Saturday 19 May 2012

خوف سے شاباش تک. December 03, 2011


کل شام پی پی پی کے لڑاکے بریگیڈ کی ڈاکٹر بابر اعوان کی سربراہی میں غصیلی اور انتقامی پریس کانفرنس کے فوراً بعد اسلام آباد اور لاہور میں لینڈ فون 45منٹوں کے لئے خراب ہو گئے تو اس وقفے نے کئی انجانی افواہوں کو ہوا دی۔ موبائل فون نہ ہوتے تو لوگ سچ مچ سمجھتے کہ سیاسی نظام پٹڑی سے اتر گیا ہے اور ایک بار پھر ہم اندھیروں کے مسافر بن گئے ہیں ۔ سچ یہ ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے لوگوں کی ذہنی کیفیت کچھ اسی طرح کی ہے جس میں میمو گیٹ اسکینڈل نے مزید خوف کا اضافہ کر دیا ہے ۔ میاں نواز شریف کا عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا جائز تھا کیونکہ رول تو اس میمو کی تہہ تک پہنچنا قومی مفاد کا اولین تقاضا ہے دوم حکومتی رویے کو سامنے رکھیں تو نہ حکومتی انکوائری پر اعتبار کیا جا سکتا ہے نہ اس حساس نوعیت کے معاملے کو کمیٹیوں کے سپرد کرکے لٹکانے کی منطق سمجھ میں آتی ہے سوائے اس کے حکومت ”مٹی پاؤ “ کی حکمت عملی پر عمل کرنا چاہتی ہے بالکل اسی طرح جس طرح گزشتہ تین برسوں سے سوئٹزر لینڈ اسکینڈل پر مٹی ڈالنے کی کوشش جاری ہے ۔ سپریم کورٹ نے بھی قانونی اختیار کے مطابق کمیشن مقرر کیا لیکن اس پر واویلا نہ صرف خوف کا اظہار تھا بلکہ توہین عدالت کے زمرے میں بھی آتا تھا ۔ ہماری یہ عدالت توہین کے ضمن میں ماشااللہ خاصی ٹھنڈی واقع ہوئی ہے ورنہ گزشتہ دو سال سے حکومت نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ کل سے مجھے جتنے فون آئے ان سے اندازہ ہوا کہ قوم ایک خوف میں مبتلا ہے ، ہر طبقے کے اپنے اپنے خوف اور اندیشے ہیں سازش تھیوری والے حضرات کا خیال ہے کہ میاں صاحب کسی خفیہ اشارے پر سپریم کورٹ میں گئے کیونکہ خفیہ والوں کو اندازہ ہو گیا تھا کہ حکومت اس حساس معاملے کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے ۔یہ بات ذہن میں رہے کہ آئی ایس آئی مکمل انکوائری کر چکی ہے۔ حسین حقانی اور منصور اعجاز کے پیغامات کے ڈانڈے ایوان صدر تک جاتے ہیں۔ اگر حکومت کا دامن صاف ہے تو انہیں سپریم کورٹ کے کمیشن کو ویلکم کرنا چاہئے تھا لیکن پی پی پی مرنے مارنے پر تل گئی ہے ۔ ڈاکٹر بابر اعوان کا یہ کہنا کہ بدقسمتی سے میرے علاقے سے تین وزراء اعظم کی لاشیں سندھ جا چکی ہیں اب چوتھے کے تابوت میں کیل ٹھونکے جا رہے ہیں اور یہ کہ پی پی پی کو کبھی عدالتوں سے انصاف نہیں ملا اور ہم آئین کے سیکشن چھ سے ڈرنے والے نہیں وغیرہ وغیرہ کا مقصد نہ صرف سندھ کارڈ کو استعمال کرنا تھا بلکہ پی پی پی کے جیالوں کو گرمانا بھڑکانا بھی تھا گویا حکومت کا بستر لپیٹنے کا فیصلہ ہو چکا ہے اور ایک بار پھر پی پی پی کی قیادت کو قیدو بند کا خطرہ ہے ۔ڈاکٹر اعوان کا یہ کہنا کہ یہاں بنگلہ دیش ماڈل نہیں چلے گا کا صاف مطلب عدلیہ اور فوج کا گٹھ جوڑ تھا کیونکہ بنگلہ دیش میں فوج اور عدلیہ نے مل کر غیر سیاسی حکومت تشکیل دی تھی چنانچہ ہر طرف ایک انجانے خوف کا عالم طاری تھا اور سازشوں کی بدبو فضا میں پھیل رہی تھی ۔ عام شہریوں کو خوف سسٹم کے ڈی ریل ہونے کا تھا جبکہ پی پی پی کڑے وقت کے انجانے خوف میں مبتلا تھی ۔ صدر صاحب اپنے سیاسی حلیفوں سے رابطے مضبوط کر رہے تھے حالانکہ ان کے حلیفوں میں سے اکثر ہمیشہ فوج کی بی ٹیم رہے ہیں کچھ دانشوروں کا کہنا تھا کہ حسین حقانی وعدہ معاف گواہ بن سکتے ہیں کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کل کی پیش رفت نے بے پناہ اندیشوں کو ہوا دی ہے اور سارے سیاسی نظام کو اس قدر کمزور کر دیا ہے کہ کچھ بھی کہنا مشکل ہے۔
ایک طرف پی پی پی اور اس کے حلیف یا حکومتی پارٹنرز اپنے خوف اور اندیشوں کے اسیر بن چکے تھے تو دوسری طرف مسلم لیگ (ن) اپنے خوف پر حملے کرنے میں مصروف تھی ۔ مسلم لیگ (ن)کا فی الحال ایک ہی خوف ہے اور وہ ہے عمران خان ، ظاہر ہے کہ مسلم لیگ (ن)کی مضبوط اور تجربہ کار میڈیا ٹیم کا مقابلہ تحریک انصاف کی غیر تجربہ کار نو آموز ٹیم نہیں کر سکتی ۔ میں ٹی وی پر جناب حنیف عباسی ایم این اے کے عمران خان پر الزامات کی بوچھاڑ سن کر مخمصے میں مبتلا ہو گیا کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ شوکت خانم ہسپتال کی انتظامیہ میں رشتے داروں کو رکھا گیا ہے جنہیں لاکھوں میں تنخواہیں اور اعزازیے دیئے جاتے ہیں ۔ میں اور میرا خاندان شوکت خانم کے ہمدردوں میں سے ہیں اس لئے میرا پریشان ہونا قدرتی بات تھی ۔
معمولی سی تحقیق کی تو راز کھلا کہ ہسپتال کا بورڈ آف گورنر 21 افراد پر مشتمل ہے جن میں فقط 3 اراکین عمران کے رشتے دار ہیں ۔ بورڈ ممبران تنخواہ اور اعزازیہ کہاں سفر الاؤنس کے بھی مستحق نہیں ۔ چنانچہ وہ صرف اور صرف خدمت کے جذبے سے کام کرتے ہیں اور اجر کی توقع اللہ تعالیٰ سے رکھتے ہیں ۔دوسرا الزام تھا کہ عمران خان نے میاں نواز شریف سے 1987ء میں پلاٹ لیا اور درخواست میں لکھا کہ اس کے پاس اپنا گھر نہیں ہے ۔ میں یہ الزام سنتے ہوئے محسوس کر رہا تھا کہ ماشااللہ مسلم لیگ (ن)کے پاس ریسرچ سکالرز کی کمی نہیں جو چوبیس سالہ پرانا ریکارڈ نکال لائے ہیں ۔ اپنی تشویش کی تسکین کے لئے تحقیق کی تو پتہ چلا کہ ہاں میاں نواز شریف نے ہندوستان سے جیتنے و الی کرکٹ ٹیم کو پلاٹ دیئے تھے اور کپتان عمران کو بھی پلاٹ دیا تھا اس کا بیان سچ تھا کیونکہ زمان پارک والا گھر ان کے والد صاحب کی ملکیت تھا جو اس وقت بقید حیات تھے ۔ بلکہ جب عمران کی سربراہی میں کرکٹ ٹیم نے ورلڈ کپ جیتا تو ایک بار پھر ساری ٹیم کو شاباش کے طور پر پلاٹ الاٹ کئے گئے تھے ۔ شاباش ہے عمران خان کو جس نے دونوں پلاٹ اور ورلڈ کپ جیتنے پر ملنے والے تحائف سونے کا تاج، قیمتی گھڑیاں، ہیروں والی انگوٹھیاں سب کچھ فروخت کرکے شوکت خانم ہسپتال کو دے دیئے ۔ اس وقت ان کی مالیت ایک کروڑ تیس لاکھ روپے تھی جو آج کے پانچ چھ کروڑ بنتے ہیں ۔ اب آپ ہی بتائیے میں عمران کو شاباش کیوں نہ دوں ہم سا ہو تو سامنے آئے، دراصل میری پیاری مسلم لیگ ایک بال سے دو کھلاڑیوں کو آؤٹ کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ میمو گیٹ کے بال سے پی پی پی کو اور الزامات کی بال سے عمران خان کو ، دیکھئے وہ اپنے ارادوں میں کہاں تک کامیاب ہوتی ہے کیونکہ کبھی کبھی دوسروں کو آؤٹ کرنے والے خود ہی آؤٹ ہو جاتے ہیں ۔ رہے نام اللہ کا۔
 

No comments:

Post a Comment