Sunday 20 May 2012

منافق کون؟ March 06, 2012


بظاہر صدر اوبامہ دنیا کے طاقتور ترین انسان ہیں اور وہ چاہیں تو سی آئی اے کے ذریعے دنیا کے کسی بھی ملک کے کسی شہری کو قتل کروا دیں اور چاہیں تو صدر بش کی مانند تباہ کن ہتھیاروں کا الزام لگا کر عراق کی مانند کسی بھی ملک پر حملہ کر دیں لیکن طاقت کے تمام تر دعوؤں کے باوجود امریکی صدر داخلی طور پر یعنی اندرون ملک نہایت کمزور شخص ہوتا ہے۔ سینکڑوں پرانی مثالوں اور واٹر گیٹ جیسے سکنڈلوں کو چھوڑ دیں صرف حالیہ مثال پر غور کریں۔ صدر اوبامہ اپنی صدارت کے چار سال دسمبر میں مکمل کرنے والے ہیں لیکن آج کل ان کے مشکوک برتھ سرٹیفکیٹ کے حوالے سے خبریں گرم ہیں چند روز قبل ایک امریکی ریاست کے پولیس چیف نے اخباری بیان میں کہا کہ میں نے انکوائری مکمل کر لی ہے اور ثابت ہو گیا ہے کہ صدر اوبامہ کا برتھ سرٹیفکیٹ جعلی ہے۔ پس منظر کے طور پر یاد رکھیں کہ امریکی صدر کا پیدائشی امریکی ہونا ضروری ہے ورنہ وہ انتخاب کا اہل نہیں رہتا۔ اگر صدر اوبامہ کا برتھ سرٹیفکیٹ جعلی ثابت ہو جائے یعنی یہ ثابت ہو جائے کہ پیدائشی امریکی شہری نہیں ہیں تو نہ صرف ان کا انتخاب کالعدم ہو سکتا ہے بلکہ وہ آئندہ بھی انتخابات میں حصہ نہیں لے سکیں گے اور انہیں سزا بھی ہو سکتی ہے۔ ہمارے ملک میں کئی درجن منتخب نمائندے اسمبلیوں کی نشستوں پر رونق افروز ہیں جن کی شہریت ڈبل یعنی دوہری ہے اور وہ ہمارے آئین کے مطابق ایم این اے، ایم پی اے نہیں بن سکتے۔ کتنے ہی جعلی ڈگریوں والے اسمبلیوں میں دندناتے پھرتے ہیں اور کوئی مائی کا لال انہیں پوچھتا نہیں۔ کئی منتخب اراکین پر خورد برد، لوٹ مار حتیٰ کہ خواتین سے زیادتی جیسے الزامات لگے لیکن ہمارے نام نہاد ”نیک“، ”پارسا“ اور ”اصول پسند“ پارٹی راہنماؤں نے انہیں تحفظ دینے کے لئے الزامات پر پردہ ڈال دیا۔ سندھ کی صوبائی اسمبلی کی خاتون امیدوار محترمہ وحیدہ شاہ بھی پاکستانی قوم کے منہ پر تھپڑ برسانے کے بعد معافی کا ڈرامہ رچا کر بچ جاتیں اور اسمبلی میں پہنچ جاتیں لیکن سپریم کورٹ نے رنگ میں بھنگ ڈال دیا اور پولنگ اسٹیشنوں پر دندنانے والی خاتون کو برقعہ پہننے پر مجبور کر دیا۔ یاد آیا کہ پاکستان میں 2008 سے معافیوں کا موسم جاری ہے صدر مملکت، وزیراعظم اور بڑے بڑے پھنے خان جرنیل سیاسی راہنما وغیرہ وغیرہ قوم سے اپنے کارناموں پر معافی مانگ چکے ہیں اور معافی مانگتے ہی پارسائی کے حمام میں نہا کر پاک صاف ہو جاتے ہیں لیکن دو معافیاں ایسی ہیں جو قبول نہیں ہو رہیں۔
ایک معافی وہ ہے جو میاں نواز شریف اور چودھری شجاعت حسین کے درمیان لٹکی ہوئی ہے۔ میاں صاحب کہتے ہیں کہ وہ اصول کی سیاست کے امین ہیں اس لئے جب تک چودھری صاحب جنرل مشرف کا ساتھ تو دینے پر معافی نہ مانگیں ان سے اتحاد نہیں ہو سکتا۔ دوسری طرف چودھری صاحب بھی گجرات کے جٹ ہیں، میاں صاحب کی مانند ان کی انا بھی دیوار چین کی مانند سخت جان ہے وہ جواباً للکارتے ہیں کہ پہلے میاں صاحب فوجی آمروں کی تابع فرمانی اور خدمت پر معافی مانگیں۔ چنانچہ پہلے آپ، پہلے آپ کی رٹ نے جہاں لوگوں کے لئے تفریح کا سامان مہیا کر رکھا ہے وہاں دونوں مسلم لیگوں کے درمیان بھی دیوار چین کھڑی کر رکھی ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے پاکستانی سیاستدان کے بارے میں خاصا مشہور ہے کہ وہ ضرورت کے وقت…… کو بھی باپ بنا لیتا ہے۔ سیانوں کا کہنا ہے کہ پہلے تو میاں صاحب مسلم لیگ (ق) کے اراکین اسمبلی، مشرف کے ساتھیوں اور جرنیل مشرف کے وزراء کو بھی اپنی سرپرستی میں لینے کے لئے تیار نہیں تھے اب انہوں نے اپنے اصولوں میں نرمی پیدا کر کے جنرل مشرف کے ساتھیوں کے لئے اپنی جماعت کے دروازے کھول دیئے ہیں لیکن اگر دل کا دروازہ نہیں کھولا تو وہ صرف چودھری برادران کے لئے نہیں کھولا اس لئے اس میں ہمیں اصول سے زیادہ انتقام کا جذبہ کار فرما نظر آتا ہے۔ اصولوں میں نرمی کا فائدہ اٹھا کر مشرفی عہد کے کئی نامور لوگ اور مسلم لیگ (ق) کے کئی ممتاز اراکین مسلم لیگ (ن) میں شامل ہو چکے ہیں لیکن ان پر لوٹا ہونے کا الزام ہرگز نہیں لگا۔ اگر وہ تحریک انصاف یا پی پی پی میں جاتے تو لوٹا کہلاتے۔ اس لحاظ سے محترمہ ماروی میمن بھی خوش قسمت ہے کہ ”لوٹے“ کے الزام سے بال بال بچ نکلی۔ اگر وہ تحریک انصاف میں شامل ہوتی تو ٹی وی چینلز اور مسلم لیگی جلسے ”لوٹا، لوٹا“ کے نعروں سے گونج رہے ہوتے۔ ماروی میمن ذہین فطین تعلیم یافتہ اور خدمت کے جذبے سے سرشار لگتی ہے۔ میں اسے مسلم لیگ (ن) کے لئے ایک قیمتی اثاثہ سمجھتا ہوں۔ کسی زمانے میں جاوید ہاشمی بھی مسلم لیگ (ن) کا قیمتی ترین اثاثہ تھا۔ بس یہ وقت وقت کی بات ہے کیونکہ ہماری سیاسی پارٹیوں کے سربراہ جمہوریت کی محبت میں لہولہان ہونے کے باوجود اپنی اپنی ذات میں چھوٹے چھوٹے آمر ہیں، وہ نہ اختلاف برداشت کرتے ہیں اور نہ خوشامد کے بغیر چین کی نیند سو سکتے ہیں چنانچہ کتنے ہی صفدر عباسی اور کتنی ہی ناہیدیں ساری زندگی پارٹی کو دینے کے باوجود ہاتھ پہ ہاتھ دھرے آسمان سے فریادوں کے جواب آنے کے منتظر بیٹھے ہیں۔
بات دور نکل گئی اور سچی بات یہ ہے کہ مجھے بات کی یہ ادا بہت پسند ہے کہ دور نکل جاتی ہے۔ میں کہنا یہ چاہتا تھا کہ مجھے امریکہ اور مغربی ممالک کا یہ تضاد بہت کھٹکتا ہے کہ وہاں لوگ اپنی زندگی میں تو ہر قسم کے گناہ اور جھوٹ کو جائز سمجھتے ہیں لیکن اپنے لیڈروں اور اہم سرکاری عہدے داروں کو ذرہ بھر بھی رعایت کو شجر ممنوعہ قرار دیتے ہیں۔ جنسی حوالے سے ان ممالک میں اتنی آزادی ہے جتنا آپ تصور کر سکتے ہیں۔ حد یہ کہ مغرب میں ہم جنس پرستی کو قانونی تحفظ دے دیا گیا ہے لیکن جب صدر کلنٹن کا مونیکا لیونا ولنسکی سے جنسی سکینڈل سامنے آیا تو ساری قوم غصے سے چیخنے لگی۔ امریکہ میں نامزد سپریم کورٹ کے جج پر یہ اعتراض کر کے مسترد کر دیا گیا کہ اس نے تین دہائیاں قبل جوانی کے دور میں ایک بار جھوٹ بولا تھا۔ تھوڑا عرصہ قبل برطانیہ کے ایک وزیر کو اس لئے مستعفی ہونا پڑا کہ اس نے اپنی ایک دوست سے ادھار لیا تھا اور اقتدار کا فائدہ اٹھا کر کچھ رعایات دی تھیں۔ برطانیہ میں اکثر وزراء جن باتوں پر استعفے دیتے ہیں وہ ہمیں ”مخول“ اور مذاق لگتی ہیں۔ برطانوی حکمران کا بیٹا شراب کے نشے میں کار چلاتا پکڑا گیا تو وزیر صاحب کو خود پولیس سٹیشن جا کر قانون کے مطابق ضمانت دے کر اسے رہا کروانا پڑا۔ جبکہ ہمارے ملک میں کس کی مجال، کس کی جرأت کہ وہ کسی حکمران یا وزیر وغیرہ کے نوکر کو بھی ہاتھ لگائے۔ مسلم لیگ (ن) یا پی پی پی یا اے این پی کے امیدواران جیتیں تو گولیوں سے بادلوں کو چھلنی کر دیں لیکن اگر ویسے کوئی چھت پر چڑھ کر ٹھاہ کر دے تو اسے حوالات کی سیر کراؤ۔ این آئی ایل سی، سٹیل ملز، پی آئی اے، پنجاب بینک وغیرہ وغیرہ کو لوٹ لو اور پھر اثرورسوخ سے نہ صرف بچ جاؤ بلکہ معزز بھی کہلاؤ۔ سینٹ کے لئے ووٹ خریدنے پر 65 کروڑ روپے دینے جائز ہیں اور اسی طرح تمام تر سیاسی تر جنگ کے باوجود سینٹ کی نشستوں پر بڑی پارٹیوں کا مک مکا بھی جائز ہے۔ اسے نہ لیڈران غیر اخلاقی سمجھتے ہیں اور نہ ہی ووٹر حضرات اس لوٹ مار کا برا مناتے ہیں۔ کم از کم حالیہ انتخابات نے تو یہی ثابت کیا ہے کہ ہمارا ووٹر بھی اسی گنگا میں بہہ رہا ہے۔ اسی لئے میرے کرم فرما اے کے رانا صاحب فرماتے ہیں کہ انہیں دور دور تک بہتری کے آثار نظر نہیں آتے۔
یہ ساری رام کہانی بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ہم مسلمان ہونے کے ناتے اپنے آپ کو اخلاقیات کا ٹھیکے دار سمجھتے ہیں اور مغربی تہذیب کو بے حیائی اور بد اخلاقی کا ”شاہکار“ کہتے ہیں۔ مثالیں ہم خلفائے راشدین کی دیتے ہیں اور ان کا ذکر کر کے آنسو بہاتے ہیں لیکن عملاً صورت یہ ہے کہ ہم ہر قسم کے جھوٹ، جعل، بددیانتی، ناانصافی، لوٹ مار اور غیر اخلاقی کارنامے کو جائز سمجھتے ہیں کیونکہ ہم اس کے خلاف ردعمل کا اظہار نہیں کرتے۔ مغرب میں اور ہم میں ایک واضح فرق ہے اور وہ یہ کہ وہ کسی صورت بھی اور کسی حوالے سے بھی بددیانت اور بدکردار شخص کو پبلک آفس یعنی سرکاری عہدے کے لئے نہ موزوں سمجھتے ہیں اور نہ برداشت کرتے ہیں جبکہ ہم مسلمان ہونے پر فخر کرتے ہوئے ایسے تمام حضرات کو سر پر بٹھاتے اور اونچی کرسیوں پر سجاتے ہیں جن کی بددیانتی، بے اصولی اور بدکرداری مسلمہ ہے۔ پھر منافق ہم ہیں یا وہ؟ 
 

No comments:

Post a Comment