Sunday 20 May 2012

قائداعظم اور مولانا اشرف علی تھانوی (آخری قسط) February 22, 2012


میں نے کل کے کالم میں لکھا تھا کہ قائداعظم نے الگ وطن کا مطالبہ اس بنیاد پر کیا تھا کہ مسلمان ہر لحاظ سے ایک علیحدہ قوم ہیں اور ان کا مذہب، کلچر، تاریخ،معاشرت اور انداز فکر ہندوؤں سے بالکل مختلف ہے۔ ان کی 1934ء سے لے کر1948ء تک کی تقاریر پڑھی جائیں تو ان پرقرآنی تعلیمات کا گہرا اثر نظر آتا ہے، پاکستانیوں کو تو نہ قائداعظم کی مستند اور معیاری سوانح عمری لکھنے کی توفیق ہوئی ہے اور نہ ہی ان کی سیاسی فکر کا تجزیہ کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی ہے لیکن ایک برطانوی شہری محترمہ سلینہ نے ”سیکولر جناح اینڈ پاکستان“ نامی کتاب لکھ کر یہ حق ادا کر دیا ہے۔ اس کتاب کے دوسرے ایڈیشن میں سلینہ نے قرآنی آیات کے حوالے دے کر تحقیق اور عرق ریزی کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ جناح کے اکثر تصورات اور افکار قرآن حکیم سے ماخوذ تھے اور یہ کہ کاؤس جی سے لے کر پروفیسر پرویز ہوڈ بھائی تک جتنے لکھاریوں نے انہیں سیکولر قراردیا ہے وہ بددیانتی کے مرتکب ہوئے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنی تحریروں کی بنیاد جسٹس منیر کی کتاب میں دی گئی قائداعظم کی جس تقریر پر رکھی ہے وہ الفاظ قائداعظم کے نہیں بلکہ جسٹس منیر مرحوم کے اپنے ہیں اور ان کی ”انگریزی“بھی غلط ہے جوقائداعظم کی نہیں ہوسکتی۔ وزیرآباد کے محمد شریف طوسی بنیادی طور پر مدرس تھے ،انہوں نے انگریزی اخبارات میں پاکستان کے حق میں اتنے مدلل اور زوردار مضامین لکھے کہ قائداعظم نے متاثر ہو کر انہیں بمبئی بلایا اور چھ ماہ اپنے پاس رکھ کر ان سے ”پاکستان اینڈ مسلم انڈیا“ اور ”نیشنلزم کنفلیکٹ ان انڈیا“ جیسی معرکة الاراء کتابیں انگریزی زبان میں لکھوائیں۔ طوسی صاحب نے اپنی چھ ماہ کے قیام کی یاداشتوں میں لکھا ہے کہ قائداعظم ہر روز صبح علامہ یوسف علی کے قرآن حکیم کے انگریزی ترجمے کا مطالعہ کیا کرتے تھے اور سید امیر علی کی کتاب ”سپرٹ آف اسلام“ پڑھا کرتے تھے۔ انہوں نے شبلی نعمانی کی کتاب ”الفاروق“ کے انگریزی ترجمے کو بغور پڑھ رکھا تھا۔ یہ ترجمہ مولانا ظفر علی خان نے کیا تھا۔ ان کی لائبریری میں سیرت نبوی، اسلامی تاریخ اور قرآن حکیم کے تراجم پر بہت سی کتابیں موجود تھیں جو ان کے زیر مطالعہ رہتی تھیں۔
میں ذکر کر چکا ہوں کہ جب حکیم الامت مولانا اشرف تھانوی نے محسوس کیا کہ انگریزوں کی رخصتی کے بعد اقتدار مغربی تعلیم یافتہ لیڈران کو ملے گا توانہوں نے ان کی مذہبی تربیت کا پروگرام بنایا اور اس ضمن میں قائداعظم محمد علی جناح سے ملاقات کے لئے ایک وفد ترتیب دیا جس کے سربراہ مولانا مرتضیٰ حسن تھے اور اس وفد میں مولانا شبیر علی تھانوی ، مولانا عبد الجبار، مولانا عبد الغنی، مولانا معظم حسنین اور مولانا ظفر احمد عثمانی شامل تھے۔ مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولانا ظفر احمد عثمانی سگے بھائی اور مولانا اشرف تھانوی کے بھانجے تھے جبکہ مولانا شبیر علی تھانوی مولانا اشرف تھانوی کے بھتیجے تھے۔ دسمبر1938ء میں مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس پٹنہ میں ہونا تھا۔ مولانا شبیر احمدعثمانی والدہ کی علالت کے سبب جا نہ سکے چنانچہ دوسرے حضرات وفد کی صورت میں پٹنہ پہنچے، نواب اسماعیل خان کے ذریعے قائداعظم سے رابطہ ہوچکا تھا۔ پٹنہ میں نوابزادہ لیاقت علی خان کے ذریعے قائداعظم سے پٹنہ جلسہ عام سے پہلے کا وقت مانگا گیا کیونکہ علماء قائداعظم سے ملے بغیر مسلم لیگ کے اجلاس میں شامل نہیں ہونا چاہتے تھے۔ 25دسمبر 1938کو شام پانچ بجے یہ وفد قائداعظم سے ملا۔ ملاقات ایک گھنٹہ جاری رہی جس کی تفصیل مولانا شبیر علی تھانوی کی ’روئیداد‘ میں موجود ہے اور اس کا ذکر منشی عبد الرحمن کی کتاب کے صفحات 61-62میں بھی ملتا ہے۔ وفد کے تاثرات ان الفاظ میں جھلکتے ہیں ”ہم ان کے (قائداعظم) کے جوابات سے متاثر ہوئے۔ ان کے کسی دینی عمل کی کوتاہی کے متعلق عرض کیا گیا توبغیر تاویل و حجت اپنی کوتاہی کو تسلیم کیا اور آئندہ اصلاح کا بھی وعدہ کیا۔ یہ صرف حضرت تھانوی کا روحانی فیض کام کر رہا تھا ورنہ جناح صاحب کسی بڑے سے بڑے کا اثر بھی قبول نہ کرتے تھے“۔ تفصیل اس ملاقات کی دلچسپ اور فکر انگیزہے جس میں قائداعظم نے کہا ”میں گناہگار ہوں… وعدہ کرتا ہوں، آئندہ نماز پڑھا کروں گا“ (بحوالہ منشی عبد الرحمن صفحہ26)چنانچہ اس وفد نے پٹنہ میں مسلم لیگ کے سالانہ جلسے میں شرکت کی جہاں مولانا اشرف تھانوی کا تاریخی بیان پڑھا گیا۔ اس کے ذریعے ارباب و ارکان مسلم لیگ کو اسلامی شعائر کی پابندی کی تلقین کی گئی تھی۔ دوسری ملاقات 12فروری1939ء کو دہلی میں شام سات بجے ہوئی۔ اڑھائی گھنٹے کی اس ملاقات کے بعد قائداعظم نے کہا کہ ”میری سمجھ میں آگیا ہے کہ اسلام میں سیاست سے مذہب الگ نہیں بلکہ مذہب کے تابع ہے“ (بحوالہ روائیداد از مولانا شبیر علی تھانوی، صفحہ نمبر7)۔ اس ملاقات میں مولانا شبیر علی تھانوی کے ساتھ مولانا مفتی محمد شفیع صاحب بھی تھے جن کا ذکر قیام پاکستان کے بعد آئین سازی اور علماء کے اتفاق رائے کے حوالے سے ملتا ہے۔ مختصر یہ کہ مولانا اشرف علی تھانوی کے نمائندے مئی 1947ء تک قائداعظم سے ملتے رہے اور ان کی دینی تربیت کرتے رہے جس کے نتیجے کے طور پر قائداعظم کا مولانا تھانوی کے گھرانے سے ایک پائیدار تعلق قائم ہوگیا۔ مولانا ظفر احمد عثمانی اپنی روائیداد میں لکھتے ہیں ”ایک مجلس میں قائداعظم سے کہا گیا کہ علماء کانگرس میں زیادہ ہیں اور مسلم لیگ میں کم۔ قائداعظم نے فرمایا ”تم کن کو علماء کہتے ہو“۔ جواباً مولانا حسین احمد مدنی، مفتی کفایت اللہ اور مولانا ابوالکلام کا نام لیا گیا۔ قائداعظم نے جواب دیا ”مسلم لیگ کے ساتھ ایک بہت بڑا عالم ہے جس کا علم و تقدس و تقویٰ سب سے بھاری ہے اور وہ ہیں مولانا اشرف تھانوی جو چھوٹے سے قصبے میں رہتے ہیں مسلم لیگ کو ان کی حمایت کافی ہے“۔
یہی وہ پس منظر تھا جس میں قیام پاکستان کے وقت جب 15اگست 1947ء کو پاکستان کے پرچم کی پہلی رسم کشائی ہوئی تو قائداعظم خاص طور پر مولانا شبیر احمد عثمانی کو ساتھ لے کر گئے۔ مولانا شبیر احمد عثمانی نے تلاوت اور دعا کی اور پھر پاکستان کا جھنڈا لہرایا جسے پاکستانی فوج نے سلامی دی۔ یہ رسم کراچی میں پاکستان کے وفاقی دارالحکومت میں ادا کی گئی جبکہ مشرقی پاکستان کے صوبائی دارالحکومت ڈھاکہ میں مولانا شبیر احمد عثمانی کے بھائی اور مولانا اشرف تھانوی کے بھانجے مولانا ظفر احمد عثمانی نے پاکستان کا پرچم لہرایا۔
اس تحریر کا مقصد نوجوان نسل کو تحریک پاکستان کے ایک پہلو سے روشناس کرانا تھا جسے عام طور پر قابل ذکر نہیں کہا جاتا، اللہ بہتر جانتا ہے کہ میں اس مقصد میں کامیاب ہوا یا نہیں۔
نوٹ: پی ٹی وی پر کئی برسوں سے رفیق غوری ایک فکر انگیز پروگرام کر رہے ہیں جس کا عنوان ہے ”جب پاکستان بن رہا تھا“ اس پروگرام میں تحریک پاکستان کے کارکنوں کا انٹرویو کیا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے اس پروگرام کو ایک دستاویزی حیثیت حاصل ہے اور اس کے ذریعے تحریک پاکستان کا شعور پھیلایا جا رہا ہے جو بڑی قومی خدمت ہے میری گزارش ہے کہ ایسے پروگراموں کی راہ میں روڑے نہ اٹکائے جائیں بلکہ ان کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ نوجوان نسل کو تحریک پاکستان کے محرکات کا ادراک حاصل ہو۔ 


No comments:

Post a Comment