Saturday 19 May 2012

وہ جھوٹ بول کہ سچ کو بھی پیار آجائے. December 08, 2011

چند روز قبل پنجاب کے عظیم صوفی بزرگ اور روحانی رہنما بابا فرید گنج شکر کا عرس منایا گیا۔ اس دن سے بابا جی کا ایک شعر بار بار میرے ذہن کے دروازے پر دستک دے رہا ہے اور مجھے یاد دلارہا ہے کہ زیادہ گزر گئی اور تھوڑی باقی ہے۔ باباجی کا شعر پڑھئے اور ہوسکے تو دن میں ایک دوبار اسے پڑھ لیا کیجئے کہ اس سے آپکی ”صحت“ پر اچھا اثر پڑے گا۔
دیکھ فریدا جوتھیا، داڑھی ہوبور
اگا نیڑا آیا، پچھیا رہیا دور
پنجاب والے اس شعر میں اپنی سہولت کے مطابق ترمیم کرلیتے ہیں کیونکہ بابا جی کی زبان اب تقریباً تاریخ کا حصہ بن چکی ہے بہرحال ان کے مطبوعہ کلام میں اس شعر کو اسی طرح لکھا گیا ہے اور اس کا سادا سا مفہوم یہ ہے کہ فریدا دیکھ اب تیری داڑھی میں سفیدی جھلک رہی ہے، گویا موت قریب ہے اور گزری ہوئی زندگی یا جوانی دور جاچکی ہے۔ پنجاب کے گاؤں میں کسی عاقل و بالغ آدمی کو جھوٹ بولنے یا کسی شرعی عیب کا طعنہ دینا مقصود ہو تو لوگ کہتے ہیں کہ اسے سفید بالوں یا سفید ریش کی بھی”شرم“ نہیں ہے۔ اس میں ایک نفسیاتی نقطہ پوشیدہ ہے جو تھوڑا سا غور طلب ہے۔ وہ نقطہ یہ ہے کہ جب انسان کسی بہانے بھی دن میں ایک دو بار شیشہ یا آئینہ دیکھتا ہے تو اس میں اسے اپنے بالوں میں ابھرتی اور پھیلتی ہوئی سپیدی یا سفیدی یہ یاد دلاتی ہے کہ اگلا جہان قریب ہے اور پچھلا جہان دور رہ گیا ہے۔ اس کی مزید وضاحت یوں ہے کہ جوانی، سیاہ کالے بال، بھرابھرا چہرہ اور جسمانی طاقت انسان کو ایک نشے، اعتماد،ارادے اور خواب میں مبتلا رکھتی ہے اور جوانی کا نشہ اسے یقین دلاتا رہتا ہے کہ ابھی زندگی کا سفر طویل ہے، ابھی مجھے کئی دہائیاں زندہ رہنا اور بڑی بڑی فتوحات کا سہرا اپنے سر سجانا ہے۔ جونہی ان سیاہ کالے بالوں میں سفیدی جھانکنے لگتی ہے تو انسان محسوس کرتا ہے کہ اب جوانی کا سورج ڈھل رہا ہے لیکن جب سر پر سفیدی غالب آجاتی ہے تو اپنا چہرہ آئینے میں دیکھ کر خیال آتا ہے کہ میں اب بزرگی کی دہلیز پر قدم رکھ چکا ہوں۔ ایسے میں عام طور پر یہ خیال بھی آنے لگتا ہے کہ”اگا نیڑا آیا“ یعنی موت دو ر نہیں تو پھر انسان کے دل میں موت کا خوف ،قبر کا خوف، حساب کتاب کا خوف اور خدا کا خوف سر اٹھانے لگتا ہے جن دلوں پر مہر لگ چکی ہے ان کا حشر تو رب ہی جانتا ہے لیکن مشاہدہ یہ ہے کہ زندگی کی اس منزل میں داخل ہونے کے بعد انسان قدرے محتاط ہونا شروع ہوجاتا ہے، وہ اپنا چہرہ آئینے میں دیکھ کر توبہ و استغفار کرنے لگتا ہے، اپنے رب سے گناہوں کی معافی مانگنے لگتا ہے، اگر دل میں خوف خدا ہو تو مسجد کا رخ کرتا ہے ورنہ اس عمر میں بھی مسجد کا باغی رہتا ہے۔ بعض عادتیں یا عیوب انسان کی زندگی کا حصہ بن جاتی ہیں جن میں شراب نوشی بھی شامل ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ جو حضرات جوانی سے ہی اس لت میں مبتلا ہوجاتے ہیں وہ عام طور پر سر پر سفیدی کے باوجود اس میں غرق رہتے ہیں لیکن وہ حضرات جو محض شوقیہ مے نوشی کرتے ہیں وہ موت کو قریب آتے دیکھ کر مینا و ساغر سے توبہ کرلیتے ہیں۔ جھوٹ کی عادت بھی مے نوشی سے ملتی جلتی ہے جو لوگ بچپن اور جوانی سے جھوٹ بولنے کے عادی ہوتے ہیں، جھوٹ ان کی گھٹی میں پڑجاتا ہے اور عام طور پر انہیں جھوٹ سچ کی تمیز ہی نہیں رہتی۔ جو لوگ ضرورت کے مطابق جھوٹ بولنے کے عادی ہوتے ہیں وہ عام طور پر بالوں کی سفیدی کے تحت جھوٹ بولنا کم کردیتے ہیں اور جوں جوں ان کا ضمیر توانا اور بیدار ہوتا ہے اور ضمیر ہر لغزش پر نشتر چلانے شروع کرتا ہے تو وہ آہستہ آہستہ جھوٹ سے تائب ہوجاتے ہیں۔ ماشاء اللہ جو حضرات بچپن ہی سے سچ بولنے کے عادی ہوتے ہیں یا اپنی تربیت کے زیر اثر شرعی عیوب سے دور رہتے ہیں انکی بات نہیں کررہا کیونکہ جوانی کا نشہ ان کا کچھ بگاڑتا ہے اور نہ بڑھاپا کا احساس انہیں گناہوں پر مغموم کرتا ہے ۔ میں نے زندگی میں بہت سے عادی جھوٹے دیکھے اور انکی باتیں سن کر ہمیشہ یہ مصرعہ دہراتا رہا۔
وہ جھوٹ بول کہ سچ کو بھی پیار آجائے
ساری رام کہانی بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ انسانی رویے، عادات اور بعض اوقات کردار بدلنے میں آئینے کا بڑا حصہ ہوتا ہے جو اپنی”خوبصورت شکل“ دیکھنے والے کو یاد دلاتا ہے کہ اب تمہارے بالوں میں سفیدی سرنگ لگا رہی ہے یا پھیلتی جارہی ہے اب تو خدا کا خوف کرو کہ اگا نیڑے آیا اور پچھیارہیا دور۔ گویا یہ ایک نفسیاتی معاملہ اور مسئلہ ہے جس کی وضاحت اس واقعہ میں مضمر ہے۔ چند ماہ قبل ایک دیرینہ دوست سے ملاقات ہوئی جو بچپن یا جوانی ہی سے عاشق بامراد ہے۔ عاشق نامراد ہرگز نہیں۔ عشق بامراد اس سے زندگی بھر جھوٹ بلواتا رہا وہ یوں کہ ہر نئی محبوبہ سے جھوٹ بولنا اور اسے پہلی محبوب قرار دینا اور پھر ماں یا بیوی سے اس عشق کو چھپانے کے لئے جھوٹ بولنا ایک ایسا سلسلہ ہے جو ختم ہی نہیں ہوتا۔ یہ صاحب یا ”حضرت“کم از کم چونسٹھ پینسٹھ برس کے ضرور ہوں گے۔ انہوں نے بالوں پر اس قدر سیاہ رنگ چڑھایا ہوا تھا کہ جوانوں کو بھی بہت پیچھے چھوڑ گئے تھے۔ میں نے چائے کی پیالی پر انہیں چھیڑتے ہوئے پوچھا کہ ماشاء اللہ جوان لگ رہے ہو، بالوں کو بوٹ پالش سے خوب چمکایا ہے۔ وہ میری بات سن کر مسکرائے اور دل کا دروازہ کھولتے ہوئے کہنے لگے”سچ پوچھو تو آئینے میں اپنے سفید بال دیکھ کر میں ہر وقت بڑھاپے اور”اگا نیڑے آیا“ کے خوف میں مبتلا رہتا تھا۔ جب سے میں نے بالوں کو ڈائی کرنا شروع کیا ہے میں اس خوف سے نکل آیا ہوں اور مجھے یوں احساس ہوتا ہے جیسے”ابھی تو میں جوان ہوں“ چنانچہ میں اب دل کھول کر جوانوں کی سی حرکتیں کرتا ہوں اور جھوٹ وغیرہ بھی آسانی سے بول لیتا ہوں۔ پھر کہنے لگے کہ یار بال کالے کرنے کا ایک اور فائدہ بھی ہوا ہے۔ پہلے مارکیٹ کے رش میں خواتین راستہ مانگنے کے لئے کہتی تھیں ”بزرگوراستہ دے دیجئے یا انکل ذرا ایک طرف ہٹ جائیے“ جب سے میں نے بالوں کو جوان کیا ہے اب مسکراہٹ کے ساتھ کھنکتی ہوئی آواز آتی ہے ایکسکیوزمی معاف کیجئے تو پھر آنکھیں دو چارہوتی ہیں اور مزا ہی آجاتا ہے۔
کہنے کا مقصد یہ تھا کہ اگر لوگ بالوں کو فتح کرنا چھوڑ دیں تو شاید آئینے کے بار بار یاد دلانے پر جھوٹ بولنا بھی کم کردیں یا ترک کردیں۔میں جب ہر روز ٹی وی چینلوں پر سیاستدانوں، وفاردار کارکنوں اور سیاسی رہنماؤں کو ایک دوسرے پر تابڑ توڑ حملے کرتے ،الزامات کی بارش کرتے اور جھوٹے طعنے دیتے دیکھتا ہوں تو لامحالہ میری نظریں ان کے سروں کی جانب اٹھ جاتی ہیں جب سے سیاستدانوں کی لوٹ مار، اثاثوں اور میمو گیٹ کا دروازہ کھلا ہے ماشاء اللہ جھوٹ کی فیکٹریاں دن رات تیزی سے کام کرنے لگی ہیں۔قوم یوں محسوس کرنے لگی ہے جیسے سیاست محض جھوٹ کا کاروبار ہے اس لئے میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اگر سیاستدانوں اور ان کے وفاداروں پر قانون کے ذریعے بال رنگنے پر پابندی لگادی جائے تو شاید جھوٹ کے کاروبار میں کمی آجائے کیونکہ اب تو جھوٹ اور سچ میں تمیز مٹتی جارہی ہے جو بذات خود سیاست اور جمہوریت کے لئے بھی زہر قاتل ہے ۔ کیا آپ مجھ سے متفق ہیں؟
 

No comments:

Post a Comment