Saturday 19 May 2012

بدلتا افق November 13, 2011


یہ آزاد عدلیہ اور آزاد میڈیا کا ثمر ہے کہ ہر روز نت نئے سکینڈلز اور قومی وسائل کی لوٹ کھسوٹ کے خوفناک حقائق سامنے آ رہے ہیں ۔ صرف آج کے اخبار پر نظر ڈالیں تو دو خبریں دل کو لہولہان کر دیتی ہیں ۔ اول سپریم کورٹ کی ریلوے کے حوالے سے شنوائی میں یہ انکشاف کہ 50ہزار ٹن سکریپ کوڑیوں کے بھاؤ بیچ دیا گیا ۔ دوم انجنوں کی خریداری میں گھپلا ہوا ۔ سوم ریلوے کی قیمتی اراضی پر سرکاری و پرائیویٹ ادارے اور مافیاز قابض ہیں جنہیں فروخت کرکے اربوں روپے کمائے جا سکتے ہیں اور ریلوے کے نظام کو بحال کیا جا سکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا آپ ریلوے کی قیمتی زمین کی نیلامی اور ریلوے نظام کی بحالی کے لئے موجودہ سیٹ اپ پر بھروسہ کر سکتے ہیں جن کے بارے میں ثابت ہو چکا ہے کہ وہ گھپلوں کے بادشاہ نہیں بلکہ شہنشاہ ہیں۔ اس مقدمے کی شنوائی کے حوالے سے انکشاف ہوا ہے کہ کچھ بااثر لوگ جو اقتدار میں شامل ہیں وہ ریلوے کو ایک منصوبے اور سازش کے تحت برباد کر رہے ہیں تاکہ ان کی ٹرانسپورٹ کمپنیاں دن دوگنی اور رات چوگنی کمائی کر سکیں ۔ اس سے اندازہ کیجئے کہ پاکستان کس قدر طاقتور اور سیاسی طور پر بااثر مافیاز کی گرفت میں آ چکا ہے اور کن عناصر کی شکارگاہ بن چکا ہے ۔ مجھے بتانے کی ضرورت نہیں کیونکہ آپ خود جانتے ہیں کہ پاکستان کی معیشت، مارکیٹ اور معاشی اتار چڑھاؤ کچھ نہایت پاور فل مافیاز کا مرہون منت ہے جو مرضی کے مطابق مارکیٹ میں قیمتیں بڑھاتے گھٹاتے رہتے ہیں اور ان کے ہاتھ ہمیشہ عام صارفین کی جیبوں میں ہوتے ہیں ۔ وہ اکثر ایک ہی ”ہلے“ میں اربوں کما لیتے ہیں اور حکومت تماشائی بنی شہریوں کے لٹنے کا تماشا دیکھتی رہتی ہیں ان مافیاز میں جو عام شہریوں کا خون چوسنے کی شہرت رکھتے ہیں شوگر مافیا، آٹا مافیا، سیمنٹ مافیا وغیرہ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ آپ پوچھیں گے حکومت ان کے سامنے کیوں بے بس ہے تو جواب نہایت سادہ سا ہے کہ ان مافیاز کے سربراہ حکومت میں شامل ہیں اور وہ اقتدار کا فائدہ اٹھا کر دولت کے انبار لگانا چاہتے ہیں ۔ پی آئی اے اور سٹیل ملز جنہیں منافع کمانا چاہئے نہ صرف قومی خزانے کی کی رگوں سے بے تحاشا خون چوس رہے ہیں اور ہماری معیشت کی رگ جان پر بوجھ بن کر بیٹھے ہوئے ہیں بلکہ کرپشن، اقرباء پروری اور سیاست نوازی کی نئی مثالیں بھی پیش کر رہے ہیں جنہیں پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے ، لوڈشیڈنگ کا عذاب ہمارے اعصاب پر سوار ہے لیکن اس حوالے سے سامنے آنے والی خبروں نے لوگوں کے ہوش اڑا دیئے ہیں ۔ ایک طرف اندھیرے ہمارے مقدر بن چکے ہیں اور معیشت کا پہیہ جام ہو چکا ہے تو دوسری طرف ہمیں اندھیروں میں دھکیلنے والے اس جانگاہ کھیل سے بھی دولت کما رہے ہیں ۔ اسی حوالے سے اس خبر نے مجھے سوچ میں مبتلا کر دیا ہے کہ رینٹل پاور پر پچاس ارب روپے خرچ ہوئے اور بجلی 20فیصد بھی پیدا نہ ہو سکی ۔ قوم شاید بجلی کی قیمت میں روز افزوں اضافہ برداشت کر لیتی اگر اسے لوڈشیڈنگ سے نجات مل جاتی، صنعتوں کا پہیہ چلتا رہتا اور مزدوروں کی روزی لگی رہتی لیکن یہاں تو یہ حال ہے کہ نہ ہی خدا ملا نہ ہی وصال صنم …لوڈشیڈنگ سے بھی نجات حاصل نہ ہوئی ، صنعتیں بھی ہچکیاں لینے لگیں، بیروزگاری کا عفریت سڑکوں پر نکل آیا اور اس پر عوام کو جرمانہ بھی برداشت کرنا پڑا، ظاہر ہے کہ یہ جرمانے مافیاکی کرپشن سے جیبیں بھرنے کا عام فہم سا نسخہ ہے ۔ حکومت کو اقتدار میں آئے چار برس ہونے کو ہیں۔ صرف تھرکول منصوبے پر عمل کرکے پانچ ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی تھی اور یہ کام اگر خلوص نیت سے کیا جاتا تو اب تک مکمل ہو چکا ہوتا ۔ نتیجے کے طور پر نہ سرمایہ دار پاکستان سے فرار ہوتا اور نہ ہی بیرونی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہوتی لیکن ہمارے کمیشن مافیا نے اس پر عمل نہ ہونے دیا۔ پن بجلی کے منصوبے کاغذوں پر بنتے رہے اور قومی خزانے سے دولت ضائع ہوتی رہی لیکن ابھی تک یہ کاغذی منصوبے کاغذی شیر ہی ہیں میں کس کس زخمی کا پردہ چاک کروں کہ سارا جسم ہی زخموں سے چور ہے ۔ غربت، مہنگائی، بیروگاری، کرپشن، لوٹ کھسوٹ، بدامنی، بے انصافی اور ظلم و زیادتی کے یہ زخم پاکستان کے جسم پر غیروں نے نہیں لگائے بلکہ یہ ہمارے اپنے لیڈروں ہی کا کارنامہ ہیں۔ اسی لئے میں بار بار عرض کرتا ہوں کہ یہ غربت اور دیگر شکنجے ہمارا مقدر نہیں، یہ میرے رب کی رضا نہیں بلکہ ہمارے نااہل، کرپٹ اور بدنیت حکمرانوں کا تحفہ ہیں ۔ ماہرین معیشت کہتے ہیں کہ کرپشن ہر سال ہمارے خزانے اور قومی آمدنی سے ایک ہزار ارب روپے چوری کر لیتی ہے دوسرے الفاظ میں یوں کہنا چاہئے کہ ہماری سالانہ کرپشن ایک ہزار ارب روپے کے لگ بھگ ہے ۔ میرا ادراک کہتا ہے کہ اس کرپشن میں وہ بھاری رقوم شامل نہیں جو مقتدر طبقے کک بیکس، کمیشن اور نذرانوں کی صورت میں بیرون ملک وصول کرتے اور بیرون ملک ہی رکھتے ہیں ۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستانی سیاست دانوں ، جرنیلوں، بیوروکریٹوں اور ٹیکس چوروں کے تقریباً پانچ سو ارب ڈالر سوئٹزر لینڈ کے بنکوں میں پڑے آرام فرما رہے ہیں۔ میرے خدا، ہوس کی بھی کوئی حد نہیں ہوتی۔ آخر یہ لوگ اس رقم سے کتنا کھا لیں گے اور کتنی عیش کر لیں گے؟ سوئٹزر لینڈ کے بنکوں میں پڑی اربوں ڈالر رقوم کا کوئی والی وارث ہیں کیونکہ ان کے مالکان مرغن غذائیں کھاتے کھاتے اللہ تعالیٰ کے پاس جا چکے اور دنیا میں ان کا کوئی حساب کتاب نہیں ۔ ملک کا خزانہ لوٹا گیا اور ہوس کی آگ بجھائی گئی لیکن بالاخر اس کا فائدہ سوئٹزر لینڈ کے بنکوں کو ہوا، جن ملکوں کا وہ نمک کھاتے اور جن ملکوں کی چاندنی میں نہاتے تھے ان کے خزانے کو پھیلا گئے ۔ یہی حشر ان پاکستانی حضرات کا ہو گا جنہوں نے پانچ سوارب ڈالر چرا کر سوئس بنکوں میں رکھے ہوئے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ یہ سلسلے کئی دہائیوں سے جاری رہے یہ ہرگز چند سالوں کا نوحہ نہیں۔ اس عرصے میں ستر،اسی، نوے کی دہائیوں میں یہاں کئی جمہوری اور فوجی حکومتیں آئیں لیکن کسی کو بھی بیرون ملک سے اثاثے اندرون ملک لانے کی توفیق نہ ہوئی نہ ہی کسی نے بیرون وطن لوٹی ہوئی رقم سے پردہ اٹھایا اور نہ ہی اسے واپس لانے کی کوشش کی۔ اس کی بنیادی وجہ ان سب کی ملی بھگت تھی۔ حکمران اور ان کے ساتھی اور حکمرانوں کے زیر سایہ پلنے والے مافیاز پاکستان کو لوٹتے رہے اور بیرون ملک ڈالروں کے انبار لگاتے رہے۔ کچھ غیر پختہ حضرات نے بیرون ملک بڑی بڑی جائیدادیں خرید لیں جن کی تفصیل گوگل پر دستیاب ہے۔ کروڑوں ڈالرز کی منی لانڈرنگ میں سبھی ملوث رہے اور دوسری طرف پاکستانی عوام کا غم بھی کھاتے رہے۔ گویا ان کا ایک ہاتھ غریب عوام کی جیب میں ہوتا تھا تو دوسرے ہاتھ سے ان کے آنسو پونچھے جاتے تھے۔ یہ سلسلہ دہائیوں سے جاری ہے کونسا لیڈر یا سیاستدان یا جرنیل اور بیورو کریٹ ہے جس نے بیرون ملک جلا وطنی کی صورت میں شہزادوں کی سی زندگی نہ گزاری ہو یا نہ گزار رہا ہو۔ ان سب کے بزرگ عام پاکستانی اور معمولی حیثیت کے لوگ تھے لیکن ان کی نسلیں ارب پتی ہو گئیں۔ برداشت کرتے کرتے عوام تنگ آ چکے ان کے صبر کا پیمانہ چھلک رہا ہے اوروہ اندر ہی اندر ابل رہے ہیں اس دوران تقریباً دو ڈھائی کروڑ نوجوان بھی ووٹر بن گئے ہیں جن کی کمٹ منٹ موجودہ مقتدر سیاسی جماعتوں میں سے کسی کے بھی ساتھ نہیں۔ وہ نہ ہی جیالے ہیں اور نہ ہی چوری کھانے والے طوطے۔ اور وہ پوچھتے ہیں کہ ہمیں اس لوٹ کھسوٹ کے کلچر سے کون نجات دلائے گا؟ وہ آزمائی ہوئی قیادت سے بدظن ہیں بلکہ اسے مجرم سمجھتے ہیں۔وہ تبدیلی اور بڑی تبدیلی چاہتے اور مانگتے ہیں ان میں جذبہ بھی ہے تحریک بھی ہے اور برج الٹنے کی خواہش بھی ہے۔ ان کا ایک ہی نعرہ ہے اور وہ نعرہ ہے تبدیلی، انقلاب۔ سوال یہ ہے کہ ان کے انقلابی افق پر ان امنگوں کی ترجمانی کون کرتا ہے؟ ظاہر ہے کہ جو ان کی امنگوں کی ترجمانی کرے گا وہی ان کا ہیرو ہوگا۔ اس لئے یارو نوٹ کر لو کہ آئندہ الیکشن اور انتخابات گزشتہ اور روایتی انتخابات سے مختلف ہوں گے۔ ضیاء الحق کے دور سے شروع ہونے والا جمہوری عمل جس کے تحت چار الیکشن ہوئے اور مشرفی دور کے انتخابات اب پس منظر میں جا چکے وہ انتخابات ایک خاص سیاسی سانچے میں ڈھلے ہوئے تھے جو ٹوٹ رہا ہے ان سانچوں کو توڑنے اور زنجیروں کو کاٹنے میں آزاد میڈیا نے اہم کردار سرانجام دیا ہے اس لئے آئندہ انتخابات کا انداز، ووٹ کا جھکاؤ اور عوامی موڈ گزشتہ انتخابات سے قدرے مختلف ہو گا اور بہت سے مروجہ پیمانے بدل جائیں گے۔ یکسر انقلاب تو شاید نہ آئے لیکن عظمت رفتہ کے اسیر دیکھتے رہ جائیں گے۔ میری دعا ہے کہ اس ملک کا مقدر بدلے اور مجھے لگتا ہے ہماری دعائیں قبول ہونے والی ہیں۔
 

No comments:

Post a Comment