Sunday 20 May 2012

سرخرو کس کے سامنے؟ March 20, 2012


میں اپنے خوش لباس، خوش گفتار، خوش رفتار اورخوش شکل وزیراعظم کا فین ہوں کیونکہ ان کے بقول حضرت عبدالقادر جیلانی  المعروف پیران پیر آف بغداد شریف ان کے جدامجد ہیں۔ حضرت عبدالقادر جیلانی  اتنی عظیم روحانی ہستی تھے کہ ان کا ذکر ہوتے ہی سر ادب سے جھک جاتا ہے۔ آپ نے بھی وہ کہانی کتابوں میں پڑھی ہوگی کہ حضرت عبدالقادر جیلانی  اٹھارہ برس کے تھے تو وہ حصول علم کے لئے بغداد کے قافلے میں شامل ہوئے۔ سفر کے آغاز سے پہلے ان کی والدہ ماجدہ نے ان کی گدڑی میں چالیس دینار سلائی سے محفوظ کردیئے اور نصیحت کی کہ کبھی جھوٹ نہ بولنا، میرے نزدیک یہ نصیحت ماں کافطری تقاضا تھا ورنہ مادر زاد ولی جھوٹ بول ہی نہیں سکتے۔ قافلے پر ڈاکوؤں نے ڈاکہ ڈالا اور قافلے کا سامان ایک جگہ جمع کرلیا۔ جب ایک ڈاکو نے آپ سے پوچھا کہ تمہارے پاس کچھ ہے تو سر تاپا سچ شیخ نے گدڑی میں سلے ہوئے دیناروں کا راز فاش کردیا۔ ڈاکو اس بچے کی سچائی اور حق گوئی سے اس قدر متاثر ہوئے کہ آئندہ ڈاکہ زنی سے توبہ کرلی۔ واقعہ قدرے طویل ہے لیکن غور طلب بات فقط اتنی سی ہے کہ صرف سچ اور سچ کفر کے تالے توڑتا، مجرم دلوں میں انقلاب برپا کرتا اور بھٹکے ہوؤں کو راہ راست پر لاتا ہے۔ اب آپ ہی بتائیں کہ اگر میرے خوش لباس و خوش گفتار وزیراعظم کا حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی  سے نسبت کا دعویٰ درست ہے تو میں ان سے کیا توقع رکھوں؟ ادب اور احترام تو کردار کا ہوتا ہے نہ کہ عہدے کا… دور نہ جائیں ہمارے ملک میں کتنے ہی وزرائے اعظم گزرے ہیں اور تاریخ کے قبرستان میں آرام فرما رہے ہیں۔لیکن ان میں سے احترام کتنے وزرائے اعظم نے کمایا ہے؟ کتنے ایسے وزرائے اعظمتھے جن کا نام سن کر آپ کے چہرے پر مسرت کی لہر دوڑ جاتی ہے اور کتنے ایسے تھے جن کا ذکر ہوتے ہی ماتھے پر شکنیں ابھر آتی ہیں۔ گویا اصل شے عہدہ نہیں کیونکہ عہدہ تو فقط ڈھلی چھاؤں ہے۔ اصل شے وہ احترام ہے جو آپ عہدے کے ذریعے کماتے ہیں۔ احترام اور ادب کا آپس میں گہر ا رشتہ ہے۔ احترام سطحی عزت ہوتی ہے، احترام اکثر دکھاوا ہوتا ہے جیسے کسی بڑے عہدیدار، حکمران یا دولت مند یا دنیاوی پیمانے کے مطابق کسی بڑے آدمی کا احترام کیاجاتا ہے لیکن ادب نہایت گہراجذبہ ہے جو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے ابھرتا اور جسم کے انگ انگ پہ چھا جاتاہے۔ اسی لئے اقبال محبت کے قرینوں میں ادب کو پہلا قرینہ قرار دیتاہے کیونکہ ادب کی سیڑھی پر چڑھے بغیر انسان ہمیشہ بے مقصود رہتاہے۔ من کی دنیامیں کچھ بھی پانے کے لئے ادب پہلی شرط ہے جبکہ تن کی دنیا یعنی حکمرانوں کے دربار سے کچھ پانے کے لئے ظاہری احترام کا مظاہرہ کرنا پڑتاہے اور عام طور پر یہ احترام خوشامد، دربار داری، جھوٹ اورمنافقت کے سانچے میں ڈھل جاتا ہے اور اسی طرح اظہارپاتا ہے۔ تن کی دنیاوالے یعنی حکمران ظاہر پر نظررکھتے اور خوشامد سے خوش ہوتے ہیں جبکہ من کی دنیا والے قلب پر نگاہ رکھتے اور خاموشی کی زبان سمجھتے ہیں۔ بات دور نکل گئی کیونکہ میں قلم کو روک نہ سکا۔ کہنا میں یہ چاہتا تھا کہ مجھے اپنے خوبرو وزیراعظم سے اس لئے ہمدردی ہے کہ میرے نزدیک وہ چکی کے دو پاٹوں میں پس رہے ہیں۔ ان کے خون میں سچ رچا بسا ہوا ہے اور سچ کا تقاضا یہ ہے کہ ملک و قوم کے مفاد کو ہر شے پر ترجیح دی جائے، سچ کا تقاضا ہے کہ جس آئین کے تحت حلف اٹھایا ہے اس آئین اور حلف کی پاسداری کی جائے، سچ کا تقاضا ہے کہ لوٹ مار کا راستہ روکا جائے اور قومی خزانے کی امانت کی مانند حفاظت کی جائے، سچ کا تقاضا ہے کہ اپنے رب اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ہوئے اصولوں پر عمل کیا جائے اور حرام سے کبھی بھی سمجھوتہ نہ کیاجائے لیکن ہمارے وزیراعظم اس لئے قابل رحم ہیں کہ وہ چکی کے دوپاٹوں میں پس رہے ہیں۔ ایک طرف ان کی خاندانی اور خونی نسبت ہے تو دوسری طرف پارٹی وفاداری، سیاسی مجبوریاں اور صدرمملکت سے محبت یعنی اس چکی کا ایک پاٹ ان کی خاندانی نسبت ہے جو سچ کا تقاضا کرتی ہے تو دوسرا پاٹ پارٹی اور صدرصاحب سے وفاداری ہے جو جھوٹ، آئین اور حلف سے بیوفائی کے دفاع پر مجبور کرتی ہے۔ ایک طرف دنیا تو دوسری طرف آخرت۔ تاریخ میں مقام اور دنیا میں سچی عزت سچ بولنے سے ملتی ہے جبکہ جھوٹ کا ساتھ دے کر انسان وقتی طور پر باس اور پارٹی کو تو خوش کرلیتاہے لیکن تاریخ میں اپنی آئندہ نسلوں کو بھی شرمندہ کر جاتا ہے۔ دنیا ا ور وقتی احترام کے متلاشی ہوتے ہیں جبکہ سچ کے مسافر وقتی طور پر نقصان اٹھا کر بھی بالآخر فائدے میں رہتے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ سوئٹزرلینڈ میں رکھی گئی رقم قوم کے خزانے سے چرائی گئی تھی اور چھ کروڑ ڈالرصرف کمیشن کی آمدنی تھی۔ بہت سی ایسی چرائی گئی رقموں پر پردہ پڑا ہوا ہے جس سے بیرون ملک اربوں کی جائیدادیں خریدی گئی ہیں لیکن ان کا کسی کو علم ہی نہیں۔ صدر صاحب نے نہایت ہوشیاری سے چھ کروڑ ڈالر کے کمیشن کو بچانے کیلئے اس جنگ کو آئینی جنگ میں تبدیل کر دیا ہے۔ وہ یوں کہ صدر کو آئین میں استثنیٰ حاصل ہے۔ہر طالب علم جانتا ہے کہ آئین کی تشریح سپریم کورٹ کا دائرہ کار ہے۔ کس ہوشیاری اور شاطرانہ انداز سے وزیراعظم صاحب نے صدر صاحب سے سیاسی وفا کے تقاضے نبھانے کے لئے آئین کے سیکشن چھ اور توہین عدالت کو اس جنگ کا ہتھیار بنا لیاہے حالانکہ اس میں سیکشن چھ کا کوئی تعلق واسطہ ہی نہیں کیونکہ انہوں نے فقط سپریم کورٹ کے فیصلے پرعمل کرنا ہے جس کے وہ قانونی طور پر پابند ہیں۔سپریم کورٹ کاحکم ماننا ہرگز سنگین غداری نہیں جوسیکشن چھ کا مرکزی نقطہ ہے بلکہ سپریم کورٹ کے حکم سے انحراف آئین سے انحراف کے مترادف ہے۔ جب سچ اور ضمیر کو پامال کرکے دنیاوی جاہ و حشمت اور نفس کی آرزوؤں کو زندگی کا مقصد بنالیا جائے تو ایسا ہی ہوتا ہے۔
گویا صدر صاحب اپنے وزیراعظم کو اپنے مفادات کی قربان گاہ پر قربان کرنے کافیصلہ کرچکے ہیں اور گیلانی صاحب کو یہ سبق پڑھا چکے ہیں کہ وہ تاریخ میں بھٹو ثانی کا مقام حاصل کریں گے۔ یوں لگتا ہے کہ ہمارے بھولے بھالے قیمتی لباسوں سے کھیلنے والے گیلانی صاحب بھٹو ثانی بننے کی تیاری کر رہے ہیں اور وہ نہیں سمجھتے کہ بھٹو اور ان میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ بھٹو نے انتقام کا نشانہ بن کر او رعدالتی قتل کے ذریعے ہمدردی کمائی تھی جبکہ گیلانی صاحب رشوت کے دفاع میں عہدہ گنوا کر اپنی نظر میں بھی مجرم ٹھہریں گے اور قوم کی نظر میں عزت نہ پاسکیں گے۔اگرچہ مجھے اندازہ ہے کہ وقتی طور پر پی پی پی کے جیالے ان پر آفرین کے ڈونگرے برسائیں گے اور بینڈ باجوں سے ان کا استقبال کریں گے۔ حضرت عبدالقادر جیلانی  کی نسبت سے انہیں سوچنا چاہئے کہ وہ ملک و قوم کو توہین عدالت ورثے میں دے کر جائیں گے جبکہ خلفائے راشدین  نے ہمیشہ عدالتوں کا احترام کیا، وہ سچ سے انحراف اورسوچی سمجھی بغاوت کے مرتکب ہوں گے جبکہ ان کے مقدس جدامجد سچ کا روشن مینار تھے۔ گیلانی صاحب کو ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچ کر فیصلہ کرنا چاہئے کہ وہ اپنے جدامجد کے سامنے سرخرو ہونا چاہتے ہیں یا صدر زرداری صاحب کے سامنے۔ یعنی انہیں اپنی روحانی اورخونی نسبت عزیز ہے یا سیاسی نسبت؟
 

No comments:

Post a Comment