Sunday 20 May 2012

زندگی کے کئی روپ February 11, 2012


ہر چھوٹا بڑا شہر وہاں رہنے والوں کا اپنا اپنا شہر ہوتا ہے کیونکہ ہر شخص کا اپنا حلقہ احباب، اپنے دوست اور اپنی سرگرمیاں اور مصروفیات ہوتی ہیں، بلند و بالا خوشنما عمارتیں، وسیع سڑکیں اور سرسبز باغات اور پارکیں اپنی جگہ لیکن شہروں سے وابستگی اور اپنائیت شناسا چہروں کے حوالے سے ہوتی ہے۔ جب شناسا چہرے بدل جائیں، دوست، رفیقان کار، غم خوار اور مخلص ساتھی نہ رہیں تو وہی اپنا شہر پرایا اور اجنبی لگنے لگتا ہے۔ اسی لئے میں عرض کرتا ہوں کہ ایک آبادی میں ہزاروں اور لاکھوں لوگ رہتے ہیں لیکن وہ آبادی وہاں بسنے والوں کی اپنی اپنی ہوتی ہے اور دوسروں سے الگ ہوتی ہے۔ میں 1960میں لاہور آیا جب مجھے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ ملا اور پھر میں لاہور ہی کا ہو کر رہ گیا اگرچہ یہ سلسلہ ملازمت کئی شہروں کی خاک چھانتا رہا۔ 39سالہ ملازمت کے دوران میں نے زیادہ عرصہ لاہور ہی میں گزارہ کیونکہ میں لاہور میں اور لاہور مجھ میں بس گیا تھا۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے بحیثیت طالب علم اور پھر بحیثیت لیکچرار میری طویل وابستگی سات برسوں پر محیط تھی اور سچی بات یہ ہے کہ اس دور میں میری کل کائنات کالج اور ہوسٹل ہی تھا۔ میرے لئے بس یہی لاہور تھا۔ شام کو ہوسٹل سے نکل کر مال روڈ پر سیر کرتے ہوئے باغ جناح جانا، باغ جناح میں پھولوں کی رنگینی اور بھینی بھینی خوشبو سے قلب و نگاہ کو معطر کرنا میرا روز کا معمول تھا،۔ آج اسی مال روڈ پر چند قدم چلنا محال ہے کیونکہ ٹریفک کا شور، دھواں اور مٹی آپ کو اس طرح اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے اور حلیہ اس قدر بگاڑ دیتی ہے کہ آپ گھر پہنچیں تو اہل خانہ بھی آپ کو پہچان نہیں سکتے۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے میری سات سالہ وابستگی میری زندگی کا امنگوں بھرا نہایت جذباتی باب ہے اور کالج کے درودیوار سے میری سہانی یادوں کی کہانیاں لپٹی ہوئی ہیں۔ صدر پاکستان فیلڈ مارشل ایوب خان ہماری کانووکیشن پر آئے تو اپنے خطاب میں تسلیم کیا کہ نہر سویز سے اس طرف گورنمنٹ کالج لاہور اعلیٰ ترین درسگاہ ہے اور سچی بات یہ ہے کہ گورنمنٹ کالج ہر لحاظ سے بہترین کالج تھا۔ اس دور میں یونیورسٹی میں پوزیشنیں لینے سے لیکر سی ایس ایس میں پوزیشنیں لینے تک، دنیا بھر کے اعلیٰ کارکردگی کے سکالر شپوں سے لے کر رہوڈ سکالر تک اور ادبی دنیا سے لے کر تقریری مقابلوں میں ریکارڈ ٹرافیاں لینے تک تقریباً ہر اعزاز گورنمنٹ کالج کے حصے میں آتا تھا۔ کالج اور جوانی دنیا کو فتح کرنے، حسین خواب دیکھنے، ارادوں کے قلعے تعمیر کرنے اور امنگوں کو پالنے کا دور ہوتا ہے اور اس دور میں ہر طرف محبت اور خلوص کے بہتے دریا ملتے ہیں جن میں انسان ڈوبا رہتا ہے۔ میں نے گورنمنٹ کالج کی زندگی سے بہت کچھ سیکھا اور آج نصف صدی کے بعد واپس مڑ کر دیکھتا ہوں تو اس بات سے قدرے اطمینان ہوتا ہے کہ میں کالج کی ہر ادبی مجلس کا سیکرٹری اور عہدیدار رہا، میرے کالج کے زمانے میں کوئی کالج میگزین بھی میرے افسانے یا مضمون کے بغیر نہ چھپا۔ اس دور میں کالج کا میگزین ”راوی“ ایک معیاری ادبی پرچہ سمجھا جاتا تھا اور سال میں اس کے کم از کم تین شمارے چھپتے تھے۔ کانووکیشن پر مجھے بہترین اردو لکھاری کا ایوارڈ دیا گیا۔ میرے ساتھ اسٹیج پر طارق علی خان بیٹھا تھا جسے بہترین انگریزی لکھاری کا ایوارڈ ملا۔ شاید آپ کو علم ہو کہ طارق علی خان لندن میں رہتا ہے اور یورپ میں اپنی کتابوں اور مضامین کے سبب خاصی شہرت رکھتا ہے۔ طارق علی خان کیمونسٹ تھا میری اور اس کی نظریاتی چشمک ایک دلچسپ کہانی ہے جسے کبھی بیان کروں گا۔ میں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے میرٹ سرٹیفکیٹ اور رول آف آنر لیا جسے بڑا اعزاز سمجھا جاتا ہے لیکن مجھے سب سے زیادہ خوشی اس بات سے ہوتی ہے کہ میں نے کالج سے ایک نئے میگزین کا اجراء کیا جس کا نام پطرس تھا۔ یہ رسالہ کالج کے ہوسٹل کی جانب سے چھپنا شروع ہوا اور اب تک چھپ رہا ہے اس کے مدیروں کی فہرست میں پہلا نام میرا ہے جسے نصف صدی بعد دیکھ کر بھی خوشی ہوتی ہے۔ میری گھریلو لائبریری میں پطرس کے پہلے ادارتی بورڈ کے ساتھ اس ڈیبٹنگ (Debating)ٹیم کی تصویر بھی پڑی ہوئی ہے جس نے سال بھر میں سو سے زیادہ ٹرافیاں جیت کرہندو پاکستان میں ریکارڈ قائم کیا تھا۔ حسن اتفاق کہ میں بھی اس تصویر میں موجود ہوں کیونکہ میں بھی ان تقریری معرکوں میں شریک رہا اور دور دراز تک کالج کی نمائندگی کرتا رہا۔ گورنمنٹ کالج لاہور کی 125سالہ سالگرہ منائی گئی تو مجھے کالج سے نکلے تقریباً بائیس برس ہوچکے تھے لیکن یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ جب اس موقعہ پر راوی میں چھپنے والی تحریروں کے انتخاب، افسانہ، طنز و مزاح، شاعری اور مقالات کے حوالے سے الگ الگ چھاپے گئے تو میں افسانہ اور طنز و مزاح دونوں انتخابات میں شامل تھا۔ سنگ میل لاہور کی جانب سے چھپنے والی یہ کتابیں برادرم اجمل نیازی کے حسن انتخاب کا نتیجہ تھیں اور لطف کی بات یہ ہے کہ اس وقت میرا نیازی صاحب سے تعارف بھی نہیں تھا۔ وقت بڑا ظالم ہے اور زندگی کے حقائق خوابوں سے کہیں زیادہ تلخ ہوتے ہیں۔ میرے ساتھ گورنمنٹ کالج لاہور کے ہزاروں طالب علموں میں سے جن چند طلبہ نے اپنی مقررانہ صلاحیتوں، ادبی تخلیقات، انتخابی سرگرمیوں یا یوینورسٹی میں پوزیشنیں لے کر بہت شہرت پائی آج ان میں اکثر لاپتہ اور گمنام ہیں، یوں سمجھئے کہ زندگی کے سمندر میں گم ہوگئے ہیں جبکہ عملی زندگی میں سیاست، ادب اور زندگی کے دوسرے شعبوں میں نام پیدا کرنے والے وہ لوگ ہیں جو عام طور پر کالج لائف میں گمنام تھے۔
اس اصول کا اطلاق سب پر نہیں ہوتا لیکن اکثریت اس کی زد میں آتی ہے۔ زندگی کا مقدر عجیب و غریب ہوتا ہے دراصل مقدر بھی اپنا اپنا ہوتا ہے اور یہ عملی زندگی میں ایسے گل کھلاتا ہے کہ انسان دیکھتا رہ جاتا ہے۔ ہمارے زمانے میں پرائیویٹ سیکٹر نام کی شے نہیں ہوتی تھی چنانچہ طالب علموں کی ترجیحات میڈیکل، انجینئرنگ اور سب سے بڑھ کر سی ایس ایس ہوتی تھیں۔ سی ایس ایس میں مشرقی اور مغربی پاکستان سے چھ ہزار کے لگ بھگ، امیدوار مقابلے کے امتحان میں حصہ لیتے تھے اور عام طور پر ایک سو بیس کے لگ بھگ اسامیوں میں سے کوٹہ سسٹم کے تحت پنجاب کے حصے میں 23فیصد آتی تھیں۔ گویا مقابلے کا امتحان پاس کرنا عملی زندگی کے پل صراط سے گزرنا ہوتا تھا۔ بہرحال میں مقابلے کا امتحان پاس کرکے کالج چھوڑ گیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ گورنمنٹ کالج زندگی بھر میرے ساتھ رہا کیونکہ میرے ساتھیوں اور رفقائے کار کی اکثریت کا تعلق اسی کالج سے تھا اور وہی لوگ 39سال تک سروس میں میرے آگے پیچھے اور اردگرد چلتے رہے۔ میرا ایک کلاس فیلو جاوید اکبر تھا جس نے وکالت میں نام کمایا۔ میں اسے 1965ء کے بعد سے نہیں ملا۔ زندگی نے ہمارے چہرے اتنے بدل دیے ہیں کہ شاید ہم آمنے سامنے آئیں تو ایک دوسرے کوپہچان نہ سکیں۔ کبھی کبھار اس کا فون آتا ہے تو وہ مجھے یاد دلاتا ہے کہ تمہارا ”راوی“میں ایک افسانہ چھپا تھا ”شاہکار“ اس کا نام تھا وہ مجھے اب تک یاد ہے۔اتفاق ہے کہ وہ افسانہ گورنمنٹ کالج لاہور کی 125سالگرہ پر چھپنے والے انتخاب میں شامل ہے اور بعدازاں ”نقوش“ میں چھپا۔آپ سوچیں گے میں آج اپنی بپتا لے کر کیوں بیٹھ گیا؟ سیاست کے بخیئے ادھیڑتے ہوئے اپنی زندگی کے بخیئے کیوں ادھیڑنے لگا؟ دراصل 65سالہ زندگی گزارنے کے بعد ماضی کی یادیں زندگی کا سب سے بڑا اثاثہ ہوتی ہیں اور جب کوئی بڑا جھٹکا لگتا ہے تو یہ یادیں ذہن کو جھنجوڑنے لگتی ہیں۔ مجھے بھی ایک جھٹکے نے اس دوراہے پر لاکھڑا کیا ہے۔ ساری رام کہانی سنانے کا مقصد یہ تھا کہ میری گورنمنٹ کالج لاہور سے نہایت گہری اور جذباتی وابستگی ہے چنانچہ کچھ عرصہ قبل میں اپنے ماضی کی تلاش میں اور شدت جذبات سے مغلوب ہو کر گورنمنٹ کالج چلا گیا۔ ارادہ تھا کہ دن بھر وہیں رہوں گا۔ کالج میں جانے کے بعد مجھے ایک جھٹکا لگا، پھر دوسرا اور تیسرا جھٹکا ذرا زیادہ زور دار تھا۔ کیونکہ میں اجنبی کی مانند ان راہداریوں سے گزرا تھا جہاں میں نے زندگی کے بہترین سال گزارے تھے۔ طلبہ مجھے یوں گھور رہے تھے جیسے میں کوئی مجرم ہوں۔ اس وقت مجھے احساس ہوا کہ یہ وہ گورنمنٹ کالج نہیں جو میرا تھا۔ وہ چہرے بدل چکے اور وہ ماحول بدل چکا۔ تب مجھ پر یہ راز کھلا کہ جگہیں، ادارے اور شہر عمارتوں کا نام نہیں ہوتا۔ دراصل یہ ان دوستوں اور چہروں کا نام ہوتا ہے جو آپ کی دنیا آباد رکھتے ہیں۔ یہ کالج ان لڑکوں کا ہے جو یہاں دوستوں کے ساتھ ہنس اور مسکرا رہے ہیں۔ کچھ یہی واردات میرے لاہور کے ساتھ بھی ہوئی ہے اور اب مجھے لاہور وہ شہر نہیں لگتا جو میرا لاہور تھا۔ زندگی بدلتی رہتی ہے اور زندگی کے بے شمار روپ ہیں۔ بس یہی زندگی ہے اور ہم اس زندگی میں ابدی حقیقتیں تلاش کرتے ہیں۔ کتنے کم فہم ہیں ہم؟
 

No comments:

Post a Comment