Sunday 20 May 2012

یادوں کا چمن April 01, 2012


جوانی کی قیمتی ترین متاع جذبے، لاپروائی اور دنیا کو فتح کرنے کے خواب ہوتے ہیں جبکہ بڑھاپے کا قیمتی ترین اثاثہ یادیں ہوتی ہیں جو انسان زندگی کے سفر میں چنتا اور یادوں کی کلیوں سے دامن بھرتا رہتا ہے ۔جوانی کا سورج ڈھلتے ہی یادوں کی یہ کلیاں مہکنے لگتی ہیں اور تنہائی کے لمحات کو معطر کرتی رہتی ہیں ۔ میں جب نوجوان اور پھر جوان تھا تو اکثر سوچا کرتا تھا کہ ہمارے بزرگوں کو یہ کیا مرض لاحق ہے کہ جب بھی بیٹھتے ہیں ماضی کی کتاب کھول کر اونچی آواز سے پڑھنا شروع کر دیتے ہیں اور جب بھی ان سے کوئی چھوٹی سی بات پوچھو تو یہ یادوں کی پٹاری کھول لیتے ہیں اور اپنی جوانی کی رشک بھری داستانیں سنانے لگتے ہیں ۔ اب افراتفری کے موجودہ دور میں نوجوان عدیم الفرصت ہو چکے ہیں اس لئے بزرگ اپنی یادیں، اپنے تجربات، اپنے مشاہدات اپنے ساتھ ہی لے کر دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں ورنہ ماضی میں رواج تھا کہ تجربات کا نچوڑ نسل در نسل منتقل ہوتا رہتا تھا ۔
بقول شاعر یاد ماضی عذاب ہے یارب لیکن میں اسے عذاب نہیں سمجھتا بلکہ زندگی کا اثاثہ اور تنہائی کا ساتھی سمجھتا ہوں ۔ان یادوں کا ایک کرشمہ یہ بھی ہے کہ کسی انسان، جگہ، گلی، سیرگاہ یا علاقے کا ذکر ہوتے ہی یادوں کا باب کھل جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ سہولت، فائدہ یا اعزاز جوانی میں حاصل نہیں ہوتا کیونکہ جوانی تو نام ہے تیز رفتاری سے سفر کا اور زندگی کی ندی میں لہروں کے ساتھ بہنے کا اس لئے اس میں کوئی پڑاؤ آتا ہی نہیں کہ انسان رکے اور مڑ کر دیکھے۔
میرے ایک پسندیدہ شاعر کی یہ نظم شاید ریشماں نے گائی تھی جب میں نے پہلی بار یہ نظم چالیس برس قبل سنی تو شاعری سے ضرور متاثر ہوا لیکن اس کے مفہوم کا صحیح ادراک حاصل نہ کر سکا کیونکہ ادراک یا سمجھ کا براہ راست تعلق تجربے سے ہوتا ہے اور جب تک انسان تجربے کی حدت یا تندور سے نہ گزرا ہو وہ اس کے مفہوم کی گرمی محسوس نہیں کر سکتا ۔ جب تک آپ فراق کے دشت، تنہائی اور غم سے نہ گزریں آپ وصال کی لذت اور مسرت سے صحیح معنوں میں لطف اندوز نہیں ہو سکتے ۔ یہ نظم کچھ اس طرح تھی ۔
اکثر شب تنہائی میں
کچھ دیر پہلے نیند سے
گزری ہوئی دلچسپیاں
بیتے ہوئے دن پیار کے
بنتے ہیں شمع زندگی
اور ڈالتے ہیں روشنی
میرے دل صد چاک پہ
اور اب اپنا تو یہ حال ہے
جب یاد کا قصہ کھولوں تو
کچھ دوست بہت یاد آتے ہیں
میں گزرے پل جو سوچوں تو
کچھ دوست بہت یاد آتے ہیں
کچھ باتیں تھیں پھولوں جیسی
کچھ لہجے تھے خوشبو جیسے
میں شہر چمن میں ٹہلوں تو
کچھ دوست بہت یاد آتے ہیں
وہ پل بھر کی ناراضگیاں
اور مان بھی جانا پل بھر میں
اب خود سے جب بھی روٹھوں تو
کچھ دوست بہت یاد آتے ہیں
ہماری نسل سے پہلے والی نسل کو صرف اتنی شکایت تھی کہ ان کے بچپن اور سکول کے ”یار غار“ برسلسلہ روزگار یا تعلیم دیہاتوں کو چھوڑ کر شہروں میں جا بسے ہیں اور اب ان سے فقط ” عید، عید بکر“ پر ہی ملاقات ہوتی ہے ۔ ہماری نسل کے ساتھ المیہ یہ ہوا کہ دنیا کا سفر گھنٹوں میں تبدیل ہو کر رہ گیا، لوگ اپنے وطن کی حدود سے باہر دیکھنے لگے چنانچہ ہمارے بچپن کے یار دنیا بھر میں بکھر گئے ۔ کوئی جرمنی گیا، کوئی انگلستان کے نظاروں میں کھو گیا، کوئی کینیڈا کی بہاروں میں گم ہو گیا اور کوئی امریکہ کی خوشحالی سے وابستہ ہو گیا۔ چنانچہ ہمیں پہلی بار اس گانے کا مفہوم سمجھ میں آیا۔
اک دل کے ٹکڑے ہزار ہوئے، کوئی یہاں گرا، کوئی وہاں گرا۔ظاہر ہے کہ ہزاروں میل دور بسنے والوں سے ملاقات ”عید بقر عید“ پر بھی نہیں ہو سکتی، صرف یادوں کے چمن میں ٹہلنے سے ہی ہو سکتی ہے۔
آج صبح روزنامہ جنگ کھولتے ہی ایک خبر پر نظر پڑی تو ایک انجانی سی خوشی کا گلاب مہک اٹھا۔ خبر یہ تھی کہ برطانیہ جیسے ترقی یافتہ باشعور اور پختہ سیاسی معاشرے میں مبصرین اور تجزیہ نگاروں کے اندازے غلط نکلے اور جارج گیلوولے ان اندازوں کے خلاف انتخاب جیت گئے۔بریڈ فورڈ کی یہ نشست لیبر پارٹی کی ملکیت سمجھی جاتی تھی لیکن اس بار وہاں سے جارج گیلوولے کامیاب ہو گئے جنہیں ”بغاوت“کے الزام میں لیبر پارٹی نے نکال دیا تھا۔ لیبر پارٹی سے اخراج کے بعد جارج گیلوولے نے رسپکٹ نامی سیاسی جماعت قائم کی تھی جو فی الحال غیر معروف ہے ۔ میں جارج گیلوولے کو ذاتی طور پر نہیں جانتا لیکن اتنا جانتا ہوں کہ وہ مغربی معاشرے میں باغی کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے یعنی وہ صاحب ضمیر ہے، آزاد منش ہے اور ضمیر کے مطابق اظہار میں یقین رکھتا ہے ۔ میں نے اسے کئی بار عالمی سطح کے معتبر ٹی وی پروگراموں میں امریکہ کو رگیدتے اور برطانوی پالیسیوں کے لتے لیتے سنا اور دیکھا ہے ۔ وہ نہ ہی صرف فلسطینی مسلمانوں کے حقوق کی حمایت کرتا ہے بلکہ افغانستان اور عراق جنگ کا بھی دشمن تھا اور مخالف ہے اس نے اپنے باغیانہ ضمیر پر لیبر پارٹی کی رکنیت قربان کر دی لیکن مصلحتوں کا اسیر نہیں ہوا۔ بھلا مجھے وہ کیوں یاد آیا ؟اول تو مجھے خوشی ہوئی کہ ایک باغی انگریز ایشیائی آبادی کے علاقے سے منتخب ہوا دوم میری ایک ذاتی یاد جارج گیلوولے سے وابستہ ہے ۔ چند برس قبل شام کے وقت میرے گھر کی کال بیل بجی۔ میں باہر گیا تو ایک نوجوان نے میرا استقبال کیا اور مجھے ایک قلم دیا جو خوبصورت ”میان“ میں اس طرح بند تھا جیسے تلوار میان میں بند کی جاتی ہے ۔”میان“ پر نظر پڑی تو کندہ تھا جارج گیلووے۔ میری حیرت کو بھانپتے ہوئے مجھے بتایا گیا کہ یہ قلم لندن سے جارج گیلوولے نے آپ کے لئے بھجوایا ہے۔ جارج گیلوولے کے دفتر میں اردو اور عربی کے اخبارات کے کالموں کے تراجم اسے پیش کئے جاتے ہیں اور پھر جارج گیلوولے اپنے پسندیدہ کالم نگاروں، تجزیہ نگاروں وغیرہ کو اظہار محبت کے لئے قلم بھجواتے ہیں ۔ میرے لئے یہ اعزاز تھا کہ مجھے جارج گیلوولے نے اپنی باغی قلمی جماعت کا رکن بنا لیا تھا اور ”خلعت“ عطا کی تھی۔ جارج پارلیمینٹ کا رکن منتخب ہوا ہے تو میں سوچ رہا ہوں کہ اسے کیا تحفہ بھیجوں؟
پتہ چلا کہ الازہر یونیورسٹی قاہرہ کے لیکچرار اسامہ شلبی منہاج یونیورسٹی لاہور میں تین ماہ کے ڈیپوٹیشن پر آئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے میرے پاکستانیات کے کام پر ایم فل کا تھیسس لکھا۔ الازہر یونیورسٹی میں ایم فل کے مقالے کے ساتھ کتاب کا عربی ترجمہ بھی لازمی سمجھا جاتا ہے ۔ اسامہ نے مجھے میری کتاب کا عربی ترجمہ دیا جسے میں پڑھ تو نہیں سکتا لیکن محسوس کرکے ”چند کلیاں نشاط کی چن “ تو سکتا ہوں، اور اس خیال سے خوش تو ہو سکتا ہوں کہ یہ کتاب عرب ممالک کی لائبریریوں میں جگہ پائے گی۔لکھا ہوا لفظ ضائع نہیں ہوتا۔ تخلیق یا تحقیق کہیں نہ کہیں جگہ بنا لیتی ہے لیکن یہ عمل نہایت سست رفتار ہوتا ہے ہمارے ہاں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ہارورڈ یونیورسٹی امریکہ میں جمشید دستی کے نااہل ہونے کے بعد دوبارہ انتخابات جیتنے پر تحقیق ہو رہی ہے مجھے اس کا کوئی ثبوت تو نہ مل سکا لیکن امریکی یونیورسٹیاں تحقیق کے تقاضے پورے کرنے کیلئے لائبریریوں پر کتنا خرچ کرتی ہیں اور کتنی توجہ دیتی ہیں اس کا ثبوت مجھے اس وقت ملا جب میں کولمبیا یونیورسٹی نیویارک اور برکلے یونیورسٹی کی لائبریریوں میں گیا اور مجھے بتایا گیا کہ وہاں میری ساری کتابیں موجود ہیں حالانکہ یہ کتابیں محض طالب علمانہ کاوشیں ہیں۔ یونیورسٹی آف ٹیکساس آسٹن کی لائبریری میں میر ی وہ کتاب بھی موجود تھی جس کا نسخہ میرے پاس نہیں تھا ۔ مجھے یقین ہے اسی طرح باقی پاکستانی مصنفین کی کتابیں بھی وہاں موجود ہوں گی کیونکہ ترقی یافتہ ممالک لائبریریوں پر بے تحاشا خرچ کرتے ہیں اور تحقیق ہی میں انکی ترقی کا راز پنہاں ہے ۔ یادوں کے چمن میں ٹہلتے ٹہلتے میں دور نکل گیا ہوں۔ یارو معاف کرنا ۔
 

No comments:

Post a Comment