Sunday 20 May 2012

قائداعظم اور مولانا اشرف علی تھانوی February 19, 2012


برادر عزیز، ہارون الرشید نے اپنے 14 فروری والے کالم میں لکھا ہے کہ ”روایت ہے مولانا اشرف علی تھانوی کا بھیجا ہوا علماء کا ایک وفد قائداعظم کی خدمت میں پہنچا اورملاقات میں دو نکات پر زرو دیا۔ اول سیاست اور مذہب اور دوم جھجکتے ہوئے کہا کہ اگرچہ ذاتی بات ہے مگر انہیں نماز پڑھنی چاہئے“۔ اسی کالم میں ہارون الرشید نے مجھ سے تفصیل لکھنے کی فرمائش کی ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ محض روایت نہیں بلکہ مستند واقعہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہے۔ میں نے 2001ء میں محترم ارشاد احمد حقانی صاحب مرحوم سے قلمی بحث میں اس کا حوالہ دیا تھا اور پھر افتخار احمد چودھری کے ساتھ یوم قائداعظم کے حوالے سے جیو کے پروگرام ”جوابدہ“ میں بھی عرض کیا تھا کہ قائداعظم کی مذہبی تربیت مولانا اشرف علی تھانوی کی ہدایت پرا ن کے ساتھیوں اور خواہر زادوں نے کی تھی جن کی قائداعظم سے طویل ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ ان ملاقاتوں کا نتیجہ تھا کہ انگلستان سے واپسی کے بعد قائداعظم کی تقریروں پر واضح مذہبی رنگ نظر آتا ہے، ان کی تقریروں میں جا بجا اسلام کے حوالے ملتے ہیں، خدا کے سامنے جوابدہی کے خوف کا خوف طاری ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ قائداعظم کی تقاریر کو بغور پڑھنے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ 1934ء کے بعد ان کے نظریات میں ایک واضح تبدیلی نظر آتی ہے، مذہب کی جانب جھکاؤ محسوس ہوتاہے اور ان کے تصور قومیت اور سیاست میں بنیادی تبدیلی دکھائی دیتی ہے۔ ظاہر ہے کہ قائداعظم کوئی مذہبی شخصیت نہیں تھے اور نہ ہی علامہ اقبال کی مانند ان کی مذہبی تربیت ہوئی تھی۔ وہ ایک کھرے اور سچے مسلمان تھے اور اسلام کی تعلیمات میں یقین رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنے طور پر اسلامی نظام، سیرت نبوی اور قرآن حکیم کا گہرا مطالعہ کیا تھا جس کے حوالے سے ان کی تقاریر میں جا بجا ملتے ہیں۔ وہ قرآن حکیم پر غور و فکر کرتے تھے اور اس کی گواہی نہ صرف منیر احمد منیر کی کتاب ”دی گریٹ لیڈر“ کے عینی شاہدین دیتے ہیں بلکہ جنرل محمد اکبر کی کتاب ”میری آخری منزل“ سے بھی ملتی ہے۔ گنتی کے مطابق قائداعظم نے قیام پاکستان سے قبل 101دفعہ اور قیام پاکستان کے بعد چودہ دفعہ اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان کے آئینی ڈھانچے اور نظام کی بنیاد اسلامی اصوبوں پر رکھی جائے گی اور انہوں نے یہ بات تو کئی بار کہی کہ ”قرآن مجید“ ہمارا راہنما ہے۔ حتیٰ کہ سٹیٹ بینک کی افتتاحی تقریر میں بھی اسلامی اصولوں کی بنیاد پر اقتصادی نظام تشکیل دینے کی آرزو کا اظہار کیا۔ مجموعی طور پر قائداعظم پاکستان کو اسلامی جمہوری اور فلاحی ریاست بنانا چاہتے تھے، مذہبی ریاست ہرگز نہیں کیونکہ اسلام میں تھیوکریسی کا کوئی تصور موجود نہیں۔ افسوس تو اس بات پر ہوتا ہے کہ ہمارے سیکولر دانشوروں نے قائداعظم کی تقاریر کو پڑھا ہی نہیں اور نہ ہی ان کی روح کو سمجھا ہے۔ وہ فقط چند ایک تقاریر پڑھ کر اپنا مطلب نکال لیتے ہیں اور اس پہلو پر غور کرنے کی زحمت نہیں فرماتے کہ وقت گزرنے کے ساتھ کب اور کیسے قائداعظم کے نظریات میں تبدیلی آتی گئی اورانہوں نے مسلمانوں کے حوالے سے ”اقلیت“ سے ”قومیت“ تک کا سفر کیسے طے کیا۔ اقبال کا فکری ارتقاء بھی اسی حقیقت کی غمازی کرتا ہے۔ اسلام مخالف اور دین بیزار حضرات قائداعظم کو سیکولر ثابت کرتے رہتے ہیں اور ان کے علم کاحال یہ ہے کہ وہ ا کثر دعوے کرتے پائے جاتے ہیں کہ قائداعظم نے کبھی پاکستان کو اسلامی مملکت بنانے کا اعلان نہیں کیا۔ یہ سطحیت کی حد ہے کیونکہ قائداعظم نے فروری 1948ء میں امریکی عوام کے نام براڈ کاسٹ میں پاکستان کو ”پریمیئر اسلامک اسٹیٹ“ قرار دیا تھا۔ (بحوالہ قائداعظم کی تقاریر جلد چہارم صفحہ 1064تدوین خورشید یوسفی) البتہ سیکولر کا لفظ کبھی ان کی زبان سے نہیں نکلا۔ قائداعظم کے نظریات کیا تھے اور وہ پاکستان کو کیسی ریاست بنانا چاہتے تھے، یہ میرا ذاتی مسئلہ نہیں لیکن دین بیزار حضرات اس حوالے سے جب قائداعظم کومولوی محمد علی جناح کہتے اور مجھ پر پھبتی کستے ہیں تو میں محظوظ ہوتا ہوں اور دعا مانگتا ہوں کہ اللہ انہیں قائداعظم کی تقاریر پڑھنے کی توفیق دے۔ رہا آج کا پاکستان تو وہ نہ اسلامی ہے نہ جمہوری ہے اورنہ ہی فلاحی ہے بلکہ آمریت اور جمہوریت کا ملغوبہ ہے ،جہاں اقتدار اور سیاست پر دولت کی اجارہ داری ہے، نیم خواندہ، نظریاتی منافق اور ہوس زدہ طبقے چھائے ہوئے ہیں اور عوام کے نام پر عوام کے لئے بنائے گئے پاکستان میں عوام پس رہے ہیں۔
بات چلی تھی مولانا اشرف علی تھانوی اور قائداعظم کی مذہبی تربیت کے حوالے سے اور قدرے دور نکل گئی۔ اس ضمن میں جس تفصیل کا مطالبہ کیا گیا ہے وہ منشی عبد الرحمن خان مرحوم کی کتاب ”تعمیر پاکستان اور علمائے ربانی میں“ تفصیل سے موجود ہے اور پڑھنے کے لائق ہے۔ منشی عبد الرحمن مرحوم نے بڑی محنت اور تحقیق سے مواد جمع کیا ہے اور قائداعظم کے حوالے سے ان گوشوں پر روشنی ڈالی ہے جن کا ذکر نہ ہماری تحریک پاکستان پر لکھی گئی کتابوں میں ملتا ہے اور نہ ہی مغربی سکالرز قائداعظم کی سوانح لکھتے ہوئے انہیں قابل توجہ سمجھتے ہیں کیونکہ یہ انہیں ”سوٹ“ (Suit)نہیں کرتا۔ آج کا نوجوان تو یہ بھی نہیں جانتا کہ مولانا اشرف علی تھانوی بہت بڑے سکالر، تفسیر قرآن اور سیرت نبوی کے عظیم مصنف اور بڑی روحانی شخصیت تھے۔ ایسی شخصیت کا مسلمانوں کے مستقبل کے بارے میں متفکر رہنا قابل فہم ہے۔ مولانا شبیر علی تھانوی کی ”روئیداد تبلیغ“ کا حوالہ دیتے ہوئے منشی عبد الرحمن مرحوم نے لکھا ہے ”حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی دوپہر کا کھانا نوش فرما کر قیلولہ کے لئے خانقاہ میں تشریف لائے اور مجھے آواز دی۔ حاضر ہوا تو حضرت متفکر تشریف فرما تھے۔ (یہ مئی 1938کا واقعہ ہے) اس زمانہ تک قرارداد پاکستان منظور نہیں ہوئی تھی مگر کانگرس اورہندوؤں کی ذہنیت بے نقاب ہوچکی تھی… حضرت نے دو تین منٹ کے بعد سر اٹھایا اور ارشاد فرمایا ”میاں شبیر علی ہوا کا رخ بتا رہا ہے کہ لیگ والے کامیاب ہو جاویں گے اور بھائی جو سلطنت ملے گی وہ ان ہی لوگوں کو ملے گی جن کو آج ہم فاسق فاج کہتے ہیں، مولویوں کوتو ملنے سے رہی۔ لہٰذا ہم کو یہ کوشش کرنا چاہئے کہ یہی لوگ دین دار بن جاویں۔ آج کل کے حالات میں اگر سلطنت مولویوں کو مل بھی جاوے تو شاید چلا نہ سکیں گے… ہم کو تو صرف یہ مقصد ہے کہ جو سلطنت قائم ہو وہ دیندار اور دیانتدار لوگوں کے ہاتھ میں ہو اور بس…“
میں نے ارشاد سن کر عرض کیا کہ پھر تبلیغ نیچے کے طبقہ سے شروع ہو یا اوپر کے طبقہ یعنی خواص سے۔ اس پرارشاد فرمایا کہ اوپر کے طبقہ سے کیونکہ وقت کم ہے اور خواص کی تعداد بھی کم ہے۔ اگر خواص دیندار بن گئے تو انشاء اللہ عوام کی بھی اصلاح ہو جائے گی۔ اس پس منظر اور اس جذبے کے تحت مولانا اشرف علی تھانوی نے ایک وفد ترتیب دیا،نواب محمد اسماعیل کے ذریعے قائداعظم سے ملاقات کا انتظام کیا جس کا احوال اگلے کالم میں بیان کروں گا انشاء اللہ… فی الحال اتنا ذہن میں رکھیں کہ نواب محمد اسماعیل مسلم لیگ کے سرکردہ لیڈر تھے اور دسمبر 1947میں جب مسلم لیگ کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا اور ہندوستان کے لئے انڈیا مسلم لیگ بنائی گئی تو نواب اسماعیل اس کے پہلے صدر تھے۔ (جاری ہے) 


No comments:

Post a Comment