Sunday 20 May 2012

انشاء اللہ February 12, 2012


حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کا جنازہ تیا ر تھا اور پورے ہندوستان سے لوگ اس میں شرکت کے لئے آئے ہوئے تھے۔ حضرت صاحب اس خطے کے اولیاء اکرام میں اعلیٰ مقام رکھتے ہیں اور ان کے روحانی فیض کے چشمے جاری و ساری رہتے ہیں۔ جنازے میں شرکت کے لئے خلقت جمع تھی اور اس انتظار میں تھی کہ جنازہ پڑھانے کا اعزاز کسے حاصل ہوتا ہے۔ اتنے میں ایک شخص اٹھا اور اس نے حضرت خواجہ بختیار کاکی کی وصیت پڑھنی شروع کی۔ وصیت تھی کہ میری نماز جنازہ وہ شخص پڑھائے جس نے زندگی میں کبھی کوئی نماز قضا نہ کی ہو اور جس نے کبھی نماز عصر کی سنت نہ چھوڑی ہو۔ وصیت ختم ہوئی تو مجمع پر سناٹا چھا گیا اور لوگ ادھر ادھر دیکھنے لگے، کوئی شخص آگے نہ بڑھا، چند لمحوں کے سکوت اور انتظار کے بعد ایک شخص کھڑا ہوا، آہستہ آہستہ چلتے ہوئے آگے بڑھا اور امام کی جگہ پرکھڑا ہوگیا۔ اس نے حضرت کی نماز جنازہ پڑھائی اور نم آنکھوں سے کہا ”جانے والا تو چلا گیا دوسروں کا راز فاش کرگیا“ بھلا بتایئے نماز جنازہ پڑھانے والا وہ شخص کون تھا؟ وہ بادشاہ وقت شمس الدین التتمش تھے۔
یہ واقعہ سنانے کے بعد ملک معظم نے ٹھنڈی اور لمبی سانس کھینچی اور کہنے لگا ”ڈاکٹر صاحب! کیا ہمارے مقدر میں کوئی ایسا حاکم نہیں“؟ میں اس کا سوال سن کر فضا میں گھورنے لگا۔ مجھ سے کوئی جواب بن پا نہیں رہا تھا لیکن جواب دینا بھی ضروری تھا چنانچہ میں نے جواباً عرض کیا کہ ملک صاحب حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی اور شمس الدین التتمش کا دور تو گزر چکا، اب آپ کو ایسی ہستیاں تو نہیں ملیں گی لیکن میں خلوص نیت سے محسوس کرتا ہوں کہ ہماری قوم نیک، صالح اور دیانتدار حکمران چاہتی ہی نہیں۔ جہاں تک مقدر کی بات ہے تو یاد رکھئے کہ ہمارا مقدر ہمارے اپنے ہاتھوں میں ہے۔ پیدائش، وفات اور ایسی ہی چند باتیں تو طے شدہ مقدر کا حصہ ہیں جن پر ہمیں اختیار نہیں لیکن اس کے علاوہ باقی مقدر کا انحصار ہماری اپنی محنت، کوشش اور جدوجہد پر ہے۔ آج کے دور میں سیاسی مقدر کا فیصلہ عوام کرتے ہیں، وہ دور گزر چکا جب بادشاہ تلوار سے بنتے اور تلوار سے قائم رہتے تھے۔ اب تو ہم جس طرح کے حکمران چاہیں گے اسی طرح کے حکمران ملیں گے اس لئے مقدر کا رونا محض رونا ہی ہے۔ جیسی قوم ویسے فرشتے۔
بات سے بات نکلتی ہے اس لئے آپ کو ایک چھوٹا سا واقعہ سنا رہا ہوں۔ چند ہفتے قبل جماعت اسلامی کے ممتاز لیڈران جناب لیاقت بلوچ ، جناب فرید پراچہ اور جناب نیازی صاحب مجھ سے ملنے میرے غریب خانے پر تشریف لائے، گفتگو کے دوران چائے آگئی اور میں نے گرم چائے کے پیالے ان حضرات کے سامنے رکھے اور لیکچر دینے لگا۔ لیکچر دینے کی وضاحت یوں ہے کہ میں شہنشاہ ظرافت جناب مشتاق یوسفی صاحب کے اس فقرے کا قائل ہوں کہ انسان ایک بار پروفیسر بن جائے تو ساری عمر پروفیسر ہی رہتا ہے چاہے بعد میں عقل کی باتیں کرنے لگے۔ میں نے مختلف اعلیٰ اداروں میں چار سال پروفیسری کی ہے، اس لئے پروفیسر میرے اندر سے نہیں نکلتا۔ چنانچہ جب بھی موقعہ ملتا ہے لیکچر دینے لگتا ہوں اور اس وقت لیکچر دینے کا زیادہ مزہ آتا ہے جب سننے والے مودب اور خاموش ہوں۔ جماعت اسلامی کے یہ مہذب، مودب اور نرم خو حضرات میرے ہتھے چڑھے تو میں نے موقعہ غنیمت جانا اور لیکچر دینا شروع کردیا۔ دوران لیکچر بھی مجھے خیال رہا کہ چائے ٹھنڈی نہ ہو جائے چنانچہ میں انہیں یاد دلاتا رہا پھر میں نے دیکھا کہ باقی حضرات تو چائے کی چسکیاں لے رہے ہیں لیکن لیاقت بلوچ صاحب ہمہ تن گوش ہیں اور پیالی کی طرف متوجہ نہیں ہو رہے۔ میں نے ان کی توجہ گرم چائے کی طرف مبذول کرائی تو وہ خاموش رہے لیکن پراچہ صاحب پر راز فاش کرنا لازم ہوگیا۔ انہوں نے آہستہ سے بتایا کہ بلوچ صاحب روزے سے ہیں چنانچہ انہوں نے رخصت ہوتے ہوئے پکوڑے فائل پیپر میں رکھ لئے تاکہ میں بھی افطاری کے ثواب میں شامل ہو جاؤں۔
وہ چلے گئے اور میں سوچنے لگا کہ یہ حضرات ماشا اللہ باریش، نمازی ، پرہیزگار، ایماندار، صاف ستھرے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، ان کی شخصیات اسلامی زندگی کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہیں لیکن قوم انہیں ووٹ دے کر اقتدار نہیں سونپتی۔ ہمارے ہاں سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عمل کرنے والے کو مولوی کہا جاتا ہے اور مولوی کا استعمال صرف امامت کرنا اور نماز جنازہ پڑھانا ہے۔ علامہ اقبال کو جس مولوی سے گلہ تھا جماعت اسلامی میں ایسے مولوی بھی نہیں، یہ روشن دماغ پڑھے لکھے اورا علیٰ کردار کے نمونے ہیں لیکن عوام انہیں اقتدار کااہل نہیں سمجھتے اور پھر گلہ کرتے ہیں کہ ہمارے مقدر میں صرف چور حکمران ہی لکھے گئے ہیں۔ جماعت اسلامی کے امیر پروفیسر منور حسن سے میں کبھی نہیں ملا اور نہ ہی قاضی حسین احمد صاحب سے شرف نیاز حاصل ہوا ہے لیکن میں اتنا جانتا ہوں کہ ان لوگوں کے دامن اجلے، دل روشن اور دماغ قومی خدمت کے جذبے سے معمور ہیں۔ پروفیسر منور ڈھائی مرلے کے مکان میں رہتے، سادہ زندگی بسر کرتے اور عوام کے درمیان موجود ہوتے ہیں جبکہ ہم ان لوگوں کو ووٹ دے کر اقتدار کی امانت سونپتے ہیں جنہوں نے بار بار ملک کو لوٹا ہے، اقتدار سے ہرقسم کا ذاتی فائدہ اٹھایا ہے اور اربوں روپوں کی جائیدادیں بیرون ملک خرید رکھی ہیں۔ شان و شوکت ان کے خون میں یوں رچ بس گئی ہے کہ وہ اقتدار میں ہوں یا نہ ہوں شہزادوں کی سی زندگیاں گزارتے، محلات میں رہتے، شہنشاہوں کا سا پروٹوکول انجوائے کرتے اور عوام کے سائے سے دور بھاگتے ہیں لیکن ہمارے عوام انہیں ہی اقتدار کا اہل سمجھتے ہیں حالانکہ محلات میں رہنے والے عوام کا دکھ درد محسوس کرسکتے ہیں نہ سادہ طرز حکومت رائج کرسکتے ہیں پھر ہم مقدر کا رونا روتے ہیں حالانکہ ہمارا مقدر ہمارے اپنے ہاتھوں میں ہے اور ہم اپنا مقدر سنوارنے پر قادر ہیں۔میں ڈاکٹر طاہر القادری سے کبھی نہیں ملا لیکن یہ جانتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب بہت بڑے اسلامی سکالر اور مفکر ہیں۔ وہ چار سو کتابوں کے مصنف ہیں، ملک میں 574 ماڈل اسکول چلارہے ہیں، ایک یونیورسٹی اور 150کالجز ان کی تعلیم سے گہری محبت کا ثبوت ہیں۔
سیرت نبوی پر بارہ جلدوں کے مصنف ہیں اور ایدھی کے بعد دوسری بڑی ایمبولینس سروس کا سہرا بھی ان کے سر ہے۔ مجھے خدشہ ہے کہ اعلیٰ کردار اور اعلیٰ تعلیم والا یہ بین الاقوامی شہرت کا حامل سکالر شاید لوکل باڈی کا الیکشن بھی نہیں جیت سکتا کیونکہ ہم نے برطانوی جمہوریت کا جو نظام ورثے میں پایا ہے وہ برطانوی طرز کے لوگوں ،جاگیرداروں، دولت مندوں اور ہوس اقتدار کے مارے پیشہ ور سیاستدانوں کو ہی راس آتا ہے۔ اس نظام کا خمیر دینی اور مذہبی شخصیات کا راستہ روکتا ہے۔ میں نے اپنے محدود علم کی بنیاد پر چند شخصیات کا ذکر کیا ہے ورنہ ایسی بے شمار شخصیات ہمارے ملک میں موجود ہیں لیکن عوام انہیں اقتدار کا اہل نہیں سمجھتے۔ یہاں تک لکھ چکا ہوں تو میرا دل میرا قلم روک رہا ہے اور کانوں میں سرگوشی کر رہا ہے کہ اب حالات بدل رہے ہیں، عوام میں کوتاہیوں کا شعور پھیل رہا ہے اور تبدیلی آنے والی ہے، پرانے برج الٹنے والے ہیں اور نئی صبح طلوع ہونے والی ہے، صبر کہ صبر کے دن تھوڑے ہیں۔ انشاء اللہ…!!


No comments:

Post a Comment