Sunday 20 May 2012

کیا بنے گا؟ March 04, 2012


یہ خوفناک انکشاف میں نے چند ماہ قبل سنا تھا لیکن چونکہ بات آف دی ریکارڈ تھی اس لئے چپ سادھ لی۔ پاکستان کے ایک ممتاز سیاستدان جو صدر زرداری صاحب کے”عنقریب“ بھی ہیں ایک نجی محفل میں کہہ رہے تھے کہ اسامہ آپریشن کا حکمرانوں کو علم تھا لیکن اس حوالے سے امریکہ نے جو پیغام دیا تھا اس کے پیش نظر مصلحت یہی تھی کہ درگزر کیاجاتا۔ ان صاحب نے انکشاف کیا کہ جب حاکم اعلیٰ کو رات گئے یہ بتایا گیا کہ آج ہم نے ایبٹ آباد میں اسامہ کے خلاف آپریشن کرنا تو پیغام کچھ یوں تھا کہ آپ سوئے رہیں اگر آپ نے مزاحمت کی تو پھر پاکستان کے دو بڑے شہروں کو سلادیا جائے گا۔ انہوں نے شہروں کے نام بھی لئے لیکن میں ذکر نہیں کررہا ہوسکتا ہے کہ ان صاحب نے تھوڑا بہت نمک مرچ لگا کر پیغام سنایا ہو کیونکہ بڑھالیتے ہیں لوگ کچھ زیب داستان کے لئے۔ مبالغہ اور نمک مرچ کا استعمال ہمارا قومی کردار ہے۔ یہ بات اس لئے بھی قابل فہم تھی کہ ایبٹ آباد آپریشن کے اگلے ہی دن امریکہ میں صدر زرداری کا مضمون چھپ گیا تھا جس میں انہوں نے اس آپریشن پر صدر اوباما کو مبارکباد دی۔ وقت کے تفاوت کو ذہن میں رکھا جائے تو لگتا ہے کہ مضمون اسی دن لکھ لیا گیا تھا جس رات پاکستان میں یہ آپریشن ہوا کیونکہ جب پاکستان میں رات ہوتی ہے تو امریکہ میں دن کا سورج چمکتا ہے۔ اس آپریشن پر جس طرح ہمارے وزیر اعظم نے مبارکباد دی اس سے بھی اندازہ ہوتا تھا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ خود امریکی انتظامیہ کے معتبر اہلکاروں اور ایک موقعہ پر ہیلری کلنٹن نے بھی یہ تاثر دیا کہ ایبٹ آباد آپریشن میں پاکستان نے امریکہ کی مدد کی اور کچھ تاثریوں بھی ملتا تھا جیسے آئی ایس آئی نے اس حوالے سے کچھ نہ کچھ خدمت سرانجام دی۔
اب اعجاز منصور نے اگر اس راز سے پردہ اٹھایا ہے اور امریکی حملہ آور ہیلی کاپٹروں کا ہمارے کنٹرول سے رابطے کا ثبوت پیش کیا ہے تو ہمارے حکمران کیوں خاموش ہیں؟ بے شک مقدمہ عدالت میں ہے اور میمو کمیشن اور ایبٹ آباد کمیشن اپنے طور پر اس کی تحقیق کریں گے لیکن اگر یہ افسانہ ہے تو اعجاز منصور کے جواب میں ہمارے حکمران بھی کچھ تو بولیں۔ اب جبکہ حکمران سینٹ انتخابات میں فتح کے نشے میں سرشار ہیں اور اپنے حلیفوں کے ساتھ مل کر سینٹ میں اکثریت حاصل کرچکے ہیں تو انہیں زیادہ اعتماد سے بولنا چاہئے ،بول کہ لب آزاد ہیں تیرے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم قدرے جلد باز لوگ ہیں اور نتائج پر جمپ کرنے میں بھی خاصی پھرتی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔رحمان ملک کی”جانی“ دھمکیوں کے بعد اعجاز منصور نے پاکستان آنے سے انکار کیا تو تقریباً سارا میڈیا بمعہ سینئر جونئیر تجزیہ نگار یہ فتوے دینے لگے کہ اعجاز منصور بھاگ گیا اور میمو کیس دفن ہوگیا۔ میمو کمیشن کا بھی پہلا ردعمل یہ تھا کہ اگر اعجاز منصور نہیں آتا تو پھر اس کا بیان قلمبند نہیں ہوسکے گا کیونکہ ہم بیان ریکارڈ کرنے بیرون وطن نہیں جاسکتے۔ آغازمیں وڈیو ریکارڈنگ کو بھی مسترد کردیا گیا تھا۔ میں نے اس وقت انہی کالموں میں بار بار لکھا کہ برادران ملت، میمو کیس بالکل دفن نہیں ہوا، یہ ضرور کسی نتیجے پر پہنچے گا اور اعجاز منصور کا بیان بھی ریکارڈ کیا جائے گا۔ غائب کا علم رب کے پاس ہے باقی سب اندازے اور ٹیوے ہوتے ہیں کچھ غلط اور کچھ صحیح نکلتے ہیں۔ میرا اندازہ تھا اور اب بھی ہے کہ اعجاز منصور بے شک مشکوک کردار ہے لیکن یہ کیس بہرحال اپنے منطقی انجام تک پہنچے گا اور اس کے دور رس نتائج ہوں گے۔ حسین حقانی کا اپنا موبائل سیٹ نہ لانا اور الزامات کے جواب میں اعجاز منصور کی کردار کشی کی مہم چلانا بذات خود قابل غور بات تھی۔ صدر صاحب اور میرے دوست حسین حقانی کے وفاداروں نے اس حوالے سے جو چھلانگیں لگائیں اور مٹی اڑائی میں اسے سے محظوظ ہوتا رہا اور ان کی نکتہ آفرینی کی داد دیتا رہا کہ ایسے مواقع پر ذہانت کا استعمال اپنے عروج پر ہوتا ہے۔ میں پھر عرض کررہا ہوں کہ اعجاز نصور مشکوک کردار ہے اس کا ماضی داغدار ہے لیکن اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ وہ میمو کیس میں جھوٹ بول رہا ہے قدرے عجلت پسندی تھی کیونکہ اس معاملے کی تحقیق اس کی اہمیت کے پیش نظر ناگزیر تھی۔ ظاہر ہے کہ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے میمو کو حقیقت کا لباس پہنانے سے قبل اچھی طرح انکوائری کی ہوگی اور سچ یہ ہے کہ آئی ایس آئی کے پاس تکنیکی انکوائری کے ماڈرن وسائل ضرور موجود ہوں گے جنہیں استعمال کرکے یہ نتیجہ نکالا گیا ہو گا۔ میں نے اس وقت بھی لکھا تھا کہ اعجاز منصور پر امریکی حکام دباؤ ڈالیں گے اور اسے باز رکھنے کی کوشش کریں گے۔ اب یہ بات بھی سامنے آچکی اتنے اہم اور حساس معاملات میں جھوٹ بولنا آسان نہیں ہوتا۔ اب ذرا انتظار کیجئے ،حقانی کو بھی اپنا دفاع کرنے دیجئے اور کمیشن کو وہ ریکارڈ اور ڈیٹا دینے دیجئے جس کے موازنے سے اعجاز کے دعوے کی تصدیق یا تردید ہوگی پھر کسی حد تک حقیقت واضح ہو جائے گی۔ چوہدری نثار پریشان ہیں کہ آرمی اور حکومت میں اس معاملے پر مک مکا ہوچکا چوہدری صاحب کو کارینگی کی وہ کتاب دوبارہ پڑھنی چاہئے جو ہمارے کالج کے دور میں پاپولر ہوتی تھی۔ ان کا نام تھا”پریشان ہونا چھوڑئیے خوش رہنا سیکھئے“ ۔پریشان ہونے سے بال سفید ہوتے ہیں جو میرے دوست چوہدری نثار جیسے ابدی نوجوان کے لئے مضر صحت ہے۔
اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ ہمارے خفیہ ادارے ہمیشہ سیاست اور انتخابات میں ملوث رہے ہیں۔ اس حمام میں فوجی اور سیاسی حکمران سب ننگے ہیں۔ قوم کے سیاسی شعور کو پختہ کرنے کے لئے خفیہ شعبوں کا بے نقاب کیا جانا ضروری ہے تاکہ عوام کو اندازہ ہوسکے کہ کون خفیہ کی بیساکھیوں کے سہارے ان پر حکمرانی کرتا رہا ہے۔ لوگوں پر یہ راز بھی فاش ہونا چاہئے کہ کس طرح ہمارے ملک کے دولت مند سیاستدان خفیہ سے پیسے لے کر اور قومی وسائل کو استعمال کرکے اپنی جیب سے دھیلا لگائے بغیر مہنگی انتخابی مہمیں چلاتے رہے ہیں۔ قومی وسائل کے استعمال کے حوالے سے بھی کچھ مقدمات عدالتوں کے کولڈ سٹوریج میں پڑے ہوئے ہیں اور کچھ مقدمات فائل کرنے والے انصاف کے انتظار میں دنیا سے بھی کوچ کرگئے ہیں، اس کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ قوم کی آنکھیں کھولنے کے لئے یہ کچا چٹھا کھولنا ضروری ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ ان رازوں سے پردہ نہیں اٹھ سکے گا کیونکہ ہمارے لیڈران خاصے طاقتور ہیں۔ یہ حقیقت تو تاریخ کا حصہ بن چکی کہ1970ء کے انتخابات میں یحییٰ خان نے اپنے بھائی اور اس وقت کے آئی بی کے سربراہ کے ذریعے دائیں بازو کی پارٹیوں میں فنڈز تقسیم کئے تھے۔ایک عینی شاہد نے مجھے بتایا تھا کہ ڈائریکٹر انٹیلی جنس بیورو نوٹوں کے موٹے لفافے بھر کر سیاستدانوں کو دینے جاتے تھے لیکن اس کے باوجود یحییٰ خان اپنے خواب کے برعکس نہ مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن کا راستہ روک سکا اور نہ مغربی پاکستان میں بھٹو کو ابھرنے سے ناکام کرسکا۔اب دو دہائیوں کے بعد ایر مارشل اصغر خان کی پٹیشن کی شنوائی شروع ہوئی ہے تو قوم عدالت پرنگاہیں جمائے کچھ انکشافات کا انتظار کررہی ہے۔ جنرل اسد اور جنرل اسلم لیگ کو بہرحال عدالت میں آنا پڑے گا اور قومی مفاد میں آنا بھی چاہئے۔ خفیہ فنڈز کی تقسیم کا کوئی ثبوت نہیں ہوتا تاہم خفیہ ایجنسی اپنے طور پر اس کا ریکارڈ رکھتی ہے۔ سپریم کورٹ کو آئی ایس آئی سے یہ ریکارڈ منگوانا پڑے گا۔ رقمیں وصول کرنے والے انکاری ہیں جبکہ جنرل اسد درانی حلفیہ بیان عدالت میں داخل کرچکے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ سیاستدان جھوٹ بول رہے ہیں یا جرنیل؟ عوام تو جانتے ہیں کہ کون جھوٹ بولتا ہے لیکن عدالتی فیصلہ ہی سچ کو بے نقاب کرے گا۔
وزیر اعظم پر توہین عدالت کا الزام لگ چکا اور مقدمہ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہورہا ہے۔ بظاہر حکومتی موقف کمزور لگتا ہے سیکرٹری یا وزیر قانون کی رائے کا سہارا لینا ڈوبتے کو تنکے کے سہارے والی بات ہے کیونکہ وزیر اعظم ان کی رائے کے خلاف بھی فیصلہ کرسکتا تھا اور سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل بھی کرسکتا تھا لیکن بے شمار شواہد بتاتے ہیں کہ حکومتی پالیسی ہی یہی تھی کہ عدالت کے حکم کو اگنور کیا جائے۔تفصیلات میں گئے بغیر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس وقت سپریم کورٹ کے پیش نظر یہ تینوں مقدمات ہماری تاریخ کے اہم مقدمات ہیں، ان تینوں کے ہماری سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے اور یہ تینوں مقدمات ہماری آئندہ سیاست کی نہج متعین کریں گے۔ چند روز قبل میں ہاکی کے ممتاز کھلاڑی اور مسلم لیگ(ن)اور پھر (ق) کے معروف سیاستدان چودھری اختر رسول کا بیان پڑھ رہا تھا جس میں انہوں نے پچھتاوے کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ سپریم کورٹ پر حملے میں ملوث کرکے ان کا سیاسی کیرئیر تباہ کردیا گیا اور اگر سپریم کورٹ انہیں بلائے تو وہ سچ بے نقاب کردیں گے، گویا ابھی بہت کچھ پردہ راز سے باہر نکلنے کے لئے بے چین ہے اگر سارے راز فاش ہوگئے تو ہمارے سیاستدانوں کا کیا بنے گا؟
 

No comments:

Post a Comment