Sunday 20 May 2012

قومی مفاد؟ March 17, 2012


قومی مفاد ایسی لچکدار اور بے زبان شے ہے جسے موم کی ناک کی مانند ہر کوئی اپنی مرضی سے جدھر چاہے موڑ لیتاہے۔ چنانچہ آپ اگرغور کریں تو پتہ چلے گا کہ وطن عزیز میں ہر کام قومی مفاد کے تحت ہوتا رہا ہے۔ 1970 کے انتخابات سے لے کر اب تک ہونے والے تقریباً تمام انتخابات میں خفیہ فنڈز بھی تقسیم ہوتے رہے، خفیہ ایجنسیاں بھی اپنا اپناحصہ ڈالتی رہیں اور مثبت نتائج حاصل کرنے کے لئے ہر قسم کے ہتھکنڈوں ، حیلوں اور سازشوں کو کھلی چھٹی ملتی رہی اور یہ سب کچھ ملکی مفاد کے تحت ہوتا رہا۔ میں جن دنوں (مسلم لیگ کا دور ِ حکومت 1942-54) نامی اپنی کتاب کے لئے تحقیق کر رہا تھا اور مواد اکٹھا کر رہا تھا تو پتہ چلا کہ سندھ کے 1951 کے انتخابات کے دوران بعض حلقوں سے جاگیرداروں کے مخالف امیدواروں کو غائب کردیا گیا تھا اور ایک آدھ مخالف امیدوار فارم نامزدگی فائل کرنے کی تاریخ گزرنے کے بعد درخت کے ساتھ بندھا پایا گیا۔ ایوب خان کے سنہری دور ِ حکومت کے دوران تقریباً ہر انتخاب میں حکومتی ایم پی اے اور ایم این اے کو منتخب کروانے کے لئے بیوروکریسی کو استعمال کیا جاتا تھا۔ نسخہ آسان تھا کیونکہ بنیادی جمہوریتوں کے منتخب اراکین کی تعداد محدود ہوتی تھی ان میں سے ڈپٹی کمشنر صاحب جتنے اراکین کو چاہتے اپنے قبضے میں لے لیتے اور جسے ملکی مفاد میں حکومت چاہتی ووٹ دلوا کر منتخب کروالیتی۔ ہاں کچھ حزب مخالف کے اراکین بھی ملکی مفاد میں منتخب ہو جاتے تھے کیونکہ حکومت چاہتی تھی کہ حزب ِ مخالف کے ترانے بھی بجتے رہیں، تنقید کا بھرم بھی قائم رہے اور جمہوریت کا فریب بھی جاری رہے۔ میں ان دنوں طالب علم تھا لیکن جب بیوروکریسی میں داخل ہوا تو ایوب خان کاسورج غروب ہو رہا تھا اور قومی مفادات کے سانچے میں انتخابات کو ڈھالنے اور مثبت نتائج حاصل کرنے کی داستانیں بیوروکریسی کے ہر حلقے کامحبوب ترین موضوع ہوا کرتی تھیں۔ ایک ضلع کے ڈپٹی کمشنر جو آج کل اسلام آباد کی ”بہاری“ فضاؤں میں لنگڑاتے نظر آتے ہیں مجھے حیرت سے بتایا کرتے تھے کہ ہم نے ایوب خان کے خلاف ایجی ٹیشن میں کچھ ایسے نوجوان اور طلبہ بھی پکڑے جو غریب خاندانی پس منظر کے باوجود ایک فائیوسٹار ہوٹل میں قیام پذیر تھے۔ انہوں نے رات بھر میں سکوٹرز بھی خرید لئے تھے اور ان کی جیبوں سے ایساآتش گیر مادہ برآمد ہوا تھا جسے کسی دروازے وغیرہ پر پھینکتے ہی آگ لگ جاتی تھی۔ ان کا اندازہ تھا کہ یہ سارا کارنامہ امریکی سی آئی اے کا تھا۔ اس وقت تک بیچاری آئی ایس آئی مقابلتاً گمنام ایجنسی تھی البتہ لوگ انٹیلی جنس بیورو کے نام سے واقف تھے۔
میرے مشاہدے کے مطابق آئی ایس آئی کا نام پہلی مرتبہ 1970 کے انتخابات کے دوران سننے میں آیا لیکن مجھے علم ہے کہ یحییٰ حکومت نے قومی مفاد میں مثبت نتائج حاصل کرنے کے لئے ہر قسم کے گٹھ جوڑ کا انتظام کیا تھا اور اپنی پسندیدہ پارٹیوں کو دل کھول کر فنڈز دیئے۔ اس کی تھوڑی سی جھلک میری کتاب ”پاکستان کیوں ٹوٹا“ میں موجود ہے۔ گویا 1970کے انتخابات میں انٹیلی جنس بیورو کا رول آئی ایس آئی سے کہیں زیادہ تھا کیونکہ اس کے سربراہ یحییٰ خان کے بھائی اور تربیت یافتہ پولیس افسر تھے اور جنرل عمر کی سربراہی میں ایک الیکشن سیل بھی اپنے گل کھلا رہا تھا۔ صدر غلا م اسحق خان کے جنرل رفاقت کی سربراہی میں الیکشن سیل کی مانند جنرل عمر کے الیکشن سیل نے بڑی محنت کی لیکن نتائج حکومت کی خواہشات کے برعکس نکلے۔ ہاں یاد آیا کہ جنرل رفاقت مرحوم نہایت سمجھدار اور پڑھے لکھے جرنیل تھے ۔ خبروں کے مطابق ان کے ذریعے صحافیوں کو رقوم بانٹی گئیں۔ فیض یاب ہونے والے صحافیوں کی خوش قسمتی کہ جنرل صاحب دنیا سے رخصت ہوچکے اس لئے اب اس راز کی پٹاری کے کھلنے کا امکان کم ہے۔ آئی ایس آئی سے فیض یاب ہونے والے بے فکر ہیں کیونکہ یہ مضبوط ایجنسی کبھی بھی اپنے ایجنٹوں کے اسمائے گرامی کو ہوانہیں لگنے دے گی۔ ظاہر ہے کہ یہ راز فاش کرنا ہرگز ملکی مفاد میں نہیں۔ اسی ملکی مفاد کی جانب ہمارے آرمی چیف جنرل پرویز کیانی نے آج اشارہ کیا ہے اور ملکی مفاد کے پیش نظر ہی ان خدشات کا اظہار کیا ہے کہ کسی بھی ملک میں اس طرح فوج اور خفیہ ایجنسی کے کردار پر حملے نہیں ہوتے جس طرح آج کل پاکستان میں ہو رہے ہیں۔ میرے ناقص علم کے مطابق تو سی آئی اے، کے جی بی، را، موساد جیسی ایجنسیوں کے کارناموں پر کتابوں کے انبار لگے ہیں اوراب افغان جنگ کے بعد کچھ کچھ ذکر آئی ایس آئی کا بھی ہونا شروع ہوا ہے۔ میرے مشاہدے کے مطابق افغان جہاداور افغان وار کے نتیجے کے طور پر ہی آئی ایس آئی مشہور ہوئی ہے ورنہ تو اس کے اندرون ملک کردار پر بھی پردہ پڑا ہوا تھا۔ کہا جاسکتا ہے کہ سی آئی اے، را، موساد اور کے جی بی پر لکھی جانی والی کتابیں ماضی کی داستانیں ہیں۔ ان میں کچھ ان ایجنسیوں کے سابق افسروں اور کچھ ان کے ایجنٹوں نے لکھی ہیں۔ اسی طرح یونس حبیب کا اعتراف اور مہران بنک سکینڈل تو بھی 20 برس پرانا ہے۔ اس سکینڈل میں اگر کچھ لوگ ملوث ہیں تو تو ان کا احتساب اتنا ہی ضروری ہے جتنا دوسرے کرپٹ حضرات کا۔ قومی مفاد یہی ہے کہ کرپٹ عناصر کو نہ صرف بے نقاب کیا جائے بلکہ سزا بھی دی جائے تاکہ مستقبل میں عبرت کا سامان ہو۔ یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ 1989 سے لے کر 2009 تک مخالف حکومتوں کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کے لئے خفیہ فنڈز سے بے دریغ پیسہ خرچ کیا گیا اور سیاسی گھوڑوں کی خرید و فروخت سرعام ہوتی رہی۔ خفیہ فنڈز میں اربوں روپوں کی رقم کہاں سے آتی ہے؟ ظاہر ہے کہ یہ پیسہ پاکستانی عوام کا ہے اور ان پر ٹیکس لگا کر اکٹھا کیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ پیسہ اس مقصد کے لئے دیا جاتا ہے؟ جواب نفی میں ہے۔ گویا خفیہ ادارے اپنے تحریری چارٹر یا دائرہ کار سے تجاوز کرتے ہیں اور غالباً یہ تجاوز ”ملکی مفاد“ میں ہوتا ہے کیونکہ یہاں ملکی مفاد کا مطلب حکومتی مفاد ہے۔ اس لئے اپنی جیبوں سے پیسے دینے والے پاکستانی عوام کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ پوچھیں آیا ان کا پیسہ اسی مقصد کے لئے استعمال ہو رہا ہے جس مقصد کے لئے دیا گیا تھا۔ اگر یہ ان کا حق ہے تو وہ چاہیں گے کہ ان کے دیئے گئے ٹیکس کے غلط استعمال کا احتساب ہو تاکہ کم از کم آئندہ کے لئے اس مہم جوئی کاخاتمہ ہو۔
درست ہے کہ آئی ایس آئی کا انٹرنل سیاسی ونگ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں قائم ہوا اور یہ ونگ مخالف سیاسی عناصر کی نگرانی کرتا اور ان کی سرگرمیوں کی رپورٹیں حکومت کو بھجواتا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ 1977 کے انتخابات میں اس ونگ اور انٹیلی جنس بیورو کا کردار نہایت محدود تھا۔ بھٹو صاحب نے ہر حکمران کی مانند انتخابات میں فیلڈ بیوروکریسی کو استعمال کیا حالانکہ بھٹو صاحب اپنی مقبولیت کی بنا پر الیکشن جیت رہے تھے۔ چند وفادار خوشامدی ڈپٹی کمشنروں اور ایس پی حضرات کی ضرورت سے زیادہ کارروائی نے وزیراعظم اور وزراء اعلیٰ کو بلامقابلہ منتخب کروا کر ساری انتخابی کارروائی کو مشکوک بنادیا۔ بھٹو صاحب کی سرپرستی کے باوجود ان کی آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل جیلانی کی پہلی وفاداری جی ایچ کیو سے تھی۔ نتیجے کے طور پر بھٹو صاحب کاتختہ الٹنے کی رات انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ کو گرفتار کرلیا گیا لیکن آئی ایس آئی کے سربراہ کو پہلے سیکرٹری ڈیفنس اور پھر گورنر پنجاب لگا دیا گیا ۔ صحیح معنوں میں آئی ایس آئی کا انٹرنل ونگ ضیاء الحق کے دور ِ حکومت میں داخلی سیاست میں پوری طرح ملوث اور متحرک ہوا، انتخابی اتحادوں کی تشکیل اور آئی جے آئی بنانے جیسے کارنامے اسی صورتحال کا شاخسانہ تھے۔ یونس حبیب اور مہران بنک سکینڈل قومی مفاد میں کھیلے جانے والے ڈ رامے کا صرف ایک پہلو ہے ورنہ اگر کبھی پردہ اٹھا تو اس میں اور بہت سے پردہ نشینوں کے نام آئیں گے۔ پریشان نہ ہوں قوم کو پتہ چلنے دیں کہ اس کے ساتھ قومی مفاد میں کیا کیا ہوتا رہا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اسی میں اصلی قومی مفاد مضمر ہے۔


No comments:

Post a Comment