Sunday 20 May 2012

باوجود April 18, 2012


حسین ان نوجوانوں میں سے ہے جو زندگی کے بہتر مواقع کی تلاش میں بیرون ملک چلے گئے اور وہاں اپنے خوابوں کو عملی جامہ پہناتے رہے جبکہ میں ان ”جوانوں“ میں سے ہوں جنہیں زندگی نے کئی بار مواقعے دیئے لیکن انہوں نے اپنی دھرتی پر ہی رہنے کو ترجیح دی۔حسین بیرون ملک بہت خوش ہے کیونکہ اس کے پاس خوبصورت بنگلہ، قیمتی کاریں اور اچھی بیوی ہے اور اس کے بچے عالمی سطح کے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہیں۔ یہی اس کے خواب تھے اور انہی کی عملی تعبیر کے لئے وہ باہر گیا تھا۔ میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اگر میں بھی جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی سینے پر اچھی تعلیمی ڈگریاں سجا کر بیرون ملک چلا جاتا تو میرے پاس بھی زندگی کی وہ ساری نعمتیں ہوتیں جو پاکستان میں کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہیں۔ نہ جانے کیوں جب میں یہ تصور کرکے ماضی کی وادیوں کا سفر کرتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ بیرون ملک مجھے قیمتی گاڑیاں، خوبصورت بنگلہ، صاف شفاف فضا اور اعلیٰ معیار زندگی تو مل جاتا لیکن گھٹ گھٹ کر وقت سے پہلے مرجاتا۔ یہ میری ذاتی کیفیت ہے اس لئے اس نسخے کا اطلاق باقی لوگوں پر نہیں ہوتا۔ ہر شخص کا اپنا اپنا مزاج اور اپنی اپنی فطرت ہوتی ہے مجھے لگتا ہے کہ اگر میں بیرون ملک ہجرت کر گیا ہوتا تو میں صفدر محمود نہ بن سکتا، کوئی اور شے ہی بنتا۔ کوئی اور شے سے میری مراد نیم پاکستانی، نیم برطانوی، نیم کینیڈین یا نیم امریکی ہے۔ میرے بے شمار دوست، عزیز اور جان پہچان والے لوگ بیرون ملک ہجرت کر چکے ہیں۔ میں ان سے بیرون ملک ملتا ہوں تو ہ ہر لمحے وطن کی یاد میں ٹھنڈی آہیں بھرتیں پائے جاتے ہیں لیکن جب برسوں بعد ایک ماہ کی چھٹی پر وطن تشریف لاتے ہیں تو ایک ہفتے بعد اپنے دوسرے وطن کی یاد میں ٹھنڈی آہیں بھرنی شروع کر دیتے ہیں اور اکثر دو ہفتے گزار کر واپس فلائی کر جاتے ہیں۔ ان کی اولاد سے ملو تو وہ نہ پاکستانی لگتے ہیں اور نہ ہی پاکستان کے بارے میں کچھ جانتے ہیں چنانچہ ان گھروں کا ماحول چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پستا رہتا ہے۔ اوپر والا پاٹ جو بچوں پر مشتمل ہوتا ہے خالصتاً اس ملک کی نمائندگی کرتا ہے جہاں وہ ہجرت کرکے گئے جبکہ نیچے والا پاٹ ماں باپ پر مشتمل ہوتا ہے جو پاکستان میں پروان چڑھے اور جن کے خون میں دھرتی، محلے، گلی، شہر، کالج کی یادیں رچی بسی ہیں اور جن کی رگوں میں پاکستان سے محبت موجزن ہے جسے وہ کوشش کے باوجود نہ بھلا سکے ہیں نہ اندر سے نکال سکے ہیں۔
اس نوجوان حسین کا (والد) میرا گہرا دوست تھا لیکن عمر میں مجھ سے کافی بڑا تھا۔ وہی ہوا جو عام طور پر ایسے رشتوں میں ہوتا ہے۔ آج سے کئی برس قبل وہ مجھے چھوڑکر ہمیشہ کے لئے شہر خاموشاں میں چلا گیا۔ دراصل مخلص دوست زندگی کا قیمتی ترین اثاثہ ہوتا ہے اور اس کی اس جہاں سے رخصتی نہ صرف قلب و ذہن کو ہمیشہ کے لئے مغموم کر دیتی ہے بلکہ یادوں کی ایک بھاری گٹھڑی بھی ذہن پر لاد دیتی ہے جس سے چھٹکارا حاصل کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ کچھ عرصہ قبل میں سمن آباد لاہور سے اپنے مخلص دوست جناب مصطفی صادق صاحب کی نماز جنازہ ادا کرکے لوٹ رہا تھا تو مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اس علاقے کی ہر سڑک اور گلی کے ساتھ میری اور ان کی یادیں لپٹی ہوئی ہیں۔ دوست چلے جاتے ہیں لیکن یادوں کا گلستان چھوڑ جاتے ہیں بس یہی زندگی ہے حسین کا والد میرا پیارا دوست تھا اور حسین کو اپنے والد سے بے پناہ پیار ہے۔ وہ اپنے والد کے جنازے میں تو شرکت نہ کر سکا لیکن جب بھی وطن آتا ہے اپنے والد کی قبر پر آنسو بہاتا رہتا ہے اور پھر اپنے والد کاذکر سننے کے لئے، ان کی یادوں کے پھولوں کی مہک سونگھنے کے لئے اپنے والد کے دو تین قریبی دوستوں سے ضرور ملتا ہے۔ میرے ساتھ وہ سب سے زیادہ وقت گزارتا ہے اور کبھی کبھی مجھے یوں لگتا ہے جیسے وہ میرے ناتواں جسم میں اپنے والد کو تلاش کر رہا ہے جو نہایت مضبوط جسم کے مالک تھے۔
چند روز قبل وہ مجھے ملنے آیا تو میں اخبارات کھولے خبریں ”سونگھ“ رہا تھا۔ وہ کوئی سات آٹھ برس بعد پاکستان آیا تھا اور اس ملک کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں رکھتا تھا۔ میرے سامنے کھلے اخبارات پر نظریں دوڑانے لگا، خبریں پڑھتے پڑھتے اچانک بولا ”انکل! یہ کیا خبر ہے کہ بنوں کی جیل پر حملہ کرکے سینکڑوں قیدی چھڑا لئے گئے، ان میں مشرف کے ملزم اور بہت سے خطرناک قیدی بھی تھے؟“ میں نے جواباً کہا کہ ”ہاں، ایسا ہی ہے“ پھر کہنے لگا کہ ”انکل! یہ کوئٹہ میں ہزارہ قبیلے کے بے شمار لوگ احتجاج کر رہے ہیں، گزشتہ چند ماہ میں اس قبیلے کے بے شمار لوگوں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا ہے“ میں نے ہاں میں جواب دیا اور اخبار پر نظریں دوڑانے لگا۔ چندلمحوں بعد حسین پھر بولا ”انکل! یہ کراچی لیاری میں کیا میدان جنگ سجا ہے، سڑکوں پر احتجاج اور ٹائر جلائے جا رہے ہیں، گولیاں چل رہی ہیں، لوگ مر رہے ہیں“۔ اس بار میں خاموش رہا اور ایک عجیب سے احساس ندامت نے مجھے گھیرلیا۔ وہ میری ذہنی کیفیت نہ پڑھ سکا۔ بولا ”میں جب سے آیا ہوں پنجاب میں بہت سی گینگ ریپ کی خبریں پڑھ چکا ہوں۔ تین وارداتوں میں پولیس خود ملوث تھی۔ چند ایک ایسی خبریں بھی میری نظر سے گزری ہیں جہاں پولیس والوں نے کسی ملزم کو اتنا مارا کہ وہ مر گیا اور پولیس والے اس کی میت اس کے گھر کے باہر پھینک آئے۔ شاید ہی کوئی دن گزرتا ہو کہ پنجاب پولیس کے ٹارچر سے کوئی ملزم مرتا نہ ہو۔ آپ شہباز شریف کی تعریف کرتے ہیں لیکن یہ سامنے والے اخبار میں خبر چھپی ہوئی ہے کہ وزیراعلیٰ کی لیپ ٹاپ تقسیم کرنے کی تقریبات پر دس کروڑ روپے صرف ہو چکے ہیں اور بہت سے تعلیمی ادارے ان اخراجات کے بوجھ تلے دب کر کنگال ہوچکے ہیں۔ دوسری طرف یہ عالم ہے کہ پنجاب میں تیس (30)ہزار سکول ایسے ہیں جہاں تعلیم کی بنیادی سہولتیں میسر نہیں اور ان سکولوں میں غریب بچے پڑھتے ہیں۔ لاہور میں ایک فلائی اوور کو سال دو سال کے لئے ملتوی کرکے ان سکولوں کی ضروریات پوری کی جاسکتی ہیں۔ ان سکولوں میں پڑھنے والے بچوں کا مستقبل کیا ہے؟ وہ بڑے ہو کر کیا کریں گے اور اپنی بدحالی کے لئے کس کو دعائیں دیں گے؟ یہ سامنے رکھے ہفت روزہ میں لکھا ہے کہ خادم اعلیٰ پنجاب نے پانچ گھروں کو سرکاری رہائش گاہیں قرار دے رکھا ہے اور لاکھوں روپے روزانہ کا بوجھ خزانے پر پڑ رہا ہے“۔ میں خاموشی سے اس کی باتیں سنتا رہا اور وہ وقفے وقفے سے تیر چلاتا رہا۔ جب اس نے محسوس کیا کہ اب میں ”ہوں ،ہاں“ میں بھی جواب نہیں دیتا تو وہ قدرے اونچی آواز سے بولا ”انکل! کیا پاکستان میں کوئی حکومت ہے“؟ میں نے جواباًکہا ”کیوں نہیں۔ ماشا اللہ منتخب جمہوری حکومت موجود ہے“۔ وہ مسکرایا اور بولا ”انکل میرے ساتھ مذاق نہ کریں، جہاں حکومتیں ہوں وہاں جیلوں پر حملہ کرکے قیدی نہیں چھڑائے جاتے، وہاں ایک ہی مقام پر مخصوص لوگوں کو بار بار قتل عام کا نشانہ نہیں بنایا جاتا، وہاں شہری علاقے میدان جنگ نہیں بنتے اور نہ ہی اخبارات پولیس مظالم سے بھرے ہوتے ہیں، وہاں شہریوں کو گھروں سے اٹھایا جاتا ہے نہ اس طرح لوٹ مار اور بے انصافی کے بازار سجتے ہیں…؟“ میں اس کے الزامات سنتا رہا۔ وہ خاموش ہوا تو میں نے کہا ”بیٹا تم ٹھیک کہتے ہو لیکن یہ میرا پاکستان ہے اور ان تمام حقائق کے باوجود مجھے دل و جان سے پیارا ہے“۔ حسین نے لمبی سانس لی اور کہنے لگا ”انکل آپ ٹھیک کہتے ہیں“۔ 
 

No comments:

Post a Comment