Sunday 20 May 2012

دوستو! سیاست جامد شے نہیں ہوتی؟ March 28, 2012


دوستو! زندگی گر کر اٹھنے، ڈوب کر ابھرنے اور بگڑ کر سنورنے کا نام ہے۔ زندگی کسی جامد شے کا نام نہیں اور اسی لئے اقبال نے کہا تھا کہ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں۔ اسی طرح لپکنا، جھپٹنا اور جھپٹ کر پلٹنا زندگی کے لہو کو گرم رکھنے کے حیلے ہیں۔ زندگی کی مانند سیاست بھی کوئی جامد اور مردہ شے نہیں ہوتی کیونکہ جامد تو پہاڑ اور چٹانیں ہوتی ہیں جبکہ زندگی اور سیاست بہتی ندی کی مانند ہیں جن پر کبھی لہریں، کبھی پتھر سے ٹکرانے اور ابشار سے گرنے کا شور اور کبھی بے پناہ سکون غالب آ جاتا ہے۔ مجھے اگر اپنی ملکی سیاست سے کوئی گلہ ہے تو وہ یہ کہ ہماری سیاست عام طور پر اخلاقی قدروں سے عاری اور محروم ہے اور ہمارا سیاسی کلچر میں اخلاقیات کا فقدان ہے۔ چنانچہ آپ کو ایک طرف جھوٹ، مکاری، کرپشن اور بہتان نظر آئے گی تو دوسری طرف عبرت ناک بے حسی… بے حسی کی ایک تازہ مثال ملاحظہ فرمایئے کہ ملک کے عوام لوڈ شیڈنگ سے نڈھال ہیں، سڑکوں پر احتجاج کی آگ پھیل رہی ہے، احتجاج کے ہنگاموں نے پنجاب میں دو قیمتی شہریوں کی جان لے لی ہے، نجی اور سرکاری املاک کو سنگدلی سے نقصان پہنچایا جا رہا ہے، صنعتیں بند ہیں اور مزدور دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں اور ہمارے وزیراعظم صاحب کوریا اور صدر صاحب تاجکستان بیٹھے حسین نظاروں میں گم ہیں۔
وزیراعظم صاحب کی صدر اوبامہ سے برآمدے میں چند لمحوں کی ”ہیلو ہائے“ کو یوں پیش کیا جا رہا ہے جیسے انہیں زندگی میں ہی جنت مل گئی ہے اور اپنے ملک کے عوام جن کے ووٹوں سے گیلانی صاحب وزیراعظم بنے ہیں دن رات جہنم میں گزار رہے ہیں۔ ہمیں یہ بھی علم ہے کہ جب حکومت چاہتی ہے تو لوڈ شیڈنگ بہت کم ہو جاتی ہے اور جب حکومت آئی پی ایز کو فنڈز نہیں دیتی، واجبات ادا نہیں کرتی تو لوڈ شیڈنگ سے صنعتی تجارتی اور نجی زندگی کا پہیہ جام ہو جاتا ہے۔ چار سال تک حکومت کیا کرتی رہی اور بجلی کے بحران کو حل کرنے کے لئے کیا اقدامات کئے، اس بے حسی اور نالائقی کا ماتم اپنی جگہ لیکن سیاست میں اخلاقی قدروں کے بحران کا حال یہ ہے کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ نجی اور سرکاری املاک کو تحفظ بہم پہنچانے کی بجائے کھلم کھلا گھیراؤ کی حوصلہ افزائی کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسے میں پولیس کیا کرے گی اور آگ لگانے والے نوجوانوں کے شوق کے راستے میں کیونکر رکاوٹ بنے گی اس پر تبصرے کی ضرورت نہیں؟ سیاست میں اخلاقی قدروں کے فقدان کا ذکر کروں تو بات طول پکڑ جائے گی۔ میاں نواز شریف صاحب سابق وزیر اعلیٰ لیاقت جتوئی کو مشرف بہ مسلم لیگ کرنے سندھ پہنچے تو ان کے جلسے پر بجلی چوری کا الزام لگا اور جیو نے کنڈے دکھائے جاوید ہاشمی نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیا ر کی تو الزام لگا کہ اس نے عمران خان سے چند لاکھ روپے لے لئے۔ وہ شخص جسے مشرف کروڑوں میں نہ خرید سکا اسے عمران خان نے لاکھوں میں خرید لیا؟ خدا کا خوف کرو۔ نہ جاوید ہاشمی بکاؤ مال ہے اور نہ ہی میری اطلاع کے مطابق ابھی تک عمران خان نے خرید و فروخت کا کاروبار کیا ہے۔ جب ایسا کرے گا تو میرا قلم اس کے دامن کو تار تار کر دے گا۔ ماروی میمن نے جوانی مشرف کی تعریفوں اور آمریت کو تقویت دینے میں صرف کر دی، قومی اسمبلی کے فلور پر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کی مخالفت کرتی رہی، اس کا والد گرامی نثار میمن آج بھی مشرف جیسے کرپٹ اور بد اخلاق آمر کا ستون سمجھا جاتا ہے لیکن مسلم لیگ (ن) باصلاحیت ماروی میمن کو پا کر یوں خوش ہے جیسے اسے کوئی انمول خزانہ مل گیا ہے مشرف کے ساتھی چوہدری برادران قبول نہیں لیکن مشرف کے دوسرے سارے ساتھی قبول ہیں۔ یہی ماروی میمن تحریک انصاف میں آتی تو مسلم لیگ (ن) والے دن رات اس پر پتھر مار رہے ہوتے لیکن اس ضمن میں میرا نقطہ نظر بالکل مختلف ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ صبح کا بھولا شام کو لوٹ آئے تو اسے بھولا ہوا نہیں کہتے۔ جو لوگ کسی پارٹی کی کرپشن، نالائقی، غلط حکمت عملی اور کارکردگی سے مایوس ہو کر دوسری پارٹی جوائن کرتے ہیں یا کسی پارٹی کو اس لئے جائن کرتے ہیں کہ اس کا پروگرام اور قیادت ان کے خوابوں کے قریب تر ہے انہیں لوٹا کہہ کر ان کی تضحیک نہ کرو کیونکہ لوٹے وہ پیشہ ور سیاستدان ہیں جو موروثی سیاست کی دکان سجانے کے لئے پارٹیاں بدلتے ہیں۔ لوٹے وہ ہیں جو انگریزوں سے لے کر اب تک چڑھتے سورج کی پوجا کرتے رہے ہیں اور ہر فوجی آمر کے قدموں میں بیٹھتے رہے ہیں۔
میں کہہ رہا تھا کہ سیاست کوئی جامد شے نہیں، ہلچل، اختلافات، ردوبدل اور ڈوبنا ابھرنا اس کے ناگزیر حصے اور جزو لاینفک ہیں۔ عمرا ن خان کی سیاست میں حرکت اور گرمی پیدا ہوئی تو بہت سے لوگ تحریک انصاف میں شامل ہو گئے۔ ان میں نوجوان خون، پڑھی لکھی ماڈرن خواتین، پُر جوش طلبہ، مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس کے سیاسی کارکن، ملک میں تبدیلی کے خواہاں حضرات کے علاوہ کچھ پرانے، جگادری، موروثی اور پیشہ ور سیاستدان بھی ڈھول بجاتے نظر آئے اور تحریک انصاف کی صفوں پر چھانے کی کوششیں کرنے لگے۔ پاکستان کی 10 کروڑ کے قریب آبادی تیس سال سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے اور ان میں انقلابی نوجوانوں کی بہتات ہے۔ ان نوجوانوں کی اکثریت ملکی حالات سے مایوس ہے لیکن انقلاب اور انقلابی تبدیلیاں چاہتی ہے اور اپنی اپنی پسند کی سیاسی جماعتوں میں شامل ہو کر خون گرما رہی ہے۔ بلاشبہ تحریک انصاف میں کچھ چور بھی گھس آئے ہیں جن میں کچھ قوم کے چور اور کچھ انقلاب چور ہیں۔ قوم کے چور وہ ہیں جنہوں نے بہانوں حیلوں سے قوم کی جیبوں پر ڈاکے ڈالے اور اب روپے کے زور پر سیاست کر رہے ہیں، پارٹی کو چندے دے رہے ہیں،کارکنوں کی مٹھیاں گرم کر رہے ہیں اور دولت کے زور پر اخبارات میں بیانات اور تصویریں چھپوا رہے ہیں۔ کبھی وہ دولت کے زور پر چوہدری برادران کے دست راست تھے آج عمران خان کی قربت حاصل کرنے کے لئے ہلکان ہو رہے ہیں۔ انقلاب چور وہ ہیں جو سیاست میں ”اسٹیٹس کو“ کے قائل ہیں، موروثی سیاست کی علامتیں ہیں، انقلاب ان کو سوٹ نہیں کرتا اور چڑھتے سورج کو دیکھ کر تحریک انصاف میں پناہ گزین ہو گئے ہیں۔ نوواردوں میں شاہ محمود قریشی جیسے نوجوان بھی ہیں جن کا دامن ہر قسم کی آلائش اور مالی بددیانتی سے پاک ہے اور جو پی پی پی جیسی بڑی جماعت چھوڑ کر عمران کے ساتھ آئے ہیں۔ جاوید ہاشمی اور شاہ محمود جیسے سیاستدان اپنے ساتھ تجربے کا اثاثہ لائے ہیں جس کی تحریک انصاف میں کمی تھی۔ سیاست میں دروازے کھلے رہتے ہیں چنانچہ چوہدری فواد کل تک مشرف پر تنقید کرنے کے الزام میں ہمیں گالیاں دیتا تھا اور اب پی پی پی میں آ کر زرداری صاحب پر تنقید کے الزام میں گالیاں دے گا۔ کہنے کا مطلب یہ تھا کہ سیاسی پارٹی بند گلی کا نام نہیں ہوتا اس میں لوگ آتے جاتے رہتے ہیں۔ چنانچہ جب بے تحاشا نئے چہرے آتے ہیں تو یہ پرانے چہروں کو خدشات لاحق ہوتے ہیں۔ اس سے پارٹی میں دھڑے بندی اور گروہی رجحانات جنم لیتے ہیں۔ اس سے گھبرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ کندھے رگڑنے والے اپنی اپنی جگہ بنا لیتے ہیں۔ میرے خیال میں عمران خان نے پارٹی انتخابات کے ذریعے اس مسئلے کا بہترین حل ڈھونڈھا ہے۔ لوگ کہتے ہیں عمران ضدی اور ”اڑیل خان“ ہے۔ میں اسے عمران کی خوبی اور پلس پوائنٹ سمجھتا ہوں۔ انگریز وائسرائے اور خاص طور پر لارڈ ماؤنٹ بیٹن قائداعظم کو ضدی ہونے کا طعنہ دیتے تھے لیکن ان کی اسی ضد نے پاکستان قائم کر دیا۔
عمران خان پارٹی انتخابات کی ضد پر قائم ہے۔ اس سے پارٹی مضبوط ہو گی، اس کی جڑیں گہری ہوں گی اور اندرونی خلفشار کی حوصلہ شکنی ہو گی۔ تحریک انصاف میں انقلاب چور اپنا رنگ نہیں جما سکیں گے کیونکہ اڑیل خان کے سامنے ان کی نہیں چلے گی۔ اڑیل خان اسمبلیوں کے ٹکٹ میرٹ پر دینے پر اڑا ہوا ہے اور یہی اس کا اصل امتحان ہو گا کہ وہ صاف ستھرے دامن والے اور تبدیلی کے عمل کو بڑھانے والے امیدواران سامنے لاتا ہے یا دولت مندوں اور چوروں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتا ہے۔ مجھے اعتماد ہے کہ وہ اپنی ضد پر اڑا رہے گا چاہے اس کے لئے وقتی طور پر نقصان ہی کیوں نہ اٹھانا پڑے۔ دوستو! پارٹیاں جامد شے نہیں ہوتیں۔ دیکھنا صرف یہ ہے کہ بالآخر اصول غالب آ تا ہے یا بے اصولی اپنے پر پھیلاتی ہے۔ مجھے اپنی سیاست سے فقط یہ گلہ ہے کہ ہماری سیاست اخلاقی قدروں سے عاری ہے اور اسے اخلاقیات پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری قیادت کو یہ توفیق عطا فرمائے۔ 
 

No comments:

Post a Comment