Saturday 19 May 2012

اپنی اپنی پہچان January 29, 2012


ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ ہر دور اور ہر حکمران کی ایک پہچان ہوتی ہے جو لوگوں کے یادوں کے جھروکوں میں سجی رہتی ہے اور تاریخ کا حصہ بن جاتی ہے۔ اس میں بعض تو حکمرانوں کے اپنے اعمال کا شاخسانہ ہوتی ہیں اور بعض آسمان سے نازل ہوتی ہیں جن میں بیچارے حکمران کا کوئی قصور نہیں ہوتا لیکن یہ اس کے گلے پڑ جاتی ہیں۔ مثلاً آج سے آٹھ دس صدیاں قبل ہندوستان میں باقاعدہ آبپاشی کا کوئی نظام نہیں تھا اور معاشی زندگی کا سارا انحصار زراعت پر تھا۔ چنانچہ جس بادشاہ کے دور میں بارشیں وافر ہوتیں اسکے حصے میں وافر غلہ اور خوشحالی آتی اور جس کے دورمیں بارشیں برسنے سے انکار کر دیتیں اس کے حصے میں خشک سالی اور قحط آتا۔ چنانچہ لوگ دل میں بادشاہ کو کوستے رہتے اور خشک سالی کو اس کے اعمال کا نتیجہ سمجھتے حالانکہ بارشیں ہونے یا نہ ہونے میں بادشاہ کا کوئی ’قصور‘ نہیں ہوتا تھا۔ ایک لحاظ سے نیک نامی اور بدنامی اللہ کی دین ہے وہ جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت دے۔ بقول شاعر:
جس کو چاہے خدا ذلیل کرے
اس میں کیسے کوئی دلیل کرے
ہمارے بھولے بھالے وزیراعظم جناب گیلانی صاحب اپنے گھوڑوں پر توپیں نصب کرکے فوج پر حملے کرتے رہے، ہر روز بزور شمشیر حکومت کے خاتمے کی نویدیں سناتے رہے، مزاحمت اور جیل جانے کے ارادوں کا اظہار کرتے رہے، پھر انہوں نے اپنے گھوڑے بھی میدان میں اتار دیئے جن میں سے کسی نے تابوت کی بات کی تو کسی نے حکمرانوں کے لئے جان قربان کرنے کا عہد دہرایا۔ جب ان سے بھی گیلانی صاحب کی تسلی نہ ہوئی تو انہوں نے نام لئے بغیر آئی ایس آئی کو ریاست کے اندر ریاست قرار دیا اور آرمی چیف کے سپریم کورٹ میں فائل کردہ بیان کو خلاف قانون بلکہ خلاف آئین قرار دیدیا۔ ان کو میمو سکینڈل میں بھی آئی ایس آئی کی سازش نظر آئی اور اس حوالے سے آرمی چیف کا بیان بھی نہایت ناگوار گزرا۔ خبریں آئیں کہ وہ بوریا بستر باندھ کر دما دم مست قلندر کی تیاریاں کر رہے ہیں وغیرہ وغیرہ اور اب کیا”الہام“ ہوا ہے کہ جو کچھ انہوں نے کہا وہ جھوٹ تھا اور جو کچھ ہم نے سنا وہ افسانہ تھا۔ انہوں نے وضاحتی بیان کچھ اس انداز سے دیا کہ اس پر ”معافی نامے“ کا لیبل لگ گیا اور یار لوگ سوچنے لگے یہی کچھ کرنا تھا تو ہنگامہ اے خدا کیا تھا مزاحمتی اور ”تصادمی“ بیانات کے خون کو ہونٹوں پر لگا کر شہید بننے کی کیا ضرورت تھی؟ الفاظ کی بندوق چلانے سے قبل اپنی طاقت کا اندازہ کرلینا چاہئے تھا۔ میں اس سیاسی فلم پر نظر دوڑاتا ہوں تو جوانی کے دور کی ایک فلم یاد آجاتی ہے جس کا نام تھا پھنے خان… پھنے خان ایک سجاوٹی پھنے خان تھا جو اندر سے ڈرپوک آدمی تھا لیکن بڑھکیں مار کر مخالفوں کو ہراساں کرتا رہتا تھا، ایک دن طاقتور مخالف سے سامنا ہوا تو جیب سے چاقو نکال کر اسے ”قاچو“سے ڈرانے کی کوشش کرنے لگا جب اس نے خوفزدہ ہونے کی بجائے طاقت سے حملہ کیا تو پھنے خان کوجان چھڑانی مشکل ہوگئی۔ صدر صاحب کا گلہ بھی قابل فہم ہے کہ انہیں ہر روز کسی نہ کسی سازش سے پالا پڑتا ہے جس سے نپٹنے میں دن گزر جاتا ہے۔ جان کی امان پاؤں تو عرض کروں کہ ان سازشوں میں بیچارے عوام کا کوئی قصور نہیں کیونکہ ان سازشوں کی اکثریت حکمرانوں کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے۔ صدر صاحب بیمار ہوئے تو افواہیں اڑایں۔ اس کی بنیادی وجہ صدر صاحب کے میڈیا منیجر کی ناکامی تھی جو صورتحال کو سنبھال نہ سکا اور متضاد و مشکوک بیانات کی زد میں آگیا۔ میمو گیٹ سکینڈل بھی کسی کی سازش نہیں، امریکہ میں لکھا گیا، امریکہ ہی میں جونز کے ذریعے ملن کو پہنچایا گیا اور امریکی منصور اعجاز نے ہی بھانڈا پھوڑا۔ اب اگر سی آئی اے اور ایف بی آئی کی مدد سے منصور اعجاز کو ”بٹھا“ دیا گیا ہے تو ظاہرہے کہ اس سودے بازی کی قیمت پاکستان کو چکانا ہوگی کیونکہ امریکی گھاٹے کا سودا نہیں کرتے۔ وہ اس بٹھانے کی قیمت مانگیں گے جو شاید فوج دینے کے لئے تیارنہیں ہوگی۔ جو لوگ اسے سازش، افسانہ، ڈرامہ یا اسی قسم کی کوئی شے سمجھتے ہیں انہیں دو ذمہ دار اور سنجیدہ عہدیداروں کے بینات یاد رکھنے چاہئیں۔ ڈی جی آئی ایس آئی نے بیان دیا کہ وہ اعجاز منصور کے دیئے گئے شواہد سے اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ میمو حقیقت ہے۔ حقیقت کا مطلب یہ تھا کہ میمو حقانی کے کہنے پر لکھا اور حوالے کیا گیا ہے۔ تحقیق طلب بات فقط اتنی سی تھی کہ کس کے کہنے پر یہ زحمت اٹھائی گئی؟ڈی جی آئی ایس آئی کے وسائل کا آپ اندازہ ہی نہیں کرسکتے اور ظاہر ہے کہ اس نے یہ بیان ایک ایک ثبوت کو جانچنے، پر کھنے کے بعد دیا ہوگا۔ اس بیان پر آرمی چیف نے مہر تصدیق ثبت کی۔ کیا یہ فوج کی حکومت کے خلاف سازش تھی؟ ہرگز نہیں یہ تو حکمرانوں کی اپنے خلاف سازش تھی۔ فوج تب سازش کرے جب اسے اقتدار پر شب خون مارنا ہو۔ ایسا لگتا نہیں اور شاید ممکن بھی نہیں۔ اگر یہ امریکہ کی سازش تھی تو پھر اس میں میرا دوست حقانی کیونکر ملوث ہوا اور اپنا بلیک بیری امریکہ بھول آیا۔ اگر حقانی ملوث نہیں تھا تو یقین رکھئے کہ آئی ایس آئی اتنی بیوقوف یا سادہ لوح نہیں تھی کہ اعجاز منصور کے پیش کردہ شواہد سے دھوکہ کھا جاتی اور وزیراعظم کو حقانی سے استعفیٰ لینے پر مجبور کرتی۔ میرے اندازے کے مطابق یہ معاملہ فی الحال دبا نہیں، عدلیہ اس کی اہمیت سے واقف ہے اور عدلیہ کی خواہش ہوگی کہ اصل حقائق کو بے نقاب کرے۔ اس لحاظ سے ”مٹی پاؤ“ کوشش وقتی لگتی ہے۔ ابھی اس سازش کی گرد بیٹھی نہیں تھی کہ خرم رسول سکینڈل پھوٹ پڑا ہے۔ صدر صاحب: یہ کس کی سازش ہے؟سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا حکمرانوں کو اپنے ہوتے ہوئے کسی سازش یا دشمن کی ضرورت ہے؟ اس باب میں ماشا اللہ آپ خودکفیل ہیں۔ اللہ آپ کو نظر بد سے محفوظ رکھے۔
اس پس منظر میں گیلانی صاحب اور صدر زرداری صاحب کا دور حکومت سازشوں میں خود کفالت کے حوالے سے یاد رکھا جائے گا۔ حکمرانوں کی یاد اور تاریخی پہچان کا خیال آتا ہے تو مجھے سچ مچ میاں شہباز شریف سے ہمدردی ہوتی ہے کیونکہ میاں شہباز شریف محنتی، متحرک اور مخلص وزیراعلیٰ ہے لیکن قدرتی آفات اس کے دورکی پہچان بنتی جا رہی ہیں۔
لوگ سوچتے اورپوچھتے ہیں کہ آخر ڈینگی کی شدید تباہی اور گھٹیا دوائیوں کے ردعمل کے طورپر اتنی بڑی تعداد میں اموات صرف پنجاب ہی میں کیوں ہوئیں؟ صبح ہی صبح اخبارات پڑھ کر دل لہولہان ہو جاتا ہے اور دن بھر غم پژمردہ رکھتا ہے۔ میاں صاحب کے گڈ گورننس کے دعوے کہاں گئے؟ ڈینگی کی تباہی کی بڑی وجہ بروقت سپرے نہ کرنا اور پھر نمبر دو سپرے کرنا تھا آخر اس گڈ گورننس کا کیا فائدہ جو بروقت اقدامات نہ کرسکے اور جس کے دور حکومت میں نہ صرف جعلی دوائیاں اور جعلی سپرے بازاروں میں بک رہے ہوں اور مافیاز لوگوں کی جانوں سے کھیل رہے ہوں بلکہ خوراک سے لے کر پانی تک ہر شے ملاوٹ کا شکار ہو۔ پی آئی سی میں گھٹیا دوائیاں کہاں سے آئیں اور ان کا ردعمل آغاز ہی میں کیوں نہ نوٹ کیا گیا؟ محکہ صحت اور ڈرگ انسپکٹر کہاں تھے جب گھٹیا دوائیاں بن رہی تھیں اور سرکاری ہسپتالوں کے لئے خریدی جا رہی ہیں۔ اب جب 106معصوم شہری مرچکے تو بھاگ دوڑ کی جا رہی ہے اور مالی مدد دی جا رہی ہے۔ یہ بہرحال گڈگورننس نہیں اور اس کی بنیادی وجہ میاں صاحب کی نالائق ٹیم ہے۔ میاں صاحب نے سارا بوجھ اپنے کندھوں پر کیوں اٹھایا ہوا ہے؟ اگر انہیں ڈاکٹر طاہر جاوید یا کسی اور ساتھی پر اعتماد نہیں تو صدر صاحب کے پاس دو ماہر ڈاکٹر ہیں انہیں ادھار مانگ لیں۔ اول ڈاکٹر رحمان ملک اور دوم ڈاکٹر بابر اعوان… وہ اگر محکمہ صحت کو سیدھا نہ کرسکے تو کم از کم خادم اعلیٰ کو صحیح وزیراعلیٰ بنا جائیں گے۔
 

No comments:

Post a Comment