Saturday 19 May 2012

ہماری سیاست کس طرف جارہی ہے؟ October 23, 2011


میں سیاست کے مردہ جسم پرقلم کے کوڑے مارنے کی بجائے غیر سیاسی موضوعات پر طبع آزمائی کرتا ہوں لیکن کبھی کبھی بھولی ہوئی منزل بھی یاد آتی ہے راہی کو… میں کچھ عرصے سے محسوس کر رہا ہوں کہ ہماری ملکی سیاست اپنے پاؤں پرکلہاڑے چلا رہی ہے اور کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہماری سیاست خودکشی کرنے جارہی ہے۔ میری دعا ہے کہ میرے خدشے اورمحسوسات غلط ثابت ہوں لیکن میں اکیلا ہی اس کشتی میں سوار نہیں، میری طرح اور بھی بہت سے ہیں جو سیاست کی بے رنگی، بے رحمی، بے اصولی، بے حسی او رخودغرضی پر نوحہ کناں ہیں۔ میں پاکستان کی تاریخ و سیاست کا طالب علم ہوں اور اس پس منظر میں کہہ سکتا ہوں کہ ہماری موجودہ سیاست نے جن انہونے واقعات کو جنم دیا ہے اور جو سنگدل پہلو دکھائے ہیں ا ن کی ماضی میں مثال کم کم ملتی ہے بلکہ ملتی ہی نہیں۔ یہ بات چھوٹی یامعمولی نہیں کہ الیکشن کمیشن نے 231 اراکین پارلیمینٹ کی رکنیت معطل کردی ہے اور ان میں ماشا ء اللہ وزیروں، کبیروں کے علاوہ بڑے بڑے پھنے خان سیاستدانوں کی بہتات ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ اثاثوں کے گوشوارے جمع نہ کرانا معمولی بات ہے لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان میں سے اکثریت نے اس لئے گوشوارے جمع نہیں کروائے کہ وہ سونے چاندی کے ڈھیروں کا جواز پیش نہیں کرسکتے اور دنیا بھر میں پھیلی ہوئی یا چھپائی ہوئی دولت کی وضاحت نہیں کرسکتے۔ ان میں وہ حضرات بھی شامل ہیں جویہاں سے لوٹی ہوئی دولت بیرون وطن چھپائے بیٹھے ہیں وہ اسے ظاہر نہیں کرنا چاہتے اور اس ڈر سے گوشوارے داخل نہیں کر رہے کہ اگر انہوں نے اس خفیہ دولت کو ڈکلیئر نہ کیا تو کل کلاں کسی طرح اس راز کے فاش ہونے کاکھٹکا لگارہے گا۔ عقلمندوں اورسیانوں نے توبیرون وطن جائیدادیں اپنی اولاد یا دوستوں عزیزوں کے نام کر دی ہیں اور خود قرض کا بوجھ اٹھائے پھرتے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ پاکستان ہرگزغریب ملک نہیں دراصل اسے اس کے ظالم اوربے رحم لٹیروں نے لوٹاہے۔ اسی لئے عمران خان کی یہ بات میرے دل کو لگتی اوربھاتی ہے کہ اگر ہم سیاستدانوں، بیوروکریٹوں اور چوروں کے اثاثے بیرون ملک سے اندرون ملک لانے میں کامیاب ہوجائیں تو نہ ہمیں ٓئی ایم ایف اور کسی عالمی بنک سے قرضے کی ضرورت رہے گی اور نہ ہی خزانہ بھوکا رہے گا۔ ظاہر ہے کہ اس کرامت کی توقع موجودہ حکمرانوں اورآزمائے ہو ئے سیاستدانوں سے کرنی عبث ہے۔ ان میں سے اکثر تو خود اس مرض کے مریض ہیں۔ اس سیاسی معجزے کی توقع نئی اورنڈر قیادت سے ہی کی جاسکتی ہے۔ میں خلوص نیت سے محسوس کرتا ہوں کہ پاکستان کو موجودہ مالی، صنعتی، بدحالی، بدامنی، سیاسی اور معاشی بحران سے نکالنے کے لئے سیاسی بصیرت اور ویژن سے کہیں زیادہ نیک نیتی، ایمانداری اور بہادری کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں سیاسی ویژن مداری کا کھیل بن کر رہ گیا ہے اور اس کا عملی مظاہرہ مسلم لیگ(ق) اور ایم کیو ایم کو حکومت کے ساتھ ملا کر دو تہائی اکثریت حاصل کرناہے تاکہ آرام سے حکومت کی جاسکے، اس کا مطلب عوامی مسائل کاحل ہرگز نہیں۔ کیا آپ دیکھ نہیں رہے کہ عوام کی سواری ریلوے کا بیڑہ غرق ہو چکا ہے۔ ملک میں مواصلات کا نظام تباہی کے دہانے پرکھڑا ہے اور اس کے نتیجے کے طورپر نہ ہی صرف عوا م ماتم کناں ہیں بلکہ تجارت بھی آنسو بہا رہی ہے۔ دوسری طرف پی آئی اے اپنی کارکردگی کی پست ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ ہرطرف خان بہادر سفارش خان حاکم ہے اور رشوت چور بازاری عروج پرہے۔ میں نے اپنی پچاس سالہ شعوری زندگی میں پاکستان میں کبھی حکومتی نااہلی کا ایسا تماشا نہیں دیکھا اور نہ ہی ریلوے اور مواصلات کا یہ حشردیکھا ہے۔ لوٹ ماراور کرپشن کے لئے ہم اتنی شہرت حاصل کرچکے ہیں کہ ہیلری کلنٹن نے ہمارے مہمان کی حیثیت سے یہ کہہ کر ہمارے منہ پر طمانچہ مارا ہے کہ عوام بھی اپنی حکومت سے معاملات شفاف بنانے پر زور دیں اور کرپشن کے خاتمے کیلئے اقدامات کئے جائیں۔نوبت ایں جا رسید کہ بین الاقوامی برادری دکھ درد محسوس کرنے کے باوجود سیلاب زدگان، آفت زدگان کی مدد کرنے کو تیار نہیں بلکہ وہ گزشتہ سال کی مدد کا حساب مانگ کر شرمندہ کر رہے ہیں اور پچھتا رہے ہیں۔ کیا اس پستی کی کوئی حد ہے؟ مجھے کہنے دیجئے کہ میں نے اپنی شعوری زندگی میں پاکستان کوکبھی بھی اتنی بدحالی کا شکار نہیں پایا کہ ایک طرف بدنیتی لوڈشیڈنگ کا عذاب نازل کر رہی ہے تودوسری طرف بے عملی اور سنگدلی انسانی جانوں کے قتل عام کی لہولہان خبریں سنا رہی ہو۔ کراچی میں بھی قتل و غارت کا سلسلہ کئی ماہ تک جاری رہنے کے بعد اس وقت رکے جب سپریم کوٹ وہاں پہنچے اور آرمی چیف پس پردہ رہ کر امن بحالی کے لئے اپنا کردار سرانجام دیں کیا بلوچستان کو بھی چیف جسٹس اور آرمی چیف کا انتظار کرنے پڑے گا؟ آخر حکومت کس کام کی ہے۔ ملک سے سرمایہ باہر منتقل ہورہا ہے اور پاکستانی سرمائے سے ملائیشیا، بنگلہ دیش، تھائی لینڈ وغیرہ میں صنعتیں لگ رہی ہیں جبکہ پاکستان میں غربت اورفاقہ کشی میں اضافہ ہورہا ہے؟ یہ کس جر م کی سزا ہے؟
ہماری سیاست کی بے رنگی اور بے اصولی کاایک پہلو یہ بھی ہے کہ میرے نہایت محترم میاں نواز شریف تین برس تک اصولی سیاست کی اذانیں دینے کے بعد اب اسی جگہ پر لوٹ آئے ہیں یعنی ”آنے والی تھاں“ پر آگئے ہیں جہاں سے انہوں نے اس سفر کاآغاز کیا تھا۔ اب ان کی اصول پسندی کی جگہ عملیت پسندی نے لے لی ہے اور وہ ماضی کے اپنے تمام دعوؤں سے منحرف ہوکر سب لوٹوں، ”لوٹیوں“ اور مشرف کے ہرکاروں کو واپس لینے پرتیارہوگئے ہیں ماسوا چودھری شجاعت حسین اور پرویز الٰہی کے۔ میر# کے الفاظ میں اسی عطار کے لونڈے سے دوا مانگنے پر آمادہ ہیں جس کے سبب بیمار ہوئے تھے۔ اگر یہی کام حضور والا نے 2008 میں کیا ہوتا تو حکومت ان کی ہوتی۔ ہاں اگر آپ اصولوں کے لئے ایثار نہیں کرسکتے تھے تو پھر انہیں تین برس تک بانس پہ کیوں چڑھائے رکھا؟ لگتا ہے کہ اب میرے محترم میاں صاحب پر بے اصول مشیروں نے غلبہ حاصل کرلیا ہے۔ نتیجے کے طور پر ان کی سیاست انتقام کی بھونڈی مثال بن گئی ہے کہ چودھری برادران قبول نہیں لیکن ان کے سیاسی ستون، لوٹے اور وفاداری بشرط استواری کے شاہکار قبول ہیں۔ مشرف کی شکل دیکھنا بھی گوارہ نہیں لیکن مشرف کے وزیر، مشیر اور سیاسی چھڑیاں اورحمایتی سب قبول ہیں۔ میری ”معصوم“ آنکھوں نے تویہ منظر بھی بہت کم دیکھا ہے کہ سب سے بڑے صوبے کا وزیراعلیٰ وفاق کی علامت کوچور اور ٹھگ کا خطاب دے رہاہے اور وفاقی حکومت کے خلاف لانگ مارچ کی تیاریاں کر رہاہے۔ مجھے چھوٹے میاں کے الزامات پر شک نہیں، میں اس کی تائید کرتا ہوں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا آئین اس کی اجازت دیتاہے؟ جبکہ متحرک خادم اعلیٰ نے آئین پر عمل کرنے کاحلف اٹھارکھاہے۔ ماضی میں ایک دو بار صوبے وفاق کے تصادم کا منظر ابھرا اور نتیجہ فوجی مداخلت کی شکل میں رونما ہوا۔ وہ کہانیاں کیاسناؤں کہ آپ ان سے اچھی طرح واقف ہیں۔ بالآخر چودھری برادران کا زرداری صاحب کو گلے لگانے کا مقصد حاصل ہو گیاہے اور عزیزم مونس الٰہی ”باعزت“بری ہوگیاہے۔ ظفر قریشی اپنے سارے ثبوت اور تفتیشی مواد لے کر ریٹائر ہوگیا ہے۔ گواہ منحرف ہوگئے ہیں اور ملزم بری ہو گیاہے۔ اب چودھری برادران کے لئے زرداری صاحب کے ساتھ وفا لازم ہوگئی کیونکہ وہ ان کے زیراحسان ہیں اور اس احسان نے نہ صرف قاتل مسلم لیگ بلکہ چودھری ظہور الٰہی کے قتل کی لکیر بھی مٹاد ی ہے پھر بھی پاکستانی سیاستدانوں کو اصولی سیاست کا دعویٰ ہے؟
اس وقت میں چیف جسٹس کے دکھ اور غم کے دریا میں بہہ رہاہوں۔ بھلا وہ اس سے زیادہ دکھ اور غم کا اظہار کیاکریں گے؟ ستم زدگی کی ”انہونی“ باتیں مجھے بار بار کہہ رہی ہیں کہ ہماری سیاست خود اپنے پاؤں پر کلہاڑے چلا رہی ہے اور یہ خودکشی کی جانب بڑھ رہی ہے۔

No comments:

Post a Comment