Sunday 20 May 2012

ہم تو بکری نہیں؟ March 07, 2012


جب حکومت پاکستان نے روس کی جاسوسی کے لئے امریکہ کو بڈابیر ائیر بیس دی تو کیا پاکستانی عوام کو علم تھا یا انہیں اعتماد میں لے کر اپنا خطہ زمین کسی غیر ملکی کو دیا گیا تھا؟ روس الزام لگاتا تھا کہ پاکستانی سرزمین ہماری جاسوسی کے لئے استعمال ہورہی ہے لیکن حکومت پاکستان ببانگ دہل انکار کرتی تھی حتیٰ کہ ایک روز بڈابیر ائیر بیس سے اڑنے والا امریکی جاسوسی طیارہ یوٹو روس نے مار گرایا اور غصے میں لال پیلا ہو کر روسی وزیر اعظم فروشیف نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں اپنا جوتا اتار کر میز پر دے مارا اور ساتھ ہی دھمکی دی کہ روس نے عالمی نقشے پر پاکستان کے ارد گرد سرخ دائر کھینچ دیا ہے تب پاکستانی عوام کی آنکھیں کھلیں کہ یہ کیا ہورہا ہے۔ابھی تھوڑا عرصہ قبل تک ہم نے یو اے ای کے لبادے میں اپنی ائیر بیس امریکہ کو دے رکھی تھی کیا پاکستانی عوام اس راز سے واقف تھے۔ جب پریس کانفرنس میں سابق صدر جنرل مشرف سے پوچھا جاتا تھا وہ صاف انکار کردیتا تھا۔ اس طرح کی درجنوں باتوں کو چھوڑئیے کہ رات گئی بات گئی لیکن ڈرون حملوں کا ڈرامہ تو اب بھی جاری ہے۔ ڈرون حملے ہمارے ہزاروں معصوم شہری مارچکے لیکن حکومت ہمیشہ انکار کرتی رہی اور بے بسی کا اظہار کرتی رہی۔ جب بھی پوچھا گیا کہ کیا حکومت پاکستان نے ڈرون حملوں کی اجازت دی ہے تو اس شدت اور زور سے انکار کیا جاتا کہ سوال پوچھنے والوں کے لئے خفت مٹانی مشکل ہوجاتی۔ یہ راز تو بہت دیر کے بعد کھلا کہ نہ صرف حکومت پاکستان نے ڈرون حملوں کی اجازت دی رکھی تھی بلکہ ہماری ایجنسیاں اس حوالے سے امریکہ کی مدد بھی کررہی تھیں۔ ہماری حکومت اب بھی امریکہ کے ساتھ تحریری معاہدوں سے انکاری ہے جبکہ امریکی دعویٰ کرتے ہیں کہ سب کچھ تحریری معاہدوں کے تحت ہوتا رہا۔ کوئی تین دہائیاں قبل میں نے ایک امریکی صحافی کی ایک کتاب پڑھی تھی جس کا نام تھا( Nation of sheep)یعنی بکریوں جیسی قوم۔ یہ کتاب پڑھتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ پنجاب میں جب کسی کو کمزور یا ڈرپوک کہنا ہو تو اسے ”بکری“کیوں کہتے ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب ہمارے محبوب لیڈر میاں نواز شریف معاہدہ کرکے راتوں رات سعودی عرب پرواز کرگئے تو جیالے ہمیں طعنہ دیتے تھے کہ”میاں بکری ہوگیا“ ۔ میں ایک عرصے تک یہ طعنے سنتا رہا کہ ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات۔ کہہ میں یہ رہا تھا کہ اس کتاب میں امریکی صحافی نے سینکڑوں مثالیں دے کر ثابت کیا تھا کہ امریکی بکریوں بھیڑوں کی قوم ہے اور حکومت اسے بے وقوف بناتی رہتی ہے۔ بیرون ملک کیا اورجاتا ہے اور بتایا کچھ اور جاتا ہے۔ اس ضمن میں اس نے تائیوان کی کئی مثالیں دی تھیں۔ مطلب یہ کہ حکومتیں کب بتاتیں اور تسلیم کرتی ہیں کہ کب بکری بنیں اور کب انہوں نے قوم سے غلط بیانی کی۔ الحمد للہ میڈیا آزاد ہے لیکن حکومت بھی بہت سے راز چھپانے میں آزاد ہے۔ اسی لئے کبھی وکی لیکس انکشافات کرتا ہے تو کبھی وقت گزرنے کے بعد راز فاش ہوتا ہے، چنانچہ یہ توقع رکھنا کہ حکومت2 مئی کے اسامہ آپریشن سے پردہ اٹھائے گی محض ایک خواب ہے اور اس خواب کی تعبیر بہرحال ایک نہ ایک دن ہمارے سامنے ہوگی۔ فی الحال حکومت اور آئی ایس پی آر کو تردیدیں جاری کرنے دیں کہ یہ ان کی مجبوری ہے لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ حکومتیں عام طور پر جھوٹ بولتی اور قومی راز کی آڑ میں غلط وضاحتیں جاری کرتی ہیں۔ ابھی تھوڑا ہی عرصہ گزرا کہ جمہوری دور میں پاکستانی شہری کا ایمل کانسی کو امریکہ کے حوالے کیا گیا۔ وہ جان بچاتے بچاتے شاید کسی دو ردراز علاقے کے ہوٹل میں چھپا ہوا تھا کہ وہاں کچھ پاکستانی چندامریکیوں کے ساتھ پہنچے اور اسے گرفتار کروادیا گیا۔ امریکی اسے اڑا کر امریکہ لے گئے اور موت کی سزا کے بعد اس کی میت پاکستان پہنچی۔ ثابت ہوگیا کہ اسے ہماری خفیہ ایجنسیوں نے امریکی اہلکاروں کے حوالے کیا تھا اور یہ سب کچھ وزیر اعظم نواز شریف کے حکم پر ہوا تھا لیکن حکومت پاکستان ہمیشہ اس کی تردید کرتی رہی اور کبھی کبھار اس کا الزام صدرلغاری کو دیا جاتا رہا حتیٰ کہ صدر لغاری نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں ایک ٹی وی انٹرویو میں انکشاف کیا کہ انہیں اس آپریشن کا ہرگز علم نہیں تھا۔ مختصر یہ کہ ہمارے ہاں حکومتوں کی وضاحتوں اور بیانات پر اعتماد کرنے کی روایت موجود نہیں ہے اس لئے ایوان صدر اور آئی ایس پی آر دونوں نے2مئی کی رات رابطے سے انکار کرکے اپنا قیمتی وقت ضائع کیا ہے۔
ایک چیز ہوتی ہے جسے ہم”کامن سینس“ کہتے ہیں۔ آپ اسے فہم عامہ، عقل سلیم یا سمجھ بوجھ کہہ لیجئے ۔ کامن سینس تسلیم نہیں کرتی کہ امریکہ نے اتنا اہم اور بڑا آپریشن پاکستان جیسے ملک میں حکمرانوں کی منظوری کے بغیر کیا ہوگا۔ یقین رکھیئے امریکہ نے اسامہ آپریشن کی ایک ایک تفصیل، نکتے اور پہلو پر بے حد غور کیا ہوگا۔ پاکستان بہرحال”ٹمبٹو“ ملک نہیں ہے ،پاکستان کے پاس بہترین فوج، عسکری وسائل اور ٹیکنالوجی ہے۔ مان لیا سٹیلتھ ہیلی کاپٹر ہمارے راڈاروں میں نظر نہیں آتے لیکن یہ مت بھولئے کہ ایبٹ آباد کاکول کا علاقہ ہے جہاں فوج ہر وقت چوکس رہتی ہے۔ یہ آپریشن منٹوں کا نہیں تھا کہ چوکس فوجیوں کے نوٹس میں نہ آتا اور نہ ہی انہیں فضا میں کھڑے اور لہراتے ہیلی کاپٹر نظر آتے۔ اس لئے امریکی حکمت عملی بنانے والوں کو ان تمام خطرات کا اندازہ ہوگا۔ اسامہ پاکستانی شہری نہیں تھا اور نہ ہی حکمرانوں کی اس کے ساتھ ہمدردیاں تھیں اس لئے حکمرانوں کے کانوں میں بات ڈالنے میں کوئی حرج نہیں تھا، البتہ حکمرانوں کی مجبوری تھی کہ وہ اسے خفیہ رکھیں اور اپنے آپ کو اس آپریشن سے بے بسی کے لبادلے میں بری الذمہ قرار دیں کیونکہ حکمرانوں کے ملوث ہونے پر شدید عوامی ردعمل کا خدشہ تھا اور یہ خدشہ بہرحال حقیقی تھا۔ اس لئے میری”کامن سینس“ برادرم سلیم صافی سے متفق ہے کہ ا سامہ آپریشن میں حکومتی منظوری شامل تھی اور اس کے واضح اشارے صدر اوباما +ہلیری کلٹن کے شکریے سے بھی ملتے ہیں اور اس امریکی اہلکار کی پریس کانفرنس سے بھی جس نے تسلیم کیا تھا کہ اس حوالے سے ہمارا حکومت پاکستان سے گہرا نزدیکی رابطہ تھا۔ ہوا میں لہراتے ہیلی کاپٹر کی اطلاع پاکر ایبٹ آباد سے جنرل کا آرمی چیف کو اطلاع دینا بھی قابل فہم ہے۔ اس تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں کیونکہ برادرم انصار عباسی اس پر خاصی روشنی ڈال چکے ہیں۔
چلئے منصور اعجاز کے دئیے گئے شواہد اور ڈاکومنٹس جائیں بھاڑ میں کہ اس کا زیادہ اعتبار نہیں کیا جاسکتا اور وہ خود بھی تسلیم کرتا ہے کہ مجھے ان شواہد کا یقین نہیں البتہ کامن سینس کہتی ہے کہ ہم جتنا مرضی ہے شور مچا لیں اور منصور اعجاز پر کوڑا کرکٹ ڈال دیں لیکن میمو اسیکنڈل سے ضررو کچھ نہ کچھ برآمد ہوگا۔ بہرحال گزارش ہے کہ میمو سیکنڈل کو ذاتی بے عزتی اور انا کا مسئلہ نہ بنائیں،کچھ بھی وثوق سے نہیں کہا جاسکتا لیکن اتنے اہم ایشو کی مکمل انکوائری بہرحال ضروری ہے۔
میں نے چند روز قبل اسامہ آپریشن کے حوالے سے شکوک کا اظہار کیا تو ایک ہمدم دیرینہ بریگیڈیر صاحب نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فوج میں ہر شے کا ریکارڈ ہوتا ہے، تم فوج کے سسٹم کو نہیں سمجھتے اگر آرمی چیف نے صدر سے2مئی کی رات بات کی ہوتی تو وہ ریکارڈ میں شامل ہوتی۔ ہم نے اپنی گناہگار آنکھوں سے پاکستان میں ریکارڈ کو حالات کے سانچے میں ڈھلتے دیکھا ہے لیکن ممکن ہے فوج میں ایسا نہ ہوتا ہو۔ فوج میں یوں تو اکثر افسران ذہنی طور پر چوکس اور فرض شناس ہوتے ہیں لیکن ترقی کی چھلنی سے نکل کرجرنیلی تک وہی پہنچتے ہیں جو ہر لحاظ سے بہترین پیشہ ور ہوتے ہیں۔ میں فوجی معاملات سے نابلد سہی لیکن جنرل ضیاء الدین بٹ کے بارے میں کیا خیا ل ہے؟ وہ نہ صرف ڈی جی آئی ایس آئی رہے بلکہ چند گھنٹوں کے لئے آرمی چیف بھی تھے۔ وہ کئی بار کہہ چکے کہ جنرل مشرف کو اسامہ کی موجودگی کا علم تھا۔ ہوسکتا ہے وہ غصے میں مشرف کو الزام دے رہے ہوں لیکن جنرل امجد شعیب کے بارے میں کیا کہیں گے۔ انہوں نے ٹی وی انٹرویو میں دعویٰ کیا کہ 2مئی کی رات آرمی چیف اور صدر کے درمیان گفتگو ہوئی اور یہ کہ ان کے پاس”لوہے ورگا“ پکا ثبوت ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا اس کا اندراج جی ایچ کیو کی لاگ بک میں بھی ہے، اگر یہ بات غلط ہے تو پہلے ان جرنیلوں کا کورٹ مارشل کیجئے بعد میں ہماری کامن سینس کا کورٹ مارشل بھی کرلیجئے گا کیونکہ ہم تو بے چارے بلڈی سویلین ہیں ہمارا کیا؟ ہم تو بکری ہیں!!!۔
 

No comments:

Post a Comment