Sunday 20 May 2012

سیاست اور تماش بین February 07, 2012


کئی دہائیاں قبل جب شاعر نے پاکستانی سیاست کا نقشہ اس شعر میں پیش کیا تھا
میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
تو اس وقت نہ سیاست اتنی بدصورت طوائف کی مانند تھی اور نہ ہی ہمارے سیاسی رہنما اتنے بے کردار اور سنگدل تماش بین تھے۔ گزشتہ دو تین دہائیوں میں جہاں ہم زندگی کے ہر شعبے میں مسلسل تنزل کا شکار ہوئے ہیں وہاں سیاست بھی پستیوں کو چھوتی نظر آتی ہے۔ قائد اعظم کے ساتھیوں کی اکثریت تمام تر کمزوریوں کے باوجود سیاست کو عبادت سمجھتی تھی ۔ ملکی وسائل کی لوٹ مار کا تصور تک نہیں تھا البتہ ایوب کھوڑو جیسے چند ایک ایسے رہنما بہرحال مسلم لیگ کی صفوں میں شامل تھے جن پر کرپشن کا الزام تھا۔ میں نے ان لوگوں کی کرپشن میں اترنے کی کوشش کی تو مسکرائے بغیر نہ رہ سکا کیونکہ آج تو پٹواری اور تھانے دار اور اس سطح کے کئی سرکاری چھوٹے اہل کار ان سے زیادہ کرپشن کا ارتکاب کررہے ہیں جس کرپشن کی بناء پر قائد اعظم نے کھوڑو کو اقتدار سے نکالا تھا۔ مسئلہ فقط اتنا سا تھا کہ قائد اعظم ایک صاف ستھرے اور کرپشن فری معاشرے اور سیاسی نظام کو پروان چڑھانا چاہتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی گیارہ اگست 1947ء کی تقریر میں کرپشن، سفارش، اقربا ء پروری، دوست نوازی ،منافع خوری، ذخیرہ اندوزی وغیرہ کو خوب رگیدا اور واضح کیا کہ وہ ان برائیوں کو ہرگز برداشت نہیں کریں گے۔
اے ڈی سی کے بقول قائد اعظم کے ایک قریبی ساتھی ان سے ملنے آئے اور اے ڈی سی کو اپنا وزٹنگ کارڈ دیا جس پر نام کے ساتھ لکھا تھا ”گورنر جنرل قائد اعظم کے قریبی رشتے دار“ قائد اعظم نے کارڈ دیکھا تو ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے ملنے سے انکار کردیا اور اے ڈی سی سے کہا کہ اگر وہ آئندہ آئیں تو ان کا کارڈ مت لانا۔ حتیٰ کہ حکومت کو ایک سرکاری خط جاری کرنا پڑا جس میں وضاحت کی گئی تھی کہ کسی شخص کو بھی قائد اعظم کی رشتے داری یا قربت کی بنا پر ترجیح نہ دی جائے۔ میرے مطالعے کے مطابق سیاستدانوں کو چھوٹی چھوٹی مراعات دینے کا سلسلہ قائد اعظم کی وفات اور بہت حد تک لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد شروع ہوا لیکن سیاسی رشوت کوباقاعدہ فروغ جنرل ایوب خان کے مارشل لاء کے دوران دیا گیا کیونکہ ایوب خان کی سیاسی ٹانگیں نہیں تھیں اور اسے ساستدانوں کی حمایت کی ضرورت تھی۔ ایوب خان کے دور کی کرپشن کا موازنہ آج کے دور سے کریں تو چودہ طبق روشن ہوجاتے ہیں اور حیرت اور صدمے سے سر پیٹنے کو جی چاہتا ہے۔ ٹرانسپریسی انٹرنیشنل کا اندازہ ہے کہ صدر زرداری اور وزیر اعظم گیلانی کے”سنہری دور حکومت“ میں 8400ارب روپے کی کرپشن ہوئی ہے۔ پانچ سو ارب روپے کی سالانہ کرپشن تو وزیر خزانہ بھی مانتے ہیں اور اس طرح چار برسوں کے صرف دو ہزار ارب روپے بنتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ وزیر خزانہ کی کرپشن میں سیاستدانوں، وزراء اور حکمرانوں کی کرپشن تو شامل نہیں کیونکہ وہ اسے کرپشن نہیں بلکہ سیاستدانوں کا حق(Right)سمجھتے ہیں۔ گزشتہ دنوں یہی بات ببانگ دہل ایک وزیر نے بھی کی تھی کہ کرپشن ہمارا بھی حق ہے۔ اللہ اللہ خیر سلاّ۔ کرپشن کو وزیروں اور سیاستدانوں کے حق کے طور پر عوام بھی قبول کرچکے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بار بار انہیں ووٹ دیتے ہیں۔ ہمارا مقدر ہمارے اپنے ہاتھوں میں ہے، اگر ہم ہی اپنا مقدر بدلنا نہیں چاہتے تو آسمان سے بہرحال فرشتے نہیں اتریں گے۔
ہمارے دولت مند سیاستدانوں کی حرص و ہوس کو بے نقاب کرنے کے لئے فقط ایک مہران بنک سیکنڈل ہی کافی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ہماری حالیہ تاریخ ایسے بہت سے سیکنڈلوں سے بھری پڑی ہے لیکن وہ بے نقاب نہیں ہوئے بلکہ وہ خفیہ فائلوں میں دبے ہوئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہمارے سیاستدانوں نے بے خوف ہو کر دھڑلے سے آئی ایس آئی سے بھاری رقمیں وصول کیں ورنہ اگر انہیں ذرا بھی خدشہ ہوتا تو وہ کبھی یہ رسک نہ لیتے۔ ذرا غور کیجئے کہ1988ء میں انتخابات لڑنے کے لئے آئی ایس آئی نے چودہ کروڑ روپے سیاستدانوں میں تقسیم کئے۔ اس وقت کے چودہ کروڑ آج کے کم از کم دو ارب روپے بنتے ہیں۔ سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل اسد درانی یہ تصدیق کرچکے اور ان معزز حضرات کے اسمائے گرامی بھی بتا چکے جنہوں نے نہایت ڈھٹائی سے یہ رقمیں وصول کیں۔ کئی برسوں سے یہ مقدمہ سپریم کورٹ میں ہے اور اب اس کی شنوائی ہونے والی ہے۔
خفیہ سے رقمیں لینے والوں میں بڑے بڑے جاگیردار اور صنعتکار شامل ہیں لیکن ان کی حرص و ہوس کا کنواں بھرتا ہی نہیں۔ ان لوگوں سے آپ کس امانت اور دیانت کی توقع کرتے ہیں؟ جو لوگ اس طرح اندھیرے میں خفیہ لفافے موصول کرتے ہیں کیا وہ اقتدار کی تجوریوں کو معاف کردیں گے؟ اگر جنرل بابر مرحوم کو اس سیکنڈل کا پتہ نہ چلتا اور وہ پارٹی پالٹیکس کی نفرت میں اس کا بھانڈا نہ پھوٹتا تو کیا عوام کو کبھی ان کرتوتوں کا پتہ چلتا؟ مزے کی بات یہ ہے کہ دینے والے سپریم کورٹ میں حلفیہ بیانات فائل کرکے کہہ کررہے ہیں کہ ہم نے انہیں اتنی اتنی رقمیں دیں اور وصول کرنے والے ڈھٹائی سے کہہ رے ہیں کہ ہم نے وصول نہیں کیں۔ مسئلہ سیدھا سا ہے کہ خفیہ رقم دیتے ہوئے کوئی رسید تو نہیں لی جاتی، صرف آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے بیانات اور حلفیہ اقرار نامہ ہے کیونکہ خفیہ ایجنسیوں کا تو سارا کاروبار ہی اسی طرح چلتا ہے۔
سی آئی اے جن حضرت یا ایجنٹوں کی جیبیں بھرتی ہے کیا ان سے دستخط لیتی ہے؟ کیا کوئی اتنا بے وقوف ہوگا کہ حرام کے مال کی رسید دے؟ اس سے قطع نظر کہ آئی ایس آئی کو لگام دینا ضروری ہے اور اسے اندرونی سیاست سے فارغ کرنا ملکی مفاد میں ہے سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ رقم کہاں گئی؟ کیا اسے زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا؟ بہرحال اس کا فیصلہ سپریم کورٹ کرے گی ا ور بحیثیت پاکستانی میری دردمندانہ التماس ہے کہ سپریم کورٹ اس سیکنڈل کی تحقیق کرے اور فیصلہ دے کیونکہ اگر ہم سیاست کے گندے کنوئیں کو صاف کرنا چاہتے ہیں تو ان تمام سیاسی کرداروں کا محاسبہ ضروری ہے جنہوں نے مل جل کر سیاست کو بدصورت اور بدبو دار طوائف بنادیا ہے۔ یقین رکھیئے کہ پاکستان کا سیاسی و جمہوری مستقبل صرف اور صرف صاف ستھری سیاست میں مضمر ہے۔ صرف صاف ستھری سیاست لوگوں کے دلوں میں امیدوں کے چراغ جلائے گی، معاشرے میں خدمت اور تقدس کا درجہ حاصل کرے گی ا ور فوج کا راستہ روکے گی۔ لوگ کیوں نجات کے لئے فوج کی جانب دیکھتے ہیں؟ دراصل یہ سیاستدانوں سے مایوسی کا ردعمل ہوتا ہے اگر سیاست عبادت کی مانند ہو تو لوگ خود اس کی حفاظت کرنے پر مجبور ہوں گے۔
سیاست کو عبادت بنانے کے لئے ایک طرف عدلیہ کا رول ہے کہ وہ سیاست کو گندے انڈوں سے پاک کرے تو دوسری طرف عوام پر لازم ہے کہ وہ کرپٹ سیاستدانوں کو کندھوں پر نہ بٹھائیں۔ عدلیہ اور عوام دونوں کو مل کر ملکی سیاست میں تبدیلی لانا ہوگی کیونکہ قانونی اور عوامی احتساب مل کر ہی ملکی سیاست کا چہرہ بدل سکتے ہیں اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو پاکستانی سیاست بدستور طوائف کی مانند تماش بینوں میں گھری رہے گی اور ملک و قوم تنزل کی گھاٹیوں میں اترتے چلے جائیں گے۔
 

No comments:

Post a Comment