Monday 4 June 2012

بجٹ کا دنگل۔ Sunday, June 03, 2012

آپ کو بجٹ کا انتظار تھا آپ کا خیال تھا کہ یہ انتخابی سال ہے اس لئے حکومت عوام کو کئی ”لولی پاپ“ دے گی۔ مجھے بجٹ کا انتظار نہیں تھا کیونکہ مجھے اندازہ تھا کہ ہمارا خزانہ خالی ہو چکا ہے، لوٹ مار سے کچھ نہیں بچا، قومی ادارے بشمول ریلوے، اسٹیل ملز، پی آئی اے بجلی گھر وغیرہ سب کچھ بکھر چکا ہے اور ان کے ساتھ ہی قوم کے خواب بھی بکھر چکے ہیں ۔ قوم کے خواب کیا تھے ؟ 1971ء سے پہلے یہ قوم دلّی کے لال قلعے پر جھنڈا لہرانا چاہتی تھی ۔ بات غلط بھی تھی اور غیر حقیقی بھی لیکن قوم کے ارادے بلند، مورال بلند اور خواب حسین تھے ۔ 1971ء نے وہ خواب چکنا چور کر دیا۔ اب قوم کا خواب جمہوریت، انصاف، قانون کی حکمرانی، امن، غربت و بیروزگاری میں کمی، خوشحالی معاشرتی برابری وغیرہ تھیں جنہیں گزشتہ چند برسوں میں یوں بکھیر دیا گیا جیسے کسی عمارت کو ایک ایک اینٹ اکھاڑ کر بکھیرا جاتا ہے۔ گزشتہ سال سے عوام اور قوم فقط جینے کا حق مانگتے تھے اور یہی توقع انہیں اس بجٹ سے تھی اسی خواب کو آنکھوں میں سجائے وہ بجٹ کے منتظر تھے ۔ کیا آپ کا وہ خواب پورا ہوا؟ حکومت نے عوام کو کوئی ریلیف دیا؟ میں ماہر معاشیات نہیں، میں فقط تاریخ و سیاست کا طالب علم ہوں اس لئے میری رائے سطحی ہے کہ حکومت نے لوگوں کو سانس لینے کے لئے آکسیجن مہیا نہیں کی۔ چنانچہ مہنگائی، غربت، بیروزگاری کا گھوڑا سرپٹ دوڑتا رہے گا، لوگ زندگی کی سانس گھٹنے کے سبب خودکشیاں کرتے رہیں گے، حکمران اپنے ملکی و غیر ملکی دوروں پر کروڑوں خرچ کرتے رہیں گے۔ جناب آصف زرداری ہمارے ملک کے رئیس ترین شہری ہیں اگرچہ دنیاوی معیار اور پیمانے کے مطابق میاں منشاء پاکستان کا امیر ترین شخص ہے ۔ میں دنیاوی پیمانوں کو اس لئے اہم نہیں سمجھتا کہ وہ ظاہری اثاثوں کی بنا پر دولت کا اندازہ لگاتے ہیں جبکہ ماشا اللہ صدر صاحب کے خفیہ اثاثے بھی بہت ہیں ۔ امیر ترین شخص ہونے کے باوجود انہوں نے اجمیر شریف کو عقیدت کا نذرانہ فقط 9کروڑ روپے اپنی وسیع جیب سے نہیں دیئے بلکہ حکومتی خزانے کو گولی دی ہے ۔ انہوں نے پارلیمینٹ کی منظوری کے بغیر ایسا کس قانون کے تحت کیا ، یہ راز اس وقت کھلے گا جب کوئی صاحب دل سپریم کورٹ میں رٹ کریں گے میری اس بات پر وہ تمام صاحبان تڑپیں گے جن کے ہاتھ ہمیشہ صدر صاحب کی جیب میں ہوتے ہیں حالانکہ صدر صاحب کچی گولیاں نہیں کھیلتے، وہ ان ہاتھوں کو اپنی جیب سے نکال کر خزانے میں منتقل کر دیتے ہیں۔ وقت آنے پر مثالیں دیکر ثابت کروں گا ۔ اب آپ ہی بتائیے یہ جمہوریت ہے یا آمریت کہ پارلیمینٹ سے منظوری لئے بغیر صدر صاحب نے 9کروڑ روپے کا نذرانہ دے دیا۔ جن دنوں جان میجر انگلستان کا وزیر اعظم تھا اور میاں نواز شریف پاکستان کے وزیر اعظم تھے تو حسن اتفاق سے پاکستان کی ٹیم انگلستان میں میچ جیت گئی ۔ میاں صاحب نے خوشی کی لہر پر سوار ہو کر ٹیم کے لئے پچاس ہزار پونڈ انعام کا اعلان کر دیا۔ جان میجر نے چٹکی لیتے ہوئے فقرہ کسا ”مجھے وزیر اعظم ہاؤس کے بوسیدہ فرنیچرکو بدلنے کے لئے پارلیمینٹ سے پانچ ہزار پونڈ منظور کروانے کے لئے کئی برس لگ گئے ۔ پاکستانی وزیر اعظم نے کھڑے کھڑے پچاس ہزار پونڈ انعام کا اعلان کر دیا ۔دراصل حکومت برطانیہ خود تو جمہوری اصولوں کے تحت چلتی ہے لیکن 1947ء میں رخصتی کے وقت پاکستان کو فیوڈل جمہوریت کا تحفہ دے گئی جس میں ہر وزیر اعظم اور ضرورت پڑنے پر صدر مملکت وائسرائے ہی ہوتا ہے ۔ اور اسی طرح رعایا سے سلوک کرتا ہے ۔ رعایا بھوک سے مرے یا لوڈشیڈنگ سے دم گھٹنے پر مرے، وہ اپنی عیش وعشرت میں مصروف رہتے ہیں ۔ صدر صاحب نے اس طرح کسی منظوری کے بغیر ہندوستان کے آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کے رنگون میں مزار کی مرمت کے لئے بھی خاصی بڑی رقم ڈالروں میں سری لنکا کو دے دی ۔ میں نے یہ خبر پڑھی تو دل میں انہیں معاف کر دیا کیونکہ صدر صاحب کو مقبروں سے خاص عقیدت ہے اور وہ خود بھی بے نظیر بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو کے مزارات کی پیداوار ہیں ۔رنگون میں مغلیہ خاندان کے آخری حکمران پر ہندوستان کی حکومت اپنا حق جتاتی ہے لیکن مرمت کے لئے رقم پاکستان سے جاتی ہے کیونکہ یہاں بادشاہ حکمران ہوتے ہیں اور بادشاہ ہی بادشاہوں کا خیال کرتے ہیں۔ ہاں تو میں عرض کر رہا تھا کہ خزانہ خالی اور ہاتھ میں کشکول، لوڈشیڈنگ بے قابو اور صنعت وحرفت تباہ، غربت اور مہنگائی بھنگڑے ڈالتی اور عوامی احتجاج قانون ہاتھ میں لیکر سرکاری املاک جلاتے، اس پر طریٰ یہ کہ سارے قومی ادارے عبرت کا نشان اور کرپشن کی داستان، ان حالات میں بھلا بجٹ سے آپ کس کرامت یا معجزے کی توقع رکھتے تھے ؟؟میری توقع پوری ہوئی غریب قوم کے رئیس حکمرانوں نے ایوان صدر اور وزیر اعظم ہاؤس کے منظور شدہ اخراجات سے تجاوز کیا اور کروڑوں مزید خرچ کر ڈالے، دفاع پر اخراجات میں اضافہ اپنی جگہ لیکن اصل ترجیح تعلیم اور صحت اور صنعت و روزگار ہونی چاہئے۔ وفاقی بجٹ آپ کا، اب دیکھتے ہیں صوبے ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں کیونکہ تعلیم تو مکمل طور پر صوبوں کی اجارہ داری بن چکی ہے ۔ وفاق کی اولین ترجیح انرجی بحران کا خاتمہ ہونا چاہئے تھی لیکن اس کے آثار ناپید ہیں ۔ سوا چار سال اقتدار میں گزارنے کے باوجود حکومت نے انرجی/ بجلی پیدا کرنے کے لئے قابل عمل نئے منصوبے شروع نہیں کئے ۔ خلوص نیت اور ویژن اور صلاحیت ہوتی تو ان چار برسوں میں انرجی بحران پر خاصا قابو پایا جا سکتا تھا لیکن ہماری قسمت کہ ملک پر نالائقوں اور لوٹنے والوں کی حکمرانی ہے ۔ ان حالات میں مسائل کے حل کی توقع عبث، اس کے باوجود میں گیلانی صاحب کو مبارک باد دیتا ہوں کہ وہ ہماری تاریخ کے پہلے وزیر اعظم ہیں جنہوں نے مسلسل پانچ بجٹ اسمبلی میں بیٹھ کر سنے۔ بھٹو صاحب بال بال بچے وہ بھی یہ اعزاز حاصل کر لیتے اگر وہ اقتدار میں آنے کے بعد صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر نہ بنتے ۔ اگر یہ اعزاز کوئی اعزاز ہے تو گیلانی صاحب کو مبارکیں ہی مبارکیں۔ قوم کو مبارک دینے کی جسارت نہیں کر سکتا، البتہ جیالوں کو مبارک جن کے لئے ایک لاکھ روزگار پیدا کرنے کی خوشخبری سنائی گئی ہے ۔میں نے عرض کیا کہ بجٹ کا تجزیہ تو ماہرین معاشیات ہی کریں گے لیکن تاریخ و سیاست کا طالب علم ہونے کے ناطے مجھے اس دنگل سے زیادہ دلچسپی ہے جو بجٹ کے دن اسمبلی میں دیکھنے میں آیا اور جس نے پہلوانوں کے اکھاڑے اور مکا بازوں کے مقابلے کی یاد تازہ کر دی ۔ کالم کا دامن تنگ ہے۔ مختصر یہ کہ یہ ہنگامہ پارلیمینٹ اور جمہوریت کے خلاف چارج شیٹ میں ایک ”اہم چارج“ کا اضافہ ہے جس کا پارلیمینٹ کے ”پہلوانوں “ کو بالکل ادراک نہیں ۔ میں گزشتہ سوا چار برسوں کی جمہوریت پر نظر ڈالوں تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اس صورتحال کے ذمہ دار حکومت اور اپوزیشن دونوں ہیں ۔ پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کی کوتاہ نظری، مفاہمت سے لیکر مخالفت تک، اصولوں سے لیکر بے اصولی تک، ملک و قوم کو اس مقام پر لے آئے ہیں جہاں نہ مسائل حل ہو سکتے ہیں نہ بہتری کی خبر آ سکتی ہے ۔ انہی پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ پارلیمینٹ مکابازوں کے رنگ (RING) یعنی اکھاڑے میں تبدیل ہو گئی ہے اور باشعور طبقوں کی گردنیں شرم سے جھک گئی ہیں۔ خدانخواستہ اگر سسٹم ڈی ریل ہوا تو اسکی ذمہ داری دونوں پر ہو گی۔

عجب شناسائی، Friday, June 01, 2012

بہ بھی آشنائی کی ایک عجیب قسم ہے کہ کبھی کبھار آپ کی نگاہیں کسی چہرے پر پڑتی ہیں تو آپ کو احساس ہوتا ہے کہ یہ چہرہ شناسا ہے، شاید ہم کہیں ملے ہیں یا کسی مقام پر اکٹھے رہے ہیں۔ اب تو میں اس مخمصے کی زیادہ تحقیق نہیں کرتا لیکن جوانی کے دور میں جب کبھی ایسا ”حادثہ“ ہوتا تو میں متعلقہ شخص سے ضرور پوچھتا کہ کیا ہم کبھی ملے ہیں یا میں آپ سے کہاں ملا ہوں؟ پھر کوشش کے باوجود ہم کوئی وجہ آشنائی یا مشترکہ جگہ تلاش نہ کرسکتے۔ یوں یہ راز، راز ہی رہتا۔ ویسے زندگی رازوں سے بھرپور شے ہے۔ شاید اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے زندگی کو راز کی مٹی سے ہی پیدا کیا ہے۔ کچھ راز زندگی میں افشا ہوجاتے ہیں، کچھ نہیں ہوتے اور ہم تصور کرلیتے ہیں کہ یہ راز اگلی زندگی میں یا موت کے بعد کھلیں گے۔ یہ کہانی عام انسان کی ہے جبکہ صاحبان نظر یا صاحبان باطن پر بہت سے راززندگی ہی میں منکشف کردئیے جاتے ہیں اور یہ انکشاف بھی اپنی اپنی حیثیت اور مرتبے کے مطابق ہوتا ہے۔ حیثیت اور مرتبے سے مراد روحانی مقام ہے اور روحانی مقام سے مراد قرب الٰہی ہے اور قرب الٰہی عبادت و ریاضت سے حاصل ہوتا ہے۔ اس کے باوجود بہت سے راز…کائنات کے راز… قرب الٰہی حاصل ہونے کے باوجود نہیں کھلتے کیونکہ یہی منشاء الٰہی ہے۔ اقبال میرا پسندیدہ شاعر ہے اور کبھی کبھی تنہائی میں اقبال کے کسی شعر اور مصرعے پر غور کرتے ہوئے مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اقبال کائنات کا کوئی راز فاش کررہا ہے۔ یہی اقبال کے صاحب نظر ہونے کی علامت ہے۔ یہ الگ بات کہ وہ راز تو میری سمجھ میں نہیں آتا کیونکہ میری پرواز عام انسان کی پرواز ہے لیکن یہ احساس ضرور ہوتا ہے کہ اس شعر میں کوئی کائناتی راز مخفی ہے۔ بات دور نکل گئی، میں عرض کررہا تھا کہ زندگی کی دوڑ اور ہجوم میں بعض اوقات ایسے لوگوں سے آمنا سامنا ہوجاتا ہے جو شناسا لگتے ہیں۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے مجھے یقین ہے آپ بھی اس تجربے سے اپنی عمر اور ”دوڑ“ کے حساب سے ضرور گزرے ہوں گے۔ طویل عرصہ قبل میں حضرت علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش کی کتاب کشف المحجوب پڑھ رہا تھا تو میرا یہ مخمصہ اور معمہ حل ہوگیا۔ سید علی ہجویری نے لکھا ہے کہ بعض روحیں عالم ارواح میں آپ کے قریب رہی ہوتی ہیں۔ایسے اشخاص جب آپ کو زندگی کے سفر کے دوران کہیں مل جائیں تو وہ آپ کو شناسا لگتے ہیں حالانکہ دنیا میں آپ کی ان سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی ہوتی۔ اصل شے تو روح ہی ہے جسے بقاء حاصل ہے۔ جسم تو فانی ہے مٹی میں مل کر مٹی ہوجاتا ہے۔ ہاں کبھی کبھی ایسا نہیں بھی ہوتا کیونکہ یہ تو میرے رب کی قدرت اور رضا ہے وہ چاہے تو مٹی بنا دے، چاہے تو مٹی نہ بننے دے۔ گویا یہ شناسائی روحوں کی ہوتی ہے جسے میں عجب شناسائی کہتا ہوں۔ محترم سرفراز اے شاہ صاحب ہمارے دور کی معروف روحانی شخصیت ہیں اور حددرجہ احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ان کی کتاب”کہے فقیر“ مارکیٹ میں آئی تو اس نے تہلکہ مچادیا اور بہت سے کالم نگاروں نے ان کی تحریروں میں ڈوب کر سراغ زندگی پانے کی کوششیں کیں۔ حال ہی میں ان کی دوسری ایمان افروز اور خیال انگیز کتاب مارکیٹ میں آئی ہے جس کا نام ہے”فقیر رنگ“ ۔ محترم شاہ صاحب فقیر انسان ہیں، فقر کے سانچے میں ڈھلے ہوئے ہیں اس لئے ان کی ہر کتاب فقیر سے شروع ہو کر فقیر پر ختم ہوتی ہے۔ میں نے ابھی یہ کتاب پوری تو نہیں پڑھی کیونکہ ایسی کتابوں کو غور سے پڑھنا اور صبر سے ہضم کرنا پڑتا ہے اس لئے ان کا مطالعہ دلچسپی کے باوجود تھوڑا سا وقت لیتا ہے تاہم کتاب پڑھتے ہوئے میں شناسائی کی اس قسم پر پہنچ کر رک گیا جس کاذکر اوپرکرچکا ہوں۔ میں نے چاہا کہ زندہ کتاب کے ایک بیان سے میرے قاری بھی مستفید ہوں اس لئے میں آپ کو ان کی تحریر کے حلقے میں شامل کررہا ہوں۔ محترم شاہ صاحب سے کسی نے سوال کیا کہ کبھی کبھی ہم محسوس کرتے ہیں کہ جو منظر ہماری نظروں کے سامنے ہے یہ ہم پہلے بھی دیکھ چکے ہیں یا ایسا ہی واقعہ پہلے بھی ہوچکا ے۔ محترم شاہ صاحب نے اس سوال کا جو جواب دیا وہ آپ کے لئے بھی باعث دلچسپی ہوگا کیونکہ اکثر لوگ ا یسے تجربات سے گزرتے ہیں اور انہیں اس کی کوئی سائنٹیفیک توضیح یا سائنسی تشریح نہیں ملتی۔ محترم شاہ صاحب کا فرمان ہے کہ روحانیت میں ایک اصطلاح ہے ” روح کی سیر“… جب ہم نیکی اور عبادات کا راستہ اختیار کرتے ہیں اور اس پر مسلسل عمل کرتے ہیں تو اس کے نتیجے میں ہماری روح میں بالیدگی پیدا ہوتی ہے اور روح لطیف ہوجاتی ہے۔ جوں جوں ہماری روح لطیف ہوگی اس قدر اس کی پرواز بڑھتی چلی جائے گی۔ جس قدر روح کی پرواز بڑھے گی اتنی ہی زیادہ سیر کو نکلے گی۔ جب ہم سورہے ہوتے ہیں تو ہماری روح سیر کررہی ہوتی ہے۔ یہ روحانی سیر ہوتی ہے جسے ہمارا شعور ”رجسٹر“ نہیں کرتا اس لئے یہ سیر یاد نہیں ہوتی لیکن اس سے ہماری روح ضرور واقف ہوتی ہے اس لئے بعض اوقات یوں ہوتا ہے کو روحانی طور پر جس مقام یا منظر کی ہم نے سیر کی ہوتی ہے وہ جسمانی طور پر ہمارے سامنے آتا ہے تو ہم چونک اٹھتے ہیں، مثلاً کسی انسان کی روح نے سمندر کے کنارے ایک مخصوص سپاٹ کی سیر کی۔ اب یہ سیر اس انسان کے شعور میں رجسٹر نہیں ہے۔ پانچ یا دس سال کے بعد اسے کراچی جانے کا اتفاق ہوتا ہے۔ وہ سمندر کے کنارے اسی سپاٹ پر جاتا ہے تو روح کی وہ یادداشت عود کر آتی ہے اور اسے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ یہ مقام پہلے بھی دیکھ چکا ہے۔ یہ تو روحانی توجیہہ ہے لیکن سائنس اور نفسیات میں بھی اس پر تجربات ہوئے ہیں۔ امریکہ میں بہت سے ایسے بچوں پر ”سٹڈی“ ہوئی ہے جو بہت سے علاقوں میں کبھی نہ گئے تھے لیکن اس کے باوجود ان علاقوں کے نشانات اور لینڈ مارکس بہت تفصیل کے ساتھ بتا سکتے تھے۔ سائنس باوجود حیرت اسے کوئی نام نہ دے سکی۔ محض یہ کہا کہ ”کسی شخص کی ذہنی قوتیں اور صلاحیتیں بعض اوقات اس قدر تیز ہوجاتی ہیں کہ وہ زمان و مکان سے بالاتر ہوجاتا ہے اور ایک ہی جگہ پر بیٹھا ذہنی طور پر دوسرے مقام کی سیر کرلیتا ہے“۔ یہ درحقیقت روح کی سیر ہے اس کی وجہ سے ہمیں کبھی کبھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ واقعہ پہلے بھی ہوچکا یا یہ منظر ہم پہلے بھی دیکھ چکے ہیں“۔ اسی طرح اگر آپ کی کسی انسان سے روحانی شناسائی ہے تو وہ ملتے ہی آپ کو شناسا لگے گا حالانکہ آپ اس سے کبھی ملے نہیں ہوتے ۔ اگر آپ روزمرہ کی پریشانیوں، مسائل اور مشقت سے الگ ہوکر غور کریں تو محسوس ہوگا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے زندگی کو ایک حیرت کدہ کے طور پر تخلیق کیا ہے۔ جسمانی اور روحانی شناسائی ،عروج و زوال ،ملنا اور بچھڑنا اور زندگی و موت اس حیرت کدے کے مختلف مقامات ہیں بلکہ اس حیرت کدے کی مختلف ”حیرتیں“ ہیں۔