Saturday 19 May 2012

تلاش January 03, 201


گفتگو کا آغاز کچھ اس طرح ہوا کہ انفرادی اور ذاتی زندگی میں انقلاب صوفی لاتا ہے جبکہ سیاسی اور قومی زندگی میں انقلاب سیاستدانوں کا مرہون منت ہوتاہے۔ بھلا صوفی کون ہوتا ہے؟ صوفی اسے کہتے ہیں جس کا دل صاف ہو۔ جب دل صاف ہو تو وہ خود بخودروشن ہو جاتا ہے۔ صوفی کا دل اس لئے صاف ہوتا ہے کہ وہ دنیاوی حرص، طمع، ہوس، بغض، حسد، غصے اور انتقا م وغیرہ سے پوری طرح پاک ہوتا ہے۔ صوفی کے دل میں حب الٰہی کے سوا کچھ نہیں ہوتا اور یہ حب الٰہی ہی کی دین ہے کہ اس کا دل خلق خدا کی محبت سے لبالب بھرا ہوتاہے، اس محبت میں ذات پات رنگ نسل حتیٰ کہ مذہب بھی حائل نہیں ہوتا۔ جب صوفی یہ دعا مانگتا کہ اے اللہ سبحانہ  و تعالیٰ مجھے اپنے رنگ میں رنگ دے تو اس کی دعا اور آرزو ان خوبیوں یا حسنات کو اپنانے کی ہوتی ہے جو ہمارے رب کے اسمائے حسنیٰ کے ذریعے ہم تک پہنچتی ہیں۔ رب کو اپنی مخلوق سے بے حد پیار ہے۔ ایک حدیث مبارکہ کے مطابق رب اپنی مخلوق سے ماں سے بھی ستر گنا زیادہ محبت کرتا ہے چنانچہ وہ اپنی مخلوق کو رزق دیتے ہوئے رنگ، نسل اور مذہب کی تخصیص نہیں کرتا۔ اسی طرح صوفی بھی ہر شخص کا خندہ پیشانی سے استقبال کرتے ہوئے ہر قسم کے تعصبات سے آزاد اور پاک ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی نگاہ میں وہ تاثیر ہوتی ہے جو دلوں کو مسخر کرلیتی ہے اوراس کے الفاظ میں وہ طاقت ہوتی ہے جو ذہنوں کوبدل دیتی ہے۔ صوفی نگاہ سے زیادہ کام لیتا ہے اور زبان سے کم۔ وہ پہلے نگاہ سے دل کو صاف کرتا اور پھر اس میں سچائی کی کرن پیدا کرتا ہے اور جب دل یعنی قلب کسی حد تک صاف ہو کر دھڑکنے لگتاہے اور اس میں دنیاوی حرص و ہوس کی جگہ حب الٰہی کا چراغ روشن ہو جاتا ہے تو ذہن اور سوچ خود بدل جاتی ہے۔ اسی لئے میں عرض کر رہا ہوں کہ صوفی کی دنیا قلب اور دل کی دنیا ہوتی ہے جبکہ سیاستدانوں اور رہنماؤں کی دنیا ذہن یا دماغ کی دنیا ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انگریزوں کی جبری غلامی کے دور میں، جب مسلمانوں کے جسموں کا ایک ایک انگ غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا تو دنیائے فقر اور کائنات ِ قلب کے دانائے رازداں علامہ اقبال نے کہا تھا :
من کی دنیا میں نہ پایا، میں نے افرنگی کا راج
من کی دنیا میں نہ دیکھے میں نے شیخ و برہمن
مطلب یہ کہ من کی دنیا پر صرف ایک خدا کا راج ہوتا ہے اور من کی دنیا میں دنیاوی خداؤں کا راج نہیں ہوتا۔ شیخ، برہمن ، پیر، سیاسی حکمران، وڈیرے اور دنیاوی حاکم ہی دنیاوی خدا ہوتے ہیں۔ یہ انسان کے ذہن پر مسلط اور حکمران ہوسکتے ہیں لیکن اگر دل بتوں سے پاک ہو تو یہ قلب کی کائنات میں دخل نہیں دے سکتے۔ اس کی بنیادی وجہ بھی علامہ اقبال  نے ہی واضح کردی ہے کہ من کی دنیا سوز و مستی اور جذب و شوق کی ہوتی ہے جبکہ ذہن اورتن کی دنیا سود و زیاں ، مکرو فریب اور حرص و ہوس کی دنیا ہوتی ہے۔ ہاں تومیں عرض کر رہا تھا کہ انفرادی اور ذاتی زندگی میں انقلاب صوفی کی نگاہ کا تحفہ اورصوفی کی دین ہوتا ہے اور یہ انقلاب مستقل یعنی ابدی ہوتا ہے جبکہ قومی زندگی کا انقلاب کسی رہنما یا سیاستدان کی جدوجہد کا نتیجہ ہوتا ہے جوہرگز مستقل اور ابدی نہیں ہوتا کیونکہ یہ انقلاب ذہنی دنیا کی پیداوار ہوتا ہے، سوچ و فکر، سیاسی کشمکش، طبقاتی جدوجہد، حکومتی بے انصافیوں اور معاشی محرومیوں کا شاخسانہ ہوتا ہے۔ ایک طرح سے یہ تن کی دنیا کی آسودگی کا سامان ہوتا ہے اس لئے حالات اور سوچ کے تحت بدلتا رہتا ہے مثلاً قائداعظم تحریک ِ پاکستان کے ذریعے ایک عظیم انقلاب لائے انہوں نے مسلمانوں کو بیدار اور متحد کیا اور پھر انہیں ایک نئی فکر اور سوچ دی۔ اس فکر اورسوچ نے برصغیر ہند کو دو حصوں میں تقسیم کرکے مسلمانوں کیلئے ایک علیحدہ مملکت کی بنیاد رکھ دی۔ اسی مملکت کا ایک حصہ پھر سے محرومیوں کا شکار ہو کر پاکستان سے الگ ہو گیا اور بنگلہ دیش بن گیا۔ دوسرے صوبے بھی بے چینی کا شکار ہیں۔ سیاستدان ایک صوبے کو دوسرے کے خلاف لڑاتے رہتے ہیں اور اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لئے اکثر اوقات نفرت کے بیج بوتے ہیں کیونکہ انہیں ووٹوں اور حمایت کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ چاہے محبت کے ذریعے ملیں یا نفرت کے ذریعے… یہ تن کی دنیا ہے دراصل یہی وہ دنیا ہے جسے ہم دنیا کہتے ہیں کیونکہ اس میں انسان چکی کے دو پاٹوں میں پستا رہتا ہے، یہی دو پاٹ مل کر دنیا بناتے ہیں جبکہ من کی دنیا میں ”روٹی“ نہیں ہوتی۔ اس میں صرف یکسوئی ہوتی ہے اور اسی یکسوئی سے جذب و مستی جنم لیتے اور انسان کو اپنی مکمل لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ اسی لئے میں عرض کر رہا ہوں کہ صوفی کا انقلاب مستقل اور ابدی ہوتاہے چونکہ اگر کسی انسان میں صوفی کی نگاہ سے انقلاب آ جائے تو وہ بدلتا ہے نہ کم ہوتاہے اور وہ اس دنیا سے لے کر اگلے جہان تک ساتھ دیتا ہے۔ وہ قبر اور حضر دونوں کا ساتھی اور مخلص دوست ہوتاہے جبکہ دنیاوی انقلاب کمیونزم، سوشلزم، جمہوریت اور کیپٹلزم کی مانند اپنی شکل بدلتے رہتے ہیں کیونکہ وہ دنیاوی خداؤں کے تابع ہوکر وقتی ضروریات کے سانچے میں ڈھلتے رہتے ہیں۔ اس لئے علامہ اقبال نے کہا تھا ”من کی دنیا ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی نہیں… تن کی دولت چھاؤں ہے آتا ہے دھن، جاتا ہے دھن… غور کیجئے علامہ من کی دنیا کہہ رہے ہیں اور تن کی دولت کیونکہ من کی دنیا روحانی امر ہے، ایک لامحدود کائنات ہے جبکہ تن کی دنیا مادی امر ہے اس لئے یہ دنیا نہیں بلکہ چھاؤں ہے جو سورج کے طلوع اور غروب کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہے۔ ایک کی بنیاد ”روح“ ہے جبکہ دوسرے کی بنیاد ”مادہ“ ہے۔ یہی فرق ہے صوفی کے انقلاب اورسیاسی انقلاب میں، یہی فرق ہے صوفی اور سیاستدان میں کہ صوفی روح کی نمائندگی کرتا ہے جبکہ سیاستدان مادہ کی۔ صوفی سر سے لے کر پیر تک سچ، محبت،بے ریا ، ایثار اور اخلاص ہوتا ہے جبکہ سیاستدان سر سے لے کر پیر تک منافقت، حرص و ہوس، جھوٹ، خوشامد اور لالچ ہوتا ہے۔ میں اکثریت کی بات کر رہا ہوں، اقلیت کی نہیں۔ قائداعظم اخلاص، ایثار، بصیرت اور قوم سے محبت کا سمندر تھے۔ امانت و دیانت ان کا طرہ ٴ امتیاز تھا چنانچہ وہ آج بھی عوام کے دلوں میں محبت و احترام کا سمندر بن کر موجزہیں۔ بنگلہ دیش میں انہیں فادر آف دی نیشن یعنی بابائے قوم کارتبہ حاصل نہیں رہا جبکہ صوفی کا مقام و رتبہ حالات و واقعات سے بالاتر اور مستقل ہوتا ہے۔ سید علی ہجویری قیام پاکستان اور ہندو غلبے کے دور میں بھی داتا گنج بخش تھے اور آج بھی خلق خدا انہیں اسی طرح یاد کرتی ہے۔ پرتھوی راج اپنے عہد کا طاقتور ترین مہاراجہ تھا۔ اسے حضرت معین الدین چشتی  المعروف حضرت خواجہ غریب نواز کی اپنی راجدھانی میں موجودگی ناپسند تھی چنانچہ پرتھوی راج نے انہیں پیغام بھیجا کہ وہ اس کی راجدھانی سے نکل جائیں۔ حضرت معین الدین چشتی  کو پیغام ملا تو وہ مسکرائے اور فرمایا ہم تو یہیں رہیں گے پرتھوی راج سے کہو اپنی فکر کرے۔ کچھ ہی عرصے بعد پرتھوی راج محمد غوری سے شکست کھا کر مارا گیا اور اس کی راجدھانی مسلمانوں کے قبضے میں آگئی۔ یہ ہے من کی دنیا… اور یہ ہے تن کی دولت… من کی دنیا اور تن کی دنیا اور اسی طرح صوفی کے انقلاب اور سیاستدان کے انقلاب کو ایک دوسرے کے قریب لانے اور ایک دوسرے کا حصہ بنانے کے لئے علامہ اقبال نے روحانی جمہوریت کاخواب دیکھا تھا۔ ان کے ذہن میں مسلمانوں کے لئے جس آزاد مملکت کاخاکہ موجود تھا وہ اس کے نظام حکومت کو روحانی جمہوریت کا نمونہ بنانا چاہتے تھے۔ جو اسلامی اور قرآنی اصولوں پر استوار ہوگی اور اس میں مغربی جمہوریت کی مانند انسانی استحصال، دولت و سرمائے کی حکومت، بے راہ روی اوربے انصافی نہیں ہوگی بلکہ یہ انسان کی روحانی اور مادی ترقی کا حسین امتزاج ہوگی۔ مجھے یوں لگتا ہے جیسے پاکستان آمریت اور جمہوریت سے بیزار ہو کر اقبال کی روحانی جمہوریت کی تلاش میں ہے۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ علامہ کا یہ خواب کبھی شرمندہ تعبیر ہوگا یا نہیں لیکن گر خواب کا پہلاحصہ پاکستان کی صورت میں تعبیر بن چکا ہے تو دوسرے حصے کے بارے میں بھی حسن ظن رکھنا چاہئے…!!!
 

No comments:

Post a Comment