Saturday 19 May 2012

سچ کہتے اور لکھتے رہو کہ … December 24, 2011


زندگی کا سفر اس قدر تیز رفتاری سے طے ہوتا ہے کہ آنکھ جھپکنے میں دہائیاں گزر جاتی ہیں ۔کتنے ہی عزیز دوست، زندگی کے مضبوط سہارے اور شفیق بزرگ چلے گئے اور ایک دن ہمیں بھی جانا ہے ۔ اسی لئے دوستو میں خلوص نیت سے کہتا ہوں کہ سچ بولتے اور سچ لکھتے رہو چاہے اس سے تمہاری اپنی ذات پر زد پڑتی ہو، حکمران بگڑتے ہوں یا دوست رشتے دار ناراض ہوتے ہوں کیونکہ سچ ہی بالآخرکام آئے گا اور یوم حساب سرخروئی کا باعث بنے گا ۔ جھوٹ کی کمائی دنیا ہی میں رہ جائے گی لیکن سچ کی کمائی اگلے جہاں میں بھی کام آئے گی ۔ زندگی کا آخری مقصد اور آخری منزل مغفرت ہے جو خوف خدا سے نصیب ہوتی ہے اور اگر دل میں خوف خدا ہو تو پھر دنیا والوں کا کیا ڈر اور ہاں اگر دل میں خوف خدا ہو تو پھر آپ جھوٹ بول سکتے ہیں نہ لکھ سکتے ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ سچ اپنا اپنا ہوتا ہے لیکن سچ صرف وہی ہوتا ہے جو آپ کے ضمیر کی آواز ہوتی ہے اور مجھے کہنے دیجئے کہ زندہ اور روشن ضمیر کی آواز آسمانوں سے اترتی اور زبان یا قلم سے اظہار پاتی ہے ۔
سیاست میں سچ مہنگا پڑتا ہے کہ اس سے بے شمار لوگ ناراض ہوتے، بگڑتے اور بعض اوقات دشمن بن جاتے ہیں اور کچھ لوگ بن دیکھے دعا گو اور خیر اندیش بن جاتے ہیں ۔ اسی لئے میں اسے گھاٹے کا سودا سمجھتا ہوں کہ حکمران آپ کا نام سننا گوارہ نہیں کرتے اور زندگی کی مادی نعمتوں کے دروازے بند کر دیتے ہیں جبکہ حکمرانوں کی تعریف اور خوشامدکرنے والوں کا منہ بار بار موتیوں سے بھر دیا جاتا ہے یا پھر اگر آپ کسی رئیس، دولت مند سیاست دانوں کے درباری ہیں تو وہ وقتاً فوقتاً آپ کی جیب بھرتا رہتا ہے۔ سیاست میں سچ گھاٹے کا سودا ہے لیکن خود زندگی بھی گھاٹے کا سودا ہے زندگی صرف ان کے لئے منافع کا سودا ہے جو اللہ کی رضا پر راضی اور خوش رہتے ہیں۔
سیاست کے سچ کی بات کروں تو سچ یہ ہے کہ میرے دل میں میاں نواز شریف کیلئے احترام اور نیک جذبات ہیں میں نے سرکاری ملازمت کے دوران انہیں ہمیشہ مہربان پایا، انہیں ہمیشہ شریف النفس اور نمازی پایا، ہمیشہ قومی معاملات پر پریشان اور مسائل کے حل کے لئے سرگرداں پایا لیکن کیا کیجئے کہ انسان بنیادی طور پر کمزور ہے اور یہ کمزوری اس وقت ناکامی بن جاتی ہے جب انسان خوشامدیوں اور درباریوں میں گھر جاتا ہے اور یہ ناکامی اس وقت بصیرت پہ پردہ ڈال دیتی ہے جب خوشامد غرور کا باعث بن جاتی ہے اور انسان کھرے اور کھوٹے کی پہچان میں غلطی کرنے لگتا ہے ۔ سیاست کا سچ یہ ہے کہ میں نے ہمیشہ شہباز شریف کو ایک انقلابی، محنتی ، انتھک اور قومی خدمت کے جذبے سے معمور پایا، ہمیشہ مالی معاملات اور قومی خزانے کے حوالے سے محتاط پایا، میرے مشاہدے کے مطابق شہباز شریف نے اقتدار کا فائدہ اٹھا کر کبھی دولت بنانے کی آرزو نہ کی البتہ جلد بازی اور بعض اوقات غلط یا ادھوری منصوبہ بندی کے سبب خزانے کو ضرور نقصان پہنچایا لیکن اس میں بدنیتی کا دخل نہیں تھا ان کی بے چین روح رات بھر میں انقلاب برپا کر دینا چاہتی ہے اور جب یہ مقصد حاصل نہیں ہوتا تو شہباز کی انقلابی سوچ کو اتھل، پتھل، سرکاری ملازموں کو ذلیل خوار کرکے تسکین ملتی ہے۔ چنانچہ ان کی ٹیم ہمیشہ خوفزدہ رہتی ہے اور خوفزدہ لوگ بہترین صلاحیتوں یا کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرسکتے۔ میاں نواز شریف کی شخصیت میں نرگسیت اور رومانس ہے جبکہ شہباز شریف سرتاپا عملی انسان ہے، میاں نواز شریف کی طبیعت میں نرمی ہے جبکہ شہباز شریف کی طبیعت میں سختی ہے۔ کہنے کو بہت کچھ ہے لیکن اسے کسی اور موقعے کے لئے اٹھا رکھتا ہوں۔ سیاست کا دوسرا سچ یہ ہے کہ چوہدری شجاعت حسین ایک شریف، ملنسار اور مہمان نواز انسان ہیں، وہ سیاست کے داؤ پیچ سمجھتے اور اپنے حمائتیوں وفاداروں کا خاص خیال رکھتے ہیں لیکن ا ن کی سیاست مصلحتوں کی تابع ہے۔ مصلحت کا تقاضا ہے کہ اقتدار میں یا اقتدار کے قریب رہا جائے، مصلحت کا تقاضا ہے کہ ہر فوجی حکمران سے قربت روا رکھی جائے کیونکہ اس طرح انسان بہت سے امتحانات سے محفوظ رہتا ہے۔ اب کی بار انہوں نے حزب مخالف میں رہنے کی کوشش کی لیکن راز کھلا کہ وہ مسلم لیگ (ن) سے گلے ملے بغیر حزب اختلاف کی مار نہیں کھا سکتے چنانچہ مونس الٰہی پھنسا تو مجبوراً چودھری صاحب کو وفاقی حکومت کے اقتدار میں پناہ لینا پڑی۔ ذرا سی شرارت کی اجازت دیں تو عرض کریں کہ میں نے 1999ء میں چوہدری صاحب کو ایک ٹوپی دی تھی، اس کا قصہ کبھی پھر سناؤں گا البتہ کبھی کبھی جی چاہتا ہے کہ اب ان سے وہ ٹوپی واپس مانگ لوں۔
سچ یہ ہے کہ میں نہ کبھی زرداری صاحب سے ملا اور نہ ہی گیلانی صاحب کوجانتا ہوں ،اس لئے ان کے بارے میں کیا رائے دوں، سوائے اس کے کہ ان کے دور حکومت میں ملک و قوم کا برا حال ہوا، کرپشن کا راج رہا، نااہلی ننگے سر سڑکوں پر ناچتی رہی، اقرباء پروری اور دوست نوازی کے نئے نئے ریکارڈ قائم ہوئے، میرٹ کا قتل عام جاری رہا، حکمران مغل شہزادوں کی سی زندگی گزارتے رہے اور عوام بھوکوں مرتے رہے، گیس اور بجلی کا قحط صنعت و تجارت کو لے ڈوبا لیکن اس کے باوجود حکومت نے نیٹو اور امریکہ کے خلاف سٹینڈ لے کر بہادری کا ثبوت دیا۔ کبھی کبھی یوں لگتا تھا کہ حکومت خودکشی پر تلی ہوئی ہے اور فوج اور عدلیہ سے ٹکر لے رہی ہے لیکن سچ یہ ہے کہ وہ خودکش تصادم کبھی این آر او سے صدر صاحب کو بچانے کا بیش خیمہ ہوتا تھا اور کبھی میمو گیٹ کے شکنجے سے نکلنے کا جیالا چارہ کار… بھلا جیالا چارہ کار کیا ہے؟ جیالا چارہ کار یہ ہے کہ جب چوری پکڑی جانے کا خطرہ ہو تو مرنے مارنے پر تل جاؤ تاکہ اگر پکڑے جاؤ تو سیاسی شہید بن جاؤ اور اگر بچ جاؤ تو غازی… میں نے یہ ساری باتیں ماضی کے لہجے میں کہی ہیں جسے ہمارے سکول کااستاد Past Tenseکہتا تھا کیونکہ مجھے حال تاریخ بنتا نظر آرہا ہے۔
سیاست کا آخری سچ یہ ہے کہ میں نہ عمران خان کو جانتاہوں، نہ کبھی ملا ہوں اور نہ ہی ایسی خواہش رکھتا ہوں کیونکہ میں نے ”چھوٹی سی“ زندگی میں اتنے حکمران اور سیاستدان دیکھے ہیں کہ اب ان سے دل ”چڑ“ گیا ہے۔ میرا اصل پرابلم یہ ہے کہ میں نے بہت سے حکمرانوں کو دیکھا ہے جبکہ میرا اپنا سیاسی راہنما قائداعظم تھا جو میری ملاقات سے بہت قبل وفات فرما گیا۔ قائداعظم میرا اس لئے راہنما تھا کہ وہ ایک سچا، بااصول، نہایت ایماندار، اعلیٰ درجے کی بصیرت اور اعلیٰ کردار کا مالک تھا۔ اقبال میرا مرشد ہے کہ اس کی شاعری سے مجھے قرآن حکیم کے پیغام کی روشنی ملتی ہے اور اسکا کلام میری روح کو گرماتا، قلب کو تڑپاتا اور میرے عمل کو ”شرماتا“ ہے کیونکہ اقبال عمل پہ اکساتا ہے جبکہ میں کاہلی پر قناعت کرچکا ہوں۔ میرا دوسرا پرابلم یہ ہے کہ مجھے اپنے ملک سے بے پناہ محبت ہے اور میری شدید ترین خواہش ہے کہ اس ملک کا مقدر سنورے، یہ ملک خوشحال، کرپشن فری، ترقی یافتہ اور مہذب ملک بنے۔ اس پس منظر میں مجھے اگر تاریک گلی کے دوسرے کنارے پر تھوڑی سی روشنی نظر آتی ہے تو وہ عمران کے حوالے سے ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ عمران ایک ایماندار، بہادر اور جذبے والا شخص ہے اور وہ ملک و قوم کا مقدر بدلنے کا پیہم ارادہ رکھتا ہے۔ میں اگر کبھی کبھی اس کے حق میں کلمہ خیر کہتا ہوں تو صرف ملک کے مستقبل کے لئے ورنہ اس میں میرا کوئی ذاتی مفاد نہیں کیونکہ میں اپنی ذات سے گزر چکا، مجھے صرف اپنی مغفرت کی فکر ہے اور بس… عمران خان کے قصوری جلسے میں لوگوں کو کرسیاں چوری کرتے ہوئے دیکھ کر میں ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوتا رہا۔ عمران نے بے شک غلط کہا کہ قائداعظم پارٹیاں بدلتے رہے، قائداعظم نے کانگرس اس وقت جوائن کی جب ابھی مسلم لیگ بنی بھی نہیں تھی اور جب محسوس کیا کہ کانگرس مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت نہیں کرسکتی تو مسلم لیگ کے ہو کر رہ گئے۔ اس موضوع پر پھرکبھی لیکن مجھے کہنے دیجئے کہ میرا آخری سچ یہ ہے کہ جس روز عمران راہ راست سے بھٹکا اس روز سب سے پہلے میرے قلم کی توپ اس پر گولہ باری کرے گی کہ میری وفاداری اور محبت کے چشمے پاکستان کی سرزمین سے پھوٹتے ہیں نہ کہ سیاستدانوں کی شخصیات سے۔
 

No comments:

Post a Comment