Saturday 19 May 2012

عجیب شے. January 08, 2012


اللہ سبحانہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے لیکن انسان بھی عجیب شے ہے ،جیتا ہے تو اس طرح کہ جیسے کبھی مرنا ہی نہیں اور مرتا ہے تو اس طرح جیسے کبھی جیا (زندہ) ہی نہیں تھا۔ اوقات فقط اتنی سی ہے کہ جس زندگی پر انسان اکڑتا اور گھمنڈ کرتا ہے وہ فقط کچی مٹی کا دیا ہے جو ہوا کے جھونکے سے بجھ جاتا ہے اور پھر مٹی، مٹی میں مل کر مٹی ہوجاتی ہے۔ دولت، اقتدار، اختیار، عہدہ اور شہرت گھر کی چار دیواری میں داخل ہوں تو انسان اپنی اوقات بھول جاتا ہے، دوسروں کو کم تر اور ہیچ سمجھنے لگتا ہے، اس کی ہر ادا اور ہر حرکت سے غرور یوں ٹپکنے لگتا ہے جیسے پہاڑی جھرنوں سے پانی کی بوندیں ٹپکتی ہیں اور انسان اس وہم میں مبتلا ہوجاتا ہے جیسے قیامت تک اسی کروفر کیساتھ دندناتا رہے گا۔ اے کاش ہم یہ کبھی نہ بھولیں کہ زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے۔
اگر ہمیں یہ یاد رہے کہ زمیں بڑے بڑے فرعون، بڑے بڑے قارون اور بڑے بڑے پھنے خان کھا گئی ہے، آج ان کا نام بھی مٹ چکا ہے اور یاد بھی ، شاید انسان نہ کسی پر بہتان لگائے، نہ دولت و اقتدار و شہرت کے نشے میں بہک کر غرور کرے، نہ جھوٹ بول کر دوسروں کو دھوکہ دے اور خلق خدا کو ہیچ سمجھے۔ اسی لئے تو کہا جاتا ہے کہ موت کو یاد رکھو لیکن کبھی موت کی آروز نہ کرو کیونکہ موت کی یاد انسان کے بہت سے نشے ہرن کردیتی ہے اور اس کے غرور تکبر کو کھا جاتی ہے۔ کبھی موت کی آرزو نہ کو کیونکہ زندگی اپنے رب کا انعام ،نعمت اور عطیہ ہے۔ نعمت پر رب کا شکر ادا کیا جاتا ہے نہ کہ اس کے خاتمے کی آرزو کی جاتی ہے، نعمت کے خاتمے کی آرزو ناشکری ہے اور ناشکری انسان کا مرتبہ گھٹا دیتی ہے۔
ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ اگر انسان اپنی اوقات پہچان لے اور اپنی اوقات میں رہے تو شاید وہ جھوٹ، بہتان اور غرور کی آفات سے محفوظ رہے ورنہ تو یہ آفات انسان کو چھوٹا سا”خدا“ بنادیتی ہیں اور انسان کی خدائی شرک ہے اور شرک وہ گناہ ہے جو کبھی معاف نہیں ہوتا۔ اس پس منظر میں کبھی کبھی سوچتا ہوں تو ساری سیاست اور سیاست بازی بہتان اور جھوٹ کا کھیل لگتی ہے۔ اقتدار اور حاکمیت فریب اور دولت بہت بڑا امتحان لگتی ہے، اگر سیاست میں رہ کر کسی نے جھوٹ نہیں بولا، اپنے مخالف پر بہتان نہیں لگایا، انتقام نہیں لیا اور اختیارات کا غلط استعمال نہیں کیا تو گویا وہ سیاست کے امتحان میں پاس ہوگیا اگر اقتدار میں رہ کر حکمرانوں نے خلوص سے ملک و قوم کی خدمت کی، خزانے کی ایک ایک پائی کو امانت سمجھ کر خرچ کیا اور اپنے آپ کو عوام کا حاکم نہیں بلکہ سچا خادم سمجھا تو آپ اقتدار کے امتحان میں پاس ہوگئے لیکن اگر حاکم اقتدار کے نشے میں مست ہوجائیں تو یہ اقتدار فریب نظر ہے اور یہ نشہ اور مستی جھوٹی اور جعلی ہے ،سچی مستی وہ ہوتی ہے جو ہمیشہ قائم رہے اور ہمیشہ قائم صرف وہ جذب و مستی رہتی ہے جو روح کی گہرائیوں سے اٹھے اور انسان کے قلب و ذہن کو سرشار کردے۔ ایسی مستی صرف یاد الٰہی اور سچی انسانی خدمت سے جنم لیتی ہے۔کوئی ایک دہائی قبل کی بات ہے رمضان کا مبارک مہینہ تھا اور میں روزہ افطار کرنے کے بعد نماز مغرب کے لئے مسجد گیا ۔نماز مغرب کے بعد نمازی گھروں کو چلے گئے تو میں نے ایک شخص کو دیکھا جو ایک چھوٹا سا تھیلا پکڑے فرش پہ بیٹھا ذکر میں مصروف تھا۔ میں ان کے پاس گیا اور پوچھا کہ کیا آپ نے روزہ افطار کرلیا ہے۔ جواب ملا جی شکرالحمد للہ ، مجھے وہ شخص بالکل غیر مانوس لگا جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ مسافر ہے چنانچہ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ تنہا بیٹھے ہیں کسی کا انتظار ہے، مسکرا کر جواب دیا”نہیں“میں نے ہمت کی اور عرض کیا کہ اگر آپ پسند کریں تو میرے ساتھ میرے غریب خانے پر چلیں اور کھانا میرے ساتھ کھائیں، انہوں نے میری دعوت قبول کی ،میرے ساتھ کھانا کھایا، جب میں انہیں باہر بڑی سڑک پر خدا حافظ کہنے لگا تو فرمایا آپ نے اپنا نام نہیں بتایا۔ میزبان کا نام تو معلوم ہونا چاہئے، میں نے اپنا نام بتادیا۔ انہوں نے مجھ سے گرمجوشی سے مصافحہ کیا اور یہ شعر پڑھ کر رخصت ہوگئے۔
یہ نکہت سرکار مدینہ کا صلہ ہے
ہر شخص مجھے خندہ پیشانی سے ملا ہے
کیا آپ یقین کریں گے کہ ان کے پڑھتے ہی یہ شعر میرے رگ وپے میں اتر گیا اور اس نے ایسی جذب و مستی پیدا کی جس کی رمق آج بھی باقی ہے۔ گویا کبھی کبھی چھوٹی سی بات بڑا کام کرجاتی ہے ۔ میں یہ کہوں گا کہ بعض کیفیات سچی ہوتی ہیں اور سچی کیفیات ابدی ہوتی ہیں۔ جھوٹی کیفیت یا جھوٹی مستی جو اقتدار، دولت، عہدے اور شہرت وغیرہ کا شاخسانہ ہوتی ہے لمحوں میں ختم ہو کر اپنے پیچھے کرب، خلش اور پچھتاوہ چھوڑ جاتی ہے۔ میں بہت سے ہم وطنوں کو جو دولت کے انبار پر بیٹھے ہوئے ہیں، غرور و پندار میں لپٹے ہوئے ہیں، اقتدار کی بلند پہاڑی پر جلوہ افروز ہیں اختیارات اور شہرت کی لہروں پر سوار ہیں یا دنیا کے فریب نظر میں مبتلا ہیں ان سب کے چمکدار چہروں پر خلش کی سلوٹیں دیکھی جاسکتی ہیں اور وہ خلش زندہ، نیم مردہ یا تقریباً مردہ ضمیر کا کارنامہ ہے۔ ہاں مردہ ضمیر بھی کبھی کبھی خلش پیدا کرتا ہے کیونکہ ضمیر بہرحال ضمیر ہے چاہے اسے خوف خدا سے زندہ رکھا جائے یا ہوس دنیا سے مردہ کردیا جائے۔ بھلا خلش کب پیدا ہوتی ہے؟ خلش اس وقت بے چین کرتی ہے جب ضمیر ملامت کرتا ہے، ضمیر کب ملامت کرتا ہے؟ جب آپ اللہ سبحانہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے فریم ورک کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں جب آپ اقتدار، دولت، شہرت اور قابلیت کو اللہ سبحانہ تعالیٰ کی نعمت کی بجائے اپنی محنت ا ور زور بازو کا نتیجہ سمجھنے لگتے ہیں ۔یہاں نعمت اور محنت میں فرق کیا ہے؟ جب آپ اسے نعمت سمجھیں گے تو ان تمام نعمتوں کو شکر کے جذبے کے تحت اپنے رب کی خوشنودی کے لئے استعمال کریں گے ا ور جب رب کی خوشنودی مقصود ہوگی تو پھر آپ میں غرور رہے گا،تکبر نہ ہوس بلکہ آپ کو اطمینان قلب کا تحفہ ملے گا لیکن جب اقتدار، دولت، شہرت، قابلیت اور منصب کو اپنی محنت ا ور زور بازو کا نتیجہ سمجھا جائے تو پھر وہ تکبر کو جنم دیتا ہے۔ حیرت ہے کہ ان کی نمازیں اور ٹخنوں سے اوپر شلواریں بھی نہ ان کے تکبر کو کھاتی ہیں اور نہ ہوس کو اور نہ ہی انہیں جھوٹ بہتان سے روکتی ہیں۔ ان کی جبینوں اور ماتھے پر ابھرتی شکنوں کو تم بے شک اندیشہ اقتدار ،اندیشہ دولت یا تفکر قوم سمجھ لو ،مجھے تو یہ ضمیر کی خلش کی سلوٹیں لگتی ہیں۔ انسان بھی عجیب شے ہے جیتا ہے تو اس طرح جیسے کبھی مرنا ہی نہیں اور مرتا ہے تو اس طرح جیسے کبھی جیا ہی نہیں تھا۔


No comments:

Post a Comment