Sunday 20 May 2012

منزلیں حوصلوں سے ملتی ہیں April 04, 2012


گبن سے لے کر ٹائن بی تک تمام ثقہ مورخین متفق ہیں کہ زوال پذیر معاشروں کی سب سے واضح علامتیں سوچ و فکر، قومی اعتماد اور قومی خودی میں زوال ہوتی ہیں اور جب قوموں کی فکر زوال کا شکار ہوتی ہے تو اس کی پہلی علامت یوں ظاہر ہوتی ہے کہ قومیں اپنی فتوحات، اپنے کارناموں اور اپنے قومی ہیروز کو یاتو شک کی نگاہ سے دیکھنا شروع کردیتی ہیں اور اپنے مخالفوں کی تعریف میں رطب اللسان ہوجاتی ہیں یا پھر اپنے کارناموں اور قومی ہیروز کا قد گھٹانے میں لذت محسوس کرنے لگتی ہیں۔ آپ اپنی تاریخ پر نگاہ ڈالیں اور یاد کریں کہ تقسیم ہند کے نتیجے کے طور پر قیام پاکستان کو عالمی سطح پر ایک تاریخی معجزہ قرار دیاگیا تھا کیونکہ اس سے قبل عالمی تاریخ میں اس طرح کی مثال موجود نہیں تھی اور قائداعظم محمد علی جناح کو ایک عظیم لیڈر قرار دیتے ہوئے ان الفاظ میں خراج تحسین ادا کیا تھا۔ ”عالمی تاریخ میں صرف چند حضرات نے تاریخ کا دھارا بدلا، صرف چند نے دنیا کا نقشہ بدلا، قومی ریاست کے قیام کاکریڈٹ بمشکل ہی کسی کو دیا جاسکتا ہے۔ محمد علی جناح قائداعظم  نے بیک وقت تینوں کارنامے سرانجام دیئے۔“ (سٹینلے والپرٹ جناح آف پاکستان) گویا اس امریکی مورخ کا کہنا ہے کہ عالمی تاریخ میں جناح کے علاوہ او ر کوئی مثال نہیں ملتی جہاں کسی لیڈر نے بیک وقت یہ تینوں کارنامے سرانجام دیئے ہوں۔
سوال یہ ہے کہ قائداعظم قوم کی حمایت کے بغیر یہ تاریخی کرامت یا ”معجزہ“ سرانجام دے سکتے تھے؟ جواب سادہ سا ہے کہ ہرگز نہیں۔ قائداعظم نے نصف صدی کی سیاسی زندگی میں ثابت کیا اور پھر قوم اس حقیقت کی قائل ہوئی کہ جناح بصیرت، کردار، انداز ِ سیاست اور ویژن کے حوالے سے تمام مسلمان لیڈروں سے کہیں بڑا لیڈر ہے تب قوم نے قائداعظم کو نجات دہندہ تسلیم کیا ۔ قوم کے اندھے اعتماد نے 1945-46 کے انتخابات میں جو پاکستان کے نعرے پر لڑے گئے ، رنگ دکھایا اور مسلم لیگ نے مرکزی قانون ساز اسمبلی کی تمام مسلمان نشستیں جیت لیں۔ ایثار کا یہ عالم کہ مسلمان اقلیتی صوبوں نے بھی قیام پاکستان کے حق میں ووٹ دیئے۔ مسلمانان ہند کے اس کارنامے کو تاریخ نے معجزہ قرار دیا لیکن آج 65 برس بعد ہمارے دانشور اس معجزے پر تشکیک کااظہار کرکے اورشرمندگی کا تاثردے کر نہ صرف اپنے قومی کارنامے کو گھٹا رہے ہیں، اپنے بزرگوں کے دامن پرسیاہی کے چھینٹے ”پھینک“ رہے ہیں بلکہ قائداعظم کی قیادت اور ویژن پر بھی اپنی کم فہمی اور مایوسی کے تیر برسا رہے ہیں۔ اس کا ایک آسان سا طریقہ ہے کہ وہ لیڈران جنہوں نے قیام پاکستان کی مخالفت کی، قائداعظم سے دشمنی کرتے رہے اور مسلمانان ہند و پاکستان کے ہاتھوں بری طرح شکست کھا کر کچلے گئے ان کی مخالفانہ تحریروں اور تقریروں کے حوالے دے کر ان کی عظمت کے گن گاؤ اور اپنے قائد اور اپنے قومی کارنامے پرشرمندگی کا اظہار کرو، نوجوان نسل جس نے نہ ہندو ذہنیت کے چرکے کھائے، نہ پاکستان بنتے دیکھا اور نہ ہی قائداعظم کی عظمت کو جگمگاتے دیکھا اسے نہ صرف پاکستان سے بدظن کردو بلکہ اپنے عظیم قائد کی بصیرت اور ویژن کے بارے میں بھی مشکوک کردو جس کی قائدانہ صلاحیتوں اور بصیرت کی گواہی عالمی تاریخ دیتی ہے۔ قائداعظم بھی سیاسی زندگی کے آغاز میں ہندومسلم اتحاد کے مخلص داعی تھے۔ آل انڈیا کانگریس کی صف اول میں کھڑے تھے لیکن ہندو ذہنیت کے آشکارہ ہونے کے بعد اور کانگریس کے سیاسی عزائم سمجھ کروہ کانگریس سے الگ ہوئے اور مسلمانوں کو مسلم لیگ کے جھنڈے تلے متحد اور منظم کرنے کے لئے زندگی وقف کردی۔قائداعظم نے کانگریس اور ہندوؤں کے ساتھ تقریباً 25برس گزارنے کے بعد علیحدگی کا فیصلہ کیا جب وہ پوری طرح اس حقیقت کے قائل ہوگئے کہ ہندو اکثریت مسلمانوں کے حقوق کو بہرحال پامال کرے گی اورمسلمانوں سے شودروں سا سلوک کرے گی۔ دیکھ لیجئے ہندوستان کو آزاد ہوئے 65برس گزر گئے۔ مسلمان ہندوستان کی آبادی کا تقریباً چوتھائی حصہ ہیں لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کا انڈین سول سروس میں حصہ چار فیصد، پولیس سروس میں نمائندگی دو فیصد کے لگ بھگ، فنانس بینکنگ میں ایک فیصد سے تھوڑی سی زیادہ اور تعلیم میں حصہ کسمپرسی کی دردناک داستان ہے۔ آئے دن فرقہ وارانہ فسادات میں مسلمانوں کا قتل معمول کی بات ہے اور ان پر قومی زندگی میں آگے بڑھنے کی راہیں مسدود ہیں۔ ہندوستان کی کتنی ہی فرقہ وارانہ جماعتیں اور سماجی تحریکیں مسلمانوں کے وجود سے نفرت کرتیں اور انہیں مٹا دیناچاہتی ہیں۔
کبھی غور کیجئے کہ آپ کو جو معدودے چند مسلمان اعلیٰ پوزیشنوں پر نظرآئیں گے ان کی اکثریت ہندو کلچر میں رچی بسی ہے اور یہی ان کی ترقی کا راز ہے۔ ہندوستان کی ترقی کے لشکارے دکھاکر ہمارے نوجوانوں کو چکاچوندکرنے والے کبھی اس پر بھی غور کریں کہ ہندوستان کی معاشی، عسکری، سیاسی اور سماجی ترقی میں مسلمانوں کاحصہ کتنا ہے؟ مسلمانوں کی اکثریت آج بھی غربت، بیروزگاری اور جہالت کا شکارہے۔ جن حضرات کو یہ حسن ظن ہے کہ پاکستان نہ بننے کی صورت میں مسلمان ہندوستان میں چالیس پچاس کروڑ ہوتے اور ہندوستان کی کل آبادی کا تہائی حصہ ہوتے جو تقسیم ہند کے وقت تھے وہ یقین رکھیں کہ پچاس کروڑ مسلمانوں کابھی وہی حشر ہونا تھا جو آج ہندوستان میں اٹھارہ کروڑ کا ہو رہاہے۔ آپ بہت ذہین، فطین اور عالم و فاضل ہی سہی لیکن اپنی بصیرت کا مقابلہ قائداعظم اور ان کے ساتھیوں سے نہیں کرسکتے جنہوں نے کئی دہائیوں تک ہندو اور کانگریس لیڈرشپ کے قریب رہ کر خلوص نیت سے کام کیا اور پھر اس نتیجے پر پہنچے کہ مسلمانوں کی فلاح، بہتری اورترقی کا راز علیحدگی میں مضمر ہے۔ قائداعظم اس کشتی کے واحد مسافر نہیں تھے بلکہ سچ یہ ہے کہ جنگ ِ آزادی 1857 کے کچھ برسوں بعد سے لے کر 1947 کی آزادی تک تقریباً ہربڑے مسلمان لیڈر نے کانگریس اورہندو عزائم کا قریب سے مشاہدہ کرنے کے بعد علیحدگی کی راہ اپنائی۔ یہ سلسلہ سرسید احمد خان سے لے کر اقبال سے ہوتے ہوئے جناح تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ راز اگر کسی کو سمجھ میں نہیں آیا تو وہ مولانا ابوالکلام آزاد تھے یا بعض علماء تھے جوزندگی بھر ہندوؤں کی زلف کے اسیر رہے۔ علامہ مشرقی یا مولانا مودودی کامعاملہ یکسر مختلف ہے کیونکہ یہ دونوں حضرات تقسیم ہند کے مخالف نہیں تھے بلکہ مسلم لیگ کے بوجوہ مخالف تھے۔ سوال یہ ہے کہ تاریخ میں سرسید، اقبال اور جناح  کا کیا مقام ہے اور ان کے مقابلے میں مولانا ابوالکلام آزاد اور کانگریس نواز علماء کہاں کھڑے ہیں۔ میں جب عالمی سطح کے مورخین کی کتابوں میں جھانکتا ہوں تو سچ یہ ہے کہ مولانا ابوالکلام آزاد اور مذکورہ علماء کہیں نظرہی نہیں آتے جبکہ اقبال و جناح عالمی سطح کے مفکرین و قائدین کی صف اول میں کھڑے نظرآتے ہیں۔ اسی لئے جب ہمارے دانشور ابوالکلام آزاد یاعلامہ مشرقی کے ویژن کا مقابلہ اقبال و جناح سے کرتے ہیں تو میں شرم سے پانی پانی ہو جاتا ہوں۔ ہماری بدقسمتی کہ ہمارے لیڈروں کی نالائقیوں، نااہلی اور کرپشن کے سبب ہمیں یہ دن دیکھنا نصیب ہوا کہ ہمارے دانشور پاکستان وقائداعظم مخالف لیڈروں کی تحریروں کے حوالے دے کر قوم کوشرمندہ اور نوجوانوں کو ملک سے بدظن کر رہے ہیں جبکہ نوجوان معاشی بدحالی کے سبب پہلے ہی مایوسی کا شکار ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ انشاء اللہ دن بدل جائیں گے اور ہمیں رات کی تاریکی کے بعد دن کا اُجالا دیکھنا نصیب ہوگا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول یاد رکھیں ”منزلیں حوصلوں سے ملتی ہیں “ اس لئے عرض کرتا ہوں کہ جب حوصلے پست ہو جائیں تومنزلیں بھی پست ہوجاتی ہیں۔
اتنے ناداں بھی نہ تھے حد سے گزرنے والے
ناصحو، پند گرو راہ گزر تو دیکھو
 

No comments:

Post a Comment