Saturday 19 May 2012

ایک روح پرور خط (2) January 25, 2012


دو نیم انکی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
”انسان رب کائنات کی بہترین تخلیق ہے ان معنوں میں نہیں کہ وہ زمین سے زیادہ فیاض، چاندنی سے زیادہ دلکش، اشجار سے زیادہ ثمرور اور طوفانوں سے زیادہ تند رو ہے ۔ بلکہ ان معنوں میں کہ اسکی مختصر سی ہستی میں لامحدود امکانات مضمر ہیں، کہ علم کی کمند پھینک کر شمس و قمر کو زیر کر سکتا ہے اور دام عشق میں خدا تک کو لا سکتا ہے ۔ یہ شرف اسے حاصل ہے کہ وہ تماشائے صفات کے ساتھ ساتھ مشاہدہ ذات بھی کر سکتا ہے ۔ طور پر برق تجلی دیکھنے والا ایک انسان ہی تھا اور حضور خداوندی سے ”مازاغ البصر و ماطغی “ اور ”ماکذب الفواد مارای‘ کی سند بھی ایک بشر ہی کو ملی تھی سو تماشائے صفات اس آنکھ کا کام ہے جس میں علم سے نور پیدا ہو اور مشاہدہ ذات اس آنکھ جو صرف عشق سے کھلتی ہے جب تک یہ دونوں آنکھیں وا نہ ہوں روح کے دردو دیوار پر دھند چھائی رہتی ہے اور حیات ہر گام پہ ٹھوکریں کھاتی ہے ۔ ان حالات میں خودی جادہ کمال پہ آگے نہیں بڑھ سکتی اور نہ ثبات و استحکام حاصل کرسکتی ہے “یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایک ذات سے عشق ممکن ہے جو نہ صرف آنکھوں سے نہاں ہے بلکہ قوت متخیلہ بھی اسکی کوئی تصویر نہیں بنا سکتی ؟
جی ہاں ! ممکن ہے ۔ کیا آپ خوبصورت عمارت دیکھ کر اس کے معمار کی ، عمدہ شاعری پڑھ کر شاعر کی، دلکش نغمہ سن کر مغنی کی تعریف نہیں کرتے ۔ کیا آپ شیخ عبدالقادر جیلانی، عثمان جلابی علی ہجویری ، سعدی شیرازی، حافظ، رومی، خیام، سینا، رازی، گلیلیو، مارکونی، ایڈیسن ایسے باکمال افراد سے بن دیکھے محبت اور احترام کے رشتے میں بندھے ہوئے نہیں ہیں ؟ کیا آپ سرسبز قدرتی مناظر اور آبشاریں دیکھ کر یا خوش الحان پرندوں کی آوازیں سن کر وجد میں نہیں آ جاتے ؟ جب جوئے رواں کی موسیقی سے دشت و جبل گونج اٹھتے ہیں ، جب نیلی نیلی فضاؤں میں اودی ادی گھٹائیں لہرانے لگتی ہیں تو بے ساختہ پکار اٹھتے ہیں ”واہ واہ سبحان اللہ “ اسی کا نام تسبیح ہے جس میں گہرائی آجائے تو عبادت بن جاتی ہے، اور گہرائی میں کمال آ جائے تو عبادت بالاخر محبت میں تبدیل ہو جاتی ہے اور قندیل محبت کی رعنائی جب اپنے جوبن کو پہنچتی ہے تو راکھ کر دینے والی ایک لو جنم لیتی ہے جو دنوں دنیاؤں کے درمیان پڑے دبیز پردے جلا کر راکھ کر دیتی ہے اور سب راز نہاں ہو جاتے ہیں۔ جن دلوں میں یہ آتش قیام پاتی ہے آپ انہیں دو قبائل میں تقسیم کر سکتے ہیں اول سالک مجذوب ، دوئم مجذوب سالک، سالکین وہ جو تمام ظاہری شرعی اعمال و عبادات کے پابند اور مجاذیب وہ جو ظاہری اعمال کے بظاہر پابند نظر نہیں آتے ۔ ہم مختصراً یوں کہہ سکتے ہیں کہ یا تو کوئی فرد اس دولت سے مالا مال ہو گا یا قطعی محروم یعنی صاحب دل خاندان ولایت کا ممبر ہو گا تو تعلق خواہ کسی قبیلے سے ہو وہ اپنی طبع کے مطابق سالک یا مجذوب کہلائے گا اس دنیا میں ”نیم “ کی گنجائش نہیں۔ یعنی ”نیم سالک“ یا ”نیم مجذوب “ کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔
اس لئے عرض ہے کہ آپ نے روضہ رسول پر جن صاحب کو دیکھا وہ یقینا ابھی خام تھے یا یوں کہہ لیجئے مبتدی تھے ۔
مبتدی اور منتہی کی بحث کو سمجھنے کے لئے میں یہاں شاہ ولی اللہ کی کتاب ” انفاس العارفین “ سے ایک اقتباس نقل کرنا ضروری سمجھتا ہوں یہ کلام آپ کے لئے پرکشش ہو گا۔”اگر کہیں کہ جسے نہ جانتے ہیں نہ پہچانتے ہیں اسے کیسے طلب کرتے اور اس کے پیچھے جگر کیسے کباب کرتے یا آنکھوں سے پانی بہاتے ہیں ۔ ہم کہتے ہیں کہ جاننا اور پہچاننا طلب کی شرط نہیں، آوازہ حسن معشوق حریف عشق کو بے قرار و بے آرام کر دیتا ہے، جمال محبوب کی باتیں اور خوشبو و دیوانگی عاشق کو جوش میں لاتی ہیں۔ اس قسم کے پھول اس وادی میں کھلتے اور اس طرح کی نیر نگیاں اس راہ میں ا کثر ٹپکتی ہیں ۔ یہ عشق بازوں کی دیوانگیاں اور جاں گدازوں کی شیفتگیاں ہیں عشق میں اس قسم کی بوالعجیاں پیدا ہوتی ہیں ۔ جاننا چاہئے کہ ذات باری تعالیٰ کو جس طرح کسی عبارت سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا اور نہ کوئی اشارہ کیا جا سکتا ہے ۔ جیسا کہ رویت اخروی، ہم اس پر ایمان لاتے ہیں مگر اس کی کیفیت بیان میں مشغول نہیں ہوتے ۔ اگر کہیں کہ پھر مبتدی و منتہی میں کیا فرق ہے کیونکہ دونوں سوزوگداز میں ہیں اور دونوں اس راز و نیاز کے طالب ہیں اگر دونوں میں فرق کرنے والی چیز اس کا حصول مقصود ہے تو یہ دونوں میں مفقود ہے اگر حزن و اندوہ ہے تو دونوں کرتے ہیں ہم کہتے ہیں کہ مبتدی کا عدم حصول حقیقی ہے اور منتہی کا صوری، اور مبتدی کا گریہ وزاری حجابات کی وجہ سے ہے اور منتہی کا گریہ عظمت و کبریائی کے مشاہدے کی وجہ سے ہے مبتدی ابھی ستر ہزار پردوں میں ہے اور منتہی انوار کی شعاؤں میں بے قرار قدم رکھے ہوئے ہے مبتدی نے بار ہستی کو اپنے کندھوں سے نہیں اتارا اور منتہی اسکی عظمت کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے ۔ مبتدی ابھی تک لباس مائی و منی سے باہر نہیں نکلا اور منتہی موہوب وجود کی خلعت سے مکرم کیا ہوتا ہے ۔ مبتدی خیالوں کے سایوں سے نہیں چھوٹ سکتا اور منتہی سایہ سے گزر کر واصل ہو چکا ہوتا ہے ( اقتباس مکمل ہوا )
روضہ رسول پر حاضری کے وقت کئی اولیائے کاملین کی واردات و کیفیات کتب میں تحریر ہیں ۔ مجھے 2002ء میں عمرہ کی سعادت حاصل ہوئی کسی نے بتایا کہ مسجد نبوی میں حضرت بلال حبشی  کی اولاد میں سے ایک سیاہ فام بزرگ فلاں مقام پر تشریف رکھتے ہیں ضرور ملاقات کرنا، ہم ٹھہرے دیوانے، خوشبوئے بلال  کی تلاش میں دوسرے روز متعلقہ جگہ پہنچے تو ایک دراز قد سیاہ فام کو روضہ پاک کی جانب رخ کئے دو زانو بیٹھے دیکھا ان کے دائیں بائیں ساتھی موجود تھے، اور نگاہیں روضہ انور پر گڑی ہوئی تھیں ۔ ہم نے قریب جاکر ادب سے ان سے مصافحہ کیا انہوں نے مسکرا کر دیکھا تو جان میں جان آئی اور ہم نے دست مبارک کو بوسہ دینے کی سعی کی تو انہوں نے فوراً سے پیشتر ہاتھ واپس کھینچا اور عربی میں کچھ کہا اور فوراً روضہ اطہر کی جانب متوجہ ہو گئے میں کیونکہ عربی سے نابلد ہوں اس لئے اپنے ساتھی سے جو کہ خطیب مسجد تھے پوچھا کہ انہوں نے کیا فرمایا تو خطیب صاحب کہنے لگے کہ کہہ رہے ہیں کہ حضور کے سامنے ایسے نہ کرو ۔سورج کی پہلی کرن نے کہا آج وہ اس بستی میں دربار لگائیں گے میں بے تابانہ دوڑا، ہر گلی کوچے کو جھانکتا ہوا باہر جھیل پہ جا پہنچا، ہر طرف دیکھا ابر رنگ چڑیوں سے پوچھا، بھنوروں اور تتلیوں سے دریافت کیا، کوئل سے کہا، جگنو سے پوچھا، بن میں ڈھونڈا لیکن بے سود ، تھکا ہارا کٹیا میں واپس آیا ، چٹائی پہ لیٹ کر آنکھ بند کی تو تیرا سنہری سنگھاسن روح کے محل میں بچھا نظر آیا (برق )
مخلص …ہومیو ڈاکٹر خالد محمود اعوان اسلام آباد
 

No comments:

Post a Comment