Sunday 20 May 2012

اپنی اپنی پریشانی؟ May 13, 2012


آپ حکومت کی نالائقی اور نااہلی کا رونا روتے ہیں اور مجھے پریشانی ہے قومی اداروں کے زوال کی۔ حکومتیں آنی جانی شے ہیں ،مستقبل کسی اہل اور قابل حکمران کو بھی برسر اقتدار لاسکتا ہے لیکن اگر قومی اداروں کا زوال شروع ہو جائے تو اسے روکنا یا اسے ”ریورس گیئر“ لگانا آسان نہیں ہوتا۔ ہاں میری ایک بات سن لیجئے اور نوٹ فرما لیجئے کہ قوموں کے زوال کی علامت قومی اداروں کا زوال ہوتا ہے نہ کہ سیاسی حکمرانوں کا زوال۔ اس موضوع پر میں انگلستان کے حوالے سے ایک تحقیقی مقالہ پڑھ رہا تھا جس میں ثابت کیا گیا تھا کہ جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کے پھیلتے سایوں کے باوجود اور درمیانے درجے کے حکمرانوں کے باوجود برطانوی قومی اداروں کی کارکردگی کبھی متاثر نہیں ہوئی اور یہی وجہ ہے کہ معاشی و سیاسی زوال کے باوجود برطانوی قوم آج بھی ایک مضبوط قوم ہے۔امریکہ کو اپنی دولت، عسکری قوت اور خوشحالی پر بڑا ناز ہے جبکہ برطانیہ دیکھنے میں امریکہ کی ”کالونی“ لگتا ہے لیکن عالمی سروے کے مطابق کیمبرج یونیورسٹی آج بھی عالمی سطح پر اعلیٰ ترین یونیورسٹی ہے اور اس صف میں پہلی پوزیشن پر قابض ہے حالانکہ بہت سی امریکی یونیورسٹیاں ہر سال کیمبرج سے زیادہ نوبل پرائز جیتتی اور حاصل کرتی ہیں جبکہ پاکستان تعلیم کے میدان میں کہیں بھی نظر نہیں آتا۔ پاکستان کیا پوری دنیائے اسلام میں کوئی بھی یونیورسٹی عالمی سطح کی یونیورسٹیوں میں شمار نہیں ہوتی اور یہی سبب ہے بلکہ بنیادی وجہ ہے نہ صرف مسلمانوں کی پسماندگی کی بلکہ پاکستان کے زوال کی بھی۔ قوموں کی ترقی اور قومی اداروں کی نشوو نما اعلیٰ انسانی ذہنوں کی مرہون منت ہوتی ہے لیکن گزشتہ 65برس میں ہماری کسی بھی حکومت نے اعلیٰ تعلیم کو خلوص نیت سے پہلی ترجیح نہیں بنایا۔ نتیجے کے طور پر اعلیٰ تعلیم، تحقیق، غور و فکر اور ”آر اینڈ ڈی“ کا کلچر پاکستان میں پروان چڑھ ہی نہیں سکا۔ پرویز مشرف کے دور میں بلاشبہ سینکڑوں نوجوانوں کو ڈاکٹریٹ کرنے کے لئے بیرون ملک بھجوایا گیا اور پاکستان میں بھی پی ایچ ڈی کے لئے پروگرام شروع کئے گئے لیکن اول تو اس دور میں اعلیٰ تعلیم کے نام پربے پناہ قومی وسائل ضائع کئے گئے، تعلیم کی کوالٹی بہتر بنانے کی بجائے پبلسٹی پر زیادہ زور دیا گیا اور بیرون ملک پی ایچ ڈی کے لئے طلبہ کی اکثریت کو ایسی یونیورسٹیوں میں بھیجا گیا جن کی اندرون و بیرون ملک اپنی ریٹنگ (Rating)نہایت کم درجے کی تھی اندرون ملک پی ایچ ڈی پروگراموں میں چوری اور سرقے کی داستانیں مشہور ہوئیں اور ایسے مضامین میں پی ایچ ڈی کے ڈھیر لگ گئے جن کی افادیت نہایت محدود تھی۔ اس پروگرام کو بہتر بنایا جاسکتا تھا لیکن مشرف حکومت بدلتے ہی وسائل کی قلت نے اس شعبے کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔ جب ہم نے پنجاب یونیورسٹی سے ڈگریاں حاصل کیں تو نہ جعلی ڈگری کا تصور تھا اور نہ ہی کبھی بیرون ملک کسی یونیورسٹی نے ہماری تعلیمی اہلیت کو شک کی نظر سے دیکھا تھا۔ قیام پاکستان سے 1972ء تک ہماری یونیورسٹیوں کے گریجوایٹ امریکی برطانوی یونیورسٹیوں میں کسی ٹیسٹ کے بغیر محض اپنے نمبروں پر داخلہ لیتے تھے اور ایم اے یا پی ایچ ڈی کی ڈگریاں لے کر واپس آتے تھے۔ کچھ برس قبل میں برکلے یونیورسٹی امریکہ میں تھا اور یونیورسٹی کے ایک اعلیٰ عہدے دار سے یہ بات سن کر پانی پانی ہوگیا کہ ”ہم 1972ء کے بعد کی پاکستانی ڈگریاں تحقیق کئے بغیر نہیں مانتے“۔ وجہ پوچھی تو جعلی ڈگریوں اور نقل کے ذریعے امتحانات پاس کرنے کی کہانیاں سنائی گئیں۔ ہمارے دور میں یونیورسٹیوں میں رشوت کا رواج ہرگز نہیں تھا۔ مجھے چند برس قبل ایک دوست کی ڈگری کی تصدیق کے لئے یونیورسٹی سے پالا پڑا تو پتہ چلا کہ وہاں بھی تھانوں کی مانند ہر کام کے ریٹ مقرر ہیں۔ کنٹرولر صاحب سے رابطہ کرنا چاہا تو بتایا گیا کہ وہ بہت بڑے افسر ہیں ایرے غیرے سے بات نہیں کرتے۔ پارلیمینٹ نے منتخب نمائندوں کے لئے ڈگری کا قانون بنایا تو ہر روز ایم این اے ایم پی اے ایز کی جعلی ڈگریوں کی کہانیاں سامنے آنے لگیں۔ میری تحقیق کے مطابق سب سے زیادہ جعلی ڈگریاں مسلم لیگ (ن) کے کھاتے سے برآمد ہوئیں۔ ذرا اپنے منتخب نمائندوں، اعلیٰ قانون سازوں اورقوم کے لیڈروں کا کردار ملاحظہ فرمائیں کہ ان حضرات نے نہ صرف جعلی ڈگریاں حاصل کی تھیں اور انتخاب لڑنے کے لئے پیش کی تھیں بلکہ اسمبلی میں سچ بولنے اور ”سچا“ ہونے کا حلف بھی اٹھایا تھا جس قوم کے منتخب نمائندے جعلی ڈگریاں دے کر جھوٹا حلف اٹھائیں اور جو قوم ایسے بد کردار لوگوں کو ووٹ دے اس قوم کو غربت، پسماندگی، بے روزگاری کی بجائے اپنے اخلاقی زوال کی فکر کرنی چاہئے کیونکہ تاریخ کا طے شدہ اصول ہے کہ اگر قوم کا کردار مضبوط ہو تو وہ مسائل کے طوفان سے نکل جاتی ہے لیکن اگر قوم کے کردار کا جنازہ نکل چکا ہو تو پھر وہ مالی، معاشی اور دوسرے قومی مسائل سے نکل کر بھی جھوٹ، جعل سازی، بداعتمادی، کرپشن جیسے مسائل کی دلدل میں پھنسی رہتی ہے۔ آج جاپان، سنگاپور اور کوریا جیسے ممالک جہاں قدرتی، زرعی اور دوسرے وسائل کا فقدان ہے محض انسانی وسائل کو اعلیٰ تعلیم کے ذریعے ترقی دے کر خوشحالی کی منزلیں طے کر رہے ہیں۔ جبکہ پاکستان کے نیم خواندہ حکمرانوں کو اعلیٰ تعلیم کی اہمیت کا احساس ہی نہیں۔ ہمارے تعلیمی ادارے، ہماری یونیورسٹیاں دن بدن تنزل کا شکار ہیں، ہم نالائق ڈگریوں کی کھیپ تیار کر رہے ہیں، یونیورسٹیوں میں تحقیق نامی شے اجنبی بن کر رہ گئی ہے، اساتذہ پیسے کمانے کی فیکٹریاں بن چکے ہیں، نقل، جعل سازی اور گروہ پروری کا دور دورہ ہے اور عالمی مقابلے کی اس فضا میں ہمارے طلبہ کا معیار تعلیم تنزل کا شکار ہے۔ ہر سال چند ایک طلبہ اپنے زور پر اے او لیول میں پوزیشنیں حاصل کرلیتے ہیں تو ہم خوش ہو جاتے ہیں لیکن ان کی اکثریت بھی اعلیٰ تعلیم کے لئے بیرون ملک جاتی ہے تو واپسی کا نام نہیں لیتی۔ میری سوچی سمجھی رائے ہے کہ ہم نے اخلاقی، معاشی، صنعتی اور سیاسی زوال کا راستہ روکنا ہے تو وہ کسی حد تک صرف اعلیٰ درجے کی تعلیم کے ذریعے روکا جا سکتا ہے ہم دیکھ رہے ہیں کہ موجودہ زوال کا طوفان ہمارے سارے قومی اداروں کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے اور ہر طرف قومی و حکومتی اداروں کی کارکردگی پر مایوسی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ کام چوری، رشوت، بے ایمانی، بے انصافی، ملاوٹ، لوٹ کھسوٹ، لاقانونیت، مذہبی تفریق، جہالت وغیرہ وغیرہ ہمارے اصل قومی دشمن ہیں۔ خدارا ان پر قابو پانے کی ترکیبیں سوچیں ورنہ یہ زوال معاشرے کی اخلاقی قدروں کو دیمک کی مانند چاٹ لے گا۔ 

No comments:

Post a Comment