Sunday 20 May 2012

دنیا بدل گئی ہے March 03, 2012


نام کی نسبت کبھی باعث اعزازہوتی ہے تو کبھی باعث عذاب ہوتی ہے۔ پہلا تعارف نام کے ذریعے ہوتا ہے اس لئے نام اپنا عکس ڈال کر منفی یا مثبت جذبات پیداکرتا ہے۔ یہی میرے ساتھ ہوا۔ عالم اسلام کی سب سے پرانی اور ممتاز یونیورسٹی الازہر قاہرہ سے مجھے ایک لیکچر ار کی ای میل آئی تو میں چند لمحوں کے لئے سوچ میں پڑ گیا۔ یہ ای میل اُسامہ نامی نوجوان لیکچرار کی تھی اور میں نام پڑھتے ہی سوچنے لگا کہ ”اُسامہ“ تم نے ہماری زندگی کس قدر مشکل بنا دی ہے۔
قدم قدم پر جامہ تلاشی، سڑکوں پر ناکے، دفتروں اورگھروں کے باہر سکیورٹی گارڈ، ویزے، بیرونی سفر پیچیدہ اورنہایت مشکل اور پھر یہ دھماکے اورخودکش حملے اورخوف کے سائے تمہارے نام کی باربار یاددلاتے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ 9/11کے بعد دنیا بدل گئی ہے اور زندگی مشکل تر ہوگئی ہے۔ اس ساری صورتحال کافائدہ فقط سکیورٹی ایجنسی والوں کو ہوا ہے جن کی بہت بڑی اکثریت سابق فوجیوں پرمشتمل ہے۔ ابھی چند برس قبل تک کبھی سکیورٹی ایجنسی کا نام تک نہ تھا اور اب قدم قدم پر سکیورٹی ایجنسیاں اُگ آئی ہیں حتیٰ کہ سکولوں، کالجوں اور ہسپتالوں کے باہر بھی سکیورٹی گارڈکھڑے ہمیں یوں گھورتے ہیں جیسے اصلی مجرم ہم ہی ہوں۔ ہمار ے فوجی بھائی ریٹائرمنٹ کے بعد ہاتھ پرہاتھ دھرے آسمان پر تارے گناکرتے تھے اب ماشاء اللہ اُسامہ کو دعائیں دیتے ہیں اور سکیورٹی ایجنسیاں قائم کرکے لاکھوں کروڑوں کماتے ہیں۔ کبھی بڑی جیپ سٹیٹس سمبل او ردولت و دنیاوی حیثیت کی علامت ہوتی تھیں، پھر موبائل اور بڑی گاڑیاں آئیں ، اب گھروں کے باہر سکیورٹی گارڈدنیاوی حیثیت کی نشانیاں بن کر رہ گئے ہیں کیونکہ خطرہ تو صرف دولت اور عہدے کو ہوتاہے۔ جس گھر میں دولت یا عہدہ نہیں وہاں خطرہ کیونکر آئے گا البتہ ڈینگی مچھر عجب بدتمیز شے ہے کہ سکیورٹی گارڈز سے کلیئرنس لئے بغیر گھروں میں داخل ہو جاتاہے۔اب موبائل اتنے عام ہوگئے ہیں کہ پنجابی محاورے کے مطابق ان کی ”رُل“ پڑ گئی ہے۔ یہی حشر پانچ دہائیاں قبل ریڈیو کاہوا تھا۔
کبھی ریڈیو صرف امیر گھروں میں ہوتا تھااوردوردرازعلاقوں میں بجلی نہ ہونے کے سبب ڈرائی بیٹری پر سنا جاتا تھا جو عام طورپر ایک دو ماہ میں ختم ہو جاتی تھی۔ جاپانیوں نے ٹرانسسٹر ریڈیو ایجاد کئے جو چھوٹے چھوٹے سیلوں پر چلتے تھے پھر ٹرانسسٹر اتنے سستے اور عام ہوئے کہ ہم دیہاتوں میں لوگوں کو دودھ دھوتے ہوئے بھینس کے پاس رکھے ٹرانسسٹر سے لتااور نورجہاں کے گانے سنتے دیکھتے تھے اور خدا کی قدرت اورجاپانیوں کی ایجادات کی بیک وقت داد دیتے تھے۔ ایک بار میڈم نورجہاں نے احتجاج کرتے ہوئے کہا تھاکہ آرٹسٹ کی قدر کون کرے گااور ہماراگانا سننے کون آئے گا اب تو ہر سائیکل، ٹانگے اور راہگیر کے پاس ٹرانسسٹر ہوتا ہے جس پروہ ہمیں دن بھر سنتا رہتاہے۔ ٹی وی آیا پھر رنگین ٹی وی آیا تو ٹرانسسٹر ناپید ہوگیا اور اس کی حیثیت کھلونے کی بھی نہ رہی۔ میں جاپان گیا تو ٹوکیو کے ایک بڑے ہوٹل میں ٹھہرایاگیا۔ ایک روز ایک معروف ریڈیو ساز کمپنی کی ٹیم مجھے انٹرویو کرنے آئی اور جاتے ہوئے ایک ٹرانسسٹر تحفہ کے طورپر دے گئی۔میں وطن واپس آیا تو اسے کمر ے کی میزکے درازمیں رکھ دیا۔ چند ماہ بعد مجھے ٹرانسسٹر یاد آیا۔دراز کھولا تو ٹرانسسٹر غائب تھا۔ ظاہر ہے کہ وہ ملازم کے ہتھے چڑھ گیا تھا لیکن میں نے اس معاملے کو اتنی اہمیت بھی نہ دی کہ ملازم سے پوچھ گچھ کرتا کیونکہ ٹرانسسٹر متروک استعمال ہوچکا تھا۔ موٹی سی بات ہے کہ جو چیز عام ہو جائے اس کی ”رُل“ پڑ جائے وہ خزاں رسید ہ درخت اور بوڑھے لاغر انسان کی مانند اپنی کشش کھو بیٹھتی ہے۔ جب سے موبائل فون ہزار پندرہ سو روپے تک ملناشروع ہوا ہے لوگ جعلی عکس ڈالنے کے لئے مہنگے موبائل خریدتے ہیں اور اپنے ہاتھوں کو اس زیور سے سجاتے ہیں ۔
بشکریہ اعجاز منصوراورحسین حقانی کہ میموسکینڈل میں ایک موبائل کی اتنی پبلسٹی ہوئی ہے جتنی کمپنی اربوں روپے لگا کربھی نہ کرسکتی تھی۔ چنانچہ موبائل چوری کی وارداتوں میں بھی بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے کیونکہ اس چھوٹی سی شے کو چوری کرنااور چھپانا اورپھراونے پونے بیچنا آسان ترین ذریعہ آمدن ہے۔ کسی زمانے میں بھکاری کو ایک روپیہ دیتے تھے تو وہ خوش ہو کردعا دیتا تھا اب دس روپوں سے کم دیں تو بھکاری بددعادیتا ہے۔ اسی طرح گزشتہ دنوں میرے ایک پروفیسر دوست مجھے ملنے آئے تو ان کے چہرے پرپراسرار مسکراہٹ تھی۔ میں نے وجہ پوچھی تو جواب دیا کہ راستے میں ایک نوجوان فوراً حملہ آور ہوااورپستول تان کر کہاموبائل نکال دو۔ میں نے فوراً جیب سے موبائل نکال کرپیش کردیا۔اس نے موبائل پکڑا، اس پرنظرڈالی اورزمین پرپھینک کر بددعائیں دیتا غائب ہو گیا۔ بیچار ے کی واردات ناکام ہوئی کیونکہ موبائل پرانا اور سستا تھا اوربکنے کا اہل نہیں تھا۔ اللہ کے فضل و کرم سے موبائل فونوں کی چوریوں کایہی حال رہا تو مہنگے موبائل خریدنے والے اپنے ساتھ ہمہ وقت سکیورٹی گارڈ رکھنے پرمجبور ہوں گے۔ صاحب باغ میں سیر کریں یاہوٹل میں چائے پئیں ساتھ سکیورٹی گارڈ رائفل تھامے کھڑا ہوگا صاحب کی حفاظت کے لئے نہیں بلکہ مہنگے موبائل کی حفاظت کے لئے۔ سکیورٹی ایجنسیوں کے مالکان اَڈیاں چُک چُک کر اس دن کا انتظار کر رہے ہیں کیونکہ ان کی معیشت اور رزق عدم تحفظ کے خوف سے وابستہ ہے چنانچہ سکیورٹی ایجنسیوں والے دن رات اُسامہ کو دعائیں دیتے ہیں۔ اب تو نوبت ایں جا رسید کہ کسی دفتر جانا تو کجا کسی رئیس رشتے دار اوردوست سے بھی جامہ تلاشی کے بغیر ملنا مشکل ہو گیا ہے اور لوگ ملنے ملانے میں کاہلی کا شکار ہونے لگے ہیں۔ کوئی دو ہفتے قبل ایک نجی ٹی وی کے اینکر نے اپنے پروگرام میں لاہور کی پولیس فورس کا تجزیہ کرتے ہوئے بتارہا تھا کہ صرف 1200 پولیس والے رائے ونڈ پیلس اورخادم اعلیٰ پنجاب کی حفاظت پر مامور ہیں، ہزاروں پولیس افسروں، وزراء، بیوروکریسی اوروی آئی پی شخصیات کی ڈیوٹی پر ہیں۔ اس طرح لاہور کی پولیس فورس کا چالیس، پچاس فیصد چند سوبڑے لوگوں کی خدمت کر رہاہے اور80,70 لاکھ کی آبادی کے لئے بمشکل چند ہزار پولیس والے بچتے ہیں۔ گنجی دھوئے گی کیا اورنچوڑے گی کیا چنانچہ چوروں، بدمعاشوں اور قاتلوں کی چاندی ہے۔ وہ دن رات حاکموں کو دعائیں دیتے ہیں اور عوام 9/11 کو بددعائیں دیتے ہیں جس کے سبب حکمرانوں اوربڑے لوگوں کو ہر وقت اپنی سکیورٹی کا خطرہ رہتا ہے اس لئے وہ عوام کی سکیورٹی سے بے نیاز ہوگئے ہیں۔ حاکموں کے قافلے سڑکوں پر نکلتے ہیں تو شہریوں کے لئے سڑکیں تنگ ہو جاتی ہیں۔
وہ گھنٹوں ٹریفک میں پھنسے رہتے ہیں اور اپنی بے بسی کاماتم کرتے رہتے ہیں۔ ان حاکموں کے قافلے اتنے رعب داراور خوفناک ہوتے ہیں کہ ان کے سامنے اکبر بادشاہ کا ”با ادب ، با ملاحظہ، ہوشیار جہاں پناہ تشریف لاتے ہیں‘ بھی ایک حقیر سی شے لگتا ہے۔ ابھی کل کی بات ہے کہ سردارعبدالرب نشتر پنجاب کے گورنرہوتے تھے اور شام اکیلے باغ جناح میں سیر کیاکرتے تھے۔ میں نے اپنی گناہگارآنکھوں سے پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں نواز شریف کو 1986میں کئی بارباغ جناح کی سیرکرتے دیکھا۔ اب تو وہ رائے ونڈ سے نکلیں تو لاہور کی سڑکوں پر تھرتھلی مچ جاتی ہے اور ان کے ساتھ ان گنت گاڑیوں کاقافلہ ہوتاہے۔ خادم اعلیٰ بھی اسی طرح عوام کی خدمت کرتے ہیں۔ اب حکمران باغ جناح کی سیر کو ترستے اور آزادی کو یاد کرکے سردآہیں بھرتے ہیں جبکہ عوام بھی گھر سے بخش بخشوا کرکے نکلتے اور آیت الکرسی پڑھتے رہتے ہیں۔ دوستو! اب ہمیں زندگی اسی طرح گزارنی ہے کیونکہ دنیا بدل گئی ہے۔
 

No comments:

Post a Comment