Saturday 19 May 2012

اے کاش کوئی انہیں سمجھائے. January 18, 2012


ہر حاکم اپنے آپ کو عقل کل سمجھتا ہے۔ یہ راز مجھ پر کوئی نصف درجن حکمران دیکھنے کے بعد کھلا۔ بظاہر حاکم جتنی بھی مروت اور نرم گفتاری کا مظاہرہ کرتا رہے اس کے اندر ایک مغرور انسان براجمان ہوتا ہے جو اسے لوگوں کو استعمال کرنے اور بیوقوف بنانے پر طنزاً مسکراتا رہتا ہے۔ اسی طرح کی طنزیہ مسکراہٹ اور غیر قدرتی معصومیت میں اکثر صدر زرداری صاحب اور وزیراعظم گیلانی صاحب کے چہروں پر کھیلتی دیکھتا ہوں اور انجوائے کرتا ہوں۔ انجوائے اس لئے کرتا ہوں کہ میں نے بہت سے حکمرانوں کو قریب اور قدرے دور سے دیکھا ہے اور ان کے حد سے زیادہ خود اعتمادی، ہوشیاری اور عقل کل کے محلات کو مسمار ہوتے بھی دیکھا ہے۔ بعض تو تخت سے اترنے کے بعد یوں تھے جیسے مسلے ہوئے پھول، جیسے اَبر آلود شام اور جیسے چراغ سحری۔لیکن ماضی سے سبق سیکھنا ہمارے سیاستدانوں کی فطرت کے خلاف ہے بلکہ سچی بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر اتنی بصیرت ہی نہیں رکھتے تھے کہ تاریخ سے روشنی حاصل کرسکیں کیونکہ تاریخ سے روشنی حاصل کرنے کے لئے بھی بصیرت کی ضروت ہوتی ہے چنانچہ وہ اپنی اپنی ذات کے گنبدوں میں اسیر رہے، خوشامدیوں، درباریوں اور مطلب براروں کے ہاتھوں میں یرغمال بنے اقتدار کی راہداریوں سے رخصت ہوگئے۔ اقتدار کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس کا نشہ اتر بھی جائے تو قیمتی شراب کی مانند تلچھٹ چھوڑ جاتا ہے یعنی اقتدار کی بلندیوں سے اترنے کے باوجود بھی حکمران زمین پر نہیں آتا اور سابق حکمران ہونے کے جادو کا شکار رہتا ہے چنانچہ آپ سابق حکمرانوں سے مل کر دیکھ لیں۔ وہ کتنے ہی خدا خوف، غازی، پرہیزگار اور حاجی کیوں نہ ہو ان میں بوئے اقتدار اور سابق حکمرانی کا پندار ضرور ہوگا۔ ان کی ”میں“ کے ٹو کی چوٹی پر بیٹھی ملے گی اور ان کی ہوس کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا محسوس ہوگا۔ اگر اقتدار کے ساتھ دولت بھی شامل ہوجائے تو سمجھئے کہ دو آتشہ ہوگیا۔ بقول احمد فراز نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں۔ اقتدار حاضر ہو یا سابق اس کا اپنا نشہ ہوتا ہے اور دولت کا اپنا نشہ ہوتا ہے چنانچہ ان دونوں کے ملنے سے نشہ اتنا بڑھتا ہے کہ انسان عقل کل کی تمام منزلیں طے کر جاتا ہے اور ملک و قوم کے مقدر کا مالک بن بیٹھتا ہے حالانکہ خود اس کا اپنا مقدر اپنے ہاتھوں میں نہیں ہوتا۔
ہم جیسے دیوانے مدت سے چلا رہے تھے کہ حکمرانو عدلیہ سے نہ ٹکراؤ، زبانی زبانی عدلیہ کے احترام کی رٹ لگانے کی بجائے اس کے فیصلوں پر عمل کرو کہ اسی میں تمہارا ذاتی اور ہمارا قومی مفاد مضمر ہے اور یہ کہ فوج سے ٹکر نہ لو نقصان صرف تمہارا ہوگا لیکن بھلا اس جمہوریت کے نقارخانے میں ہم جیسی طوطیوں کی آواز کون سنتا ہے۔ وہ صرف اپنے جیسوں کی سنتے ہیں اور اپنے جیسے صرف تصادم اور یلغارکی زبان سمجھتے ہیں اور اسی طرح کے مشورے دیتے ہیں۔ گرم و سرد چشیدہ چودھری شجاعت حسین نے درست تشخیص کی ہے کہ پی پی پی عدلیہ اور فوج دونوں سے لڑنا چاہتی ہے۔ دراصل کہنا وہ یہ چاہتے تھے کہ پی پی پی دونوں کو فتح کرنا چاہتی ہے۔ یہ پی پی پی کا پرانا راگ ہے کہ وہ عوامی قوت سے ہر مزاحمت کو بلڈوز کر دیں گے لیکن بدلے ہوئے حالات میں انہیں کون سمجھائے کہ عوامی قوت ان سے بیزار ہوکر یوم نجات کی دعائیں مانگتی ہے کیونکہ عوامی قوت سے زندہ رہنے کا سارا سامان چھین لیا گیا ہے۔ بھوک و افلاس کی ماری ہوئی عوامی قوت عوامی نفرت میں تبدیل ہونے کو ہے اور کسی نجات دہندہ کا خواب دیکھ رہی ہے۔ اس وقت انہیں عمران خان نجات دہندہ لگتا ہے لیکن اگر اس سے بہتر کوئی نجات دہندہ پردہ شہود سے ظاہر ہو گیا تو لوگ اسے دعائیں دینے لگیں گے۔ حیرت ہے کہ حکمران اب بھی اس فریب میں مبتلا ہیں کہ وہ عوامی قوت کے شیر پر سوار ہیں۔ د راصل اقتدار اسی فریب کا نام ہے اور میں نے اکثر اقتدار سے نکالے گئے سیاسی پہلوانوں کو اسی فریب میں مبتلا دیکھا ہے۔


No comments:

Post a Comment