Monday 4 June 2012

بجٹ کا دنگل۔ Sunday, June 03, 2012

آپ کو بجٹ کا انتظار تھا آپ کا خیال تھا کہ یہ انتخابی سال ہے اس لئے حکومت عوام کو کئی ”لولی پاپ“ دے گی۔ مجھے بجٹ کا انتظار نہیں تھا کیونکہ مجھے اندازہ تھا کہ ہمارا خزانہ خالی ہو چکا ہے، لوٹ مار سے کچھ نہیں بچا، قومی ادارے بشمول ریلوے، اسٹیل ملز، پی آئی اے بجلی گھر وغیرہ سب کچھ بکھر چکا ہے اور ان کے ساتھ ہی قوم کے خواب بھی بکھر چکے ہیں ۔ قوم کے خواب کیا تھے ؟ 1971ء سے پہلے یہ قوم دلّی کے لال قلعے پر جھنڈا لہرانا چاہتی تھی ۔ بات غلط بھی تھی اور غیر حقیقی بھی لیکن قوم کے ارادے بلند، مورال بلند اور خواب حسین تھے ۔ 1971ء نے وہ خواب چکنا چور کر دیا۔ اب قوم کا خواب جمہوریت، انصاف، قانون کی حکمرانی، امن، غربت و بیروزگاری میں کمی، خوشحالی معاشرتی برابری وغیرہ تھیں جنہیں گزشتہ چند برسوں میں یوں بکھیر دیا گیا جیسے کسی عمارت کو ایک ایک اینٹ اکھاڑ کر بکھیرا جاتا ہے۔ گزشتہ سال سے عوام اور قوم فقط جینے کا حق مانگتے تھے اور یہی توقع انہیں اس بجٹ سے تھی اسی خواب کو آنکھوں میں سجائے وہ بجٹ کے منتظر تھے ۔ کیا آپ کا وہ خواب پورا ہوا؟ حکومت نے عوام کو کوئی ریلیف دیا؟ میں ماہر معاشیات نہیں، میں فقط تاریخ و سیاست کا طالب علم ہوں اس لئے میری رائے سطحی ہے کہ حکومت نے لوگوں کو سانس لینے کے لئے آکسیجن مہیا نہیں کی۔ چنانچہ مہنگائی، غربت، بیروزگاری کا گھوڑا سرپٹ دوڑتا رہے گا، لوگ زندگی کی سانس گھٹنے کے سبب خودکشیاں کرتے رہیں گے، حکمران اپنے ملکی و غیر ملکی دوروں پر کروڑوں خرچ کرتے رہیں گے۔ جناب آصف زرداری ہمارے ملک کے رئیس ترین شہری ہیں اگرچہ دنیاوی معیار اور پیمانے کے مطابق میاں منشاء پاکستان کا امیر ترین شخص ہے ۔ میں دنیاوی پیمانوں کو اس لئے اہم نہیں سمجھتا کہ وہ ظاہری اثاثوں کی بنا پر دولت کا اندازہ لگاتے ہیں جبکہ ماشا اللہ صدر صاحب کے خفیہ اثاثے بھی بہت ہیں ۔ امیر ترین شخص ہونے کے باوجود انہوں نے اجمیر شریف کو عقیدت کا نذرانہ فقط 9کروڑ روپے اپنی وسیع جیب سے نہیں دیئے بلکہ حکومتی خزانے کو گولی دی ہے ۔ انہوں نے پارلیمینٹ کی منظوری کے بغیر ایسا کس قانون کے تحت کیا ، یہ راز اس وقت کھلے گا جب کوئی صاحب دل سپریم کورٹ میں رٹ کریں گے میری اس بات پر وہ تمام صاحبان تڑپیں گے جن کے ہاتھ ہمیشہ صدر صاحب کی جیب میں ہوتے ہیں حالانکہ صدر صاحب کچی گولیاں نہیں کھیلتے، وہ ان ہاتھوں کو اپنی جیب سے نکال کر خزانے میں منتقل کر دیتے ہیں۔ وقت آنے پر مثالیں دیکر ثابت کروں گا ۔ اب آپ ہی بتائیے یہ جمہوریت ہے یا آمریت کہ پارلیمینٹ سے منظوری لئے بغیر صدر صاحب نے 9کروڑ روپے کا نذرانہ دے دیا۔ جن دنوں جان میجر انگلستان کا وزیر اعظم تھا اور میاں نواز شریف پاکستان کے وزیر اعظم تھے تو حسن اتفاق سے پاکستان کی ٹیم انگلستان میں میچ جیت گئی ۔ میاں صاحب نے خوشی کی لہر پر سوار ہو کر ٹیم کے لئے پچاس ہزار پونڈ انعام کا اعلان کر دیا۔ جان میجر نے چٹکی لیتے ہوئے فقرہ کسا ”مجھے وزیر اعظم ہاؤس کے بوسیدہ فرنیچرکو بدلنے کے لئے پارلیمینٹ سے پانچ ہزار پونڈ منظور کروانے کے لئے کئی برس لگ گئے ۔ پاکستانی وزیر اعظم نے کھڑے کھڑے پچاس ہزار پونڈ انعام کا اعلان کر دیا ۔دراصل حکومت برطانیہ خود تو جمہوری اصولوں کے تحت چلتی ہے لیکن 1947ء میں رخصتی کے وقت پاکستان کو فیوڈل جمہوریت کا تحفہ دے گئی جس میں ہر وزیر اعظم اور ضرورت پڑنے پر صدر مملکت وائسرائے ہی ہوتا ہے ۔ اور اسی طرح رعایا سے سلوک کرتا ہے ۔ رعایا بھوک سے مرے یا لوڈشیڈنگ سے دم گھٹنے پر مرے، وہ اپنی عیش وعشرت میں مصروف رہتے ہیں ۔ صدر صاحب نے اس طرح کسی منظوری کے بغیر ہندوستان کے آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کے رنگون میں مزار کی مرمت کے لئے بھی خاصی بڑی رقم ڈالروں میں سری لنکا کو دے دی ۔ میں نے یہ خبر پڑھی تو دل میں انہیں معاف کر دیا کیونکہ صدر صاحب کو مقبروں سے خاص عقیدت ہے اور وہ خود بھی بے نظیر بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو کے مزارات کی پیداوار ہیں ۔رنگون میں مغلیہ خاندان کے آخری حکمران پر ہندوستان کی حکومت اپنا حق جتاتی ہے لیکن مرمت کے لئے رقم پاکستان سے جاتی ہے کیونکہ یہاں بادشاہ حکمران ہوتے ہیں اور بادشاہ ہی بادشاہوں کا خیال کرتے ہیں۔ ہاں تو میں عرض کر رہا تھا کہ خزانہ خالی اور ہاتھ میں کشکول، لوڈشیڈنگ بے قابو اور صنعت وحرفت تباہ، غربت اور مہنگائی بھنگڑے ڈالتی اور عوامی احتجاج قانون ہاتھ میں لیکر سرکاری املاک جلاتے، اس پر طریٰ یہ کہ سارے قومی ادارے عبرت کا نشان اور کرپشن کی داستان، ان حالات میں بھلا بجٹ سے آپ کس کرامت یا معجزے کی توقع رکھتے تھے ؟؟میری توقع پوری ہوئی غریب قوم کے رئیس حکمرانوں نے ایوان صدر اور وزیر اعظم ہاؤس کے منظور شدہ اخراجات سے تجاوز کیا اور کروڑوں مزید خرچ کر ڈالے، دفاع پر اخراجات میں اضافہ اپنی جگہ لیکن اصل ترجیح تعلیم اور صحت اور صنعت و روزگار ہونی چاہئے۔ وفاقی بجٹ آپ کا، اب دیکھتے ہیں صوبے ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں کیونکہ تعلیم تو مکمل طور پر صوبوں کی اجارہ داری بن چکی ہے ۔ وفاق کی اولین ترجیح انرجی بحران کا خاتمہ ہونا چاہئے تھی لیکن اس کے آثار ناپید ہیں ۔ سوا چار سال اقتدار میں گزارنے کے باوجود حکومت نے انرجی/ بجلی پیدا کرنے کے لئے قابل عمل نئے منصوبے شروع نہیں کئے ۔ خلوص نیت اور ویژن اور صلاحیت ہوتی تو ان چار برسوں میں انرجی بحران پر خاصا قابو پایا جا سکتا تھا لیکن ہماری قسمت کہ ملک پر نالائقوں اور لوٹنے والوں کی حکمرانی ہے ۔ ان حالات میں مسائل کے حل کی توقع عبث، اس کے باوجود میں گیلانی صاحب کو مبارک باد دیتا ہوں کہ وہ ہماری تاریخ کے پہلے وزیر اعظم ہیں جنہوں نے مسلسل پانچ بجٹ اسمبلی میں بیٹھ کر سنے۔ بھٹو صاحب بال بال بچے وہ بھی یہ اعزاز حاصل کر لیتے اگر وہ اقتدار میں آنے کے بعد صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر نہ بنتے ۔ اگر یہ اعزاز کوئی اعزاز ہے تو گیلانی صاحب کو مبارکیں ہی مبارکیں۔ قوم کو مبارک دینے کی جسارت نہیں کر سکتا، البتہ جیالوں کو مبارک جن کے لئے ایک لاکھ روزگار پیدا کرنے کی خوشخبری سنائی گئی ہے ۔میں نے عرض کیا کہ بجٹ کا تجزیہ تو ماہرین معاشیات ہی کریں گے لیکن تاریخ و سیاست کا طالب علم ہونے کے ناطے مجھے اس دنگل سے زیادہ دلچسپی ہے جو بجٹ کے دن اسمبلی میں دیکھنے میں آیا اور جس نے پہلوانوں کے اکھاڑے اور مکا بازوں کے مقابلے کی یاد تازہ کر دی ۔ کالم کا دامن تنگ ہے۔ مختصر یہ کہ یہ ہنگامہ پارلیمینٹ اور جمہوریت کے خلاف چارج شیٹ میں ایک ”اہم چارج“ کا اضافہ ہے جس کا پارلیمینٹ کے ”پہلوانوں “ کو بالکل ادراک نہیں ۔ میں گزشتہ سوا چار برسوں کی جمہوریت پر نظر ڈالوں تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اس صورتحال کے ذمہ دار حکومت اور اپوزیشن دونوں ہیں ۔ پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کی کوتاہ نظری، مفاہمت سے لیکر مخالفت تک، اصولوں سے لیکر بے اصولی تک، ملک و قوم کو اس مقام پر لے آئے ہیں جہاں نہ مسائل حل ہو سکتے ہیں نہ بہتری کی خبر آ سکتی ہے ۔ انہی پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ پارلیمینٹ مکابازوں کے رنگ (RING) یعنی اکھاڑے میں تبدیل ہو گئی ہے اور باشعور طبقوں کی گردنیں شرم سے جھک گئی ہیں۔ خدانخواستہ اگر سسٹم ڈی ریل ہوا تو اسکی ذمہ داری دونوں پر ہو گی۔

عجب شناسائی، Friday, June 01, 2012

بہ بھی آشنائی کی ایک عجیب قسم ہے کہ کبھی کبھار آپ کی نگاہیں کسی چہرے پر پڑتی ہیں تو آپ کو احساس ہوتا ہے کہ یہ چہرہ شناسا ہے، شاید ہم کہیں ملے ہیں یا کسی مقام پر اکٹھے رہے ہیں۔ اب تو میں اس مخمصے کی زیادہ تحقیق نہیں کرتا لیکن جوانی کے دور میں جب کبھی ایسا ”حادثہ“ ہوتا تو میں متعلقہ شخص سے ضرور پوچھتا کہ کیا ہم کبھی ملے ہیں یا میں آپ سے کہاں ملا ہوں؟ پھر کوشش کے باوجود ہم کوئی وجہ آشنائی یا مشترکہ جگہ تلاش نہ کرسکتے۔ یوں یہ راز، راز ہی رہتا۔ ویسے زندگی رازوں سے بھرپور شے ہے۔ شاید اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے زندگی کو راز کی مٹی سے ہی پیدا کیا ہے۔ کچھ راز زندگی میں افشا ہوجاتے ہیں، کچھ نہیں ہوتے اور ہم تصور کرلیتے ہیں کہ یہ راز اگلی زندگی میں یا موت کے بعد کھلیں گے۔ یہ کہانی عام انسان کی ہے جبکہ صاحبان نظر یا صاحبان باطن پر بہت سے راززندگی ہی میں منکشف کردئیے جاتے ہیں اور یہ انکشاف بھی اپنی اپنی حیثیت اور مرتبے کے مطابق ہوتا ہے۔ حیثیت اور مرتبے سے مراد روحانی مقام ہے اور روحانی مقام سے مراد قرب الٰہی ہے اور قرب الٰہی عبادت و ریاضت سے حاصل ہوتا ہے۔ اس کے باوجود بہت سے راز…کائنات کے راز… قرب الٰہی حاصل ہونے کے باوجود نہیں کھلتے کیونکہ یہی منشاء الٰہی ہے۔ اقبال میرا پسندیدہ شاعر ہے اور کبھی کبھی تنہائی میں اقبال کے کسی شعر اور مصرعے پر غور کرتے ہوئے مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اقبال کائنات کا کوئی راز فاش کررہا ہے۔ یہی اقبال کے صاحب نظر ہونے کی علامت ہے۔ یہ الگ بات کہ وہ راز تو میری سمجھ میں نہیں آتا کیونکہ میری پرواز عام انسان کی پرواز ہے لیکن یہ احساس ضرور ہوتا ہے کہ اس شعر میں کوئی کائناتی راز مخفی ہے۔ بات دور نکل گئی، میں عرض کررہا تھا کہ زندگی کی دوڑ اور ہجوم میں بعض اوقات ایسے لوگوں سے آمنا سامنا ہوجاتا ہے جو شناسا لگتے ہیں۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے مجھے یقین ہے آپ بھی اس تجربے سے اپنی عمر اور ”دوڑ“ کے حساب سے ضرور گزرے ہوں گے۔ طویل عرصہ قبل میں حضرت علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش کی کتاب کشف المحجوب پڑھ رہا تھا تو میرا یہ مخمصہ اور معمہ حل ہوگیا۔ سید علی ہجویری نے لکھا ہے کہ بعض روحیں عالم ارواح میں آپ کے قریب رہی ہوتی ہیں۔ایسے اشخاص جب آپ کو زندگی کے سفر کے دوران کہیں مل جائیں تو وہ آپ کو شناسا لگتے ہیں حالانکہ دنیا میں آپ کی ان سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی ہوتی۔ اصل شے تو روح ہی ہے جسے بقاء حاصل ہے۔ جسم تو فانی ہے مٹی میں مل کر مٹی ہوجاتا ہے۔ ہاں کبھی کبھی ایسا نہیں بھی ہوتا کیونکہ یہ تو میرے رب کی قدرت اور رضا ہے وہ چاہے تو مٹی بنا دے، چاہے تو مٹی نہ بننے دے۔ گویا یہ شناسائی روحوں کی ہوتی ہے جسے میں عجب شناسائی کہتا ہوں۔ محترم سرفراز اے شاہ صاحب ہمارے دور کی معروف روحانی شخصیت ہیں اور حددرجہ احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ان کی کتاب”کہے فقیر“ مارکیٹ میں آئی تو اس نے تہلکہ مچادیا اور بہت سے کالم نگاروں نے ان کی تحریروں میں ڈوب کر سراغ زندگی پانے کی کوششیں کیں۔ حال ہی میں ان کی دوسری ایمان افروز اور خیال انگیز کتاب مارکیٹ میں آئی ہے جس کا نام ہے”فقیر رنگ“ ۔ محترم شاہ صاحب فقیر انسان ہیں، فقر کے سانچے میں ڈھلے ہوئے ہیں اس لئے ان کی ہر کتاب فقیر سے شروع ہو کر فقیر پر ختم ہوتی ہے۔ میں نے ابھی یہ کتاب پوری تو نہیں پڑھی کیونکہ ایسی کتابوں کو غور سے پڑھنا اور صبر سے ہضم کرنا پڑتا ہے اس لئے ان کا مطالعہ دلچسپی کے باوجود تھوڑا سا وقت لیتا ہے تاہم کتاب پڑھتے ہوئے میں شناسائی کی اس قسم پر پہنچ کر رک گیا جس کاذکر اوپرکرچکا ہوں۔ میں نے چاہا کہ زندہ کتاب کے ایک بیان سے میرے قاری بھی مستفید ہوں اس لئے میں آپ کو ان کی تحریر کے حلقے میں شامل کررہا ہوں۔ محترم شاہ صاحب سے کسی نے سوال کیا کہ کبھی کبھی ہم محسوس کرتے ہیں کہ جو منظر ہماری نظروں کے سامنے ہے یہ ہم پہلے بھی دیکھ چکے ہیں یا ایسا ہی واقعہ پہلے بھی ہوچکا ے۔ محترم شاہ صاحب نے اس سوال کا جو جواب دیا وہ آپ کے لئے بھی باعث دلچسپی ہوگا کیونکہ اکثر لوگ ا یسے تجربات سے گزرتے ہیں اور انہیں اس کی کوئی سائنٹیفیک توضیح یا سائنسی تشریح نہیں ملتی۔ محترم شاہ صاحب کا فرمان ہے کہ روحانیت میں ایک اصطلاح ہے ” روح کی سیر“… جب ہم نیکی اور عبادات کا راستہ اختیار کرتے ہیں اور اس پر مسلسل عمل کرتے ہیں تو اس کے نتیجے میں ہماری روح میں بالیدگی پیدا ہوتی ہے اور روح لطیف ہوجاتی ہے۔ جوں جوں ہماری روح لطیف ہوگی اس قدر اس کی پرواز بڑھتی چلی جائے گی۔ جس قدر روح کی پرواز بڑھے گی اتنی ہی زیادہ سیر کو نکلے گی۔ جب ہم سورہے ہوتے ہیں تو ہماری روح سیر کررہی ہوتی ہے۔ یہ روحانی سیر ہوتی ہے جسے ہمارا شعور ”رجسٹر“ نہیں کرتا اس لئے یہ سیر یاد نہیں ہوتی لیکن اس سے ہماری روح ضرور واقف ہوتی ہے اس لئے بعض اوقات یوں ہوتا ہے کو روحانی طور پر جس مقام یا منظر کی ہم نے سیر کی ہوتی ہے وہ جسمانی طور پر ہمارے سامنے آتا ہے تو ہم چونک اٹھتے ہیں، مثلاً کسی انسان کی روح نے سمندر کے کنارے ایک مخصوص سپاٹ کی سیر کی۔ اب یہ سیر اس انسان کے شعور میں رجسٹر نہیں ہے۔ پانچ یا دس سال کے بعد اسے کراچی جانے کا اتفاق ہوتا ہے۔ وہ سمندر کے کنارے اسی سپاٹ پر جاتا ہے تو روح کی وہ یادداشت عود کر آتی ہے اور اسے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ یہ مقام پہلے بھی دیکھ چکا ہے۔ یہ تو روحانی توجیہہ ہے لیکن سائنس اور نفسیات میں بھی اس پر تجربات ہوئے ہیں۔ امریکہ میں بہت سے ایسے بچوں پر ”سٹڈی“ ہوئی ہے جو بہت سے علاقوں میں کبھی نہ گئے تھے لیکن اس کے باوجود ان علاقوں کے نشانات اور لینڈ مارکس بہت تفصیل کے ساتھ بتا سکتے تھے۔ سائنس باوجود حیرت اسے کوئی نام نہ دے سکی۔ محض یہ کہا کہ ”کسی شخص کی ذہنی قوتیں اور صلاحیتیں بعض اوقات اس قدر تیز ہوجاتی ہیں کہ وہ زمان و مکان سے بالاتر ہوجاتا ہے اور ایک ہی جگہ پر بیٹھا ذہنی طور پر دوسرے مقام کی سیر کرلیتا ہے“۔ یہ درحقیقت روح کی سیر ہے اس کی وجہ سے ہمیں کبھی کبھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ واقعہ پہلے بھی ہوچکا یا یہ منظر ہم پہلے بھی دیکھ چکے ہیں“۔ اسی طرح اگر آپ کی کسی انسان سے روحانی شناسائی ہے تو وہ ملتے ہی آپ کو شناسا لگے گا حالانکہ آپ اس سے کبھی ملے نہیں ہوتے ۔ اگر آپ روزمرہ کی پریشانیوں، مسائل اور مشقت سے الگ ہوکر غور کریں تو محسوس ہوگا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے زندگی کو ایک حیرت کدہ کے طور پر تخلیق کیا ہے۔ جسمانی اور روحانی شناسائی ،عروج و زوال ،ملنا اور بچھڑنا اور زندگی و موت اس حیرت کدے کے مختلف مقامات ہیں بلکہ اس حیرت کدے کی مختلف ”حیرتیں“ ہیں۔

Tuesday 29 May 2012

لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو May 29, 2012

چند برس قبل مجھے جاپان کی حکومت نے سرکاری دورے پر بلایا۔ میں ان دنوں یونیسکو کے ایگزیکٹو بورڈ کا منتخب رکن تھا اور یہ دعوت نامہ اسی حیثیت میں دیا گیا تھا۔ ذہن میں رہے کہ جاپان بنیادی طورپر مشرق کاحصہ ہے چنانچہ مغربی تہذیب کی یلغار کے باوجود یہاں اب بھی آپ کو کہیں کہیں مشرقی روایات کاحسن نظرآئے گا۔ اس کے برعکس گزشتہ پچاس ساٹھ برس میں مغرب کی یلغار نے پاکستان سے یا تو وہ مشرقی اقدارمٹا دی ہیں یا اس کا دائرہ کار بہت محدود ہو کر رہ گیاہے۔ میرا مشاہدہ ہے کہ انگریز کی صدسالہ غلامی مسلمان معاشرے سے وہ اقدار نہ مٹا سکی جنہیں امریکہ کی پچاس سالہ یلغار نے بدل کر رکھ دیا ہے۔ غور کیجئے تو آج نوجوانوں سے لے کر بڑے نوجوانوں تک متوسط طبقے سے لے کر قدرے امیر طبقے تک اور سکولوں سے لے کر یونیورسٹیوں تک ہماری فضا، سو چ اور انداز ِ زندگی پر امریکی تہذیب کے گہرے اثرات واضح طور پر نظرآتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تہذیب، معاشرتی اقدار اور قومی فکر کے حوالے سے برطانوی غلامی نے ہم پر اتنے اثرات مرتب نہیں کئے جتنے امریکی دوستی نے گزشتہ پچاس برسوں میں کئے ہیں۔ ہاں تو میں عرض کر رہا تھا کہ میں جب جاپان گیا تو میرا ایجنڈا ان کے صنعتی مراکز اور تعلیمی اداروں کو دیکھنے کے علاوہ ان کی معاشرتی زندگی پر نظر ڈالنا بھی تھا۔ میری خواہش پر مجھے ایک ممتاز جاپانی سائنسدان کے گھر لے جایاگیا جو پاکستان کے لئے نرم گوش. رکھتا تھاکیونکہ وہ کبھی اچھے دور میں چند برس ایبٹ آباد اور اسلام آباد میں رہا تھا۔ عام طور پر رسم یہی ہے کہ جاپانی گھر سے باہر ایک مخصوص جگہ پر جوتے اتار کر اندر داخل ہوتے ہیں۔ میں اس سائنس دان کے گھر پہنچا تومیاں بیوی نے گرمجوشی سے استقبال کیا۔ جوتے اتار کر اندر داخل ہوا تو ایک چھوٹے سے کمرے میں بٹھایا گیا۔ بنیادی طور پر چند کمروں پرمشتمل یہ چھوٹا ساگھر تھاجبکہ ہمارے سائنس دان ماشا اللہ بڑے گھرو ں میں رہتے اور رئیسانہ ٹھاٹھ باٹھ کے خوگر ہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ٹوکیو میں زمین مہنگی ہے لیکن میں نے جاپان کے ہر شہر میں بودوباش کا یہی انداز دیکھا۔ مسئلہ انداز ِ فکر اور انداز ِ زیست کاہے ورنہ جہاں زمین مہنگی ہوتی ہے وہاں آمدنی بھی اسی نسبت سے ہوتی ہے۔ ہندوستان کے مسلمان تاریخی طور پر فیوڈل فکر کے اسیر رہے ہیں، بڑے گھر، رئیسانہ ٹاٹھ باٹھ، نوکرچاکر اور اثر و رسوخ کی آوازان کے خواب رہے ہیں۔ یہ دراصل فیوڈل ازم کے مرض کی نشانیاں ہیں ورنہ میں نے کتنے ہی مسلمان معاشروں کو دیکھا ہے وہاں عام طور پر اس مرض کو اس قدر عام نہیں پایا جتنا پاکستان میں ہے۔ جاپانی سائنس دان اگرچہ رئیس انسان تھا لیکن اس کی ہر ادا اورگھر کی ہر شے سے سادگی ببانگ دہل ٹپکتی تھی۔ تھوڑی دیر بعد ہم چائے کے لئے اس کے ڈائننگ روم میں گئے تو یہ دیکھ کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ چھوٹے سے کمرے میں نہ میز نہ کرسی اور نہ ہی نمودو نمائش کا سامان، جاپانی سائنسدان کی بیگم نے میرے لئے پاکستانی چائے بنائی تھی جس کے ساتھ ایک چھوٹا سا کیک اور کچھ بسکٹ رکھے تھے۔کمرے کے درمیان میں ایک چھوٹا سا گھڑا تھا جس میں ایک چھوٹا سا گھومنے والا میز نصب تھا۔ کھانا کھانے کے لئے اس تندرو نماگھڑے میں ٹانگیں لٹکا کر فرش پربیٹھاجاتا تھا اور سامنے میز پر رکھی خورونوش کی اشیا سے انصاف کیا جاتا تھا۔ اگر آپ کو چائے کی دوسری پیالی پینی ہے تو مانگنے کی ضرورت نہیں، ذراسامیز کو گھماکر چائے دانی اپنے سامنے کرلیں اور چائے ڈال کر میز کو پھر گھما دیں۔ جب ہم ٹانگیں لٹکا کر میز کے ادگرد بیٹھے تو سائنسدان نے مجھے بتایا کہ سارے جاپان میں کم و بیش ڈائننگ روم اسی طرح کاہوتاہے۔ ہم مغربی میز کرسیاں عام طور پر استعمال نہیں کرتے۔ اس انداز کی خوبی یہ ہے کہ ساری فیملی ایک دوسرے سے جڑ کر بیٹھتی ہے، باپ بیٹے ماں بیٹیوں اور بچوں کی ٹانگیں ایک دوسرے کے قریب ہوتی ہیں۔ یوں خاندان میں قربت اور محبت بڑھتی ہے۔ اس کے بعد مجھے جاپان کے کئی اعلیٰ افسران کی دعوتوں پر جانے کا اتفاق ہواوہاں بھی اسی طرح زمین پربیٹھ کر اورٹانگیں اندر لٹکا کر کھاناکھانے اور قربت کا لمس محسوس کرنے کا موقع ملا تو مجھے یادآیا کہ آج سے چالیس پچاس سال قبل پاکستان کے متوسط اور قدرے امیر طبقوں میں یہی رواج تھا کہ سرشام خاندان ماں کے چولہے کے پاس یا اردگرد چھوٹی چھوٹی ”تپیاں“ رکھ کر ”پیڑوں“ پر بیٹھ جاتے تھے۔ ماں ہر ایک کو ہانڈی سے سالن ڈال کر دیتی اور پھر ”توے“ سے گرما گرم روٹیاں آنا شروع ہوجاتیں۔ اگرروٹیاں تندور سے پک کر آتیں تو کپڑوں میں لپیٹ کر گرم رکھی جاتیں اور ماں سالن کے ساتھ ایک ایک روٹی بھی دے دیتی جسے کھجور کی بنی ”چنگیر“ میں رکھ لیا جاتا۔ جس کا سالن ختم ہوتا یا روٹی کی ضرورت پڑتی اسے مزید مل جاتی۔ ساتھ ساتھ بات چیت اور تربیت کا عمل بھی جاری رہتا۔ یوں سارا خاندان ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر کھانا کھاتا اور محبت سے سرشار ہو کر اٹھتا۔ ریفریجریٹر نہیں ہوتے تھے۔ سب کو تازہ پکا کھانا ملتا تھا اور شام کو بچے رہنے والا کھانا کسی ضرورت مند کے گھر بھجوا دیا جاتا تھا۔ بقول میرے مرحوم دوست مولوی سعید کہ ریفریجریٹر نے ہمیں ”کمینہ“ بنا دیااور انگریز فیشن کے میز کرسیوں نے خاندان کو باہمی محبت اور قربت سے محروم کر دیا۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ماں یا بیوی یا بہو کا پکایا ہوا کھانا ایک نعمت ہوتی تھی اور گھریلو نظام میں ماں بیوی کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی تھی جو اپنے ہاتھوں سے کھانا دیتے ہوئے محبت بھی تقسیم کرتی تھی اب اس کی جگہ باورچی نے لے لی یا کسی اور کے ہاتھ لگ گئی اس طرح مرکزی حیثیت والے ادارے تھوڑے کمزور ہوگئے۔ کہنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ جو ہمارا روایتی انداز ِ زندگی تھا اس میں غریب امیر سبھی شامل تھے۔ میں رؤسا، جاگیرداروں اور نوابوں کی بات ہرگز نہیں کر رہا، وہ ہمیشہ سے ایک الگ کلاس رہے ہیں۔ میرے مشاہدے کے مطابق مغرب کی تقلید اور سائنس کی کرامات نے ان غریب، متوسط اور خوشحال گھرانوں کے درمیان فرق بہت زیادہ بڑھا دیا ہے جبکہ چالیس پچاس برس قبل یہ فرق اپنی جگہ پر ہونے کے باوجود اس قدر واضح اور نمایاں نہیں ہوتا تھا جتنا آج ہے۔ امن اور چین کا دور دورہ تھا، بڑے کا ادب اور چھوٹے سے شفقت ہماری تربیت کا حصہ تھا اور باہمی محبت ، سادگی اور سکون ہمارے معاشرے کی نمایاں اقدار تھیں۔اس زمانے میں بھی بے پناہ غربت تھی لیکن خودکشیا ں تقریباً ناپید تھیں اوررویوں پر قناعت کا رنگ غالب تھا۔ آج کی غربت اور اس غربت میں خاصا فرق ہے۔ میں ہائی سکول کا طالب علم تھا تو اپنے ایک کلاس فیلو کے گھر گیا جس کاتعلق مقابلتاً غریب گھرانے سے تھا۔ ان کا گھر دو کمروں پر مشتمل تھا جو مٹی اور گارے سے تعمیر کئے گئے تھے۔ جون کی گرمی اور پنکھا نہ ہونے کے باوجود دیواریں اور فرش ٹھنڈا تھا، تھوڑی سی ہوا کھڑکی سے آتی تھی باقی کا انتظام ہاتھ میں پکڑی ”پنکھیوں“ سے کیاجاتا تھا۔ میں ان کے گھر میں داخل ہوا تو گھرانہ فرش پر گول دائرے میں بیٹھا کھانا کھا رہا تھا۔ دیسی گندم کی تنور کی تازہ روٹیاں، آم کا اچار، پودینے کی چٹنی، خربوزے کی کاشیں اور چاٹی کی لسی درمیا ن میں رکھی تھی۔ چٹنی اچار کے ساتھ ساتھ خربوزے کا ملاپ اور لسی کاگھونٹ یہ وٹامن کے حوالے سے مکمل غذا تھی جو موجودہ دور کے غربا کو نصیب نہیں۔ میں بھی اس دعوت شیراز میں شامل ہوا اور مجھے یہ کھانا اتنا مزیدار، لذیذاور محبت بھرا لگا کہ پھر فائیو سٹار اور سیون سٹار ہوٹلوں کی دعوتیں اور شاہی محلات کی مہمان نوازی بھی اس کی یاد نہ بھلا سکیں۔ کبھی آپ نے غور کیا کہ بلاشبہ ہمیں بہت سی سائنسی نعمتیں میسر آئی ہیں لیکن ہم نے بہت سی نعمتوں کو گنوا بھی دیا ہے۔ مادی نعمتوں نے ہمیں بہت سی روحانی نعمتوں سے محروم کردیا ہے۔

پاکستان میں وقت ٹھہر گیاہے. May 27, 2012

بہت دنوں بعد وطن لوٹاہوں۔ میری خوش قسمتی کہ میں جس مقام پر تھا وہاں نہ اخبارات اور نہ ہی چینلز کی رسائی مجھ تک تھی اور نہ ہی میری رسائی ان تک تھی حالانکہ اس سے کوئی فرق تو پڑتانہیں۔ اگرچہ میں نے دو ہفتوں سے زیادہ کے اخبارات نہیں پڑھے لیکن اس سے کیافرق پڑتا ہے کیونکہ میں ملک میں جو نقشہ چھوڑ گیا تھا وہ من و عن اسی طرح موجود ہے۔ وہی لوڈشیڈنگ، وہی سڑکوں پر عوام کے احتجاجی مظاہرے، سیاستدانوں کے وہی گھسے پٹے بیانات، مسلم لیگ ن اور پی پی پی کی رسہ کشی جسے بہت سے تجزیہ نگار ”فریب نظر“ قرا دیتے ہوئے نوراکشتی کہتے ہیں کیونکہ ایک طرف اعلان جنگ اور دوسری طرف خفیہ سیاسی سمجھوتے، اسمبلیوں کی نشستوں کی بندر بانٹ اور ایڈجسٹمنٹ اور خفیہ ذرائع سے پیغام رسانی یہ سب کچھ بظاہر تو نورا کشتی ہی لگتی ہے۔ اس نقشے کے اہم ترین پہلو جو بدستور اپنی جگہ پر موجود ہیں لیکن ان میں قدرِ شدت آگئی ہے، وہ ہے عدلیہ اور انتظامیہ میں تصادم کی فضا، حکمرانوں کی پارلیمینٹ کے زور پر عدلیہ کو نیچا دکھانے کی کوشش جسے آپ سازش بھی کہہ سکتے ہیں۔ وزیراعظم صاحب بضد ہیں کہ سپریم کورٹ کی سزااور ہتک عدالت سے ”ککھ“ بھی نہیں ہلا یعنی میری پوزیشن پر تنکا بھر بھی اثر نہیں پڑا۔اب اس پوزیشن کو سپیکر کی رولنگ نے اور بھی مضبوط بنا دیاہے اور یوں تاثرابھاراجارہا ہے کہ سپریم کورٹ غیرموثرہے، نہ اس کے فیصلوں پر عمل ہوتاہے، نہ ہی اس کی ہدایات انتظامیہ سنتی اور نہ ہی وزراء صاحبان سپریم کورٹ میں پیش ہوتے ہیں جیسا کہ بلوچستان میں ہوا۔ گویا اراکین اسمبلیاں پارلیمینٹ کی قوت کے زور پر عدلیہ کو غیرموثر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور یہ سلسلہ شروع ہوا ہے وزیراعظم کو سزا سنانے کے بعد۔ یہ درست ہے کہ صدر صاحب نے پہلے ہی ببانگ دہل فرما دیا تھا کہ وہ صرف پارلیمینٹ کے فیصلوں کو مانتے ہیں اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کو گھاس ڈالنے کے لئے تیار نہیں اور پھراس کے ساتھ تسلسل سے یہ میوزک بجنے لگا کہ پی پی پی کو کبھی عدلیہ سے انصاف نہیں ملا۔ غور طلب بات اتنی سی ہے کہ عدلیہ کو نیچا دکھانے کا مطلب اور مفہوم صرف قانون کی حکمرانی اورپاسداری کا راستہ روکنا ہے۔ اس حد تک حکومت اپنے ارادوں میں کامیاب ہے کہ وہ من مانی کر رہی ہے، صدر صاحب نے مختلف طریقوں سے اپنے سیاسی حلیفوں کو قابو کر رکھاہے اور اس زور پر وہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عملدرآمد ہونے نہیں دے رہے حتیٰ کہ ہتک عدالت کے مقدمے نے بھی ان کے رویئے میں لچک پیدا نہیں کی بلکہ تصادم کے امکانات کو مزید بڑھایا ہے۔ دوسری طرف کراچی میدان جنگ بنا ہواہے۔ ملک بھر میں ٹارگٹ کلنگ اور مذہبی تشدد کا دور دورہ ہے، احساس تحفظ دم توڑ چکاہے، معاشی ترقی کا ذکرہی کیا یہاں تو معیشت کا پہیہ ہی جام ہوچکا ہے جس کے سبب نہ صرف بیرونی سرمایہ کاری بند ہونے کے قریب ہے بلکہ بیروزگاری اور غربت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ بجلی گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافے نے عوام کا جینا دوبھر کر دیاہے لیکن حکومت یہ سمجھتی ہے کہ بینظیر پروگرام کے تحت لاکھوں گھروں کو ڈھائی ہزارروپے مہینہ دے کر غربت کا علاج کیاجارہا ہے حالانکہ غربت کا علاج معمولی مالی امداد سے نہیں ہوتا بلکہ غربت کا علاج معاشی ترقی اور معاشی سرگرمی سے ہوتاہے۔ کہنے کا مقصد یہ تھا کہ میں دو ڈھائی ہفتے قبل جو حالات چھوڑ کر گیا تھااور جو نقشہ دیکھ کر گیاتھااس میں ذرہ بھر بھی فرق نہیں پڑا بس اس میں ایک پہلو کا اضافہ ہوا ہے اور وہ ہے محترمہ سپیکر صاحبہ کی رولنگ جو میری توقعات کے عین مطابق ہے۔ گویا پاکستان میں وقت ٹھہرگیا ہے اور سیاسی کلاک رک گیا ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ اب اس رولنگ کا محاذ گرم ہوگا۔ اپوزیشن اور نیوٹرل طبقے اسے بہرحال قبول نہیں کریں گے کیونکہ اگر یہ معاملہ اتنا ہی سادہ ہے کہ اسے سپیکر کے چیمبر میں پہنچ کر رک جانا ہے یا ردی کی ٹوکری میں چلے جانا ہے تو پھرسپریم کورٹ کے فیصلوں کی کیاحیثیت؟ چنانچہ اب آئین کے اس پہلو کی تشریح کے لئے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے گا، کئی رٹیں (Writs) اور مقدمات عدالت میں آئیں گے اور پھر عدالت کو تشریح کرنی پڑے گی کہ کیا پارلیمینٹ کے اراکین کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلے سپیکر کے چیمبر میں ختم ہوسکتے ہیں؟ کیا ایسے مقدمات یا فیصلے مخصوص عرصہ گزرنے کے بعد خودبخود الیکشن کمیشن کومنتقل ہوجاتے ہیں یا سپیکر انہیں روک سکتاہے؟ کیاان فیصلوں کا یہی منطقی انجام ہے اور یہی قانون و آئین کی منشا ہے؟ اس طرح ایک اور محاذ گرم ہوگا جس کی حدت سپیکر اور اسمبلی تک محسوس کی جائے گی۔ ساتھ ہی ساتھ سیاسی مظاہرے سڑکوں کو گرماتے اور ایوانوں کو ہلاتے رہیں گے۔ کچھ پارٹیاں عدلیہ کے حق میں اور کچھ مخالف موسم کی گرمی میں اضافہ کریں گی جس سے عدلیہ کا وقار مجروح ہوگا اور عدلیہ متنازع ہوگی شاید یہی حکمت عملی حکمرانوں کی ہے۔ تاریخ کا مطالعہ یہی بتاتاہے کہ جب قانون کی حکمرانی کو اس طرح پامال کیا جائے، عدلیہ کو بے وقارکیا جائے، اقتدار کے لئے سب کچھ داؤ پرلگا دیاجائے، لوٹ مار کرپشن کا سلسلہ جاری رہے، عوام غربت، مہنگائی، بیروزگاری، لوڈشیڈنگ کا شکار ہوں، لوگوں کو بسوں، گلیوں سڑکوں پر قتل کیا جارہا ہو اور ہر شہری عدم تحفظ کا مریض ہو، سیاسی پارٹیاں باہم دست و گریباں ہوں ، غیرملکی قوتیں اندرونی انتشار کی آگ کو بھڑکا رہی ہوں تو پھرزیادہ دیر تک تیسری قوت کی مداخلت کاراستہ نہیں روکا جاسکتا بلکہ یہ خود لوگوں کا مطالبہ بن جاتا ہے اور عدلیہ بھی ملک بچانے کے فارمولے کے تحت اس مداخلت کو محدود عرصے کے لئے قبول کرلیتی ہے۔ غائب کا علم خدا کے پاس ہے میں صرف ظاہر کی بات کر رہا ہوں فوری نہیں لیکن لانگ رینج میں حالات اس طرف بڑھ رہے ہیں۔  

Sunday 20 May 2012

اپنی اپنی پریشانی؟ May 13, 2012


آپ حکومت کی نالائقی اور نااہلی کا رونا روتے ہیں اور مجھے پریشانی ہے قومی اداروں کے زوال کی۔ حکومتیں آنی جانی شے ہیں ،مستقبل کسی اہل اور قابل حکمران کو بھی برسر اقتدار لاسکتا ہے لیکن اگر قومی اداروں کا زوال شروع ہو جائے تو اسے روکنا یا اسے ”ریورس گیئر“ لگانا آسان نہیں ہوتا۔ ہاں میری ایک بات سن لیجئے اور نوٹ فرما لیجئے کہ قوموں کے زوال کی علامت قومی اداروں کا زوال ہوتا ہے نہ کہ سیاسی حکمرانوں کا زوال۔ اس موضوع پر میں انگلستان کے حوالے سے ایک تحقیقی مقالہ پڑھ رہا تھا جس میں ثابت کیا گیا تھا کہ جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کے پھیلتے سایوں کے باوجود اور درمیانے درجے کے حکمرانوں کے باوجود برطانوی قومی اداروں کی کارکردگی کبھی متاثر نہیں ہوئی اور یہی وجہ ہے کہ معاشی و سیاسی زوال کے باوجود برطانوی قوم آج بھی ایک مضبوط قوم ہے۔امریکہ کو اپنی دولت، عسکری قوت اور خوشحالی پر بڑا ناز ہے جبکہ برطانیہ دیکھنے میں امریکہ کی ”کالونی“ لگتا ہے لیکن عالمی سروے کے مطابق کیمبرج یونیورسٹی آج بھی عالمی سطح پر اعلیٰ ترین یونیورسٹی ہے اور اس صف میں پہلی پوزیشن پر قابض ہے حالانکہ بہت سی امریکی یونیورسٹیاں ہر سال کیمبرج سے زیادہ نوبل پرائز جیتتی اور حاصل کرتی ہیں جبکہ پاکستان تعلیم کے میدان میں کہیں بھی نظر نہیں آتا۔ پاکستان کیا پوری دنیائے اسلام میں کوئی بھی یونیورسٹی عالمی سطح کی یونیورسٹیوں میں شمار نہیں ہوتی اور یہی سبب ہے بلکہ بنیادی وجہ ہے نہ صرف مسلمانوں کی پسماندگی کی بلکہ پاکستان کے زوال کی بھی۔ قوموں کی ترقی اور قومی اداروں کی نشوو نما اعلیٰ انسانی ذہنوں کی مرہون منت ہوتی ہے لیکن گزشتہ 65برس میں ہماری کسی بھی حکومت نے اعلیٰ تعلیم کو خلوص نیت سے پہلی ترجیح نہیں بنایا۔ نتیجے کے طور پر اعلیٰ تعلیم، تحقیق، غور و فکر اور ”آر اینڈ ڈی“ کا کلچر پاکستان میں پروان چڑھ ہی نہیں سکا۔ پرویز مشرف کے دور میں بلاشبہ سینکڑوں نوجوانوں کو ڈاکٹریٹ کرنے کے لئے بیرون ملک بھجوایا گیا اور پاکستان میں بھی پی ایچ ڈی کے لئے پروگرام شروع کئے گئے لیکن اول تو اس دور میں اعلیٰ تعلیم کے نام پربے پناہ قومی وسائل ضائع کئے گئے، تعلیم کی کوالٹی بہتر بنانے کی بجائے پبلسٹی پر زیادہ زور دیا گیا اور بیرون ملک پی ایچ ڈی کے لئے طلبہ کی اکثریت کو ایسی یونیورسٹیوں میں بھیجا گیا جن کی اندرون و بیرون ملک اپنی ریٹنگ (Rating)نہایت کم درجے کی تھی اندرون ملک پی ایچ ڈی پروگراموں میں چوری اور سرقے کی داستانیں مشہور ہوئیں اور ایسے مضامین میں پی ایچ ڈی کے ڈھیر لگ گئے جن کی افادیت نہایت محدود تھی۔ اس پروگرام کو بہتر بنایا جاسکتا تھا لیکن مشرف حکومت بدلتے ہی وسائل کی قلت نے اس شعبے کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔ جب ہم نے پنجاب یونیورسٹی سے ڈگریاں حاصل کیں تو نہ جعلی ڈگری کا تصور تھا اور نہ ہی کبھی بیرون ملک کسی یونیورسٹی نے ہماری تعلیمی اہلیت کو شک کی نظر سے دیکھا تھا۔ قیام پاکستان سے 1972ء تک ہماری یونیورسٹیوں کے گریجوایٹ امریکی برطانوی یونیورسٹیوں میں کسی ٹیسٹ کے بغیر محض اپنے نمبروں پر داخلہ لیتے تھے اور ایم اے یا پی ایچ ڈی کی ڈگریاں لے کر واپس آتے تھے۔ کچھ برس قبل میں برکلے یونیورسٹی امریکہ میں تھا اور یونیورسٹی کے ایک اعلیٰ عہدے دار سے یہ بات سن کر پانی پانی ہوگیا کہ ”ہم 1972ء کے بعد کی پاکستانی ڈگریاں تحقیق کئے بغیر نہیں مانتے“۔ وجہ پوچھی تو جعلی ڈگریوں اور نقل کے ذریعے امتحانات پاس کرنے کی کہانیاں سنائی گئیں۔ ہمارے دور میں یونیورسٹیوں میں رشوت کا رواج ہرگز نہیں تھا۔ مجھے چند برس قبل ایک دوست کی ڈگری کی تصدیق کے لئے یونیورسٹی سے پالا پڑا تو پتہ چلا کہ وہاں بھی تھانوں کی مانند ہر کام کے ریٹ مقرر ہیں۔ کنٹرولر صاحب سے رابطہ کرنا چاہا تو بتایا گیا کہ وہ بہت بڑے افسر ہیں ایرے غیرے سے بات نہیں کرتے۔ پارلیمینٹ نے منتخب نمائندوں کے لئے ڈگری کا قانون بنایا تو ہر روز ایم این اے ایم پی اے ایز کی جعلی ڈگریوں کی کہانیاں سامنے آنے لگیں۔ میری تحقیق کے مطابق سب سے زیادہ جعلی ڈگریاں مسلم لیگ (ن) کے کھاتے سے برآمد ہوئیں۔ ذرا اپنے منتخب نمائندوں، اعلیٰ قانون سازوں اورقوم کے لیڈروں کا کردار ملاحظہ فرمائیں کہ ان حضرات نے نہ صرف جعلی ڈگریاں حاصل کی تھیں اور انتخاب لڑنے کے لئے پیش کی تھیں بلکہ اسمبلی میں سچ بولنے اور ”سچا“ ہونے کا حلف بھی اٹھایا تھا جس قوم کے منتخب نمائندے جعلی ڈگریاں دے کر جھوٹا حلف اٹھائیں اور جو قوم ایسے بد کردار لوگوں کو ووٹ دے اس قوم کو غربت، پسماندگی، بے روزگاری کی بجائے اپنے اخلاقی زوال کی فکر کرنی چاہئے کیونکہ تاریخ کا طے شدہ اصول ہے کہ اگر قوم کا کردار مضبوط ہو تو وہ مسائل کے طوفان سے نکل جاتی ہے لیکن اگر قوم کے کردار کا جنازہ نکل چکا ہو تو پھر وہ مالی، معاشی اور دوسرے قومی مسائل سے نکل کر بھی جھوٹ، جعل سازی، بداعتمادی، کرپشن جیسے مسائل کی دلدل میں پھنسی رہتی ہے۔ آج جاپان، سنگاپور اور کوریا جیسے ممالک جہاں قدرتی، زرعی اور دوسرے وسائل کا فقدان ہے محض انسانی وسائل کو اعلیٰ تعلیم کے ذریعے ترقی دے کر خوشحالی کی منزلیں طے کر رہے ہیں۔ جبکہ پاکستان کے نیم خواندہ حکمرانوں کو اعلیٰ تعلیم کی اہمیت کا احساس ہی نہیں۔ ہمارے تعلیمی ادارے، ہماری یونیورسٹیاں دن بدن تنزل کا شکار ہیں، ہم نالائق ڈگریوں کی کھیپ تیار کر رہے ہیں، یونیورسٹیوں میں تحقیق نامی شے اجنبی بن کر رہ گئی ہے، اساتذہ پیسے کمانے کی فیکٹریاں بن چکے ہیں، نقل، جعل سازی اور گروہ پروری کا دور دورہ ہے اور عالمی مقابلے کی اس فضا میں ہمارے طلبہ کا معیار تعلیم تنزل کا شکار ہے۔ ہر سال چند ایک طلبہ اپنے زور پر اے او لیول میں پوزیشنیں حاصل کرلیتے ہیں تو ہم خوش ہو جاتے ہیں لیکن ان کی اکثریت بھی اعلیٰ تعلیم کے لئے بیرون ملک جاتی ہے تو واپسی کا نام نہیں لیتی۔ میری سوچی سمجھی رائے ہے کہ ہم نے اخلاقی، معاشی، صنعتی اور سیاسی زوال کا راستہ روکنا ہے تو وہ کسی حد تک صرف اعلیٰ درجے کی تعلیم کے ذریعے روکا جا سکتا ہے ہم دیکھ رہے ہیں کہ موجودہ زوال کا طوفان ہمارے سارے قومی اداروں کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے اور ہر طرف قومی و حکومتی اداروں کی کارکردگی پر مایوسی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ کام چوری، رشوت، بے ایمانی، بے انصافی، ملاوٹ، لوٹ کھسوٹ، لاقانونیت، مذہبی تفریق، جہالت وغیرہ وغیرہ ہمارے اصل قومی دشمن ہیں۔ خدارا ان پر قابو پانے کی ترکیبیں سوچیں ورنہ یہ زوال معاشرے کی اخلاقی قدروں کو دیمک کی مانند چاٹ لے گا۔ 

خاکم بدہن May 11, 2012


ملکی منظر پر نظر ڈالتا ہوں تو دل دُکھتا اور کڑھتا ہے۔ پھراپنی بے بسی پر دل ہی دل میں آنسو بہا کر صبر کرلیتا ہوں کہ اللہ صابرین کے ساتھ ہے اور کمزور لوگوں کا آخری سہارا صبر ہی ہوتا ہے۔ ذرا گہری نظر سے دیکھئے کہ کیا ہو رہا ہے؟ ہم کس طر ف اورکہاں جارہے ہیں؟ ہماری منزل کیا ہے اور اگر ہم یونہی بڑھتے رہے، پھیلتے ہوئے طوفان کو روکنے کی کوشش نہ کی تو اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟
سچی بات یہ ہے کہ میں جب ملک کے منظرنامے پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے لاقانونیت اور انارکی کا سیلاب یا طوفان قوم کے دروازے پر دستک دیتا نظر آتا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ لاقانونیت اور انارکی کی آگ سارے نظام کو جلا کر خاکستر کر دیتی ہے اور انارکی کے مرض میں مبتلا قومیں ترقی کی منزلیں طے کرنے کی بجائے تنزل کی راہ پر چلتی اور بکھر کر رہ جاتی ہیں۔ چاروں طرف نگاہ دوڑایئے کیا کچھ ہو رہا ہے اور کیسی کیسی انہونی باتیں اور وارداتیں رونما ہو رہی ہیں۔ ان انہونی وارداتوں کی جڑوں پر نگاہ ڈالیں تو اس کا سبب صرف لاقانونیت کا تیزی سے بڑھتا ہوارجحان نظر آتا ہے۔ ذرا غور کیجئے کہ ہم کیسے ملک میں رہ رہے ہیں جہاں ایک چوتھائی قوم سڑکوں پر احتجا ج کر رہی ہے، سرکاری بسیں جن پر صرف عام سفر کرتے ہیں جلائی جارہی ہیں اور شہریوں کی کاروں اور نجی املاک کو جلایا جارہا ہے، چوریاں ڈاکے عام ہیں، طلبہ نقل کی مزاحمت کرنے والے اساتذہ کو مار پیٹ رہے ہیں، وکیل ججوں پر جوتے بھی پھینکتے ہیں اور کبھی کبھی خلاف ِ مرضی فیصلہ آنے پر ججوں سے دست و گریبان بھی ہو جاتے ہیں۔ پولیس علاقوں میں جاتی ہے تو وکیل حضرات اپنے ملزمان چھڑانے کے لئے پولیس کو نشانہ بناتے ہیں۔ پولیس ہر روز بیگناہ شہریوں کو ٹارچر کرکے رشوت لیتی ہے اور اگر لواحقین رشوت نہ دیں تو ٹارچر کرکے ملزم ہی کو اگلے جہان پہنچا دیتی ہے۔ کسی دفتر میں چلے جائیں رشوت کے بغیر جائز سے جائز کام نہیں ہوتا اور رشوت دے کر ناجائز سے ناجائز کام ہو جاتاہے۔ شہروں قصبوں میں قبضہ گروپ اور طاقتور مافیاز پروان چڑھ رہے ہیں جو غریب، بے اثر لوگوں، بیواؤں اوریتیم بچوں کی جائیدادوں پر قبضہ کرلیتے ہیں اور پولیس ان کی پشت پناہی کرتی ہے۔ وزراء، حکمرانوں اور سیاستدانوں پر دن رات پیسے بنانے اور جائیدادیں بنانے کے الزامات کی بارش برس رہی ہے۔ بااثر طبقے دن رات ملک کو لوٹ کر دولت بیرون ملک منتقل کرنے میں مصروف ہیں۔ سیاسی پارٹیاں کسی کو اسمبلی کا ٹکٹ دینے یا وفاداری تبدیل کرکے آنے پر پہلے اس کی جیب ٹٹولتی اور پھر فیصلہ کرتی ہیں۔ پارٹی چندے کے نام پر قوم کو لوٹنے والے، لوگوں کی جیبوں پر ڈاکے ڈالنے والے اور فراڈ کے ذریعے راتوں رات امیر ہونے والے بڑے بڑے چندے دے کر بڑی پارٹیوں پر چھا گئے ہیں اور حکمران یا مستقبل کے حکمران اُن کی دولت یا شہرت کے سامنے بچھے جارہے ہیں۔ ان ”اصول پرستوں“ کو ایسے سیاستدانوں کے ماضی کی پرواہ ہے نہ ان کے حال سے غرض ہے انہیں فقط چندے سے غرض ہے۔ نام کی حکومتیں بھی موجود ہیں اور ان حکومتوں کے ناک تلے مارکیٹ میں جعلی دوائیاں بھی بک رہی ہیں، سرکاری ہسپتالوں میں جعلی اور اکثر اوقات ایکسپائرڈ (Expired) دوائیاں دے کر غربا کی زندگیوں سے کھیلا جارہا ہے اور کھانے پینے کی اشیاء میں اس قدر ملاوٹ کی جارہی ہے کہ خدا کی پناہ۔ کل ہی ایک صاحب انکشاف کر رہے تھے کہ پولٹری کے چوزوں کو جلد جوان کرنے کے لئے ٹیکے لگائے جاتے ہیں، زیادہ انڈے حاصل کرنے کے لئے مرغیوں کو مخصوص غذا کھلائی جاتی ہے۔ پولٹری کے اس گوشت اور ان انڈوں میں ایسے اجزا موجود ہیں جن سے کھانے والوں میں مختلف بیماریاں پھیل رہی ہیں حتیٰ کہ بچے اور نوجوان بھی خطرناک بیماریوں کے شکنجے میں جکڑے جارہے ہیں لیکن منافع خوروں کو دولت بنانے سے غرض ہے۔ وہ خود دیسی مرغیاں کھاتے اور درآمد شدہ غذائی اشیاء سے لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن قوم کو ملاوٹ شدہ غذا کھلا کر آہستہ آہستہ مار رہے ہیں۔ کچھ یہی حال ان کھادوں اور سپرے کا ہے جو گندم اور سبزیاں اگانے کے لئے استعمال ہوتی ہیں۔ حکومت نہ جانے کن کاموں میں مصروف ہے جبکہ حکومت کے سائے تلے عوام کی صحت عامہ کابیڑہ غرق کیا جارہا ہے اور عوام میں ان مسائل کا شعور ہی موجود نہیں۔ یہاں اربوں روپے کے اشتہار حکمرانوں کی ذاتی پبلسٹی یا پارٹی لیڈروں کی پبلسٹی پر خرچ ہوتے ہیں جبکہ ترقی پذیر ممالک میں یہ رقم عو ام میں بیماریوں اور دیگر مسائل کے بارے شعور پیدا کرنے پر خرچ ہوتی ہے۔ ملاوٹ، جعلسازی، نمبر 2 دوائیوں اور اس قسم کے دوسرے جرائم سے نپٹنے کے لئے قوانین موجود ہیں، ادارے بھی موجود ہیں اور ان کے اوپر حکومتیں بھی پائی جاتی ہیں لیکن رشوت، لاقانونیت اور بے عملی نے ان تمام کو عضو معطل بنا رکھا ہے۔ مسائل کی اس چکی میں پس کون رہا ہے؟ عوام… وہی عوام جن کے غم میں حکمران گھلے جاتے ہیں اور وہی عوام جو اچھے برے کی تمیز کرنے کے اہل نہیں اور ان سیاستدانوں کے مکر و فریب میں آ کر پھر انہیں ہی ووٹ دیتے ہیں۔
ذرا اوپر نظر ڈالئے۔ ملک کے وزیراعظم سپریم کورٹ کے سینے پر مونگ دلنے کے لئے سارے اخلاقی اصولوں کو پامال کرتے ہوئے انگلستان تشریف لے گئے ہیں۔ انہوں نے طنز کا تیر چلاتے ہوئے لندن پہنچتے ہی یہ بھی فرما دیا کہ انہیں علم تھا ان کے غیرملکی دورے کے آغاز پر ہی تفصیلی فیصلہ آئے گا۔ گویا ان کی ملک میں موجودگی سے سپریم کورٹ تفصیلی فیصلہ دینے سے گریزاں تھی۔ اس ایک فقرے سے انہوں نے نہ صرف عدلیہ پر ”بدنیتی“ کا الزام لگا دیا ہے بلکہ عدلیہ کی جانبداری کا تاثر بھی ابھارا ہے۔ عدلیہ کی غیرجانبداری پر حملوں کا آغا ز جناب صدر مملکت نے کیا تھا اب تو خیر سے ساری پیپلزپارٹی دن رات یہی مہم چلارہی ہے اور عدلیہ کو شریف کورٹس ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ مقصد صرف عدلیہ سے انتقام لینا نہیں بلکہ اپنے آپ کو مظلوم ثابت کرنا اور ملک کی اعلیٰ عدلیہ کی بنیادوں کو کمزور کرنا بھی ہے۔ ماشاء اللہ اب تو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین نے بھی عدلیہ کا مالی احتساب کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ دیکھئے یہ سلسلہ کہاں پر رکتا ہے؟ لاقانونیت کے پھیلتے رجحان میں آئین کی تشریح و توضیح بھی اپنے اپنے مفادات کو پروان چڑھانے کے لئے کی جارہی ہے اور اس توضیح میں جلد ہی وہ مقام آنے والا ہے جب عدلیہ اور پارلیمینٹ ایک دوسرے کے سامنے یوں کھڑے ہوں گے جیسے دشمن ملک کی فوجیں… ظاہر ہے جب سپیکر قومی اسمبلی صدر صاحب اور پی پی پی کے دباؤ کے تحت سپریم کورٹ کے فیصلے کو دبا دیں گی تو دوسری طرف اس پر عمل کرنے کے لئے کارروائی شروع ہوگی۔ نتیجہ ذرا تصور کی آنکھ سے دیکھیں، منظر خوفناک لگتا ہے۔ عدالتوں، پارلیمینٹ اور بااثر محلات سے نکل کر دونوں بڑی پارٹیاں سڑکوں پر دست و گریباں ہو کر ”گھمسان کا رن“ ڈالنے والی ہیں اور اس گھمسان کے رن میں رہا سہا قانون بھی کچلا جائے گا جس سے لاقانونیت اور انارکی کا سیلاب مزید پھیلے گا۔
ملک کے جس بھی منظر پر نظر ڈالتا ہوں لاقانونیت اور انارکی کا طوفان ابھرتا نظر آتا ہے، ریاستی اور حکومتی ادارے تنزل کا شکار ہو کر گرتے نظر آتے ہیں، غریب عوام حالات کی چکی میں پستے نظر آتے ہیں، لوڈشیڈنگ ، غربت ، بیروزگاری، رشوت اور لوٹ کھسوٹ کا سلسلہ بے قابو نظر آتا ہے، بے انصافی بڑھتی نظر آتی ہے۔ آخر کب تک حالات اس نہج پر چلتے رہیں گے؟ آخر کب تک حکمران اور سیاستدان اپنے ڈھول پیٹتے رہیں گے شاید چند ماہ میں وہ لمحہ آجائے گا جب ”عزیز ہم وطنو“ مجبوری بن جائے گا اور قوم اور عدلیہ اسے مجبوری سمجھ کر قبول کرلیں گے کہ ملک بچانے کے لئے کڑوا گھونٹ پینا پڑتا ہے۔ اللہ کرے ایسا نہ ہو۔ میری یہ د عا اور تمنا ہے لیکن میں حالات کا رخ موڑنے کی صلاحیت اور اہلیت نہیں رکھتا۔ خاکم بدہن…!!
(نوٹ: دوستو! میں کچھ دنوں کے لئے بیرون ملک جارہا ہوں انشاء اللہ پھر ملاقات ہوگی)
 

ایک وضاحت جو ضروری ہے May 08, 2012


کچھ روز قبل میں نے ایک کالم لکھا تھا جس کا عنوان تھا ”زندہ کتاب کا ایک ورق“ اور اس میں کشف المحجوب کا ذکر کیا گیا تھا جو کئی صدیوں سے مسلمانوں کے دلوں کو گرما رہی ہے اور لاکھوں صاحبان حق کے باطن میں روحانیت کے چراغ جلا رہی ہے۔ غور کیجئے کہ گزشتہ آٹھ دس صدیوں میں لاتعداد کتابیں لکھی گئیں لیکن ان میں سے آج کتنی موجود ہیں، کتنی پڑھی جاتی ہیں اور حوالے بنتی ہیں اور کتنی ایسی ہیں جو صدیوں کا سفر طے کرنے کے باوجود خواص و عام کی توجہ یا عقیدت کا مرکز بنی ہیں۔ بلاشبہ لکھا ہوا لفظ ضائع نہیں جاتا لیکن کتنے الفاظ ہیں جو ذہنوں کو متاثر کرتے، فکر کی راہ متعین کرتے اور زندگی کو بدل کر رکھ دیتے ہیں۔ یونان والوں کو سقراط، ارسطو، افلاطون اور ان کی کتابوں خاص طور پر ”ریپبلک“ پر بڑا ناز ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج ان کتابوں کے فلسفے طویل سفر طے کرنے کے بعد اپنی شکل بدل چکے، سیاسی فلسفے کے میدان میں بنیادی تبدیلیاں آچکیں اور یوں یہ کتابیں محض پس منظر اور ماضی کا حوالہ بن کر رہ گئی ہیں جبکہ کشف المحجوب اور کیمیا ئے سعادت(امام غزالی) اور اس نوع کی کتابیں آج بھی اتنی ہی تازہ، برمحل اور کارآمد ہیں جتنی صدیوں قبل تھیں۔
اگر کسی شخص کا مرشد نہ ہو اور وہ اس کتاب کو خلوص نیت سے بار بار پڑھے تو یہ کتاب اس کے مرشد کا کام دے گی۔ یہ الفاظ کشف المحجوب کے بارے میں ہیں اور غور کیجئے کہ یہ الفاظ حضرت نظام الدین اولیاء  کے ہیں جنہیں ”محبوب الٰہی“ کہا جاتا ہے اور جو اولیائے کرام میں بلند رتبے پر فائز ہیں۔ گویا یہ الفاظ سند کی حیثیت رکھتے ہیں شرط جستجو کا خلوص اور استقامت ہے۔ جستجو ، خلوص اور استقامت وہ کنجیاں ہیں جن سے راہ سلوک کے قفل اور تالے کھلتے ہیں۔
میں نے اس کالم میں ذکر کیا تھا کہ جب انسان مکمل طور پر رضائے الٰہی کے تابع ہو جاتا ہے اور اپنی ذات کی نفی کر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لئے نوافل و عبادات میں مصروف رہتا ہے تو ایک وقت آتا ہے جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے کا کان، آنکھ اور ہاتھ بن جاتا ہے۔ دو دوستوں نے وضاحت چاہی ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ معاف کرے یہ قرآن مجید کا قولِ فیصل نہیں بلکہ حدیث قدسی ہے۔ حدیث قدسی اسے کہتے ہیں جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی اتری ہو لیکن الفاظ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اپنے ہوں۔ دراصل ان الفاظ میں معانی کا سمندر پنہاں ہے جنہیں مجھ جیسا گناہگار پوری طرح نہیں سمجھ سکتا کیونکہ ایسے معانی کا تعلق واردات قلبی سے ہوتا ہے۔ چنانچہ ممتاز ہستیوں کے الفاظ اور وضاحتوں کی طرف رجوع کر رہا ہوں۔ حدیث پاک ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جو شخص میرے ولی کے ساتھ عداوت رکھتا ہے میں اس کے ساتھ اعلان جنگ کرتا ہوں۔ میرا بندہ فرائض سے زیادہ اور کسی محبوب عمل کے ساتھ میرا تقریب حاصل نہیں کر سکتا، میرا بندہ نوافل پڑھ کر میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس کو محبوب سمجھتا ہوں تو میں اس کا کان ہو جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ سنتا ہے ، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ دیکھتا ہے ، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ پکڑتا ہے ، اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ چلتا ہے، اگر وہ مجھ سے سوال کرے تو اس کو دیتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے پناہ حاصل کرے تو میں اس کو دیتا ہوں“۔ (بخاری )
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی  نے اس حدیث کا یہ مطلب بیان فرمایا کہ بندہ عبادت کے ذریعے جب اللہ کا قرب حاصل کرتا ہے تو اللہ کا نور اس کو گھیر لیتا ہے پھر اسی کی برکت سے اس شخص سے ایسی چیزیں ظاہر ہوتی ہیں جو خلافِ عادت ہوتی ہیں۔ قرآن مجید میں متعدد مثالیں ملیں گی مثلاً ”اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کنکریاں تم نے نہیں، ہم نے پھینکی تھیں“ ۔ مولانا ادریس کاندھلوی فرماتے ہیں اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ بندہ کو اللہ سے قرب حاصل ہوتے ہوتے اس درجہ شدید تعلق و محبت ہو جاتی ہے گویا وہ اللہ کی آنکھ و کان اور ہاتھ سے دیکھتا، سنتا اور کرتا (معاذ اللہ اتحاد یا حلول ثابت کرنا مقصود نہیں ہے)۔ شیخ محی الدین ابن عربی  فرماتے ہیں اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ نوافل کے ذریعے سے بندے کا اللہ جل شانہ سے قرب ہو جاتا ہے پھر تمام معاملات اس پر منکشف ہونے لگتے ہیں۔ علامہ خطابی فرماتے ہیں کہ میں اس بندہ پر ان افعال و اعمال کو آسان کر دیتا ہوں جن کا تعلق ان اعضاء سے ہے اور ان اعمال و افعال کے کرنے کی توفیق دیتا ہوں یہاں تک کہ گویا اعضاء ہی بن جاتا ہوں۔ (بحوالہ روضة الصالحین جلد اول ، صفحات 298-300)
نوٹ فرما لیں کہ اللہ تعالیٰ نے دو چیزوں کے خلاف اعلان جنگ فرمایا ہے (1) سود (2) اللہ کے ولی سے عداوت۔ اس حدیث کا ذکر حضرت شیخ علی ہجویری المعروف حضرت داتا گنج بخش رحمة اللہ علیہ نے بھی کشف المحجوب میں کیا ہے۔ ملاحظہ فرمایئے ”حدیث قدسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (ترجمہ) جس چیز کو میں نے بندے پر فرض کیا ہے اس کی ادائیگی کے بغیر میرا بندہ میرا قرب حاصل نہیں کر سکتا ہاں (فرائض کی ادائیگی کے بعد) نوافل کے ذریعے وہ میرا تقرب حاصل کرتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ میں بھی اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو پھر میں ہی اس کے کان اور آنکھیں اور ہاتھ اور پاؤں اور زبان بن جاتا ہوں ۔ (ترجمہ محمد طفیل ، صفحہ 312) واضح ہوا کہ یہ الفاظ قرآن کے نہیں لیکن پیغام یا وحی اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے ہم تک پہنچی۔ جن اولیاء کرام کو اللہ تعالیٰ کا قرب اور یہ مقام حاصل ہو جاتا ہے ان کی فیوض و برکات جاری و ساری رہتی ہیں اور وہ ہستیاں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو اتنی عزیز ہوتی ہیں کہ اللہ ان سے عداوت رکھنے والوں کے خلاف اعلان جنگ کرتا ہے۔