Saturday 19 May 2012

وہ وعدے ہی کیا جو وفا ہو گئے.. November 29, 2011


استاد کہا کرتا تھا کہ بعض باتیں اگر سیدھے سادے انداز سے لکھ دی جائیں تو یوں لگتا ہے جیسے لکھاری نے کلہاڑا مار دیا ہے اور سرپھٹول کر کے بھاگ گیا ہے لیکن وہی سخت بات تمثیل اور کہانی کے ذریعے بیان کی جائے تو قاری غور سے پڑھتا اور پیغام رجسٹر کر لیتا ہے۔
میں کبھی نوجوان تھا اور اس حوالے سے نہ صرف دلیر بلکہ نہایت نڈر بھی پایا جاتا تھا۔ یہ بھٹو صاحب کے جیالے دور کا آغاز تھا جب سرکاری افسران ہمہ وقت سہمے بیٹھے رہتے تھے اور ہوا سے بھی دروازہ بجتا تھا تو لگتا تھا ابھی کوئی جیالا دروازے کو ٹھڈا مار کر داخل ہو گا اور اپنی سفارش پر عجب سماں پیدا کرے گا۔ میں دفتر میں بیٹھا تھا تو ایک خان صاحب کی چٹ موصول ہوئی جو علاقہ غیر سے آئے تھے۔ وہ اندر داخل ہوئے توبظاہر معزز قسم کے سفید پوش انسان لگے۔ میں چائے پی رہا تھا چنانچہ انہیں بھی چائے پیش کی۔ ان سے وجہ آمد پوچھی تو پتہ چلا کہ وہ کسی مشکل میں گرفتار تھے۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ میں تو آپ کے کام سے متعلقہ افسر نہیں ہوں لیکن جو صاحب متعلقہ ہیں میں انہیں کہہ دیتا ہوں۔ کام آپ کا جائز ہے انشاء اللہ ہو جائے گا۔ میں نے سفارش کر دی اور وہ صاحب شکریہ ادا کر کے چلے گئے۔ اگلے دن وہ پھر تشریف لائے تو مجھے حیرت ہوئی۔ وہ سر سے پاؤں تک شہد تھے اور میری سفارش پر آسانی سے کام ہونے پر شکریئے کے ڈھیر لگا رہے تھے۔ اٹھتے ہوئے انہوں نے مجھے ایک عدد تحفہ پیش کرنے کی کوشش کی جس سے میں نے انکار کر دیا۔ انہوں نے تحفے کو اپنے لمبے کوٹ کی جیب میں ڈالا اور دوسری جیب سے اپنا وزٹنگ کارڈ نکال کر مجھے تھمایا اور بولے ”صفدر صاحب۔ آپ نے ہمارے دل میں گھر بنا لیا ہے۔ خدا قسم زندگی میں کبھی کوئی مشکل پڑے ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہوں گے اور ہاں اگر کسی دشمن کو اٹھوا کرعلاقہ غیر میں پہنچانا ہو تو ہمیں بتا دینا۔ میں نے مسکرا کر جواب دیا ”خان صاحب میرا نہ کوئی دشمن، نہ مجھے کسی سے خطرہ“۔ آپ کی پیشکش کا بہت شکریہ۔ آپ مجھے دعاؤں میں یاد رکھیں۔ کوئی برس ڈیڑھ گزر گیا تو وہ ایک بار پھر آئے۔ اس بار ان کے ساتھ پتلون کوٹ پہنے ایک خوبرو نوجوان بھی تھا۔ تعارف کراتے ہوئے کہا یہ میرا بیٹا ہے ایف سی کالج میں پڑھتا ہے اسے ملانے لایا ہوں۔میں نے ان کی آؤ بھگت کی چائے بسکٹ کھلائے نوجوان سے پڑھائی کا پوچھا اور پھر وہ دونوں اجازت لے کر چلے گئے۔ زمانے نے کئی کروٹیں لیں، میں بھی تبادلوں کے چکر میں گھاٹ گھاٹ کا پانی پیتا رہا۔ ماضی کی یادیں تیز رو زندگی کے سمندر میں بہہ گئیں۔ زندگی نے ایک ہی سبق سکھایا کہ رشتے ان سے جو ملتے رہتے ہیں۔ ملاقاتوں کے درمیان برسوں کے فاصلے حائل ہو جائیں تو محض شرمندگی اور سرد مہری باقی رہ جاتی ہے۔ میں اس شخص کو بھول گیا کیونکہ ایسی ملاقاتوں کو جو ہوا کے جھونکے کی مانند ہوتی ہیں بھول جانا دفتری زندگی کا حصہ ہوتا ہے۔ زندگی کا سفر اس قدر تیزی سے طے ہوا کہ اچانک مشرف کا دور حکومت آ گیا۔ مجھے اس دور میں ایک سیکنڈ ہینڈ کار کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اس سے قبل ایک بار میری یہ مشکل میرے پسندیدہ شاگرد خالد عباس ڈار آرٹسٹ نے حل کی تھی جو اس زمانے میں کوئنز روڈ (فاطمہ جناح روڈ) کے شو روم پر کبوتر دکھا کر چڑیاں بیچا کرتا تھا۔ یادش بخیر خالد عباس ڈار گورنمنٹ کالج لاہور میں میرا شاگرد عزیز تھااور اپنے مزاج، حاضر جوابی، مروت، اخلاق اور مخولی طبیعت کی بنا پر بہت پاپولر تھا۔ اسی دور میں میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف گورنمنٹ کالج میں پڑھتے تھے لیکن ان تینوں کشمیریوں کا آپس میں یارانہ تھا یا نہیں، مجھے علم نہیں۔ خالد عباس ڈار کا ہم عصر عثمان پیرزادہ تھا جس کی ایک ادا میں کبھی بھی نہیں بھول سکا۔ چند بار ایسا ہوا کہ میں اتفاق سے لنچ کے وقت ہوٹل پہنچا ریسٹورنٹ سے گزرتے ہوئے عثمان پیرزادہ اور اس کی بیگم ثمینہ پیرزادہ پر نظر پڑی۔ کھانا کھاتے ہی عثمان مجھے دیکھتے ہی اٹھ کھڑا ہوتا اور ثمینہ حیرت سے یا غصے سے دیکھنے لگتی کہ یہ کس پیر صاحب کو دیکھ کر کھانا چھوڑ کر کھڑا ہو گیا ہے۔ خالد عباس ڈار نہایت مودب شاگرد تھا لیکن ایک بار اس نے میرا غلط سودا کروا دیا جس کا میں نے کبھی اس سے گلہ نہیں کیا۔ کئی برس قبل خالد مجھے ملا تو اپنے مزاحیہ انداز میں کہنے لگا سر میں اپنے گھر کا لینڈ نمبر کسی کو نہیں دیتا کیونکہ میری اہلیہ خوبصورت ہیں۔ آپ تو باپ کی مانند ہیں میرے گھر کا نمبر لکھ لیں مجھے جب سیکنڈ ہینڈ کار کی ضرورت پڑی تو ڈار یاد آیا۔ فون کیا توپتہ چلا کہ نمبر بدل گیا ہے۔ میرا خیال ہے خالد ڈار کسی کو بھی نمبر دینے کے بعد نمبر تبدیل کروا لیتا تھا اوراس حکمت عملی میں بوڑھے جوان کی تخصیص نہیں تھی۔
چنانچہ میں ایک روز خود ہی کوہ پیمائی پر نکل پڑا کیونکہ میرے نزدیک سیکنڈ ہینڈ کار خریدنا کوہ پیمائی سے بھی مشکل کام ہے۔ فاطمہ جناح روڈ کے ایک دو شو روم دیکھنے کے بعد میں ایک بڑے سے شو روم میں گاڑیوں کو گھور رہا تھا کہ اتنے میں ایک خوبرو نوجوان نے آتے ہی مجھ سے زبردستی معانقہ کیا یعنی جپھہ مار دیا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ میں ان خان صاحب کا بیٹا ہوں جو پندرہ بیس برس پہلے آپ سے ملے تھے۔ پھر وہ مجھے اپنے دفتر لے گیا اس نے اپنے باپ کا نام بتایا تومجھے سب کچھ یاد آ گیا اور یہ سن کر دکھ ہوا کہ ان کا انتقال ہو چکا ہے۔ انتقال کی خبر سناتے ہوئے اس نے کہا کہ ابا نے آپ کو ایک پیشکش کی تھی میں اپنے ابا کے وعدے کا پابند ہوں۔ باتوں کے دوران میں نے اس سے کہا کہ اگر تم واقعی ہی اپنے ابا مرحوم کا وعدہ نبھانا چاہتے ہو تو پھر میں بتاؤں میں کس سے سخت تنگ ہوں، کس نے جینا حرام کر رکھا ہے۔وہ کرسی پر سیدھا ہو کر بیٹھ گیا کہنے لگا بتائیں ہم اسے کل تک علاقہ غیر پہنچا دیں گے۔ میں نے کہا کہ میرے سمیت قوم صدر پرویز مشرف سے بہت تنگ ہے بتاؤ وعدہ پورا کرو گے۔ وہ مسکرا دیا کہنے لگا سر آپ مجھ سے مذاق نہ کریں۔ بھلا ہم صدر کو کیسے اغوا کر سکتے ہیں۔انہوں نے تو ساری قوم کو اغوا کیا ہوا ہے۔
ایک بار پھر ماہ و سال گزر گئے چند روز قبل میں نے این آر او کے حوالے سے ڈاکٹر بابر اعوان کو سپریم کورٹ میں کچھ کرتے دیکھا۔ مجھے محسوس ہوا جیسے میرے مہربان اعوان صاحب مقدمہ لڑنے نہیں آئے بلکہ محض وقت گزاری اور ٹمپریچر بڑھانے آئے ہیں۔ جاتے ہوئے انہوں نے فقرا کسا نواز شریف کا کیس کب لگاؤ گے۔ گویا وہ این آر او کی آڑ میں شہید بننے کی کوشش کر رہے تھے۔ جب جناب ذوالفقار علی بھٹو کا مقدمہ پنجاب ہائیکورٹ میں چل رہا تھا تو وہ آنکھوں ہی آنکھوں میں جسٹس مولوی مشتاق کو نوکیلے پیغامات دیا کرتے تھے جن سے مولوی صاحب کبھی غصے میں آتے اور کبھی زچ ہوتے۔ یہ شاید پی پی پی والوں کی پرانی حکمت عملی اور دیرینہ عادت ہے۔سپریم کورٹ میں ڈاکٹر صاحب کو دیکھ کر مجھے یاد آیا کہ ڈاکٹر صاحب نے مجھ سے میرا ایک مقدمہ مفت لڑنے کا وعدہ کر رکھا ہے۔خدا جانے پٹھان کی مانند ان کا وعدہ پکا ہے یا نہیں۔ ان دنوں ان سے کسی دن میں درخواست کرنے والا ہوں کہ وہ اپنا وعدہ پورا کریں لیکن مجھے خطرہ ہے کہ جب میں ملزم کا نام بتاؤں گاتو ڈاکٹر صاحب مسکرا کر کہیں گے بھائی کیوں مجھ سے مذاق کرتے ہو۔ بھلا میں اس کے خلاف مقدمہ کر سکتا ہوں ؟؟؟


No comments:

Post a Comment