Friday 18 May 2012

پاک بھارت تعلقات اورقائداعظم October 06, 2011

  پاک بھار ت تعلقات بحث کو سمیٹ دیا تھا اور اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کے بعد نتیجہ قارئین پر چھوڑ دیا تھا لیکن برادر عزیز عطا الحق قاسمی اس فرمائشی پروگرام کوجاری رکھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے پھر ”عرض کردیا ہے“ حالانکہ ان کا عرض کرنا بر وزن فرمانا ہوتا ہے۔ میں عطا کی فرمائش ٹال نہیں سکتا کیونکہ وہ مخلص دوست ہے۔
بات تو فقط اتنی سی ہے کہ برادرم عطا اس بحث کو ایک خاص مقصد کے تحت مشترکہ اعلامیہ تک لے جاناچاہتا ہے جبکہ میرا مسئلہ صرف اور صرف قائداعظم کے وژن ، سوچ، قلبی دکھ اور ہندوستان کے حوالے سے نظریات کی وضاحت کرنا ہے تاکہ نوجوان نسل کسی کنفیوژن کا شکار نہ ہو۔ رہا آج پاک بھارت تعلقات کا مسئلہ تو وہ موجودہ صورتحال اور زمینی حقائق کے مطابق طے ہو گا، اس میں خواہ مخواہ قائداعظم کو گھسیٹنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہم نے قائداعظم  کے تصور ِ پاکستان کو کبھی بھی عملی جامہ پہنانے کی کوشش نہیں کی۔ البتہ انہوں نے مارچ 1948ء میں ڈھاکہ کے جلسہ عام میں قوم کو انتباہ ضرور کیا تھا کہ ہمارے دشمن قیام پاکستان میں ناکامی کے بعد پاکستان کو انتشار کا شکار کرنا چاہتے ہیں اور ہماری صفوں میں ان کے ایسے ایجنٹ موجود ہیں جو ان کے نمک خوار ہیں اور ان کے ایجنڈے پر عمل کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے صورتحال نہیں بدلی۔ بابائے قوم نے جو کچھ تریسٹھ برس پہلے کہا تھا وہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ ہندوستان مشرقی پاکستان کو فوجی طاقت کے ذریعے ہم سے علیحدہ کرکے جشن منا چکا، اب بلوچستان میں اپنا کھیل، کھیل رہا ہے۔ افغانستان سے پاکستان کو نکالنے کی حکمت ِ عملی پرعمل کرکے ہمارے ارد گرد گھیرا تنگ کرنا چاہتا ہے اور موجودہ حقانی نیٹ ورکس کا تنازع بھی اسی حکمت عملی کا شاخسانہ ہے۔ جنرل مولن اور اس کے ہم نواؤں نے پاکستان پرزبانی گولے برسائے تو نہ صرف ہندوستانی وزیر خارجہ کرشنا نے خوشی سے بغلیں بجائیں بلکہ ڈاکٹر من موہن سنگھ نے خوشی سے کہا ہم تو پہلے ہی کہتے تھے کہ آئی ایس آئی برائی کی جڑ ہے، دنیا کو اب پتہ چلا۔ چونسٹھ برس بعد بھی ہندوستانی رویئے میں کوئی فرق نہیں۔ جنگوں سے مجھے نفرت ہے اور یہ کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتیں اور نہ ہی میں نفرت کی آگ بڑھکانے کا قائل ہوں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ دشمن کے عزائم سمجھنے کی بجائے اپنی عقل پر پردہ ڈال دیں۔ ہندوستان سے اچھے تعلقات دونوں ملکوں کے مفا د میں ہیں اور میں ذاتی طور پر ان کا حامی ہوں لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ ہندوستان نے کبھی بھی پاکستان کو دل سے قبول نہیں کیا، وہ ہمیشہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کے درپے رہتا ہے۔ اسی لئے قائداعظم نے بار بار کہا تھا کہ ہندوستان سے تعلقات اسی وقت سدھریں گے جب وہ احساس برتری کے زعم سے نکلے گا، پاکستان کو دل سے قبول کرلے گا اور اپنا رویہ بدلے گا۔ سچی بات یہ ہے کہ گزشتہ چونسٹھ برس میں ایسا نہیں ہوا۔ اسی لئے میں گزارش کرتاہوں کہ محترم میاں نواز شریف راز سے پردہ اٹھائیں اور قوم کوبتائیں کہ انہوں نے واجپائی سے کیا سمجھوتہ کیا تھا جس کا بار بار چرچا ہوتا ہے کیونکہ پرویز مشرف نے تو الزام لگایا ہے کہ میاں صاحب نے کشمیر دے دیا تھا جو میرے نزدیک جھوٹ اور بودا الزام ہے۔ برادرم عطا یقین رکھیں ہم جیسے پاکستانی بھارت سے خوشگوار تعلقات چاہتے ہیں اوراس محاذ پر امن کے خواہاں ہیں لیکن بھارتی رویئے میں گزشتہ چونسٹھ برس میں بہتری کی کوئی شکل نظر نہیں آئی اور نہ ہی سرحد پر چراغ جلانے اور محبت کے گیت گانے سے آئندہ کسی بہتری کی امید نظر آتی ہے۔ بھارت سے ورکنگ ریلیشن رہے گا لیکن مجھے اس میں گرمجوشی، قربت اور ایثار کی صورت ابھرتی دکھائی نہیں دیتی اوریہی صورتحال قائداعظم کی زندگی میں تھی۔ آپ اسے مایوسی کہیں گے میں اسے تجربہ کہوں گا۔
قیام پاکستان کے بعد کئی ماہ تک قتل عام کا سلسلہ جاری رہا حتیٰ کہ اکتوبر 1947 سے قائداعظم نے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ دلّی میں مرکزی حکومت کے ناک تلے مسلمانوں کو قتل کیاجارہا ہے، ان کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے اور انہیں گھروں میں مقفل رہنے پر مجبور کیا جاچکا ہے۔ مجھے نہیں یاد پڑتا کہ مشرقی پنجاب کا کوئی ایسا گاؤں یا شہر ہو جس کی گلیوں کی مٹی سے مسلمانوں کے خون کی خوشبو نہ آتی ہو، جس کے کنووؤں میں مسلمان عورتوں نے اپنی عصمتیں بچانے کے لئے چھلانگیں نہ لگائی ہوں اورشاید ہی کوئی ایسی آبادی ہو جہاں سکھوں نے مسلمان بچوں کو تلواروں اور نیزوں کی نوک پر اچھالا نہ ہو، جہاں مسلمان عورتوں کو برہنہ گھسیٹا نہ ہو اور جہاں مسلمان لڑکیوں کو زبردستی بیویاں بنا کر اور مذہب تبدیل کرکے گھروں میں رکھا نہ ہو۔ مجھے لاتعداد ایسے لوگ یاد ہیں جن کی بیٹیوں کو ہجرت کے دوران چھین لیا گیا اور وہ زندگی بھر ان زخموں کویاد کرکے روتے رہے۔ اس موضوع پر بے شمار لٹریچر دستیاب ہے۔ آپ اسے نفرت کہیں گے لیکن میرے نزدیک یہ تاریخ کا حصہ ہے۔ اس بیک گراؤنڈ میں برادرم عطا کا یہ فقرہ پڑھ کر میں سوچ کے سمندر میں ڈبکیاں کھانے لگا ہوں۔ ”قیام پاکستان کے بعد لاہوریے ویک اینڈ پرفلم دیکھنے کے لئے صبح امرتسر جایا کرتے تھے اور رات کو واپس آ جاتے تھے“ اس وقت تو قتل و غارت سے زخموں سے خون رس رہا تھا اور آگ کے سمندر سے گزر کر آنے والے لاہور کے ہر گلی کوچے میں آنسوچھپاتے پھرتے تھے۔ اس دور میں جو لاہوریے فلمیں دیکھنے جاتے تھے شاید ان بے حس ”زندہ دلوں“ کو اس دھرتی کے کنوؤں سے اپنی بہنوں کی روحوں کی فریاد سنائی نہیں دیتی تھی۔ یہ زندہ دلان تھے یا…؟؟
میرے دیرینہ بزرگ دوست پروفیسر مشکور حسین یاد آج بھی اپنے خاندان کے قتل عام کاذکر کر کے رونے لگتے ہیں اور اسی قتل عام کے ذکر پر بقو ل میر لائق علی خان قائداعظم کے آنسوؤں کا بند ٹوٹ گیا تھا۔ دوستو! یہ نفرت نہیں، یہ تاریخ ہے اورتاریخ قوم کا حافظہ ہوتی ہے۔ حافظے کو کمزور نہیں ہونا چاہئے۔ صدیوں کی دبی ہوئی ہندو مسلم منافرت کو انگریزوں کی صد سالہ غلامی نے پوری طرح بے نقاب کردیا ہے۔ قائداعظم نے تقریباً پچاس سال سیاست میں گزارے۔ کانگریس کے موثر رکن رہے اور پھر مسلم لیگ کے تن مردہ میں نئی روح پھونک کر مسلمانوں کے قائداعظم بن گئے۔ انہو ں نے ہندو ذہنیت اور کانگریسی عزائم کو نہایت قریب سے دیکھا اور اس کا گہرا مطالعہ کیا۔ ہندو عزائم کو سمجھنے کے باوجود وہ قیام پاکستان سے قبل پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے پرامید تھے لیکن ہندوستانی قیادت اور ہندو ذہنیت نے ان کا یہ خواب چکنا چور کر دیا۔ ہندو ذہنیت کی ایک معمولی سی جھلک ملاحظہ فرمایئے۔ تقسیم کے وقت پاکستان کو دوفوجی طیارے ملے تھے مگر ان میں بھی ایک پر ہندوستان کے انتہاپسندوں نے قبضہ کرلیاجبکہ دوسرے کے انجن میں ریت ڈال کر ناکارہ بنا دیاگیا۔(بحوالہ قائداعظم مصنف شریف فاروق صفحہ 302) (جاری ہے)


No comments:

Post a Comment