Saturday 19 May 2012

اللہ اللہ خیر سلا December 18, 2011


سارا جسم ہی زخمی ہے کس کس دکھتی رگ پر انگلی رکھی جائے اور کس کس زخم کو سہلایا جائے ۔ صنعتوں کو گیس ساڑھے تین دن ملے گی۔ اس طرح لاکھوں غریب خاندان بھوک و افلاس کا شکار ہو جائیں گے اور ملکی برآمدات بری طرح متاثر ہونگی۔ نتیجے کے طور پر تجارتی خسارہ مزید بڑھے گا تقریباً 47طیارے گراؤنڈ ہو چکے چنانچہ پاکستان کی ہوائی سفر کی سہولت ہچکیاں لے رہی ہے بہت سی فلائٹس منسوخ ہونے سے نہ صرف ہماری ایئر لائن کا بھٹہ بیٹھ گیا ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی بدنامی ہو رہی ہے ۔ ریلوے انجن ڈیزل نہ ملنے کی وجہ سے ریلوے اسٹیشنوں پر کھڑے قوم کا منہ چڑا رہے ہیں اور حکمرانوں کی قابلیت کی چغلی کھا رہے ہیں ۔ لگتا ہے حکمران قوم کو زبردستی آرام کرانے کا فیصلہ کر چکے ہیں چنانچہ انہوں نے پی آئی اے اور ریلوے دونوں کا پہیہ جام کر دیا ہے ۔ غور کیا جائے تو یہ دو اداروں کا نہیں بلکہ ملکی صنعت کا پہیہ جام کیا جا رہا ہے ۔
ایک طرف غربت اور بیروزگاری بھنگڑا ڈال رہی ہے تو دوسری طرف قوم کو میمو گیٹ کا بخار چڑھا ہوا ہے ۔ اچھا ہوا کہ قوم کی توجہ زندگی و موت کے مسائل سے ہٹ کر میمو گیٹ پر لگ گئی ہے ۔ کل تک تو یہ بخار اتنا شدید تھا کہ یار لوگوں نے مارشل لاء کی افواہ اڑا دی ۔ اللہ بھلا کرے میڈیا کا کہ یہ افواہ جلد ہی دم توڑ گئی ۔ ویسے الیکٹرانک میڈیا کے کئی کمالات ہیں اور ان میں سے ایک کمال یہ بھی ہے کہ کسی وقت بھی ٹی وی آن کرکے تازہ خبر لی جا سکتی ہے ۔ اس سے قبل تو فوج حکومت پر قبضہ کرتے ہی سب سے پہلے ٹی وی اسٹیشن پر قبضہ کرتی تھی اور پھر خاصی دیر تک ٹی وی سکرین پر بارش کی رم جھم جاری رہتی تھی ۔ وزیر اعظم کو گرفتار اور خطرناک عناصر کو بند کرکے ٹی وی پر اعلان ہوتا تھا کہ ”بلڈی “ سویلین حکومت کو فارغ کرکے فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا ہے ۔ اب ایسا کرنا مشکل ہو گا کیونکہ ملک میں ان گنت ٹی وی چینلز کھل چکے ہیں جن پر دن رات نشریات کا میلہ لگا رہتا ہے ۔ اب کس کس چینل کو بند کیا جائے گا کیونکہ لوگوں نے براہ راست سیٹلائٹ سے رابطہ رکھنے کے لئے ڈشیں بھی لگوا رکھی ہیں ۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ اب فوج کے لئے ٹیک اوور اتنا آسان نہیں رہا جتنا میرے ممدوح ڈاکٹر بابر اعوان شور مچا رہے ہیں ۔ کم از کم اس ایک ایشو پر ساری سیاسی جماعتیں اور سیاسی قوتیں متفق ہیں کہ وہ آرمی ٹیک اوور کی بہرحال مزاحمت کریں گی۔ اب وہ پہلے والی کہانی نہیں دہرائی جائے گی کہ مسلم لیگ گئی تو پی پی پی نے مٹھائیاں بانٹیں اور پی پی گئی تو مسلم لیگ کے جعلی جیالے مٹھائی کے ٹوکرے لیکر سڑکوں پر کھڑے ہو گئے ۔ ویسے ہمارا قومی کردار اس طرح کا ہے کہ ایک دو دن مزاحمت کے بعد لوگ وزارت کے جھانسے میں آ جاتے ہیں اور پاکستان کو مضبوط و مستحکم بنانے کے لئے فوجی صدر کے تحت حلف وفاداری اٹھا لیتے ہیں ۔ اسی کردار کا مظاہرہ آج کل دن رات ہو رہا ہے ۔ پی آئی اے اور ریلوے کے مسافر ہوائی اڈوں اور ریلوے اسٹیشنوں پر ”رل“ رہے ہیں لیکن سیاسی مسافر دن رات تیز رفتاری سے سفر کر رہے ہیں ۔ پاکستان کی 65سالہ تاریخ میری نظر میں ہے ۔ میں نے اپنی تاریخ میں اتنی زیادہ سیاسی ”مسافرت “ کبھی نہیں دیکھی ۔
دیکھتے ہی دیکھتے تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن)لوٹوں کی آماجگاہ بن کر ”لوٹستان “ بن گئی ہیں ۔ میں نے نومبر میں کالم لکھا تھا کہ ”ظالموں جلدی کرو عمران آ رہا ہے “۔ اب میرا جی چاہتا ہے کہ لکھوں ”ظالمو جلدی نہ کرو “ کیونکہ مسلم لیگ (ن) نے تمام سیاسی مسافروں کا کچا چٹھا تیار کر لیا ہے ۔ ان کے پاس ریکارڈ محفوظ ہے کہ کس کس نے پلاٹ لیا اور کس کس نے رشتے داروں کو تحصیلدار، انسپکٹر پولیس یا پٹواری بھرتی کروایا ۔ چنانچہ جو سیاسی مسافر بھی ان سے بے وفاقی کرے گا اس کے پلاٹ یا بھرتی کا راز فاش کر دیا جائے گا ۔ اس لئے صرف وہ ظالم لوٹے تحریک انصاف میں آنے کا رسک لیں جو اس بلیک میلنگ کا مقابلہ کر سکتے ہیں ۔
عمران خان کے پلاٹ کا چرچا ہوا تو بعض کالم نگاروں نے دو طعنے دیئے ۔ اول عمران نے یہ درخواست کیوں لکھی کہ میرے پاس لاہور میں کوئی گھر نہیں ویسے میری رائے یہ ہے کہ عمران کو درخواست نہیں دینی چاہئے تھی وہ اپنی سادگی سے ٹریپ میں آ گیا لیکن تکنیکی لحاظ سے یہ بات درست تھی کیونکہ اس کا آبائی گھر اس کے والد گرامی کے نام تھا جو بقید حیات تھے ۔ آبائی گھر میں صرف عمران ہی نہیں اسکی بہنیں بھی حصہ دار تھیں ۔ دوسرا طعنہ اس قدر مزیدار تھا کہ میں پڑھ کر ہنسی ضبط نہ کر سکا جب تحریک انصاف والوں نے وضاحت کی کہ عمران نے وہ دونوں پلاٹ جو اسے حکومت کی جانب سے ملے تھے شوکت خانم کو عطیہ کر دیئے تو طعنہ دیا گیا کہ اس نے اپنے پاس سے کیا دیا ؟یہ طعنہ دینے والے بھول گئے کہ یہ دونوں پلاٹ اسکی ملکیت تھے اور دینا یا نہ دینا اس کا چوائس تھا ۔ یہ اس کا ایثار اور قربانی تھی ورنہ وہ انہیں اپنے پاس بھی رکھ سکتا تھا ۔ یہ حضرات یہ بھی بھول گئے کہ ان پلاٹوں کے علاوہ عمران خان نے سونے کا تاج، قیمتی گھڑیاں اور ہیروں والی انگوٹھیاں بھی شوکت خانم کو دے دیں جو اسے تحفوں اور انعامات کے طور پر ملی تھیں یہ اسے کسی حکمران نے نہیں دیں تھیں۔ کیا کسی اور نے ایسا کارنامہ سرانجام دیا ہے ؟ جن قلم کاروں کو یہ گلہ تھا کہ عمران نے اپنے پاس سے کیا دیا انہیں یہ بھی سوچنا چاہئے تھا کہ وزیر اعلیٰ یا وزیر اعظم نے بھی اسے پلاٹ اپنی جاگیر سے نہیں دیئے تھے ، وہ قوم کا مال تھے جو قوم کو لوٹا دیئے گئے جبکہ دوسرے سیاست دان قوم کا مال نہ صرف کھا جاتے ہیں بلکہ ہضم بھی کر جاتے ہیں اور ڈکار بھی نہیں لیتے ۔
دوستو ! قومی خدمت کی توفیق ہر کسی کو نہیں ملتی یہ میرے رب کی دین ہے جسے چاہے دے اور جسے چاہے نہ دے۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ کل قوم کو میمو کا بخار چڑھا ہوا تھا کیونکہ حکومتی دعوؤں کے برعکس آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے میمو کو حقیقت قرار دیتے ہوئے قومی سلامتی کے لئے خطرہ قرار دیا تھا اور ڈی جی آئی ایس آئی نے لکھا تھا کہ اسے جتنے ثبوت دیئے گے وہ تسلی بخش اور قابل اعتبار ہیں ۔ ظاہر ہے کہ آئی ایس آئی کے پاس بہترین آلات اور تفتیش و تحقیق کے بہترین وسائل موجود ہیں اور اتنا ذمہ دار افسر سپریم کورٹ کے سامنے ہلکا یا مشکوک بیان نہیں دے سکتا۔ چنانچہ کل پارٹی میٹنگ میں عزیزی بلاول نے بھی گرما گرم تقریر برزبان انگریز ی کی ۔ انگریزی ٹھنڈے ممالک کی زبان ہے نہ جانے بلاول نے اسے کیسے گرمایا ہو گا ۔ اسی تپش اور گرمی نے کل ڈاکٹر بابر اعوان کو بھی بے چین کیا ہوا تھا بلکہ اندیشوں کا بخار چڑھایا ہوا تھا ۔ گزشتہ پریس کانفرنس میں وہ تابوت کی خبر لائے تھے لیکن اس بار وہ سیاسی تارا مسیح اور پارلیمینٹ کی گردن میں رسی کی خبر لائے ۔ ان کے غم و غصے کی داستان سنتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ کیا کوئی رسی اس پارلیمینٹ کی مضبوط گردن کا کچھ بگاڑ سکتی ہے ؟ اس پریس کانفرنس نے جیالوں کو ضرور گرمایا ہو گا کیونکہ اس کا پیغام صرف تخت یا تختہ تھا اور جب تخت نشین کو کوئی ڈراؤنا خوا ب آئے تو وہ مرنے مارنے پر تل جاتا ہے ۔
اعوان صاحب کی پریس کانفرنس سنتے ہوئے مجھے یاد آرہا تھا کہ گزشتہ سال ایک بابے نے بھولپن میں کہا تھا کہ پاکستان میں جو تبدیلی بھی آئے گی اس کے پیچھے چیفیوں کا ہاتھ ہو گا یعنی وہ جن کے عہدے کے ساتھ چیف لگا ہوا ہے …!!اللہ اللہ خیر سلا ۔
 

No comments:

Post a Comment