Tuesday 29 May 2012

پاکستان میں وقت ٹھہر گیاہے. May 27, 2012

بہت دنوں بعد وطن لوٹاہوں۔ میری خوش قسمتی کہ میں جس مقام پر تھا وہاں نہ اخبارات اور نہ ہی چینلز کی رسائی مجھ تک تھی اور نہ ہی میری رسائی ان تک تھی حالانکہ اس سے کوئی فرق تو پڑتانہیں۔ اگرچہ میں نے دو ہفتوں سے زیادہ کے اخبارات نہیں پڑھے لیکن اس سے کیافرق پڑتا ہے کیونکہ میں ملک میں جو نقشہ چھوڑ گیا تھا وہ من و عن اسی طرح موجود ہے۔ وہی لوڈشیڈنگ، وہی سڑکوں پر عوام کے احتجاجی مظاہرے، سیاستدانوں کے وہی گھسے پٹے بیانات، مسلم لیگ ن اور پی پی پی کی رسہ کشی جسے بہت سے تجزیہ نگار ”فریب نظر“ قرا دیتے ہوئے نوراکشتی کہتے ہیں کیونکہ ایک طرف اعلان جنگ اور دوسری طرف خفیہ سیاسی سمجھوتے، اسمبلیوں کی نشستوں کی بندر بانٹ اور ایڈجسٹمنٹ اور خفیہ ذرائع سے پیغام رسانی یہ سب کچھ بظاہر تو نورا کشتی ہی لگتی ہے۔ اس نقشے کے اہم ترین پہلو جو بدستور اپنی جگہ پر موجود ہیں لیکن ان میں قدرِ شدت آگئی ہے، وہ ہے عدلیہ اور انتظامیہ میں تصادم کی فضا، حکمرانوں کی پارلیمینٹ کے زور پر عدلیہ کو نیچا دکھانے کی کوشش جسے آپ سازش بھی کہہ سکتے ہیں۔ وزیراعظم صاحب بضد ہیں کہ سپریم کورٹ کی سزااور ہتک عدالت سے ”ککھ“ بھی نہیں ہلا یعنی میری پوزیشن پر تنکا بھر بھی اثر نہیں پڑا۔اب اس پوزیشن کو سپیکر کی رولنگ نے اور بھی مضبوط بنا دیاہے اور یوں تاثرابھاراجارہا ہے کہ سپریم کورٹ غیرموثرہے، نہ اس کے فیصلوں پر عمل ہوتاہے، نہ ہی اس کی ہدایات انتظامیہ سنتی اور نہ ہی وزراء صاحبان سپریم کورٹ میں پیش ہوتے ہیں جیسا کہ بلوچستان میں ہوا۔ گویا اراکین اسمبلیاں پارلیمینٹ کی قوت کے زور پر عدلیہ کو غیرموثر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور یہ سلسلہ شروع ہوا ہے وزیراعظم کو سزا سنانے کے بعد۔ یہ درست ہے کہ صدر صاحب نے پہلے ہی ببانگ دہل فرما دیا تھا کہ وہ صرف پارلیمینٹ کے فیصلوں کو مانتے ہیں اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کو گھاس ڈالنے کے لئے تیار نہیں اور پھراس کے ساتھ تسلسل سے یہ میوزک بجنے لگا کہ پی پی پی کو کبھی عدلیہ سے انصاف نہیں ملا۔ غور طلب بات اتنی سی ہے کہ عدلیہ کو نیچا دکھانے کا مطلب اور مفہوم صرف قانون کی حکمرانی اورپاسداری کا راستہ روکنا ہے۔ اس حد تک حکومت اپنے ارادوں میں کامیاب ہے کہ وہ من مانی کر رہی ہے، صدر صاحب نے مختلف طریقوں سے اپنے سیاسی حلیفوں کو قابو کر رکھاہے اور اس زور پر وہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عملدرآمد ہونے نہیں دے رہے حتیٰ کہ ہتک عدالت کے مقدمے نے بھی ان کے رویئے میں لچک پیدا نہیں کی بلکہ تصادم کے امکانات کو مزید بڑھایا ہے۔ دوسری طرف کراچی میدان جنگ بنا ہواہے۔ ملک بھر میں ٹارگٹ کلنگ اور مذہبی تشدد کا دور دورہ ہے، احساس تحفظ دم توڑ چکاہے، معاشی ترقی کا ذکرہی کیا یہاں تو معیشت کا پہیہ ہی جام ہوچکا ہے جس کے سبب نہ صرف بیرونی سرمایہ کاری بند ہونے کے قریب ہے بلکہ بیروزگاری اور غربت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ بجلی گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافے نے عوام کا جینا دوبھر کر دیاہے لیکن حکومت یہ سمجھتی ہے کہ بینظیر پروگرام کے تحت لاکھوں گھروں کو ڈھائی ہزارروپے مہینہ دے کر غربت کا علاج کیاجارہا ہے حالانکہ غربت کا علاج معمولی مالی امداد سے نہیں ہوتا بلکہ غربت کا علاج معاشی ترقی اور معاشی سرگرمی سے ہوتاہے۔ کہنے کا مقصد یہ تھا کہ میں دو ڈھائی ہفتے قبل جو حالات چھوڑ کر گیا تھااور جو نقشہ دیکھ کر گیاتھااس میں ذرہ بھر بھی فرق نہیں پڑا بس اس میں ایک پہلو کا اضافہ ہوا ہے اور وہ ہے محترمہ سپیکر صاحبہ کی رولنگ جو میری توقعات کے عین مطابق ہے۔ گویا پاکستان میں وقت ٹھہرگیا ہے اور سیاسی کلاک رک گیا ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ اب اس رولنگ کا محاذ گرم ہوگا۔ اپوزیشن اور نیوٹرل طبقے اسے بہرحال قبول نہیں کریں گے کیونکہ اگر یہ معاملہ اتنا ہی سادہ ہے کہ اسے سپیکر کے چیمبر میں پہنچ کر رک جانا ہے یا ردی کی ٹوکری میں چلے جانا ہے تو پھرسپریم کورٹ کے فیصلوں کی کیاحیثیت؟ چنانچہ اب آئین کے اس پہلو کی تشریح کے لئے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے گا، کئی رٹیں (Writs) اور مقدمات عدالت میں آئیں گے اور پھر عدالت کو تشریح کرنی پڑے گی کہ کیا پارلیمینٹ کے اراکین کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلے سپیکر کے چیمبر میں ختم ہوسکتے ہیں؟ کیا ایسے مقدمات یا فیصلے مخصوص عرصہ گزرنے کے بعد خودبخود الیکشن کمیشن کومنتقل ہوجاتے ہیں یا سپیکر انہیں روک سکتاہے؟ کیاان فیصلوں کا یہی منطقی انجام ہے اور یہی قانون و آئین کی منشا ہے؟ اس طرح ایک اور محاذ گرم ہوگا جس کی حدت سپیکر اور اسمبلی تک محسوس کی جائے گی۔ ساتھ ہی ساتھ سیاسی مظاہرے سڑکوں کو گرماتے اور ایوانوں کو ہلاتے رہیں گے۔ کچھ پارٹیاں عدلیہ کے حق میں اور کچھ مخالف موسم کی گرمی میں اضافہ کریں گی جس سے عدلیہ کا وقار مجروح ہوگا اور عدلیہ متنازع ہوگی شاید یہی حکمت عملی حکمرانوں کی ہے۔ تاریخ کا مطالعہ یہی بتاتاہے کہ جب قانون کی حکمرانی کو اس طرح پامال کیا جائے، عدلیہ کو بے وقارکیا جائے، اقتدار کے لئے سب کچھ داؤ پرلگا دیاجائے، لوٹ مار کرپشن کا سلسلہ جاری رہے، عوام غربت، مہنگائی، بیروزگاری، لوڈشیڈنگ کا شکار ہوں، لوگوں کو بسوں، گلیوں سڑکوں پر قتل کیا جارہا ہو اور ہر شہری عدم تحفظ کا مریض ہو، سیاسی پارٹیاں باہم دست و گریباں ہوں ، غیرملکی قوتیں اندرونی انتشار کی آگ کو بھڑکا رہی ہوں تو پھرزیادہ دیر تک تیسری قوت کی مداخلت کاراستہ نہیں روکا جاسکتا بلکہ یہ خود لوگوں کا مطالبہ بن جاتا ہے اور عدلیہ بھی ملک بچانے کے فارمولے کے تحت اس مداخلت کو محدود عرصے کے لئے قبول کرلیتی ہے۔ غائب کا علم خدا کے پاس ہے میں صرف ظاہر کی بات کر رہا ہوں فوری نہیں لیکن لانگ رینج میں حالات اس طرف بڑھ رہے ہیں۔  

No comments:

Post a Comment