Sunday 20 May 2012

بلوچستان۔ نااہلی اور دوعملی کا شاہکار February 26, 2012


بلوچستان کی بگڑتی اور آہستہ آہستہ ہاتھ سے نکلتی صورتحال پر میرا کالم چھپا تو صبح ہی صبح بہت سے دوستوں کے فون آئے جو اس حوالے سے متفکر ہیں۔ ان کی تشویش بجا ہے کیونکہ بقول شخصے حکمرانوں نے بلوچستان کے مسئلے کے حل کے لئے پختہ حکمت عملی بنانے کی بجائے رحمان ملک کو”آگے“ کردیا اور اس سے وہ اعلان کروادیا جو خود وزیر اعظم کو کرنا چاہئے تھا۔ گویا رحمان ملک کے پانی کی بوندیں جنگل میں لگی آگ کو بجھا نہیں سکتیں۔ وزیر داخلہ کے بیان کا وہی ردعمل ہوا جس کی توقع تھی۔ باغی بلوچ لیڈران نے اسے مسترد کرنے میں چند لمحے بھی ضائع نہ کئے اور ایک سردار نے تو یہاں تک کہا کہ آخر رحمان ملک کی حیثیت ہی کیا ہے اور ہم سے یہ مذاق کیوں کیا جارہا ہے۔ بدقسمتی سے اس اعلان نے یہ تاثر پیدا کیاکہ گویا حکومت بلوچستان کا مسئلہ حل کرنے میں سنجیدہ نہیں کیونکہ اگر حکومت سنجیدہ ہوتی تو ان مطالبات پر غور کیا جاتا جو بلوچ رہنماؤں کی جانب سے اخبارات میں چھپ چکے ہیں۔ مجھے اپنی تاریخ کے پس منظر میں یہ اندیشہ پریشان کررہا ہے کہ ہمارے موجودہ حکمران تو اپنے گیت الاپ کر چلے جائیں گے لیکن مسئلہ مزید بگڑ جائے گا اور آنے والے حکمرانوں کے گلے پڑجائے گا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بیرون وطن بیٹھے ہوئے باغی بلوچ سرداروں کی باغیانہ دھمکیوں کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے اندر سے کچھ ہمدرد اور متوازن آوازیں بھی بلند ہورہی ہیں جن سے بات کرکے بغاوت کی آگ پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ خطرہ یہ ہے کہ اگر بروقت اقدامات نہ کئے گئے تو یہ چند آوازیں بھی مایوسی کا شکار ہو کرانتہا پسندوں کے ساتھ مل جائیں گی اور اس طرح گفتگو کے دروازے بند ہوجائیں گے۔ یہی وہی صورتحال ہے کہ مارچ 1971ء سے قبل شیخ مجیب الرحمن متحدہ پاکستان کے فریم ورک میں بات کرنے کو تیار تھا لیکن پھر وہ انتہا پسندوں کے ہاتھوں یرغمال بن گیا اور اس نے پلٹن میدان میں آزادی کا نعرہ لگادیا ۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ابھی وقت اور موقع ہے، گفتگو کے دروازے کھلے ہیں اور حکمت عملی کے ذریعے بلوچ لیڈروں کو ساتھ ملا کر بیرون وطن بیٹھے ہوئے باغی سرداروں کو تنہا(Isolate)کیا جاسکتا ہے۔ سردار اکبر بگٹی کے نواسے کی بات سنئے اکبر بگٹی کے قتل کے ضمن میں جنرل پرویز مشرف کے ریڈ وارنٹ جاری کیجئے ،گرفتار اور اٹھائے گئے نوجوانوں سے”وعدے“ لے کر انہیں رہا کیجئے، ایجنسیوں کے کردار کو محدود کیجئے ،فوج کو بلوچستان کی سیاست اور حکمرانی سے الگ کیجئے، اگر کہیں فوجی آپریشن ہورہا ہے تو اسے بند کیجئے ،بغاوت کے الزام میں ایجنسیوں کے ہاتھوں مرنے والوں کے خاندانوں کی اشک شوئی کیجئے اور مالی امداد کا اعلان کیجئے، ان اقدامات کے بعد فضا قدرے بدلے گی اور زمین گفتگو کے لئے ہموار ہوسکے گی ۔ممکن ہے حکومت اے پی سی میں ان معاملات پر بحث کرکے اعلان کرنا چاہتی ہولیکن مجھے ا ندیشہ ہے کہ اے پی سی زیادہ موثر ثابت نہیں ہوگی کیونکہ کچھ بڑی اور نمائندہ جماعتیں اس کا بائیکاٹ کریں گی اور اس طرح اے پی سی محض حکومت اور حکومتی اتحادیوں تک محدود رہ جائے گی۔ اس حوالے سے دوسرا اہم مسئلہ اور رکاوٹ بھی قابل غور ہے اور وہ یہ کہ پیپلز پارٹی کی بلوچستان میں حکومت نہ ہونے کے برابر ہے بلکہ یوں لگتا ہے جیسے وہاں کوئی حکومت ہے ہی نہیں۔ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ فقرے بازی کے تو ماہر ہیں لیکن انتظام و انصرام ان کے بس کا روگ نہیں۔ چنانچہ کوئٹہ سے باہر حکومتی رٹ دم توڑ چکی ہے اور خود صوبائی دارالحکومت میں چوروں اور وارداتیوں کا راج ہے۔ وزیر اعلیٰ کی بے بسی کا یہ حال ہے کہ وہ ایک سے زیادہ بار یہ کہہ چکے ہیں کہ معاملات ان کے کنٹرول میں نہیں۔ انہوں نے ہر بار یہ تاثر دیا ہے جیسے ان کے اوپر ایک حکومت ہے جو ان کی نہیں سنتی اور وہی حکومت فیصلے کرتی اور بلوچستان کا انتظام چلاتی ہے۔وہ حکومت کونسی ہے جس کے سامنے مرکزی اور صوبائی حکومتیں بے بس ہیں؟ اشاروں میں اشارہ فوج کی جانب کیا جاتا ہے جبکہ آرمی چیف اعلان کرچکے ہیں کہ فوج کا بلوچستان کے معاملات سے کوئی تعلق نہیں اور فوج فقط چھاؤنیوں تک محدود ہے۔اس دو عملی کے سبب بلوچستان کی صورتحال بگڑ رہی ہے، صوبائی حکومت کی نااہلی اور بے بسی ضرب المثل بن گئی ہے اور باغی بلوچ بیرون وطن بیٹھے اعلان کرتے ہیں کہ وہ کس سے بات کریں اور کس پر اعتماد کریں؟ صدر زرداری صاحب کے معافی نامے اور ترقیاتی پیکیج کا جو انجام اور حشر ہوا وہ سب کے سامنے ہے اور وہ حشر اسی دوعملی اور بے بسی کے سبب ہوا۔ بلوچستان میں ایک موثر اور متحرک حکومت کی ضرورت ہے جو بنتی نظر نہیں آتی، اراکین کی اکثریت کو رام کرنے کے لئے وزارتوں اور عہدوں کی رشوت دے کر چھوٹی سی صوبائی پارلیمنٹ کو مذاق بنادیا گیا ہے جو عوام اور اقتدار کے درمیان پل بننے کی بجائے خزانے پر بوجھ بن چکی ہے۔ صدر زرداری صاحب نے کل ہی بلوچوں کے پاس چل کر جانے کا بلند آہنگ اعلان کیا اور پھر یہ کام بلوچستان کے غیر موثر گورنر سردارمگسی کے ذمہ لگادیا ۔ ان حالات میں کوئی معجزہ ہی بلوچستان کے حالات سدھار سکتا ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ اب معجزے نہیں ہوتے صرف کرامات ہوتی ہیں اور کرامتوں کے لئے جس اہل قیادت کی ضرورت ہوتی ہے فی الحال پاکستان اس سے محروم ہے۔ بلوچستان میں لاقانونیت کے حوالے سے ایک ہمدرداور معتبر آواز پیش خدمت ہے اسے پڑھئے اور حالات کے رخ پرغور کیجئے۔
محترم جناب ڈاکٹر صفدر محمود صاحب
السلام علیکم!میں روزنامہ جنگ میں آپ کا کالم بڑی دلچسپی سے پڑھتا ہوں۔ تحریک پاکستان کے حوالے سے آپ کی تحریر بڑی مستند اور تاریخی حقائق پر مبنی ہوتی ہے اور قارئین کے لئے علمی اضافے کا سبب بنتی ہے چونکہ آپ کا حلقہ اثر کالم کے حوالے سے بڑا وسیع ہے اسی لئے بلوچستان کے حوالے سے آپ کی خدمت میں چند گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں۔
محترم جناب چند سالوں سے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ امن و امان کے حوالے سے انتہائی مشکلات کا شکار ہے، بے گناہ انسانوں کی ٹار گٹ کلنگ ،اغواء برائے تاوان اور گاڑیوں کی چوری اب ایک معمول بن چکا ہے جن کی وجہ سے یہاں صدیوں سے آباد ہزاروں گھرانے اور خاندان صوبے کو خیر آباد کہہ چکے ہیں ۔ ان حالات میں ہر صاحب دل پریشان ہے اور خاص کر کاروباری طبقہ ان حالات سے بہت متاثر ہوا ہے اور اکثر تاجر پیشہ لوگ نان و نفقہ کے محتان ہوچکے ہیں۔ موجودہ حکومت شہریوں کو تحفظ دینے میں مکمل ناکام ہوچکی ہے اور بلوچستان مستقبل کے ان دیکھے خدشات میں گھرا ہوا نظر آتا ہے اور انتظامیہ بے بس نظر آرہی ہے جہاں عام شہری پریشان ہے ،اب اغواء کاروں نے اپنا رخ سیاسی پارٹیوں کے اہم ذمہ دار افراد کو نشانہ بنانا شروع کیا ہے ۔ اس کی چند مثالیں آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں جو کہ درج ذیل ہے۔
1۔جمعیت علماء اسلام نظریاتی کے مرکزی جنرل سیکرٹری مولانا عبدالقادر لون کی گاڑی ان کے دفتر کے سامنے سے چوری کی گئی اور اب ایک سال کے بعد برآمد ہوئی۔
2۔چار ماہ قبل امیر جماعت اسلامی بلوچستان عبدالمتین آخنزادہ کی گاڑی کوئٹہ کے مشہور بازار جناح روڈ سے دن دہاڑے چرالی گئی
اور ابھی تک اس کی کوئی اطلاع نہیں، اس حوالے سے صوبے کے چیف سیکرٹری سے جماعت اسلامی کے وفد نے ملاقات کی لیکن اس کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔
3۔پشتونخواملی عوامی پارٹی کے صوبائی جنرل سیکرٹری اور سابق ایم او پی عبدالرحیم زیارتوال سے ان کی گاڑی چھینی گئی اور اب حال ہی میں ان کی گاڑی برآمد ہوئی۔
4۔عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر اورنگزیب ایڈووکیٹ سے ان کے گھر کے قریب دو ہفتے قبل ان سے گاڑی چھینی گئی اور ابھی تک برآمد نہیں ہوئی۔
5۔ایک ہفتے قبل جمعیت علماء اسلام کے مرکزی امیر اور ممبر قومی اسمبلی مولانا عصمت کے گھر سے رات کو گاڑی چوری کی گئی اور تاحال اسی کی برآمدگی کی کوئی اطلاع نہیں۔
6۔ اب حال ہی میں جمعیت علماء اسلام کے صوبائی سالار حاجی محمد صادق نورزئی کو رات گھر جاتے ہوئے راستے میں اغواء کیا گیا جس کو تین دن بعد سخت احتجاج کے بعد رہا کیا گیا اس کے علاوہ کئی واقعات روزانہ کا معمول بن چکے ہیں۔ اب آخر میں بغیر کسی تبصرے کے صوبائی وزیر داخلہ کے بیان کا حوالہ دونگا جو صوبے کے تمام اخبارات میں شائع ہوچکا ہے ۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ اغواء برائے تاوان بھی بعض صوبائی وز راء شامل ہے۔
محترم صفدر محمود صاحب میں نے انتہائی اختصار کے ساتھ سے کام لیتے ہوئے صوبے کی موجودہ صورتحال کا ایک سرسری جائزہ پیش کیا ہے اپ ان گزارشات کو صوبے کی عوام کی ترجمانی سمجھ لیں۔ والسلام آپ کا دعا گو…عبدالقیوم کاکڑ ڈپٹی جنرل سیکرٹری جماعت اسلامی بلوچستان

No comments:

Post a Comment