Friday 18 May 2012

ایک اہم تاریخی راز سے پردہ اٹھتا ہے September 29, 2011

آج میں آپ کو ایک حیرت انگریز اور ایمان افروز بات بتانے والا ہوں اس لئے میرے ساتھ رہئے اور تھوڑا سا صبر کیجئے کہ پہلے پس منظر بیان کر لوں۔
اگر آپ تحریک پاکستان اور قائد اعظم میں دلچسپی رکھتے ہیں تو آپ کو علم ہو گا کہ قائد اعظم مسلم لیگ پر جاگیرداروں کے غلبے، کانگریسی رویئے اور مسلمانوں کی بے حسی کے سبب دل برداشتہ ہو کر 1930ء کے آواخر میں ہندوستان سے انگلستان چلے گئے تھے جہاں ان کی وکالت خوب چلی اور انہوں نے نوابوں اور والیان ریاست کے پریوی کونسل کے مقدمات میں سے خوب دولت کمائی جس کی برکت سے وہ آخری وقت تک مالی دشواری سے بے نیاز رہے۔ اعلیٰ میعار زندگی کے تقاضے پورے کرتے رہے اور اس جہان فانی سے رخصت ہوتے ہوئے اس کا معتدبہ حصہ علی گڑھ یونیورسٹی، اسلامیہ کالج پشاور، سندھ مدرستہ السلام کراچی، ممبئی کے ایک اسلامی مدرسے وغیرہ وغیرہ کو دے گئے۔تحریک پاکستان پر سبھی کتابیں بتاتی ہیں کہ علامہ اقبال نے انہیں ہندوستان واپس آنے پر مائل کیا اور انہیں کہا کہ ہندوستان کے مسلمان آپ کی رہنمائی کے منتظر ہیں۔ کتابیں یہ بھی بتاتی ہیں کہ جب نوابزادہ لیاقت علی خان محترمہ رعنا لیاقت علی سے شادی کے بعد ہنی مون منانے لندن گئے تو انہوں نے بھی قائد اعظم سے ملاقاتیں کیں اور انہیں ہندوستان واپسی پر قائل کرنے کی کوششیں کیں۔ یہ بھی تاریخی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ خود آل انڈیا مسلم لیگ نے ایک قرارداد کے ذریعے قائداعظم سے واپسی کی درخواست کی اور مسلم لیگ کی قیادت سنبھالنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ یہ تفصیلات تاریخ کا حصہ نہیں لیکن میں آپ کو ایک ایسا راز بتانے چلا ہوں جس کا لوگوں کو علم نہیں اور میرے نزدیک یہی وہ بات تھی جس نے قائد اعظم کے مایوس دل میں ایمان اور یقین محکم کے چراغ روشن کئے۔ انہیں ہندوستان واپس لائی اورقیام پاکستان کا باعث بنی۔
سچی بات یہ ہے کہ میں اس خواب کا ذکر کئی بار سن چکا تھا اور اس کا ذکر بعض کتابوں میں بھی پڑھ چکا تھا لیکن میرے مزاج اورذہنی ساخت کی ایک مجبوری ہے کہ وہ ثبوت اور شواہد مانگتا ہے میں سینکڑوں ہزارو ں باتیں سنتا ہوں اور ان میں جو قابل غور ہوتی ہیں انہیں غور و فکر کے خانے میں محفوظ کر لیتا ہوں غور و فکر کے دوران سب سے پہلا مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ کیا ایسا ممکن ہے؟ کیا قلب و ذہن اسے قبول کرتے ہیں؟ جو بات بظاہر ناقابل یقین لگے وہ پردے کے پیچھے چلی جاتی ہے۔ دوسرا مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ اس انکشاف، دعوے یا رائے کا کھوج لگایا جائے اور دیکھا جائے کہ کیا اس کے حق میں کوئی ٹھوس یا قابل اعتماد اور ثقہ راوی یا حوالہ دستیاب ہے؟ اگر راوی شاہداور حوالہ کمزور ہو اور بظاہر بات بھی انہونی لگتی ہو تو میں اسے ذہن میں مسترد کرکے مطمئن ہو جاتا ہوں۔ حوالہ راوی یا شاہد کو پرکھتے ہوئے ان پہلوؤں پر نگاہ رکھنی پڑتی ہے اول راوی کتنا قابل اعتماد ہے، حق گوئی کی شہرت رکھتا ہے یانہیں، دوم اس معاملے میں اس کا کوئی ذاتی مفاد تو ملوث نہیں، سوم کیا اس نے یہ بات خود سنی یا سنی سنائی ہے اور کیا جس راوی سے اس نے یہ بیان سنا وہ خود عینی شاہد تھا یا نہیں ؟ اورچہارم کہ اس کا راوی کس شہرت کا حامل تھا؟ کیا وہ سچائی کی شہرت رکھتا تھا ؟ آج جو راز میں بے نقاب کرنے جا رہا ہوں اس کی سچائی کو میں نے ان تمام پیمانوں اور معیاروں پر پرکھا ہے اور اپنی پوری تسلی کے بعد اسے بیان کرنے کا ارادہ کیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ اس انکشاف پر لبرل، سیکولر اور دین سے بیزار اور روحانی روشنی سے محروم دانشور طنزاً مسکرائیں گے لیکن وہ لوگ جن کے دلوں میں ایمان کی حرارت موجود ہے اور جو روحانیت پر یقین رکھتے ہیں ان کے قلوب اسے پڑھ کر ایمان اور یقین کے نور سے منور ہو جائیں گے ۔ اس واقعے کے راوی چوہدری فضل حق ہیں اور ان کے راوی مولانا شبیر احمد عثمانی ہیں ۔اگرچہ ان دونوں حضرات کا تعلق اس کلاس سے ہے جنہیں دنیا سے عاقبت زیادہ عزیز ہوتی ہے اور جو کبھی بھی جھوٹ کے بے لذت گناہ کا ارتکاب نہیں کرتے تاہم چوہدری فضل حق کا تھوڑا سا تعارف ضروری سمجھتا ہوں ۔ 
چوہدری صاحب ماشاء اللہ اس وقت 96سال کے لگ بھگ ہیں ، وہ بلوچستان، سندھ اور پنجاب کے آئی جی پولیس رہے، مرکز میں وفاقی سیکرٹری داخلہ رہے، ان کی نعت گوئی عشق رسول کی دین ہے اور وہ طویل عرصے تک جنگ کے لئے کالم بھی لکھتے رہے ۔ ان کی شہرت ایک پابند صوم و صلوٰة ، نیک اور بھلے انسان کی ہے اس تعارف کے بعد ان کا بیان بلاتبصرہ پیش کر رہا ہوں جو گزشتہ دنوں نظریہ پاکستان کونسل اسلام آباد کے ماہنامے نظریہ میں شائع ہوا ۔ یہ بیان ایک انکشاف ہے اور تاریخی راز بے نقاب کرتا ہے جس میں ہر پاکستان کو دلچسپی ہے ۔ چوہدری فضل حق نے 1944-45ء میں اپنے قیام دہلی کی یادداشتوں کے حوالے سے بتایا کہ ان دنوں وہ کبھی کبھار قائد اعظم کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے وہیں علامہ شبیر احمد عثمانی سے ملاقات ہوئی جو بعد میں نیاز مندی میں بدل گئی ۔ یہ تعلق اور رابطہ قیام پاکستان کے بعد کراچی میں مزید گہرا ہو گیا۔ انہوں نے کہا کہ علامہ شبیر احمد عثمانی کویہ منفرد اعزاز حاصل تھا کہ وہ قائد اعظم  سے جب چاہیں وقت لئے بغیر مل سکتے تھے ۔ قائد اعظم ان کا بے حد احترام کرتے تھے یہاں تک کہ پہلے یوم آادی پر قائد اعظم  کی موجودگی کے باوجود پاکستان کا پرچم لہرانے کا اعزاز علامہ عثمانی کو حاصل ہوا …علامہ شبیر احمد عثمانی نے ایک ملاقات میں قائد اعظم کی وفات کے بعد بتایا کہ قائد مرحوم نے انہیں ایک نشست میں بتایا تھا کہ وہ لندن کی خود اختیار کردہ جلاوطنی کو سرورکائنا ت کے حکم پر ختم کرکے ہندوستان واپس آئے تھے جو انہیں سرور کائنات نے ایک خواب میں دیا تھا ۔ اس خواب کی تفصیل بیان کرتے ہوئے قائد نے بتایا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کا حکم نہایت واضح تھا آپ ﷺ نے دو ٹوک الفاظ میں فرمایا تھا ” محمد علی واپس ہندوستان جاؤ اور وہاں کے مسلمانوں کی قیادت کرو “ قائد اعظم نے یہ خواب سنا کر تاکید کی تھی کہ اس واقعہ کا ذکر ان کی زندگی میں کسی سے نہ کیجئے گا۔ پھرقائد اعظم جلاوطنی کو ختم کرکے واپس آئے، مسلم لیگ کے تن مردہ میں نئی روح پھونکی اور مطالبہ پاکستان پر ڈٹ گئے ۔ چوہدری فضل حق نے کہا کہ میرے نزدیک قائد اعظم کا مطالبہ پاکستان پر اصرار اور اسکی راہ میں کسی رکاوٹ کو خاطر میں نہ لانا اسی وجہ سے تھا کہ اس کا حکم سرور کائنات نے دیا تھا۔ اسی باعث میرا ایمان ہے کہ پاکستان کا مستقبل نہایت روشن ہے اور ہماری تمام تر کوتاہیوں اور کمزوریوں کے باوجود پاکستان قائم و دائم رہے گا۔
آپ مسلمان ہیں اور پاکستانی ہیں توذرا چند لمحوں کے لئے سوچئے کہ جس تحریک کا آغاز حضورنبی کریم کے حکم پر ہوا اور جو ملک 15 اگست 1947ء کو رمضان کی ستائیسویں اور لیلتہ القدر کے مبارک موقعہ پر جمعہ کے مبارک دن معرض وجود میں آیا کیا اس کے وجود کو کوئی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے؟ کیا اس کے قائم و دائم رہنے میں شک کیا جا سکتا ہے؟ کیا اس ملک پر سایہ خدائے ذوالجلال سے انکار کیا جا سکتا ہے؟

No comments:

Post a Comment