Saturday 19 May 2012

کس انقلاب کی بات کرتے ہو. November 26, 2011


ایک ہی الو کافی ہے برباد گلستاں کرنے کو
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہوگا
پہلے تو میں آپ سے اس شعر کے پہلے مصرعے میں معصوم سی ترمیم کرنے پر معذرت کرلوں حالانکہ یہ ترمیم صورتحال کی عکاسی کرتی ہے۔ یادش بخیر۔ایوب خان کا دور حکومت تھا بلکہ ایوب خان پاکستان کے بادشاہ بنے ہوئے تھے اور ان کے سگے بھائی اور دیرینہ مسلم لیگی سردار بہادر خان قومی اسمبلی میں کبھی کبھار یہ شعر پڑھاکرتے تھے۔ سردار صاحب قائد حزب اختلاف تھے لیکن سچ یہ ہے کہ وہ حزب اختلاف نہ نورا کشتی تھی اور نہ ہی فرینڈلی اپوزیشن بلکہ یہ حقیقی اپوزیشن تھی جس کی سردار صاحب کو اپنے بھائی کی بادشاہت کے باوجود سزا بھی ملتی تھی۔اس دور میں نہ صدر صاحب زیادہ کرپٹ تھے نہ ان پر ملکی خزانہ لوٹنے کا الزام تھا ۔ آج تو گلستان کے ہر درخت، ہر پودے کی ہرٹہنی اور ہر شاخ پر الو بیٹھا ہے اس لئے باشعور طبقے پریشان ہیں کہ انجام گلستاں کیا ہوگا؟
پاکستان بنا تو صوبہ سرحد میں کانگریسی حکومت تھی جس کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر خان صاحب تھے جو خان عبدالغفار خان کے بھائی تھے۔ خان عبدالغفار کی سربراہی میں سرحد کی کانگریسی پارٹی نے قیام پاکستان کو قبول نہیں کیا تھا چنانچہ ڈاکٹر خان صاحب اور ان کی کابینہ 15اگست 1947ء کو پاکستان کے پرچم یعنی جھنڈے کو سلامی پیش کرنے کی تقریب سے کنارہ کشی کرگئی۔ بہانہ خطرات کا بنایا گیا ،چنانچہ ڈاکٹر خان صاحب کی کابینہ کو ڈسمس کردیا گیا۔ ون یونٹ کے قیام کے بعد ریپبلکن پارٹی مغربی پاکستان میں برسراقتدار آئی تو ڈاکٹر خان صاحب وزیراعلیٰ بن گئے کچھ ہی عرصہ بعد ڈاکٹر خان صاحب نے خود اپنے بھائی اور سیاسی رہنما اور سرحدی گاندھی خان عبدالغفار خان کو نظر بند کردیا کیونکہ ان پر امن عامہ کو خطرے میں ڈالنے کا الزام تھا۔
مقصد یہ کہ اقتدار اندھا ہوتا ہے اور اقتدار کے کچھ بنیادی تقاضے ہوتے ہیں جنہیں بہر صورت نبھانا پڑتا ہے۔ اقتدار سے باہر سیاستدان کچھ اور ہوتا ہے اور کرسی پر بیٹھنے کے بعد کچھ اور ہوتا ہے کیونکہ جلسے کرنے اور حکومت چلانے میں بڑا فرق ہے۔ حکومت میں آنے کے بعد ہر فیصلے غور و خوض، سرکاری ریکارڈ دیکھ کر، کابینہ اور پارلیمنٹ میں بحث کرنے کے بعداور مختلف محکموں میں بیٹھے ہوئے تجربہ کار بیوروکریٹوں کو سن کر کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر خان صاحب ہرگز اپنے سیاسی قائد اور بھائی کو نظر بند نہیں کرنا چاہتے تھے لیکن فائل پر ان کی کارروائیاں پڑھ کرمجبور ہوگئے۔ پرویز مشرف نے شب خون مارنے کے بعد اقتدار سنبھالا تو وہ حکومتی معاملات سے بالکل نابلد اور کورا تھا۔ جنرل نقوی نے ساری زندگی چھاؤنیوں میں گزاری تھی اور وہ زمینی حقائق اور سیاسی پیچیدگیوں کو سمجھنے سے عاری تھے۔ ضلعی ناظموں کا نظام تشکیل دیتے ہوئے انہوں نے ایس پی یا ڈی پی او کو ضلعی نظام کا تابع فرمان ماتحت بنادیا اور ضلعی پولیس انچارج کی رپورٹ لکھنے کا اختیار بھی ناظم کو دے دیا۔ اس شام سرراہے ایک نیم سیاسی وزیر صاحب سے ملاقات ہوئی تو میں نے پوچھا کہ کیا اس نظام کے نفاذ کے بعد ضلع میں ضلعی ناظم کے مخالف زندہ رہ سکیں گے، وہ مسکرائے اور کہنے لگے ڈاکٹر صاحب آپ ضلعی نظام کو بہتر سمجھتے ہیں۔ اس صورت میں تو ضلع ناظم اپنے مخالفوں کا قیمہ کردے گا۔ یہ فوجی حضرات ہمارے سیاسی تانے بانے، دھڑے بندیوں اور جوڑ توڑ کو نہیں سمجھتے۔ ہم انہیں سمجھانے کی کوشش کریں گے ،چنانچہ جب ضلع ناظم کے پروگرام کو حتمی شکل دی گئی تو جنرل نقوی کے اصرار کے باوجود ایسے اختیارات حذف کردئیے گئے جو ضلع ناظم کو ضلع آمر بناتے تھے۔30اکتوبر کو جب جذباتی جلسہ عام میں نوجوانوں کا ہیرو عمران خان تھانیدار کے انتخاب کا ذکر کررہا تھا تو مجھے یقین تھا کہ اگر وہ اقتدار میں آگیا تو ایسا نہیں کرے گا کیونکہ پاکستان انگلستان نہیں اور یہاں ابھی عوام کا شعور پختہ ہونے میں صدیاں لگیں گی۔ مجھے عمران خان کی مسئلہ کشمیر کی اگلی نسل پر چھوڑنے کی بات بھی اچھی نہ لگی کیونکہ میں اس مسئلے کے تمام پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد خلوص نیت سے محسوس کرتا ہوں کہ مسئلہ کشمیر کو التواء میں ڈالنے کا مطلب اسے سرد خانے میں ڈال کر ختم کرنا ہے جو ہمیں گوارہ نہیں۔ میں نہ ہمسایوں سے حالت جنگ میں رہنے کو مناسب سمجھتا ہوں اور نہ ہی تجارتی اور سیاسی تعلقات کو بڑھانے کا مخالف ہوں۔ گفتگو کے دروازے کھلے رہنے چاہئیں اور اپنے اختلافات اور مسائل پر گفتگو اور حل ڈھونڈھنے کا سلسلہ جاری رہنا چاہئے۔ مجھے لگتا ہے کہ اگر عمران کبھی اقتدار میں آیا تو وہ عوام کی نبض کو محسوس کرتے ہوئے اپنی پالیسی پر نظر ثانی ضرور کرے گا۔
ایک بار پھر کہہ رہا ہوں کہ میں نہ عمران خان کو جانتا ہوں اور نہ ہی اقتدار کی راہداریوں میں کسی عہدے کا امیدوار ہوں۔ عہدے بہت دیکھ لئے اب تو فقط بخشش کی تمنا ہے اور اسی تمنا کا تقاضا ہے کہ نہ قلم گروی رکھا جائے نہ ذہین نوٹوں یا عہدوں کے عوض بیچا جائے اور نہ کسی سیاستدان کا قلمی مزارعہ بنا جائے۔ رضا صرف اپنے رب کی اور خدمت قوم کی اپنا ماٹو(Motto) ہو تو شاید بیڑہ پار ہوجائے۔ سچی بات یہ ہے کہ میں جہاں بھی جاتا ہوں عمران کے ووٹر پاتا ہوں۔ اس کی مقبولیت تیزی سے پھیل رہی ہے۔ جوں جوں اس کے مخالفین اس پر ایجنسیوں کی حمایت، آئی ایس آئی کی سرپرستی، امریکی سازش وغیرہ وغیرہ کے الزامات لگاتے ہیں۔ اس کی جائیداد کا پوسٹ مارٹم کیا جاتا ہے تو لوگ پوچھتے ہیں کیا اس نے یہ جائیداد حکومت میں رہ کر ملکی خزانہ لوٹ کر بنائی؟کیا اس نے بنکوں کے قرضے ہضم کئے؟ کیا اس نے منی لانڈرنگ کی؟ اس کا دعویٰ ہے کہ اس نے سارے کام قانون کے مطابق کئے اور پورا ٹیکس ادا کیا ۔ سچی بات یہ ہے کہ میں عام محفلوں اور نوجوانوں سے یہ باتیں سن کرمحسوس کرتا ہوں کہ لوگ آزمائی ہوئی قیادت سے نجات چاہتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ جب دانشور عمران خان کے انقلاب کے بخیے ادھیڑتے ہیں اس کے دعوؤں کا تمسخر اڑاتے ہیں تو میں مسکرائے بغیر نہیں رہ سکتا کیونکہ میں نے گزشتہ دہائیوں میں تبدیلی لانے کا وعدہ کرنے والوں کے ساتھ یہی ہوتے دیکھا ہے جو طبقہ تبدیلی سے خوفزدہ ہوتا ہے دراصل وہ ”اسٹیٹس کو“ کا حامی ہوتا ہے ۔ میں نہیں جانتا عمران کس انقلاب کی بات کرتا ہے کیونکہ یہاں ایک انقلاب کی گنجائش تھی اور وہ پندرہ اگست 1947ء کو آچکا۔ آج کل تجزیہ نگار عمران کے انقلاب کا پوسٹ مارٹم کررہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ عوام اس انقلاب سے کیا مراد لیتے ہیں؟ میرے مشاہدے کے مطابق عوام کی انقلاب سے مراد سیاسی تبدیلی ہے وہ سمجھتے ہیں کہ اگر اس ملک کو قدرے ایماندار، محنتی اور اہل قیادت مل جائے تو پاکستان میں انقلاب آجائے گا ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ صرف ایماندار اور اہل قیادت ہی ملک میں امن بحال کرسکتی ہے، صنعتی اور زرعی شعبوں کی کارکردگی شاندار بنا سکتی ہے۔ خسارے میں جانے والی قومی اداروں کو منافع بخش بناسکتی ہے۔ قومی لیٹروں کا محاسبہ کرسکتی ہے اور عام شہریوں کے مسائل حل کرسکتی ہے۔ ایک محفل میں ایک نوجوان نے مجھ سے پوچھا” سر کیا ہماری روایتی اور آموزہ قیادت میں کوئی لیڈر کیمرج آکسفورڈ کا گریجویٹ ہے؟ میں سوچنے لگا تو وہ فوراً بولا پھر یہ حضرات عمران کو نااہلیت کا طعنہ کیوں دیتے ہیں وہ آکسفورڈ کا گریجویٹ ہے اور وہ ہی ملکی حالات بدلنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ ہم روایتی سیاستدانوں کو آزما چکے ہیں، آخر ہم کب تک انہی سوراخوں سے ڈسے جاتے رہیں گے…“ میں اس کی باتیں سن رہا تھا اور محسوس کررہا تھا کہ یہی انقلاب ہے بھلا اور انقلاب کیا ہوگا؟
 

No comments:

Post a Comment