Saturday 19 May 2012

چور کا کیا بھروسہ؟. December 11, 2011


یہ ان دنوں کی بات ہے جب قاضی حسین احمد امیر جماعت اسلامی ہوا کرتے تھے اور انہوں نے جماعت کو ایک پاپولر عوامی رنگ دینے کے لئے بے انصافی کے خلاف جہاد شروع کیا تھا۔ اس ضمن میں اخبارات میں اشتہارات آیا کرتے تھے”ظالمو قاضی آرہا ہے“۔ اشتہارات کا یہ سلسلہ اتنا موٴثر تھا کہ میرے ذہن پر ایک تاثر چھوڑ گیا چنانچہ گزشتہ ماہ جب میں نے کالم کا عنوان ”ظالمو جلدی کرو“ باندھا تو میرے لاشعور میں وہی اشتہارات تھے۔ یہ کالم عمران خان کے لاہوری جلسے سے متاثر ہو کر لکھا گیا تھا اور آخر میں ،میں نے تبدیلی کے خواہاں اور پارٹیاں بدلنے کے عادی سیاستدانوں کو مشورہ دیا تھا کہ جلدی سے تحریک انصاف میں گھس جاؤ، عمران آرہا ہے ۔عمران کے لاہوری جلسے نے تبدیلی کی ہوا چلا دی اور وقت کی نبض پر انگلیاں رکھنے والے سیاستدان اور سیاسی خانوادے جوق درجوق عمران کے ہاتھ پر بیعت کرنے لگے۔ اس صورتحال سے گھبرا کر عمران کے مخالفوں نے انہیں”لوٹا“ کہنا شروع کردیا مگر یہ طعنہ دیتے ہوئے وہ بھول گئے کہ ان میں سے اکثر ماضی میں پارٹیاں بدلتے رہے ہیں اور خود ان کی جماعت میں بھی کوئی پارٹی بدل کر ہی آئے تھے۔ میری معلومات کے مطابق لوٹا کی اصطلاح بھی زندہ دل لاہوریوں کی ایجاد ہے۔ ہوا یوں کہ قیام پاکستان سے قبل مزنگ لاہور کے ڈاکٹر عالم مسلم لیگ کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے لیکن پھر انہوں نے سیاسی وفاداری بدل لی۔ لاہوریوں نے طنزاً انہیں لوٹا کا خطاب دے دیا کیونکہ لوٹا جلدی اور آسانی سے گھوم جاتا ہے۔ ڈاکٹر صوفی راوی ہیں کہ جب ڈاکٹر عالم نے مسلم لیگ چھوڑی تو زندہ دل لاہوریوں نے لوٹے اکٹھے گئے اور مزنگ کے علاقے میں ڈاکٹر عالم کے بنگلے کے باہر لوٹوں کی”شملہ پہاڑی“ بنادی۔ لیکن اب یہ کام نہیں ہوسکتا کیونکہ اول تو لاہوریئے زندہ دل نہیں رہے جس کی بنیادی وجہ بے پناہ ملاوٹ ہے۔ دوم اتنی بڑی تعداد میں لوگ اتنی زیادہ بار وفاداریاں بدلتے ہیں کہ اب ان کے گھروں کے سامنے لوٹوں کا ڈھیرلگانا ممکن ہیں نہیں رہا، تیسری وجہ معاشی ہے، مٹی کے لوٹے ناپید ہوچکے ،دھات کے لوٹے مہنگے ہوچکے ، اب اس زندہ دلی کو افورڈ کرنا بھی ممکن نہیں رہا۔ ویسے بھی جب کوئی خرابی عام ہوجائے تو وہ قبول عام کا درجہ حاصل کرلیتی ہے ۔اس بے وفائی کے دور میں بے وفائی ہمارے معاشرے کی قدر اور ویلیو بن چکی ہے ورنہ جہالت کے دور میں تو محبت کرنے والے محبوب کی بے وفائی دیکھ کر خود کشی کرلیتے تھے جبکہ موجودہ دور کے عاشق محبوب کی وفاداری سے گھبرا کر خود کشی کا سوچنے لگتے ہیں۔ آج کا فلسفہ محبت ہے ،تو نہیں اور سہی ،اور نہیں اور سہی، اس دور میں کوئی شخص ساری زندگی ایک ہی پارٹی میں گزاردے تو لوگ اسے عجائب گھر میں مجسمے کی جگہ سجادیں کہ یہ دنیا تیرے کام کی نہیں۔
ہماری سیاست بھی خوب ہے اس کی کس کس ادا کی تعریف کی جائے ۔ماشاء اللہ اونٹ کی مانند اس کی کوئی کل بھی سیدھی نہیں جب تک بڑے بڑے نام والے اور وننگ(Winning)امیدواروں نے عمران کی جانب رخ نہیں کیا تھا تو عمران مخالف مسلسل ایک ہی راگ الاپ رہے تھے کہ عمران کے پاس تو جیتنے والے امیدوار ہی نہیں، وہ انتخابات کا کیا کرے گا۔ وہ تو اسمبلی میں تنہا ہی ہوگا وغیرہ وغیرہ، جب”ظالمو“ نے ہوا کا رخ دیکھ کر عمران کی جھولی میں گرنا شروع کیا تو انہی لوگوں نے یہ منطق اپنالی کہ عمران پرانے چہروں اور روایتی سیاستدانوں کے ساتھ تبدیلی کیسے لائے گا۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے اس نئی دلیل کا ڈھنڈورا پیٹ کر عمران کے انقلابی غبارے سے ہوا نکالی جارہی ہے حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر لیڈر کے معنوں میں مخلص، ایماندار اور مستقل مزاج ہو تو اس کی پارٹی کے اراکین اس کی راہ روک نہیں سکتے۔ سچی بات یہ ہے کہ بھٹو انقلابی تھا ہی نہیں ورنہ اس کی پارٹی کبھی بھی ان کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکتی۔ عمران بھی سونامی اور کبھی انقلاب کی بات کرتا ہے جو میرے نزدیک محض سیاسی اور عوامی نعرہ ہے وگرنہ اس کا مطلب محض تبدیلی ہے اور تبدیلی ہی ایسے شے ہے جس کا عوام ”اڈیاں چک چک“ کر انتظار کررہے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ جس قسم کے سیاسی خام مال کا طعنہ دے کر آپ کہتے ہیں کہ اس رخت سفر کے ساتھ عمران کیسے انقلاب لائے گا وہ سارا سیاسی کوڑ کباڑ تو آپ کی پارٹیوں میں جمع ہے تو پھر آپ انقلاب کا نعرہ لگا کر معصوم عوام کی آنکھوں میں دھول کیوں جھونکتے ہیں؟ عمران کی ہوا سے گھبرا کر آپ نے اپنی پارٹیوں کے دروازے ہر قسم کے لوگوں کے لئے کھول دئیے ہیں، اصولوں کو طاق پر رکھ کر لوگوں کی منتیں کررہے ہیں کہ ہماری پارٹی کو رونق بخشیں، تبدیلی کا پیغام دینے کے لئے عزیزم بلاول بھٹو چادر اوڑھ کر میدان میں اترچکا ہے۔ وہ دن دور نہیں جب بیٹی مریم صفدر خم ٹھونک کر میدان میں آئے گی ۔مریم مجھے اپنی بیٹی کی مانند عزیز ہے اور میں اس کی معصوم آنکھوں میں روایتی سیاست سے بے زاری کے انگارے دہکتے دیکھ رہا ہوں۔ کبھی آپ نے غور کیا کہ ایسا کیوں ہورہا ہے، دراصل یہ عمران کے انقلاب کا جواب ہے۔ یعنی انقلاب کو انقلاب سے مارو جبکہ ہم جیسے خوش فہم یہ سمجھتے ہیں کہ تبدیلی آنی چاہئے ،ملک کے حالات بہتر ہونے چاہئیں چاہے وہ جس طرح بھی ہوں اور جو بھی کرے۔ کل ہی فٹ پاتھ پر لیٹا ایک بابا کہہ رہا تھا کہ مجھے کمبل چاہئے چاہے وہ کوئی چور مجھ پر ڈال دے یا کوئی خدا ترس مجھے دے جائے لیکن بہتر ہوگا کہ کوئی نیک دل ہی یہ کام کرے۔ چور کا کیا بھروسہ آج دے کل چوری کرکے واپس لے جائے…!!!
 

No comments:

Post a Comment