Friday 18 May 2012

قوم کی قوت برداشت؟ October 02, 2011

کسی زمانے میں ایک بادشاہ ہوا کرتا تھا جس کی سلطنت میں سکون ہی سکون تھا۔ بادشاہ نے ایک روز اپنے وزیراعظم کو بلایا اور اس سے کہا کہ رعایا یعنی قوم کی برداشت کا امتحان لو اور اس کے صبر کا پیمانہ ناپ کر مجھے بتاؤ۔ وزیراعظم نے غور کیا تو اسے ایک ترکیب سوجھی۔ لوگ کام پر جانے کیلئے ایک پل سے گزرتے تھے۔ چنانچہ وزیراعظم نے قوم کی برداشت کا امتحان لینے کے لئے پل پر سے گزرنے والوں پر ٹیکس لگا دیا۔ کوئی ناراضگی دیکھنے میں نہ آئی۔ وزیراعظم نے ٹیکس دس گنا کر دیا۔ پھر بھی احتجاج نہ ہوا۔ وزیراعظم نے حکم دیا کہ ہر گزرنے والے کو پانچ پانچ جوتے لگائے جائیں۔ ”جوتم پریڈ“ شروع ہو گئی اور ہر گزرنے والے کو جوتے لگنے شروع ہو گئے۔ چند روز گزرے تو لوگ بادشاہ کے محل کے سامنے اکٹھے ہوئے۔ بادشاہ سمجھا کہ اب احتجاج ہو گا شاید لوگ جوتے برداشت نہیں کر سکے۔ بادشاہ محل کی بالکونی پر آیا اور لوگوں سے پوچھا کہ ہاں بتاؤ کیا مسئلہ ہے؟ لوگوں نے کہا بادشاہ سلامت قطار لمبی ہوتی ہے اور جوتے لگانے والا صرف ایک آدمی ہے۔ ہمیں کام پر پہنچنے میں دیر ہو جاتی ہے۔ مہربانی فرما کر جوتے لگانے والوں کی تعداد بڑھائی جائے۔ 
ڈاکٹر خلیل اللہ کا کہنا ہے کہ ہماری قوم کی حالت بھی کچھ اسی قوم جیسی ہے۔ مشاہدہ و مطالعہ بتاتا ہے کہ جب قوم کسی مشکل یا عذاب میں مبتلا ہو تو وہ اپنی حالت پر آنسو بہانے کے لئے لطیفے، واقعات اور اشعار گھڑ لیتی ہے۔ یہ لطیفہ اس طرح ہم پر صادق آتا ہے کہ جب موجودہ حکمران ہم سے ووٹ لے کر تخت نشین ہوئے تو ملک میں غربت، بے روزگاری، مہنگائی اور احساس تحفظ آج سے کم از کم چار پانچ گنا کم تھا۔ ہم نے سیاسی حکمرانوں کو اس خوشی میں ووٹ دیئے کہ وہ ملک سے مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کا خاتمہ کریں گے لیکن ہمارے حکمرانوں نے پرانے زمانے کے بادشاہ کی مانند ہماری برداشت ناپنا شروع کر دی اور ہمارے صبر کا امتحان لینے لگے۔ نتیجے کے طور پر کھانے پینے کی اشیاء حتیٰ کہ دال اور سبزیاں بھی ساڑھے تین برسوں کے دوران پانچ چھ گنا مہنگی ہو چکی ہیں۔ غریبوں کے کھانے کی دال جو 2008 میں چالیس روپے کلو تھی اب ماشاء اللہ جمہوری حکمرانوں کی مہربانیوں کے طفیل دو سو روپے کلو ہو چکی ہے۔ یہی حال روزمرہ کی اشیاء دودھ، چینی، سبزیوں، گوشت وغیرہ وغیرہ کا ہے۔ حکومت عوام کی برداشت کو جانچنے اور ناپنے کے لئے پٹرول، بسوں کے کرائے، پہننے کے کپڑے، آٹا اور کھانے کی اشیاء کی قیمتیں ہر روز بڑھا رہی ہے لیکن مجال ہے کہ قوم کی طرف سے کوئی احتجاج ہو۔ لوگ بھوک کے مارے خود کشیاں کرنے پر مجبور ہیں لیکن قوت برداشت کا یہ حال ہے کہ اپنی جان پر تو کھیل جاتے ہیں لیکن حکومت کے خلاف احتجاج نہیں کرتے۔ لوڈ شیڈنگ نے نہ صرف زندگی بلکہ انڈسٹری کا بھی بیڑہ غرق کر دیا ہے لیکن احتجاج کبھی کبھار شہروں کی سطح پر ہوتا ہے، ملکی سطح پر اور منظم انداز میں نہیں۔ جس وزیر کو بادشاہ نے ہماری برداشت کا امتحان لینے کو کہا تھا وہ بیچارا ہر قسم کے حربے استعمال کر کے اب حیران و پریشان بیٹھا ہے کہ کیسی قوم ہے۔ ناجائز ٹیکس بھی دیتی ہے اور جوتے بھی کھاتی ہے لیکن احتجاج نہیں کرتی۔ حتیٰ کہ یہ تک نہیں کہتی کہ قطار لمبی ہوتی ہے جوتے لگانے والوں کی تعداد بڑھا دیں۔ 
شاید اسی صورتحال یا برداشت سے تنگ آ کر قدرت نے ہمارا امتحان لینا شروع کیا ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس امتحان کا مقصد لوگوں کو بیدار کرنا ہو کیونکہ انسانی تاریخ ایسی لاتعداد مثالوں سے بھری پڑی ہے جب حکمرانوں کا ظلم سہنے والوں کو قدرت نے اپنے طریقوں سے بیدار کیا ورنہ وہ تو ظلم سہتے ہی جا رہے تھے۔ انقلاب فرانس اور روٹی نہیں ملتی تو کیک کھاؤ اس کی ایک مثال ہے۔ کبھی یہ ”جوتا“ یا تازیانہ قحط کی شکل میں لگتا ہے تو کبھی سیلابوں، طوفانوں اور وباؤں کی صورت میں… مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں یہ سارے قدرتی طریقے بھی سود مند ثابت نہیں ہوئے اس لئے یہ کام امریکہ کے سپرد کیا گیا ہے جس نے ہم پر تازیانے برسانے کے لئے پاکستان کے سابق دوست جنرل مولن اور پینٹا کی ڈیوٹی لگائی ہے۔ جنرل مولن نے چند روز ہماری کلاس لی، دھمکیاں دیں، سنگین نتائج کی خبریں سنائیں اور انتقامی کارروائی کا خوف پھیلایا تو میں نے دیکھا کہ ساری قوم ایک روز کے لئے خوفزدہ ہو کر دبک گئی۔ لوگ گھبرائے ہوئے پوچھتے پھرتے تھے کہ کیا امریکہ جو ایک خوفناک سپر پاور ہے ہم پر حملہ کر دے گا کیا وہ ہوائی حملے کرے گا یا زمینی؟ دوسرے ہی روز قوم کو اشارہ ہوا تو لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ساری قوم بیدار ہو گئی، سڑکوں پر احتجاج ہونے لگا امریکی جھنڈے جلائے جانے لگے ایک جیالے نے کراچی میں امریکی قونصلیٹ کی حفاظتی چاردیواری پر پاکستان کا جھنڈا لہرا کر اللہ اکبر کا نعرہ لگا دیا، لوگ مہنگائی، غربت، بے روزگاری اور سیاسی اختلاف بھول کر امریکہ کو مکے دکھا کر غصہ نکالنے لگے۔ ہمارے سیاستدان بھی ہوشیار ہو گئے کہ انہیں وقت کے تقاضوں کا ساتھ دینا تھا اور کوئی بھی سیاستدان ٹرین مس کرنا افورڈ نہیں کر سکتا۔ حکمرانوں نے یہ موقع غنیمت جانا اور اپنی گرتی ہوئی ساکھ، مقبولیت اور ووٹ بینک کو بچانے کے لئے متحرک ہو گئے۔ حکمرانوں کے لئے وہ لمحات اور وقت سنہری ترین ہوتا ہے جب لوگ داخلی مسائل کو بھول کر، اپنی بھوک ننگ کو پس پشت ڈال کر حکمرانوں کے پیچھے کھڑے ہو جائیں۔ 
ایسا صرف خارجی دھمکی، ملکی وجود کو خطرے اور چیلنج سے ہی ہو سکتا ہے کیونکہ یہ خطرات لوگوں میں حب الوطنی کا جذبہ جگانے کا بہترین موقع ہوتے ہیں جنہیں کبھی کوئی حکومت ضائع نہیں کرتی کیونکہ اس سے حکومت کو تقویت ملتی ہے اور حکمرانوں کی بڑھکوں پر واہ واہ کے ڈونگرے اسی طرح برسائے جاتے ہیں جس طرح کسی مشاعرے میں پسندیدہ شعر پر واہ واہ کا شور بلند ہوتا ہے۔ چنانچہ حکومت نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور فوراً آل پارٹیز کانفرنس بلا لی جیسے امریکہ سچ مچ ہم پر حملے کرنے والا ہے۔ ایسی بات نہیں۔ امریکہ نے اپنی بات منوانے کے لئے دباؤ بڑھایا تھا، گرمی اور حدت کا سوئچ آن کیا تھا، ہو سکتا ہے ان الزامات میں کچھ سچ بھی ہو لیکن قوموں کی تاریخ میں ایک قوم کا سچ دوسری قوم کا جھوٹ ہوتا ہے۔ امریکہ پاکستان پر حملہ کرنے کا نہیں سوچ رہا تھا بلکہ صرف ڈرا رہا تھا یا قوم کی برداشت آزما رہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اُدھر صدر اوباما اور اِدھر صدر زرداری ٹھنڈا دودھ پی کر لفظی جنگ کا تماشا دیکھ رہے تھے۔ اس حدت اور تپش کو کم کرنے کے لئے کہا گیا کہ مولن حد سے ذرا بڑھ گئے تھے۔ پاکستان اور امریکہ کو مل کر دہشت گردی کے خلاف لڑنا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر پاکستان نے حقانی نیٹ ورک کے خلاف کچھ نہ کیا تو امریکہ ہوائی و فضائی کارروائی کر سکتا ہے کیونکہ حکومت پاکستان کو ڈرون حملوں پر اعتراض نہیں۔ ڈرون میں ذرا چند ایک دوسرے حملے بھی بڑھا دیں تو پاکستانی حکمران برداشت کر لیں گے کیونکہ ان کی قوت برداشت سمندروں سے بھی گہری ہے۔ بھکاری حکمرانوں اور بھکاری قوموں کی قوت برداشت ہمیشہ سمندروں جیسی گہری ہوتی ہے اسی لئے جب وہ احتجاج کرتے ہوئے ہوا میں مکے لہراتے ہیں تو دیکھنے والوں کو ہنسی آتی ہے اور سوچنے والوں کو رونا آتا ہے۔ 
کل جماعتی کانفرنس ہو چکی اور لیڈران اکرام سیسہ پلائی ہوئی دیوار بننے کے بعد بکھر کر اپنے ٹھکانوں کو لوٹ چکے۔ حکمران اپنی کامیابی پر خوش اور مطمئن ہیں اور فوج اپنی کامیابی پر… مولن نے چند روز میں ریٹائر ہونا ہے اور اس نے اس کانفرنس کو جنرل کیانی کی ٹرافی قرار دیا ہے۔ امریکہ کو اچھی طرح علم ہے کہ پاکستانی سیاستدانوں کی اصل کیا ہے۔ وہ خلوت میں امریکہ سے اقتدار اور وزارت عظمیٰ کی بھیک مانگتے ہیں، اس سے این آر او طے کر کے اقتدار میں آتے ہیں اور جلوت میں امریکہ کو غیرت کے مکے دکھاتے ہیں… نوٹ کر لو جو اصل سے واقف ہوتا ہے وہ نقل پر نہیں جاتا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ قوم کی قوت برداشت ختم ہونے کو ہے۔ جو کام ہمارے حکمران نہ کر سکے وہ امریکہ نے کر دکھایا ہے لیکن مجھے یوں لگتا ہے جیسے ہماری قوم کی قوت برداشت ختم نہیں  …ہوئی


No comments:

Post a Comment