Sunday 20 May 2012

آنکھ مارنا اور آنکھیں دکھانا April 15, 2012


آج کل میں ملکی سیاسی منظر پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے دو تاریخی کردار یاد آتے ہیں۔ ان دونوں سیاسی کرداروں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں لیکن مجھے وہ کسی اور وجہ سے برمحل نظر آتے ہیں۔ اول برطانیہ کی سابق وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر اور دوم پاکستان کے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو۔ انگلستان کی پارلیمنٹ کو مدر(Mother) پارلیمنٹ کہتے ہیں کیونکہ انگلستان کی پارلیمانی جمہوریت کو قدیم ترین جمہوریت سمجھا جاتا ہے۔ مارگریٹ تھیچر نے طویل عرصے تک وزارتِ عظمیٰ کے تقاضے نبھائے اور اپنی مضبوطی اور من مانی کیلئے آئرن لیڈی کا خطاب پایا۔ ایک بار مارگریٹ تھیچر نے بڑی حسرت، دکھ اور احساس محرومی کے تحت کہا تھا کہ 10 ڈاؤننگ سٹریٹ (رہائش برطانوی وزیر اعظم) کا فرنیچر اس قدر پرانا ہو گیا ہے کہ رات بھر پلنگ چوں چوں کرتے رہتے ہیں (دن کو چوں چوں اسلئے نہیں کرتے کہ انگلستان میں قیلولہ کی رسم نہیں ہے)۔ تھیچر نے ایک موقع پر جہاں، پاکستانی وزیر اعظم نے کھڑے کھڑے ہزاروں پونڈ کی گرانٹ کا اعلان کر دیا تھا، بڑی حسرت سے کہا تھا کہ برطانوی وزیر اعظم کو سرکاری رہائش گاہ کا فرنیچر بدلنے اور مرمت کروانے کیلئے پانچ ہزار پونڈ کی رقم حاصل کرنے کیلئے کئی برس تک انتظار کرنا پڑا جبکہ پاکستانی وزیر اعظم اس قدر بااختیار ہے کہ اس نے کھڑے کھڑے ہزاروں پونڈ کی گرانٹ کا اعلان کر دیا۔ اس تفاوت کی بنیادی وجہ فقط یہ تھی کہ انگلستان میں سرکاری خزانے کو قومی امانت سمجھا جاتا ہے اور اس سے معمولی رقم حاصل کرنے کیلئے بھی عوامی نمائندگان یعنی پارلیمنٹ کی منظوری کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ پاکستان میں وزیر اعظم جنگل کا بادشاہ ہوتا ہے اس کے پاس بہت بڑا صوابدیدی فنڈ ہوتا ہے جس سے وہ جس طرح خرچ کرے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہو سکتی۔ کہنے کو پاکستان میں بھی پارلیمنٹ پائی جاتی ہے لیکن اسے قومی خزانے کے استعمال پر رسمی حد تک اختیار حاصل ہے۔ چنانچہ اراکین پارلیمنٹ کا کارروائی میں دلچسپی کا یہ عالم ہے کہ اکثر حضرات شکل دکھا کر غائب ہو جاتے ہیں اس طرح عوامی خزانے کو کروڑوں کا ٹیکہ لگ جاتا ہے۔ حکمران دعویٰ کرتے ہیں کہ پارلیمنٹ خودمختار اور مقتدر ہے لیکن اصل صورت یہ ہے کہ ”جو چاہو سو آپ کرو ہو، ہم کو عبث بدنام کیا“۔ مجھے مارگریٹ تھیچر اس لئے یاد آئی کہ یہ پہلا موقع تھا جب تھیچر کو اپنی حالت پر رحم آیا اور پاکستانی وزیر اعظم پر رشک آیا۔ مجھے یوں لگا جیسے خاتون آہن مارگریٹ تھیچر پچھتا رہی ہے کہ وہ کس یتیم ملک کی وزیر اعظم بن گئی اسے پاکستان کی وزیراعظم بننا چاہئے تھا۔
تھیچر کو وزارت عظمیٰ سے رخصت ہوئے دہائیاں گزریں۔ آج وہ وزیر اعظم ہوتی تو حسد کی آگ میں جل کر راکھ ہو جاتی۔ بھلا کیوں؟ جب وہ یہ خبر پڑھتی کہ پاکستانی وزیر اعظم نے اربوں روپے کا صوابدیدی فنڈ اپنے پاس رکھا ہوا ہے جس سے وہ جسے چاہے فیض یاب کرتا ہے اور جب چاہے محترمہ شیری رحمن کی این جی او کو کروڑوں روپے کی گرانٹ کسی ”پوچھ گچھ“ کے بغیر دے سکتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ گرانٹ حاصل کرنے کے کچھ عرصہ بعد امریکہ کی سفیر بن جاتی ہیں اور پھر وزیر کا مرتبہ حاصل کر لیتی ہیں۔ اور یہ کہ اب تک وزیر اعظم نے اپنے صوابدیدی فنڈ سے سیلاب زدگان کی تو کوئی خدمت نہیں کی لیکن 130ارب روپے اس فنڈ سے خرچ کر ڈالے ہیں۔ اگر وہ اپنے ہمالیہ جیسے بڑے فنڈ سے چھ ارب روپے بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کو عطا فرماتے تو قوم کو شاید لوڈشیڈنگ کا اتنا تلخ تجربہ نہ ہوتا اور نہ ہی لاکھوں مزدور بیکار ہوتے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پی پی پی حکومت کی اپنی ترجیحات ہیں اس لئے اسے کسی تنقید یا عوامی ردعمل کی پرواہ نہیں۔ اگر قوم کا ذرہ بھر خیال ہوتا تو حکومت یوں دن دہاڑے قومی خزانے پر ڈاکہ نہ ڈالتی اور وزیروں کی فوج ظفر موج بھرتی نہ کرتی۔ قوم غربت کے بوجھ تلے دبی چلا رہی ہے بلکہ کراہ رہی ہے اور حکومت نے درجن بھر مزید وزیر بھرتی کرنے کے علاوہ سولہ افراد کو وزیر کا درجہ دے دیا ہے۔ وزیر ہو یا وزیر کا درجہ ہر دو تقریباً ایک لاکھ روپے یومیہ میں پڑتے ہیں۔ 122 ایکڑ پر پھیلے ہوئے وزیر اعظم ہاؤس کا روزانہ خرچہ سولہ لاکھ روپے ہے جبکہ ایوان صدر اُن سے بھی آگے ہے۔ اور ہاں پاکستان کا صدر دنیا کا سب سے زیادہ بااختیار صدر ہے۔ امریکی صدر سے لے کر بھارتی صدر تک کسی کے پاس یہ اختیار نہیں کہ وہ قانون ساز اداروں کی منظوری کے بغیر لاکھوں ڈالر کی گرانٹ دے سکیں۔ ہمارے صدر صاحب اجمیر شریف تشریف لے گئے، ذاتی دوروں پر قومی خزانے سے ماشاء اللہ کروڑوں میں خرچ کرتے ہیں اور اجمیر شریف کا دورہ بھی ایسے ہی ذاتی دوروں کا حصہ تھا۔ صدر صاحب نے وہاں آنکھ جھپکنے میں دس لاکھ ڈالر کے عطیہ کا اعلان کر کے حاتم طائی کو شرما دیا۔ دس لاکھ ڈالر تقریباً نو کروڑ روپے بنتے ہیں جن سے ہزاروں گھروں کی غربت کا علاج کیا جا سکتا ہے، ہزاروں گھروں کو پینے کے پانی کی سہولت دی جا سکتی ہے وغیرہ وغیرہ لیکن سوال ترجیحات کا ہے۔ صدر صاحب تقریباً ڈھائی ارب ڈالر کی جائیداد کے مالک ہیں اور یہ اندازہ ”گوگل“ کا ہے جو حقیقت سے کم ہے اسکے باوجود انہوں نے بی بی مرحومہ کی منت پوری کرنے کیلئے اپنی وسیع جیب سے آٹھ لاکھ ڈالر نہیں دیئے بلکہ یہ ٹیکہ بھی قوم کو لگایا ہے۔ اللہ اس بیچاری قوم پر رحم کرے لیکن اللہ سبحانہ و تعالیٰ بھی اس قوم پر رحم کرتے ہیں جو خود اپنے اوپر رحم کرے۔
کالم کی تنگ دامنی کے سبب اس موضوع کو ادھورا چھوڑتے ہیں۔ آپ پوچھیں گے مجھے موجودہ سیاسی تناظر میں بھٹو صاحب کیوں یاد آئے؟ شاید آپ کو یاد ہو کہ جب بھٹو صاحب پر پنجاب ہائی کورٹ میں قتل کا مقدمہ چل رہا تھا تو جسٹس مولوی مشتاق اکثر شکایت کیا کرتے تھے کہ بھٹو مجھے عدالتی کارروائی کے دوران آنکھ مارتا رہتا ہے۔ جب میں نے یہ بات سنی تو عرض کیا کہ وہ آنکھ مارتا نہیں، آنکھ دکھاتا ہے۔ ذرا غور کیجئے یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ مجھے ذاتی طور پر خزانے کے ضیاع کا غم کم ہے اور سپریم کورٹ کو آنکھیں دکھانے کا دکھ زیادہ ہے کیونکہ جس انداز سے حکومت اعلیٰ عدلیہ کو آنکھیں دکھا رہی ہے ، ججوں کے احکامات کا تمسخر اڑا رہی ہے اور اپنے آپ کو قانون سے بالاتر ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے اس کے طویل العمر مضمرات خطرناک ہوں گے۔
سچی بات یہ ہے کہ اب تک عدلیہ نے خاصے تحمل کا مظاہرہ کیا ہے اور سچی بات یہ بھی ہے کہ اس تحمل سے عوامی سطح پر کمزوری اور بے بسی کا تاثر ابھر رہا ہے۔ سپریم کورٹ کرپشن سکینڈلز میں انکوائری کا حکم دیتی ہے تو حکومت افسران کو بدل دیتی ہے۔ خود صدر مملکت آئینی عہدے پر متمکن ہو کر اعلان کرتے ہیں کہ وہ عوام کا فیصلہ مانیں گے نہ کہ عدلیہ کا حتیٰ کہ بھولے بھالے بلاول بھٹو زرداری کو بھی ”اپنی“ پٹڑی پر چڑھا لیا گیا ہے حالانکہ وہ جس آکسفورڈ میں پڑھ رہا ہے وہاں پہلا سبق ہی قانون کی حکمرانی اور عدلیہ کی آزادی کا دیا جاتا ہے۔ یہ بھی ہمارا قومی سانحہ ہے کہ امریکہ اور برطانیہ سے قانون کی حکمرانی کا سبق پڑھ کر جب ہمارے سیاستدان اور لیڈران وطن واپس لوٹتے ہیں تو وہ قوم کو قانون کی پامالی کا سبق پڑھانا شروع کر دیتے ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ تھا کہ بھٹو صاحب مرحوم سے جو عدلیہ کو آنکھ مارنے یا آنکھیں دکھانے کا سلسلہ شروع ہوا تھا وہ اب تک جاری ہے۔ گویا پی پی پی اپنی روایات پر خلوص نیت سے عمل کر رہی ہے اور شہادت کا خون لگانے بلکہ سجانے کے لئے بے تاب ہے۔ راجہ پرویز اشرف کا حلف سپریم کورٹ کو اسی آنکھ مارنے کے سلسلے کی آخری کڑی ہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟ 
 

No comments:

Post a Comment