاتا ہے ۔ اسی طرح کسی کی وفا ملک و قوم کو اپنے خون کے حصار میں لیکر دشمن کی پامالی سے محفوظ کر دیتی ہے ۔ ہمارے سارے نشان حیدر اور بہت سے شہداء کا تعلق اس قسم سے ہے۔ کسی کی اپنے نفس اور ہوس سے وفا ملک و قوم سے دغا کر جاتی ہے اور اسے دغا باز، نمک حرام اور قابل نفرت بنا کر عبرت کا نشان بنا دیتی ہے ۔بڑی مسلمان ریاست اودھ کے والی واجد علی شاہ سے ان کے برادر نسبتی میر علی تقی نے بے وفائی کی اور انگریزوں سے دولت اور وعدے لیکر یعنی اپنی ہوس سے وفا کرتے ہوئے واجد علی شاہ سے کاغذات پر دستخط کروا کر اودھ کی ریاست انگریزوں کے سپرد کر دی ۔ انگریزوں کے ہندوستان پر قبضے اور غلبے میں تین میروں نے اہم کردار سرانجام دیا اور ہندوستان کا مقدر بدل کر رکھ دیا ۔ میر جعفر، میر صادق اور میر علی تقی ، پہلے دو میروں پر تو علامہ اقبال نے بھی دکھ کا اظہار کیا ہے ۔ میں کہہ رہا تھا کہ یہ بھی وفا کی ایک قسم ہے، گھٹیا ترین اور نہایت نفرت انگیزقسم کہ انسان اپنے نفس، اپنی ہوس سے وفا کرتے ہوئے قومی مفاد سے بے وفائی کر جاتا ہے ۔ اگر آپ ان بے وفاؤں کی وفاداری کا مطالعہ کریں تو جواز ان کے پاس بھی تھا کیونکہ جواز تو ہر شے کا ڈھونڈھا جا سکتا ہے۔ عقل عیار ہے سو بھیس بدل لیتی ہے۔ آخر قاتل، چور اور مجرم کا وکیل بھی تو سب کچھ جاننے کے باوجود اس کے حق میں دلائل دیتا اور اپنے دلائل کی برقی روشنی سے ججوں کی آنکھیں چندھیاتا ہے ۔ اس دنیا میں انسان آزاد ہے، حساب تو اگلے جہان دینا ہے اس لئے اکثر لوگوں کو حساب دینے تک احساس نہیں ہوتا۔ وہ فقط اسی دنیا کو سب کچھ سمجھتے اور اسی دنیا کا مال و اسباب سمیٹتے رخصت ہو جاتے ہیں ۔ چند ہفتے قبل میں نے اخبارات میں ایک خوفناک خبر پڑھی جس نے کئی روز تک مجھ پر نیند حرام کر دی ۔ خبر چاہے کتنی ہی دل شکن اور جگر کا خون کرنے والی ہو اس میں کہیں نہ کہیں سبق آموز پہلو چھپا ہوتا ہے ۔ خبر یہ تھی کہ کراچی میں ایک انسان نما حیوان یعنی ایک مجرم پکڑا گیا جو قبرستانوں میں قبریں کھودتا اور رات کی تاریکی میں مردو ں کی بے حرمتی کرتا تھا ۔ اسے میں انسان نما حیوان اس لئے کہہ رہا ہوں کہ وہ دیکھنے میں تو انسان تھا لیکن دراصل حیوانوں کے درجے سے بھی نیچے گرا ہوا تھا ۔ اخباری رپورٹر نے اس سے حوالات میں انٹرویو کیا جہاں اپنے کرتوتوں کے راز بیان کرتے ہوئے وہ موت کا متمنی تھا ۔ اس شخص نے انکشاف کیا کہ وہ اکثر قبروں کو کھود کر مردوں کی بے حرمتی کرتا رہا ۔ ایک رات اس نے حسب معمول قبر کھودی، میت باہر نکالی تو اس نے دیکھا کہ میت کے دل سے روشنی کی تیز شعاعیں نکل رہی ہیں ۔ اس روشنی نے اسے نہایت خوفزدہ کیا، چنانچہ وہ جلدی جلدی میت کو قبر میں ڈال کر خوف کی حالت میں بھاگ گیا ،گھر آکر غسل کیا اور نماز پڑھ کر اللہ سے معافی مانگی اور گناہ سے توبہ کی ۔ کچھ عرصہ یہ توبہ قائم رہی پھر شیطان غالب آ گیا اور اس نے دوبارہ وہی دھندا شروع کر دیا ۔ اس بار وہ پکڑا گیا اور قانون کے شکنجے میں پھنس گیا ۔ فرق ملاحظہ فرمائیے توبہ کا اور سچی توبہ کا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ توبہ قبول کرتا ہے اگر وہ سچی اور خلوص نیت سے ہو، محض وقتی خوف کی پیداوار نہ ہو ۔ فرق ملاحظہ فرمائیے کہ اس مجرم کے اعتراف کے مطابق اس نے کئی درجن قبروں کی بے حرمتی کی لیکن ایک قبر کے مکین کے دل کی روشنی نے اسے حددرجہ خوفزدہ کر دیا اور اسے توبہ پر مجبور کر دیا لیکن پھر شیطان یا ہوس نفس اس توبہ پر غالب آ گئی اور اسے دھکیل کر کوئے ملامت میں لے گئی ۔ موت کا متمنی مجرم حوالات میں یہ اعتراف یا انکشاف کر رہا تھا کہ ایک میت …جسے سپرد خاک کئے نہ جانے کتنا عرصہ گزر چکا تھا ۔ ان معنوں میں اب بھی زندہ تھی کہ اس کے قلب سے نور کی تیز روشنی انسانی جلد (SKIN) کو عبور کرکے فضا میں پھیل رہی تھی اور اس روشنی میں اتنا رعب اور وقار تھا جو دیکھنے والے کو ہیبت زدہ اور خوفزدہ کر دیتا تھا ۔ ذرا سوچئے کون سی روشنی لوڈشیڈنگ سے بے نیاز ہے، کونسی روشنی جسمانی جلد کو چھلنی کرکے قلب سے نکلتی اور آنکھوں کو چندھیا دیتی ہے ۔ ظاہر ہے یہ وہ روشنی ہے جو کسی کسی کو نصیب ہوتی ہے اور یہ وہ روشنی ہے جو نہ میت کو خراب ہونے دیتی ہے اور نہ ہی بظاہر تنگ و تاریک قبر کو اندھیری کوٹھڑی میں تبدیل ہونے دیتی ہے بلکہ قبر میں حدنظر تک اجالا کرتی اور قبر کو حد نظر تک وسیع و عریض کردیتی ہے۔ انسان کب مرتا ہے؟ جب اس کا قلب دھڑکنا چھوڑ دے کیونکہ قلب کو انسانی جسم میں مرکز کی حیثیت حاصل ہے اورجب مرکز مردہ ہو جائے تو جسم بھی مردہ ہو جاتا ہے۔ قلب کب مردہ ہوتا ہے جب قلب سے روح پرواز کرجائے کیونکہ جسم مرجاتا ہے لیکن روح نہیں مرتی، روح امرالٰہی ہے اس لئے اسے ابدیت حاصل ہے۔ اب مجھے بتایئے کہ جس دل سے جسمانی موت کے بعد روشنی کاسیلاب امڈ رہا ہو اورقبر میں عرصہ تک پڑے رہنے کے باوجود امڈ رہا ہو کیا وہ دل مردہ ہوسکتا ہے؟ مردہ شے تو مٹی میں مل کر مردہ ہوجاتی ہے جبکہ روشنی تو اعلیٰ ترین زندگی کی اعلیٰ ترین نشانی اور معتبر ترین ثبوت ہے۔ توگویا وہ قلوب جو موت کے بعد روشنی کے گھر بن جاتے ہیں وہ مردہ نہیں ہوتے بلکہ زندہ ہوتے ہیں، صرف ہمیں نظر نہیں آتے کیونکہ منوں مٹی تلے دبے ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ موت کے بعد کون سے دل زندہ رہتے اورروشنی کے مسکن بلکہ بجلی گھر بنتے ہیں؟ جواب سادہ ہے وہ دل جواپنے مالک ِ حقیقی یا اپنے رب سے وفا کرتے ہیں، زندگی کے دوران اس سے غافل نہیں ہوتے، ہر لمحہ ذکر الٰہی سے دل کو منور رکھتے اور باطن کو روشن رکھتے ہیں، اپنے رب سے ڈرتے اور اس کا شکر ادا کرتے رہتے ہیں۔ قلبی روشنی ذکر الٰہی کا انعام ہوتا ہے۔ یہی وفا کی اعلیٰ ترین قسم ہے۔ ہمارا رب قادر و عادل ہے۔ وہ ہر شے پر قدرت رکھتا اور بہترین عدل کرتا ہے تو پھریہ کیسے ممکن ہے کہ آپ اس کا ذکرکریں اور وہ آپ کی ”محنت“ کا اجر نہ دے۔ اس کے اجر اور انعامات کی کوئی حد نہیں، قبر میں قلبی روشنی تو چھوٹا سا انعام ہے۔ بڑ ے انعامات کا آپ تصور ہی نہیں کرسکتے۔ اسی لئے تو میں عرض کرتا ہوں کہاانسان موت کے ساتھ مر جاتا ہے لیکن اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی محبت میں غرق ہونے والے نہیں مرتے، بلکہ ہماری نگاہوں سے روپوش ہوتے ہیں، پردہ کرلیتے ہیں کہ یہ امر الٰہی ہے۔ حضرت سلطان باہو انہی کے بارے میں کہتے ہیں کہ ”قبر جنہاں دی جیوے ھو“ کیا نفس اور ہوس کے مارے لوگ روحانی معرکوں کو سمجھ سکتے ہیں؟ نہیں ہرگز نہیں۔ اگر وہ سمجھ سکیں تو پھر نفس اور ہوس کو چھوڑ کر اپنے رب کے نہ ہو کر رہ جائیں؟ لیکن یہ توفیق ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتی۔ 

No comments:

Post a Comment