Saturday 19 May 2012

دل پھر طوافِ کوئے ملامت کو جائے ہے November 27, 2011


بعض اوقات انسان مشکل یا مخمصے میں پھنس جاتا ہے کہ بولوں یا نہ بولوں۔ بولوں تو کسی کا مجرم ٹھہروں اور نہ بولوں تو قوم کا مجرم ٹھہروں یا کم از کم ضمیر کا مجرم بنوں۔ پچھلے دنوں ایک مکالمے یا مباحثے کے بعد میں نے سوچا تھا کہ آئندہ وضاحتوں کے چکر سے حتی الامکان کنارہ کش رہوں گا کیونکہ ہمارے ہاں برداشت تیزی سے کم ہو رہی ہے اور لوگ سیکھنے سکھانے کی بجائے غرور اور انا کے پہاڑ پر چڑھ جاتے ہیں اور دلیل کا جواب دلیل سے دینے کی بجائے گالیوں پہ اتر آتے ہیں۔ ٹی وی چینل آن کرو تو بلاشرکت غیرے ہر چینل پر لوگ دست و گریبان نظر آتے ہیں اور بے نطق سنائے جاتے ہیں چاہے اس سے تہذیب کا پردہ چاک ہویا گھریلو فضا کا تقدس تار تار ہو۔ میں ٹی وی پر لڑائی مارکٹائی کے مناظر مدت سے دیکھ رہا ہوں چنانچہ میں نے خبروں کے علاوہ ٹی وی دیکھنا خاصی حد تک ترک کر دیا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اس سے میری معلومات کی سطح ہرگز کم نہیں ہوئی۔ البتہ گزشتہ دنوں ایک چینل پر دو مولوی حضرات کو ایک دوسرے پر برستے ، گرجتے اور بے تحاشا فتوے دیتے دیکھ کر میں مسکرائے بغیر نہ رہ سکا حالانکہ میں زندگی بھر مرغوں کی لڑائی سے کبھی محظوظ نہیں ہوا۔ ہماری قوت برداشت کے فقدان نے نہ صرف ثناء خوانِ تہذیب مشرق کی تہذیب کا پردہ چاک کر دیا ہے بلکہ جمہوریت، برداشت اور اسلامی آداب کے علمبرداروں کو بھی بے نقاب کر دیا ہے۔ اس طرح کے ماحول میں دامن بچا کر رہنا ہی بہتر ہے۔ لیکن کیا کروں کہ جب بھی تحریک پاکستان یا قائداعظم کے حوالے سے کوئی وضاحت طلب، بظاہر غلط یا متنازع بات چھپتی ہے تو کچھ طالب علم اور ایک دو تحریک پاکستان کے بزرگ بلکہ بزرگ ترین کارکن فون کالیں کر کے مجھے مجبور کر دیتے ہیں۔
کچھ تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار
اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں
گزشتہ دنوں ہماری ہونہار ذہین اینکر پرسن اور کالم نگار ثناء بچہ نے اپنے انگریزی کالم میں لکھا :
It surprises me that we have forgotten those very people who helped draft the resolution that gave us Pakistan. Muhammad Zafarullah Khan was an Ahmadi but it was he who drafted the Pakistan Resolution. (News , Nov 20, 2011)
حسب معمول میں نے یہ کالم نہیں پڑھا تھا لیکن دو تین فون کالوں نے مجھے یہ پڑھا دیا۔ آگے بڑھنے سے قبل یہ وضاحت کر دوں کہ خدارا تاریخی حقائق کو مذہبی حوالے سے نہ پڑھیں کیونکہ تاریخ بہرحال تاریخ ہے اور جس نے جو کارنامہ سر انجام دیا ہے اسے کریڈٹ ضرور ملنا چاہئے۔ میں ہمیشہ ڈاکٹر عبدالسلام نوبل انعام یافتہ کے پاکستانی ہونے پر فخر کرتا ہوں اور مجھے خوشی ہے کہ میں نے بطور فیڈرل سیکرٹری وزارت تعلیم ڈاکٹر عبدالسلام کے نام پر گورنمنٹ کالج لاہور میں چیئر کے قیام میں اہم کردار سرانجام دیا۔ ڈاکٹر صاحب بحیثیت طالب علم گورنمنٹ کالج کے ہوسٹل میں مقیم رہے۔ ہوسٹل کا ایک بزرگ ملازم بتایا کرتا تھا کہ جب عبدالسلام جھنگ سے ہوسٹل میں آئے تو انہوں نے شلوار قمیص اور گاؤں کے موچی کا بنا ہوا کھسّہ اور سر پر پگڑی پہن رکھی تھی اور ان کے پاس لوہے کا ایک ٹرنک تھا۔ میں ڈاکٹر صاحب سے صرف دو بار مل سکا جب وہ پنجاب حکومت کے مہمان تھے اور میں نے دونوں بار ان کو شلوار قمیص اور پنجاب کا ”کھسّہ“ پہنے دیکھا۔ شاید نوبل انعام وصول کرتے ہوئے بھی انہوں نے شلوار قمیص اور کھسے کے اوپر شیروانی پہنی تھی اور سر پر پگ سجائی تھی۔ دوسری ملاقات جو شاید 1990ء کے لگ بھگ کھانے پر ہوئی اس میں ڈاکٹر صاحب نے مسکراتے ہوئے یہ پرانا واقعہ سنایا کہ ان کی بیٹی سکول کی طالبہ تھی۔ اسے جب حساب کے سوالات سمجھ میں نہ آتے تو میرے پاس آتی اور پاؤں پٹختی ہوئی واپس چلا جاتی کہ آپ کو نوبل انعام کس نے دے دیا آپ کو تو میرے میتھ (MATH) کے سوالات بھی نہیں آتے۔ معاف کیجیے گا یادوں کے دریچے کھل جائیں تو انہیں بند کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ معذرت بات بہت دور نکل گئی۔
کہنا یہ چاہتا تھا کہ اگر قرارداد پاکستان سر ظفر اللہ خان نے ڈرافٹ کی ہوتی تو میں اسے ببانگ دہل تسلیم کرتا لیکن تاریخی حقائق اس کی نفی کرتے ہیں۔ اس حوالے سے محترمہ ثناء بچہ کو چاہئے کہ وہ شریف الدین پیرزادہ کی معتبر کتاب (EVOLUTION OF PAKISTAN) کا مطالعہ کریں۔ جناب شریف الدین پیرزادہ کی قانونی و آئینی زندگی متنازع رہی ہے لیکن ان کی تحریک پاکستان اور قائد اعظم سے وابستگی او رتحقیقی کام شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ انہیں قائد اعظم کا سیکرٹری ہونے کا غیرمعمولی اعزاز بھی حاصل ہے۔ پہلے تو یہ بات سمجھ لیں کہ ایک آزاد اسلامی ریاست کے قیام کا مطالبہ علامہ اقبال نے کیا تھا جو 1940ء تک ہندوستانی مسلمانوں کے دل کی دھڑکن بن چکا تھا۔ میاں نور احمد نے اپنی کتاب ”نور بصیرت کلام اقبال کی روشنی میں“ میں اس پس منظر کو ان الفاظ میں سمیٹا ہے ”غلامی میں علامہ کا نظریہ یہی تھا کہ مسلمانوں کی ایک اپنی آزاد ریاست ہونی چاہئے جس میں وہ اپنے دین جو کہ مکمل ضابطہ ٴحیات ہے، کو نافذ کر سکیں۔ ہندوستان کے علماء و فضلا اس نظریے کی مخالفت کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہمیں عبادت کرنے سے کوئی نہیں روکتا … ان کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ جب اسلام محبوس ہے تو مسلمان کیسے آزاد ہو سکتا ہے۔ اسلام چند عبادات کا نام نہیں ہے بلکہ ایک مکمل ضابطہ ٴ حیات ہے۔ جب تک مکمل ضابطہ نافذ نہیں ہو گا اسلام پر عمل نہیں ہو سکے گا … مدینہ کی ریاست کی ضرورت پڑ سکتی تھی تو پاکستانی ریاست کی ضرورت کیوں نہیں تھی؟“ (ص 202)
آپ کو علم ہے کہ ایک آزاد مسلمان مملکت کے قیام کا مطالبہ پہلے سندھ مسلم لیگ نے 1939ء میں کیا ۔جب آل انڈیا مسلم لیگ نے مارچ 1940ء میں یہ مطالبہ کرنے کا فیصلہ کیا تو انگریز حکومت نے جلسہ ملتوی کرانے کے لئے ہر قسم کا دباؤ ڈالا حتیٰ کہ اس مقصد کے لئے برطانوی حکومت نے سر ظفر اللہ خان اور پنجاب کے پریمیر سر سکندر حیات کی خدمات بھی حاصل کیں لیکن قائد اعظم اپنے فیصلے پر ڈٹے رہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب ہندوستان کے وائسرائے لنلتھگو نے 20مارچ 1939ء کو یہ اعلان کیا کہ ہندوستان کو جلد ڈومینن کا درجہ دے دیا جائے گا یعنی آزادی دے دی جائے گی تو اس اعلان کے حوالے سے سر ظفر اللہ خان نے وائسرائے کے لئے نوٹ تیار کیا جس میں مسلم لیگ اور کانگرس کے مطالبات کا تجزیہ کیا گیا تھا۔ اس نوٹ میں انہوں نے چودھری رحمت علی کی سکیم اور مشرق اور مغرب میں دو مسلمان مملکتوں کے قیام کا جائزہ لے کر مسلمانوں کی علیحدگی کو مسترد کر دیا تھا اور متحدہ ہندوستان کے تصور کی حمایت کی تھی۔
چنانچہ شریف الدین پیرزادہ ایک بیان کا حوالہ دیتے ہیں جس میں ظفر اللہ خان نے برملا تسلیم کیا تھا کہ انہوں نے کبھی بھی تقسیم ہند کا کوئی فارمولا پیش نہیں کیا اور یہ بھی کہا تھا کہ یہ ناممکن ہے کہ اس حوالے سے قائد اعظم ان کی رائے کو کوئی اہمیت دیتے (صفحہ 208) ۔ البتہ سر سکندر حیات نے 11مارچ 1941ء کو پنجاب قانون ساز اسمبلی میں یہ انکشاف کیا تھا کہ قرارداد لاہور کا اوریجنل مسودہ انہوں نے تیار کیا لیکن مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی نے اس میں اتنی ترمیمیں کیں کہ اس کا حلیہ بدل گیا۔ ظاہر ہے کہ سکندر حیات پنجاب لیجسلیٹو اسمبلی میں غلط بیانی نہیں کر سکتے تھے کیونکہ اس وقت سارے سیاسی لیڈران زندہ تھے۔ بہرحال سکندر حیات کے بیان کی مسلم لیگ کی جانب سے تردید نہ کرنے کا مطلب واضح ہے۔ رہا اقلیتوں کے حقوق کا مسئلہ تو میرے نزدیک اس کا بہترین راہنما میثاقِ مدینہ ہے جس میں بقول ڈاکٹر حمیداللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اقلیتوں کو برابر کے حقوق دیئے تھے۔ جب قائد اعظم اقلیتوں کے حقوق پر زور دیتے تھے تو ان کے پیش نظر یہی رول ماڈل تھا۔ چنانچہ جب چودہ اگست 1947ء کو دستور ساز اسمبلی کے انعقاد کی تقریب میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اقلیتوں سے سلوک کے حوالے سے اکبر بادشاہ کا ذکر کیا تو قائد اعظم کا جواب بڑا واضح تھا کہ ہمارا رول ماڈل اسوئہ حسنہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں جنہوں نے تیرہ صدیاں قبل اقلیتوں سے شاندار سلوک کی مثال قائم کی۔ دراصل اس تقریر میں قائد اعظم  نے میثاقِ مدینہ ہی کا حوالہ دیا تھا۔ آج بھی میثاقِ مدینہ پر خلوص نیت سے عمل کرنے کی ضرورت ہے اور یہی ہمارے مسئلے کا حل ہے۔ اللہ ہمارا بھلا کرے اور ہمارے ”مولویوں“ کو میثاقِ مدینہ پڑھنے اور سمجھنے کی توفیق دے۔
 

No comments:

Post a Comment