Saturday 19 May 2012

قصہ ٴ درد سناتا ہوں کہ مجبور ہوں میں. December 14, 2011


ہاں تو میں کہہ رہا تھاکہ مجھے کبھی کبھی یوں لگتا ہے جیسے یہاں ہر کوئی گھات لگائے بیٹھا ہے۔ کوئی آپ کی جیب سے بیس روپے چوری کرناچاہتا ہے تو کوئی قوم کی جیبوں سے بیس کروڑ اور کوئی رینٹل پاور ہاؤسز کے نام پر اربوں روپے چوری کرنا چاہتا ہے۔ کوئی کم تول کر، ملاوٹ کرکے، ذخیرہ اندوزی کرکے یا جھوٹ بول کر آمدنی بڑھانا چاہتا ہے تو کوئی رشوت اور کمیشن لے کر بنک بیلنس بڑھانا چاہتا ہے۔ چنانچہ جھوٹ، بددیانتی اور دھوکہ دہی ہمارا قومی کردار بنتا جارہا ہے۔ میرا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ساری قوم ہیراپھیری میں ملوث ہے۔ میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ جووارداتیں کبھی اقلیت کرتی تھی وہ اب اکثریت کر رہی ہے۔ چھوٹے مجرموں کی نشاندہی توہو جاتی ہے لیکن ہیراپھیری کرکے اربو ں کمانے والے معاشرے میں قابل احترام ٹھہرتے ہیں کیونکہ ہماے ہاں احترام کا پیمانہ کردار نہیں بلکہ دولت اوراثر و رسوخ (Nuisance value) بن گئی ہیں۔ (Nuisance value) کا عام سا ترجمہ ایذرسانی کی صلاحیت ہے۔ ظاہر ہے جس شخص کے پاس بے پناہ فالتو اورآسانی سے کمایا ہواپیسہ ہوتا ہے یا جس کے پاس اقتدار اور انتظامیہ میں اثر و رسو خ کاخزانہ ہوتاہے یا جس کے پاس چندایک کرائے کے غنڈے ہوتے ہیں، اسی شخص کی ایذارسانی سے لوگ ڈرتے ہیں اور اسی ڈر یا خوف سے ظاہری احترام جنم لیتاہے۔ ان اقسام میں آپ لمبی زبانوں اور پگڑی اچھالنے والوں کو بھی شامل کرلیں تو ایذارسانی کی صلاحیت رکھنے والوں کا احاطہ ہو جائے گا۔ کبھی سوچا آپ نے کہ ہمارے ملک میں سیاست کیوں ”گالی“ بن گئی ہے؟ سیاست دھوکے بازی اور جھوٹ کا دوسرا نام کیوں ہے؟ جن ممالک میں احتساب کا کڑا نظام رائج ہے اور قانون کی حاکمیت پوری طاقت سے نافذ ہے وہاں سیاست کو خدمت کیوں کہا جاتا ہے؟ موٹی سی بات ہے کہ جب سیاست حرام کے فالتو پیسے سے کی جائے توگالی اور جھوٹ کا دوسرا نام سمجھی جاتی ہے اور جب سیاست حلال کی آمدنی سے اوراپنا خون پسینہ بہا کرعوامی خدمت کے جذبے سے کی جائے تو وہ عبادت کہلاتی ہے۔ میں نے یورپ کے جمہوری ممالک کے اکثر وزراء کو عام ٹرینوں سے بغیر کسی شان و شوکت کے سفرکرتے دیکھا ہے اور میں نے انہیں نہ صرف عام لوگوں کی مانند زندگی بسر کرتے دیکھا ہے بلکہ جب وہ اقتدار سے نکلتے ہیں تو عام طورپر ”فقرے“ پائے جاتے ہیں جن کے بنک اکاؤنٹ میں پندرہ دن مہینہ کے خرچ سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا جبکہ ہمارے ہاں اگر کوئی درمیانے طبقے کا فرد رکن اسمبلی بن جائے تو دو تین برسوں میں ارب پتی بن جاتا ہے۔ اکثر وزراء نے اپنے دور ِ حکومت میں بیرون ملک جائیدادیں بنائی ہیں اور اکثر سیاسی کارکن دیکھتے ہی دیکھتے موٹرسائیکلوں سے قیمتی کاروں تک پہنچ گئے ہیں۔ آخر یہ اسمبلی یا ضلع کونسل وغیرہ کی ممبری کون سا ا لہٰ دین کا چراغ ہے جوغربت کو امارت میں بدل دیتا ہے؟ لوگ آنکھیں بھی رکھتے ہیں اور ذہن بھی۔ انہیں علم ہے کہ ہمارے سیاسی رہنماؤں ، سیاسی خاندانوں اور لیڈروں نے قوم کا خزانہ لوٹ کر برسوں میں اربوں کھربوں کمائے ہیں جن کے زور پر ان کے وسیع دسترخوان گرم رہتے ہیں اور ان کاروزانہ خرچہ لاکھوں اوربعض اوقات کروڑوں میں ہے۔ کیا لوگوں کوعلم نہیں کہ کس نے کمیشن لے کر، کس نے قوم سے فراڈ کرکے، کس نے ٹیکس چوری کرکے اور اقتدار سے فائدہ اٹھا کر کاروبارکوغیرمعمولی طور پر پھیلا کر اربوں کمائے ہیں اور کس نے قومی خزانہ لوٹا ہے؟ لوگ جانتے ہیں اور اسی لئے سیاست گالی اور دھوکہ دہی بن گئی ہے۔ ان سیاستدانوں کاالزامات کے بارے میں جواب بھی دیدنی ہوتا ہے کہ ہمارا حتساب عوام کریں گے، کون سے عوام…؟ ان پڑھ، زندہ بادیئے، غربت اوربھوک سے نیم بے ہوش اور سیاستدانوں کے نعروں پر پلنے والے عوام کیا ان کا احتساب کریں گے؟ جمہوری ممالک نے سرکاری سطح پر سخت احتساب، کڑی نگرانی اور مستقل جوابدہی کانظام رائج کیا ہوا ہے، سیاستدان ہمہ وقت اس نظام کے کٹہرے میں کھڑے رہتے ہیں۔ قومی خزانے کو مقدس امانت کا درجہ حاصل ہے۔ہمارے ایک وزیراعظم لندن گئے اور انہوں نے ایک تقریب میں پچاس ہزار پونڈ کا ہدیہ دینے کااعلان کردیا۔ برطانوی وزیراعظم آئرن لیڈی تھیچر نے خوب پھبتی کسی۔ کہنے لگی کہ برطانوی وزیراعظم کی سرکاری رہائش گاہ کا فرنیچر”فٹیچر“ ہوچکا ہے، پلنگ اور صوفے چوں چوں کرتے ہیں لیکن میں پارلیمینٹ سے پانچ دس ہزار پونڈ منظور کروانے کی جرأت نہیں کرسکی۔ برطانیہ میں وزیراعظم پارلیمینٹ کی منظوری کے بغیر خرچ نہیں کرسکتا جبکہ ہمارے وزیراعظم اور صدر کا صوابدیدی فنڈاربوں میں ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ برطانیہ کے سابق وزیراعظم پر خطابات اور ہاؤس آف لارڈز کی رکنیت پیسوں کے عوض دینے کاالزام لگا تھا۔ اس الزام کی تفتیش کے لئے صبح سویرے دو پولیس کانسٹیبل وزیراعظم کے دروازے پر دستک دیا کرتے تھے۔ کیا ہمارے ملک میں ایسا ممکن ہے؟ ہمارا بے باک میڈیا ہر روز بڑے بڑے سکینڈلوں کے راز فاش کرتا ہے۔ ہر سرکاری محکمہ سکینڈل بن چکا ہے۔ رشوت کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا۔ سرکاری خودمختار ادارے جن میں پی آئی اے، سٹیل ملز ، ریلوے وغیرہ وغیرہ جیسے ادارے شامل ہیں جو ہماری معیشت کے لئے شہ رگ کی حیثیت رکھتے ہیں، نہ صرف قوم کے لئے سفید ہاتھی بن چکے ہیں بلکہ ہوشربا سکینڈلوں کے شاہکار بھی ہیں۔ مجال ہے ہمارا احتساب حرکت میں آتا ہو یا حکومت کے کان پرجوں تک رینگتی ہو۔ اسی لئے مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے کرپشن، جھوٹ اوربددیانتی سے سمجھوتہ کرلیا ہے اور انہیں اپنی معاشرتی اقدار کاحصہ بنا لیا ہے۔ ان پر نہ ہمارا ضمیر بغاوت کرتا ہے اور نہ ہی عام شہری حیرت زدہ ہوتا ہے۔ اب آپ ہی بتایئے کہ اس پس منظر میں لوگ سیاست کو عبادت کیونکر سمجھیں؟ کیا وہ محض اسے عبادت اس لئے سمجھیں کہ لیڈران اربوں کما کر اور اپنی ذات پر کروڑوں خرچ کرنے کے بعد شلوار کوٹخنوں تک چڑھا کر پانچ وقت نماز ادا کرتے ہیں؟ دانشور اور لکھاری کیا سچ لکھیں گے کہ خود ان کے ہاتھ ان رئیس سیاسی رہنماؤں کی جیبوں میں ہیں؟ اور خود ان کے احترام کا پیمانہ شرافت،کردار ، ایمانداری نہیں رہا بلکہ دولت اور اثرو رسوخ بن چکا ہے۔
دکھ کی بات یہ ہے کہ ناخوب کو خوب سمجھا جانے لگا ہے اور ہمارے قومی کردار کا جنازہ نکل چکا ہے لیکن ہماری قوم، ہمارے دانشوروں، تجزیہ نگاروں اور لکھاریوں کواگر کوئی غم کھائے جارہا ہے تو وہ ہے غربت۔
 

No comments:

Post a Comment