Monday 4 June 2012

بجٹ کا دنگل۔ Sunday, June 03, 2012

آپ کو بجٹ کا انتظار تھا آپ کا خیال تھا کہ یہ انتخابی سال ہے اس لئے حکومت عوام کو کئی ”لولی پاپ“ دے گی۔ مجھے بجٹ کا انتظار نہیں تھا کیونکہ مجھے اندازہ تھا کہ ہمارا خزانہ خالی ہو چکا ہے، لوٹ مار سے کچھ نہیں بچا، قومی ادارے بشمول ریلوے، اسٹیل ملز، پی آئی اے بجلی گھر وغیرہ سب کچھ بکھر چکا ہے اور ان کے ساتھ ہی قوم کے خواب بھی بکھر چکے ہیں ۔ قوم کے خواب کیا تھے ؟ 1971ء سے پہلے یہ قوم دلّی کے لال قلعے پر جھنڈا لہرانا چاہتی تھی ۔ بات غلط بھی تھی اور غیر حقیقی بھی لیکن قوم کے ارادے بلند، مورال بلند اور خواب حسین تھے ۔ 1971ء نے وہ خواب چکنا چور کر دیا۔ اب قوم کا خواب جمہوریت، انصاف، قانون کی حکمرانی، امن، غربت و بیروزگاری میں کمی، خوشحالی معاشرتی برابری وغیرہ تھیں جنہیں گزشتہ چند برسوں میں یوں بکھیر دیا گیا جیسے کسی عمارت کو ایک ایک اینٹ اکھاڑ کر بکھیرا جاتا ہے۔ گزشتہ سال سے عوام اور قوم فقط جینے کا حق مانگتے تھے اور یہی توقع انہیں اس بجٹ سے تھی اسی خواب کو آنکھوں میں سجائے وہ بجٹ کے منتظر تھے ۔ کیا آپ کا وہ خواب پورا ہوا؟ حکومت نے عوام کو کوئی ریلیف دیا؟ میں ماہر معاشیات نہیں، میں فقط تاریخ و سیاست کا طالب علم ہوں اس لئے میری رائے سطحی ہے کہ حکومت نے لوگوں کو سانس لینے کے لئے آکسیجن مہیا نہیں کی۔ چنانچہ مہنگائی، غربت، بیروزگاری کا گھوڑا سرپٹ دوڑتا رہے گا، لوگ زندگی کی سانس گھٹنے کے سبب خودکشیاں کرتے رہیں گے، حکمران اپنے ملکی و غیر ملکی دوروں پر کروڑوں خرچ کرتے رہیں گے۔ جناب آصف زرداری ہمارے ملک کے رئیس ترین شہری ہیں اگرچہ دنیاوی معیار اور پیمانے کے مطابق میاں منشاء پاکستان کا امیر ترین شخص ہے ۔ میں دنیاوی پیمانوں کو اس لئے اہم نہیں سمجھتا کہ وہ ظاہری اثاثوں کی بنا پر دولت کا اندازہ لگاتے ہیں جبکہ ماشا اللہ صدر صاحب کے خفیہ اثاثے بھی بہت ہیں ۔ امیر ترین شخص ہونے کے باوجود انہوں نے اجمیر شریف کو عقیدت کا نذرانہ فقط 9کروڑ روپے اپنی وسیع جیب سے نہیں دیئے بلکہ حکومتی خزانے کو گولی دی ہے ۔ انہوں نے پارلیمینٹ کی منظوری کے بغیر ایسا کس قانون کے تحت کیا ، یہ راز اس وقت کھلے گا جب کوئی صاحب دل سپریم کورٹ میں رٹ کریں گے میری اس بات پر وہ تمام صاحبان تڑپیں گے جن کے ہاتھ ہمیشہ صدر صاحب کی جیب میں ہوتے ہیں حالانکہ صدر صاحب کچی گولیاں نہیں کھیلتے، وہ ان ہاتھوں کو اپنی جیب سے نکال کر خزانے میں منتقل کر دیتے ہیں۔ وقت آنے پر مثالیں دیکر ثابت کروں گا ۔ اب آپ ہی بتائیے یہ جمہوریت ہے یا آمریت کہ پارلیمینٹ سے منظوری لئے بغیر صدر صاحب نے 9کروڑ روپے کا نذرانہ دے دیا۔ جن دنوں جان میجر انگلستان کا وزیر اعظم تھا اور میاں نواز شریف پاکستان کے وزیر اعظم تھے تو حسن اتفاق سے پاکستان کی ٹیم انگلستان میں میچ جیت گئی ۔ میاں صاحب نے خوشی کی لہر پر سوار ہو کر ٹیم کے لئے پچاس ہزار پونڈ انعام کا اعلان کر دیا۔ جان میجر نے چٹکی لیتے ہوئے فقرہ کسا ”مجھے وزیر اعظم ہاؤس کے بوسیدہ فرنیچرکو بدلنے کے لئے پارلیمینٹ سے پانچ ہزار پونڈ منظور کروانے کے لئے کئی برس لگ گئے ۔ پاکستانی وزیر اعظم نے کھڑے کھڑے پچاس ہزار پونڈ انعام کا اعلان کر دیا ۔دراصل حکومت برطانیہ خود تو جمہوری اصولوں کے تحت چلتی ہے لیکن 1947ء میں رخصتی کے وقت پاکستان کو فیوڈل جمہوریت کا تحفہ دے گئی جس میں ہر وزیر اعظم اور ضرورت پڑنے پر صدر مملکت وائسرائے ہی ہوتا ہے ۔ اور اسی طرح رعایا سے سلوک کرتا ہے ۔ رعایا بھوک سے مرے یا لوڈشیڈنگ سے دم گھٹنے پر مرے، وہ اپنی عیش وعشرت میں مصروف رہتے ہیں ۔ صدر صاحب نے اس طرح کسی منظوری کے بغیر ہندوستان کے آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کے رنگون میں مزار کی مرمت کے لئے بھی خاصی بڑی رقم ڈالروں میں سری لنکا کو دے دی ۔ میں نے یہ خبر پڑھی تو دل میں انہیں معاف کر دیا کیونکہ صدر صاحب کو مقبروں سے خاص عقیدت ہے اور وہ خود بھی بے نظیر بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو کے مزارات کی پیداوار ہیں ۔رنگون میں مغلیہ خاندان کے آخری حکمران پر ہندوستان کی حکومت اپنا حق جتاتی ہے لیکن مرمت کے لئے رقم پاکستان سے جاتی ہے کیونکہ یہاں بادشاہ حکمران ہوتے ہیں اور بادشاہ ہی بادشاہوں کا خیال کرتے ہیں۔ ہاں تو میں عرض کر رہا تھا کہ خزانہ خالی اور ہاتھ میں کشکول، لوڈشیڈنگ بے قابو اور صنعت وحرفت تباہ، غربت اور مہنگائی بھنگڑے ڈالتی اور عوامی احتجاج قانون ہاتھ میں لیکر سرکاری املاک جلاتے، اس پر طریٰ یہ کہ سارے قومی ادارے عبرت کا نشان اور کرپشن کی داستان، ان حالات میں بھلا بجٹ سے آپ کس کرامت یا معجزے کی توقع رکھتے تھے ؟؟میری توقع پوری ہوئی غریب قوم کے رئیس حکمرانوں نے ایوان صدر اور وزیر اعظم ہاؤس کے منظور شدہ اخراجات سے تجاوز کیا اور کروڑوں مزید خرچ کر ڈالے، دفاع پر اخراجات میں اضافہ اپنی جگہ لیکن اصل ترجیح تعلیم اور صحت اور صنعت و روزگار ہونی چاہئے۔ وفاقی بجٹ آپ کا، اب دیکھتے ہیں صوبے ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں کیونکہ تعلیم تو مکمل طور پر صوبوں کی اجارہ داری بن چکی ہے ۔ وفاق کی اولین ترجیح انرجی بحران کا خاتمہ ہونا چاہئے تھی لیکن اس کے آثار ناپید ہیں ۔ سوا چار سال اقتدار میں گزارنے کے باوجود حکومت نے انرجی/ بجلی پیدا کرنے کے لئے قابل عمل نئے منصوبے شروع نہیں کئے ۔ خلوص نیت اور ویژن اور صلاحیت ہوتی تو ان چار برسوں میں انرجی بحران پر خاصا قابو پایا جا سکتا تھا لیکن ہماری قسمت کہ ملک پر نالائقوں اور لوٹنے والوں کی حکمرانی ہے ۔ ان حالات میں مسائل کے حل کی توقع عبث، اس کے باوجود میں گیلانی صاحب کو مبارک باد دیتا ہوں کہ وہ ہماری تاریخ کے پہلے وزیر اعظم ہیں جنہوں نے مسلسل پانچ بجٹ اسمبلی میں بیٹھ کر سنے۔ بھٹو صاحب بال بال بچے وہ بھی یہ اعزاز حاصل کر لیتے اگر وہ اقتدار میں آنے کے بعد صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر نہ بنتے ۔ اگر یہ اعزاز کوئی اعزاز ہے تو گیلانی صاحب کو مبارکیں ہی مبارکیں۔ قوم کو مبارک دینے کی جسارت نہیں کر سکتا، البتہ جیالوں کو مبارک جن کے لئے ایک لاکھ روزگار پیدا کرنے کی خوشخبری سنائی گئی ہے ۔میں نے عرض کیا کہ بجٹ کا تجزیہ تو ماہرین معاشیات ہی کریں گے لیکن تاریخ و سیاست کا طالب علم ہونے کے ناطے مجھے اس دنگل سے زیادہ دلچسپی ہے جو بجٹ کے دن اسمبلی میں دیکھنے میں آیا اور جس نے پہلوانوں کے اکھاڑے اور مکا بازوں کے مقابلے کی یاد تازہ کر دی ۔ کالم کا دامن تنگ ہے۔ مختصر یہ کہ یہ ہنگامہ پارلیمینٹ اور جمہوریت کے خلاف چارج شیٹ میں ایک ”اہم چارج“ کا اضافہ ہے جس کا پارلیمینٹ کے ”پہلوانوں “ کو بالکل ادراک نہیں ۔ میں گزشتہ سوا چار برسوں کی جمہوریت پر نظر ڈالوں تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اس صورتحال کے ذمہ دار حکومت اور اپوزیشن دونوں ہیں ۔ پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کی کوتاہ نظری، مفاہمت سے لیکر مخالفت تک، اصولوں سے لیکر بے اصولی تک، ملک و قوم کو اس مقام پر لے آئے ہیں جہاں نہ مسائل حل ہو سکتے ہیں نہ بہتری کی خبر آ سکتی ہے ۔ انہی پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ پارلیمینٹ مکابازوں کے رنگ (RING) یعنی اکھاڑے میں تبدیل ہو گئی ہے اور باشعور طبقوں کی گردنیں شرم سے جھک گئی ہیں۔ خدانخواستہ اگر سسٹم ڈی ریل ہوا تو اسکی ذمہ داری دونوں پر ہو گی۔

عجب شناسائی، Friday, June 01, 2012

بہ بھی آشنائی کی ایک عجیب قسم ہے کہ کبھی کبھار آپ کی نگاہیں کسی چہرے پر پڑتی ہیں تو آپ کو احساس ہوتا ہے کہ یہ چہرہ شناسا ہے، شاید ہم کہیں ملے ہیں یا کسی مقام پر اکٹھے رہے ہیں۔ اب تو میں اس مخمصے کی زیادہ تحقیق نہیں کرتا لیکن جوانی کے دور میں جب کبھی ایسا ”حادثہ“ ہوتا تو میں متعلقہ شخص سے ضرور پوچھتا کہ کیا ہم کبھی ملے ہیں یا میں آپ سے کہاں ملا ہوں؟ پھر کوشش کے باوجود ہم کوئی وجہ آشنائی یا مشترکہ جگہ تلاش نہ کرسکتے۔ یوں یہ راز، راز ہی رہتا۔ ویسے زندگی رازوں سے بھرپور شے ہے۔ شاید اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے زندگی کو راز کی مٹی سے ہی پیدا کیا ہے۔ کچھ راز زندگی میں افشا ہوجاتے ہیں، کچھ نہیں ہوتے اور ہم تصور کرلیتے ہیں کہ یہ راز اگلی زندگی میں یا موت کے بعد کھلیں گے۔ یہ کہانی عام انسان کی ہے جبکہ صاحبان نظر یا صاحبان باطن پر بہت سے راززندگی ہی میں منکشف کردئیے جاتے ہیں اور یہ انکشاف بھی اپنی اپنی حیثیت اور مرتبے کے مطابق ہوتا ہے۔ حیثیت اور مرتبے سے مراد روحانی مقام ہے اور روحانی مقام سے مراد قرب الٰہی ہے اور قرب الٰہی عبادت و ریاضت سے حاصل ہوتا ہے۔ اس کے باوجود بہت سے راز…کائنات کے راز… قرب الٰہی حاصل ہونے کے باوجود نہیں کھلتے کیونکہ یہی منشاء الٰہی ہے۔ اقبال میرا پسندیدہ شاعر ہے اور کبھی کبھی تنہائی میں اقبال کے کسی شعر اور مصرعے پر غور کرتے ہوئے مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اقبال کائنات کا کوئی راز فاش کررہا ہے۔ یہی اقبال کے صاحب نظر ہونے کی علامت ہے۔ یہ الگ بات کہ وہ راز تو میری سمجھ میں نہیں آتا کیونکہ میری پرواز عام انسان کی پرواز ہے لیکن یہ احساس ضرور ہوتا ہے کہ اس شعر میں کوئی کائناتی راز مخفی ہے۔ بات دور نکل گئی، میں عرض کررہا تھا کہ زندگی کی دوڑ اور ہجوم میں بعض اوقات ایسے لوگوں سے آمنا سامنا ہوجاتا ہے جو شناسا لگتے ہیں۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے مجھے یقین ہے آپ بھی اس تجربے سے اپنی عمر اور ”دوڑ“ کے حساب سے ضرور گزرے ہوں گے۔ طویل عرصہ قبل میں حضرت علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش کی کتاب کشف المحجوب پڑھ رہا تھا تو میرا یہ مخمصہ اور معمہ حل ہوگیا۔ سید علی ہجویری نے لکھا ہے کہ بعض روحیں عالم ارواح میں آپ کے قریب رہی ہوتی ہیں۔ایسے اشخاص جب آپ کو زندگی کے سفر کے دوران کہیں مل جائیں تو وہ آپ کو شناسا لگتے ہیں حالانکہ دنیا میں آپ کی ان سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی ہوتی۔ اصل شے تو روح ہی ہے جسے بقاء حاصل ہے۔ جسم تو فانی ہے مٹی میں مل کر مٹی ہوجاتا ہے۔ ہاں کبھی کبھی ایسا نہیں بھی ہوتا کیونکہ یہ تو میرے رب کی قدرت اور رضا ہے وہ چاہے تو مٹی بنا دے، چاہے تو مٹی نہ بننے دے۔ گویا یہ شناسائی روحوں کی ہوتی ہے جسے میں عجب شناسائی کہتا ہوں۔ محترم سرفراز اے شاہ صاحب ہمارے دور کی معروف روحانی شخصیت ہیں اور حددرجہ احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ان کی کتاب”کہے فقیر“ مارکیٹ میں آئی تو اس نے تہلکہ مچادیا اور بہت سے کالم نگاروں نے ان کی تحریروں میں ڈوب کر سراغ زندگی پانے کی کوششیں کیں۔ حال ہی میں ان کی دوسری ایمان افروز اور خیال انگیز کتاب مارکیٹ میں آئی ہے جس کا نام ہے”فقیر رنگ“ ۔ محترم شاہ صاحب فقیر انسان ہیں، فقر کے سانچے میں ڈھلے ہوئے ہیں اس لئے ان کی ہر کتاب فقیر سے شروع ہو کر فقیر پر ختم ہوتی ہے۔ میں نے ابھی یہ کتاب پوری تو نہیں پڑھی کیونکہ ایسی کتابوں کو غور سے پڑھنا اور صبر سے ہضم کرنا پڑتا ہے اس لئے ان کا مطالعہ دلچسپی کے باوجود تھوڑا سا وقت لیتا ہے تاہم کتاب پڑھتے ہوئے میں شناسائی کی اس قسم پر پہنچ کر رک گیا جس کاذکر اوپرکرچکا ہوں۔ میں نے چاہا کہ زندہ کتاب کے ایک بیان سے میرے قاری بھی مستفید ہوں اس لئے میں آپ کو ان کی تحریر کے حلقے میں شامل کررہا ہوں۔ محترم شاہ صاحب سے کسی نے سوال کیا کہ کبھی کبھی ہم محسوس کرتے ہیں کہ جو منظر ہماری نظروں کے سامنے ہے یہ ہم پہلے بھی دیکھ چکے ہیں یا ایسا ہی واقعہ پہلے بھی ہوچکا ے۔ محترم شاہ صاحب نے اس سوال کا جو جواب دیا وہ آپ کے لئے بھی باعث دلچسپی ہوگا کیونکہ اکثر لوگ ا یسے تجربات سے گزرتے ہیں اور انہیں اس کی کوئی سائنٹیفیک توضیح یا سائنسی تشریح نہیں ملتی۔ محترم شاہ صاحب کا فرمان ہے کہ روحانیت میں ایک اصطلاح ہے ” روح کی سیر“… جب ہم نیکی اور عبادات کا راستہ اختیار کرتے ہیں اور اس پر مسلسل عمل کرتے ہیں تو اس کے نتیجے میں ہماری روح میں بالیدگی پیدا ہوتی ہے اور روح لطیف ہوجاتی ہے۔ جوں جوں ہماری روح لطیف ہوگی اس قدر اس کی پرواز بڑھتی چلی جائے گی۔ جس قدر روح کی پرواز بڑھے گی اتنی ہی زیادہ سیر کو نکلے گی۔ جب ہم سورہے ہوتے ہیں تو ہماری روح سیر کررہی ہوتی ہے۔ یہ روحانی سیر ہوتی ہے جسے ہمارا شعور ”رجسٹر“ نہیں کرتا اس لئے یہ سیر یاد نہیں ہوتی لیکن اس سے ہماری روح ضرور واقف ہوتی ہے اس لئے بعض اوقات یوں ہوتا ہے کو روحانی طور پر جس مقام یا منظر کی ہم نے سیر کی ہوتی ہے وہ جسمانی طور پر ہمارے سامنے آتا ہے تو ہم چونک اٹھتے ہیں، مثلاً کسی انسان کی روح نے سمندر کے کنارے ایک مخصوص سپاٹ کی سیر کی۔ اب یہ سیر اس انسان کے شعور میں رجسٹر نہیں ہے۔ پانچ یا دس سال کے بعد اسے کراچی جانے کا اتفاق ہوتا ہے۔ وہ سمندر کے کنارے اسی سپاٹ پر جاتا ہے تو روح کی وہ یادداشت عود کر آتی ہے اور اسے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ یہ مقام پہلے بھی دیکھ چکا ہے۔ یہ تو روحانی توجیہہ ہے لیکن سائنس اور نفسیات میں بھی اس پر تجربات ہوئے ہیں۔ امریکہ میں بہت سے ایسے بچوں پر ”سٹڈی“ ہوئی ہے جو بہت سے علاقوں میں کبھی نہ گئے تھے لیکن اس کے باوجود ان علاقوں کے نشانات اور لینڈ مارکس بہت تفصیل کے ساتھ بتا سکتے تھے۔ سائنس باوجود حیرت اسے کوئی نام نہ دے سکی۔ محض یہ کہا کہ ”کسی شخص کی ذہنی قوتیں اور صلاحیتیں بعض اوقات اس قدر تیز ہوجاتی ہیں کہ وہ زمان و مکان سے بالاتر ہوجاتا ہے اور ایک ہی جگہ پر بیٹھا ذہنی طور پر دوسرے مقام کی سیر کرلیتا ہے“۔ یہ درحقیقت روح کی سیر ہے اس کی وجہ سے ہمیں کبھی کبھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ واقعہ پہلے بھی ہوچکا یا یہ منظر ہم پہلے بھی دیکھ چکے ہیں“۔ اسی طرح اگر آپ کی کسی انسان سے روحانی شناسائی ہے تو وہ ملتے ہی آپ کو شناسا لگے گا حالانکہ آپ اس سے کبھی ملے نہیں ہوتے ۔ اگر آپ روزمرہ کی پریشانیوں، مسائل اور مشقت سے الگ ہوکر غور کریں تو محسوس ہوگا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے زندگی کو ایک حیرت کدہ کے طور پر تخلیق کیا ہے۔ جسمانی اور روحانی شناسائی ،عروج و زوال ،ملنا اور بچھڑنا اور زندگی و موت اس حیرت کدے کے مختلف مقامات ہیں بلکہ اس حیرت کدے کی مختلف ”حیرتیں“ ہیں۔

Tuesday 29 May 2012

لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو May 29, 2012

چند برس قبل مجھے جاپان کی حکومت نے سرکاری دورے پر بلایا۔ میں ان دنوں یونیسکو کے ایگزیکٹو بورڈ کا منتخب رکن تھا اور یہ دعوت نامہ اسی حیثیت میں دیا گیا تھا۔ ذہن میں رہے کہ جاپان بنیادی طورپر مشرق کاحصہ ہے چنانچہ مغربی تہذیب کی یلغار کے باوجود یہاں اب بھی آپ کو کہیں کہیں مشرقی روایات کاحسن نظرآئے گا۔ اس کے برعکس گزشتہ پچاس ساٹھ برس میں مغرب کی یلغار نے پاکستان سے یا تو وہ مشرقی اقدارمٹا دی ہیں یا اس کا دائرہ کار بہت محدود ہو کر رہ گیاہے۔ میرا مشاہدہ ہے کہ انگریز کی صدسالہ غلامی مسلمان معاشرے سے وہ اقدار نہ مٹا سکی جنہیں امریکہ کی پچاس سالہ یلغار نے بدل کر رکھ دیا ہے۔ غور کیجئے تو آج نوجوانوں سے لے کر بڑے نوجوانوں تک متوسط طبقے سے لے کر قدرے امیر طبقے تک اور سکولوں سے لے کر یونیورسٹیوں تک ہماری فضا، سو چ اور انداز ِ زندگی پر امریکی تہذیب کے گہرے اثرات واضح طور پر نظرآتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تہذیب، معاشرتی اقدار اور قومی فکر کے حوالے سے برطانوی غلامی نے ہم پر اتنے اثرات مرتب نہیں کئے جتنے امریکی دوستی نے گزشتہ پچاس برسوں میں کئے ہیں۔ ہاں تو میں عرض کر رہا تھا کہ میں جب جاپان گیا تو میرا ایجنڈا ان کے صنعتی مراکز اور تعلیمی اداروں کو دیکھنے کے علاوہ ان کی معاشرتی زندگی پر نظر ڈالنا بھی تھا۔ میری خواہش پر مجھے ایک ممتاز جاپانی سائنسدان کے گھر لے جایاگیا جو پاکستان کے لئے نرم گوش. رکھتا تھاکیونکہ وہ کبھی اچھے دور میں چند برس ایبٹ آباد اور اسلام آباد میں رہا تھا۔ عام طور پر رسم یہی ہے کہ جاپانی گھر سے باہر ایک مخصوص جگہ پر جوتے اتار کر اندر داخل ہوتے ہیں۔ میں اس سائنس دان کے گھر پہنچا تومیاں بیوی نے گرمجوشی سے استقبال کیا۔ جوتے اتار کر اندر داخل ہوا تو ایک چھوٹے سے کمرے میں بٹھایا گیا۔ بنیادی طور پر چند کمروں پرمشتمل یہ چھوٹا ساگھر تھاجبکہ ہمارے سائنس دان ماشا اللہ بڑے گھرو ں میں رہتے اور رئیسانہ ٹھاٹھ باٹھ کے خوگر ہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ٹوکیو میں زمین مہنگی ہے لیکن میں نے جاپان کے ہر شہر میں بودوباش کا یہی انداز دیکھا۔ مسئلہ انداز ِ فکر اور انداز ِ زیست کاہے ورنہ جہاں زمین مہنگی ہوتی ہے وہاں آمدنی بھی اسی نسبت سے ہوتی ہے۔ ہندوستان کے مسلمان تاریخی طور پر فیوڈل فکر کے اسیر رہے ہیں، بڑے گھر، رئیسانہ ٹاٹھ باٹھ، نوکرچاکر اور اثر و رسوخ کی آوازان کے خواب رہے ہیں۔ یہ دراصل فیوڈل ازم کے مرض کی نشانیاں ہیں ورنہ میں نے کتنے ہی مسلمان معاشروں کو دیکھا ہے وہاں عام طور پر اس مرض کو اس قدر عام نہیں پایا جتنا پاکستان میں ہے۔ جاپانی سائنس دان اگرچہ رئیس انسان تھا لیکن اس کی ہر ادا اورگھر کی ہر شے سے سادگی ببانگ دہل ٹپکتی تھی۔ تھوڑی دیر بعد ہم چائے کے لئے اس کے ڈائننگ روم میں گئے تو یہ دیکھ کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ چھوٹے سے کمرے میں نہ میز نہ کرسی اور نہ ہی نمودو نمائش کا سامان، جاپانی سائنسدان کی بیگم نے میرے لئے پاکستانی چائے بنائی تھی جس کے ساتھ ایک چھوٹا سا کیک اور کچھ بسکٹ رکھے تھے۔کمرے کے درمیان میں ایک چھوٹا سا گھڑا تھا جس میں ایک چھوٹا سا گھومنے والا میز نصب تھا۔ کھانا کھانے کے لئے اس تندرو نماگھڑے میں ٹانگیں لٹکا کر فرش پربیٹھاجاتا تھا اور سامنے میز پر رکھی خورونوش کی اشیا سے انصاف کیا جاتا تھا۔ اگر آپ کو چائے کی دوسری پیالی پینی ہے تو مانگنے کی ضرورت نہیں، ذراسامیز کو گھماکر چائے دانی اپنے سامنے کرلیں اور چائے ڈال کر میز کو پھر گھما دیں۔ جب ہم ٹانگیں لٹکا کر میز کے ادگرد بیٹھے تو سائنسدان نے مجھے بتایا کہ سارے جاپان میں کم و بیش ڈائننگ روم اسی طرح کاہوتاہے۔ ہم مغربی میز کرسیاں عام طور پر استعمال نہیں کرتے۔ اس انداز کی خوبی یہ ہے کہ ساری فیملی ایک دوسرے سے جڑ کر بیٹھتی ہے، باپ بیٹے ماں بیٹیوں اور بچوں کی ٹانگیں ایک دوسرے کے قریب ہوتی ہیں۔ یوں خاندان میں قربت اور محبت بڑھتی ہے۔ اس کے بعد مجھے جاپان کے کئی اعلیٰ افسران کی دعوتوں پر جانے کا اتفاق ہواوہاں بھی اسی طرح زمین پربیٹھ کر اورٹانگیں اندر لٹکا کر کھاناکھانے اور قربت کا لمس محسوس کرنے کا موقع ملا تو مجھے یادآیا کہ آج سے چالیس پچاس سال قبل پاکستان کے متوسط اور قدرے امیر طبقوں میں یہی رواج تھا کہ سرشام خاندان ماں کے چولہے کے پاس یا اردگرد چھوٹی چھوٹی ”تپیاں“ رکھ کر ”پیڑوں“ پر بیٹھ جاتے تھے۔ ماں ہر ایک کو ہانڈی سے سالن ڈال کر دیتی اور پھر ”توے“ سے گرما گرم روٹیاں آنا شروع ہوجاتیں۔ اگرروٹیاں تندور سے پک کر آتیں تو کپڑوں میں لپیٹ کر گرم رکھی جاتیں اور ماں سالن کے ساتھ ایک ایک روٹی بھی دے دیتی جسے کھجور کی بنی ”چنگیر“ میں رکھ لیا جاتا۔ جس کا سالن ختم ہوتا یا روٹی کی ضرورت پڑتی اسے مزید مل جاتی۔ ساتھ ساتھ بات چیت اور تربیت کا عمل بھی جاری رہتا۔ یوں سارا خاندان ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر کھانا کھاتا اور محبت سے سرشار ہو کر اٹھتا۔ ریفریجریٹر نہیں ہوتے تھے۔ سب کو تازہ پکا کھانا ملتا تھا اور شام کو بچے رہنے والا کھانا کسی ضرورت مند کے گھر بھجوا دیا جاتا تھا۔ بقول میرے مرحوم دوست مولوی سعید کہ ریفریجریٹر نے ہمیں ”کمینہ“ بنا دیااور انگریز فیشن کے میز کرسیوں نے خاندان کو باہمی محبت اور قربت سے محروم کر دیا۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ماں یا بیوی یا بہو کا پکایا ہوا کھانا ایک نعمت ہوتی تھی اور گھریلو نظام میں ماں بیوی کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی تھی جو اپنے ہاتھوں سے کھانا دیتے ہوئے محبت بھی تقسیم کرتی تھی اب اس کی جگہ باورچی نے لے لی یا کسی اور کے ہاتھ لگ گئی اس طرح مرکزی حیثیت والے ادارے تھوڑے کمزور ہوگئے۔ کہنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ جو ہمارا روایتی انداز ِ زندگی تھا اس میں غریب امیر سبھی شامل تھے۔ میں رؤسا، جاگیرداروں اور نوابوں کی بات ہرگز نہیں کر رہا، وہ ہمیشہ سے ایک الگ کلاس رہے ہیں۔ میرے مشاہدے کے مطابق مغرب کی تقلید اور سائنس کی کرامات نے ان غریب، متوسط اور خوشحال گھرانوں کے درمیان فرق بہت زیادہ بڑھا دیا ہے جبکہ چالیس پچاس برس قبل یہ فرق اپنی جگہ پر ہونے کے باوجود اس قدر واضح اور نمایاں نہیں ہوتا تھا جتنا آج ہے۔ امن اور چین کا دور دورہ تھا، بڑے کا ادب اور چھوٹے سے شفقت ہماری تربیت کا حصہ تھا اور باہمی محبت ، سادگی اور سکون ہمارے معاشرے کی نمایاں اقدار تھیں۔اس زمانے میں بھی بے پناہ غربت تھی لیکن خودکشیا ں تقریباً ناپید تھیں اوررویوں پر قناعت کا رنگ غالب تھا۔ آج کی غربت اور اس غربت میں خاصا فرق ہے۔ میں ہائی سکول کا طالب علم تھا تو اپنے ایک کلاس فیلو کے گھر گیا جس کاتعلق مقابلتاً غریب گھرانے سے تھا۔ ان کا گھر دو کمروں پر مشتمل تھا جو مٹی اور گارے سے تعمیر کئے گئے تھے۔ جون کی گرمی اور پنکھا نہ ہونے کے باوجود دیواریں اور فرش ٹھنڈا تھا، تھوڑی سی ہوا کھڑکی سے آتی تھی باقی کا انتظام ہاتھ میں پکڑی ”پنکھیوں“ سے کیاجاتا تھا۔ میں ان کے گھر میں داخل ہوا تو گھرانہ فرش پر گول دائرے میں بیٹھا کھانا کھا رہا تھا۔ دیسی گندم کی تنور کی تازہ روٹیاں، آم کا اچار، پودینے کی چٹنی، خربوزے کی کاشیں اور چاٹی کی لسی درمیا ن میں رکھی تھی۔ چٹنی اچار کے ساتھ ساتھ خربوزے کا ملاپ اور لسی کاگھونٹ یہ وٹامن کے حوالے سے مکمل غذا تھی جو موجودہ دور کے غربا کو نصیب نہیں۔ میں بھی اس دعوت شیراز میں شامل ہوا اور مجھے یہ کھانا اتنا مزیدار، لذیذاور محبت بھرا لگا کہ پھر فائیو سٹار اور سیون سٹار ہوٹلوں کی دعوتیں اور شاہی محلات کی مہمان نوازی بھی اس کی یاد نہ بھلا سکیں۔ کبھی آپ نے غور کیا کہ بلاشبہ ہمیں بہت سی سائنسی نعمتیں میسر آئی ہیں لیکن ہم نے بہت سی نعمتوں کو گنوا بھی دیا ہے۔ مادی نعمتوں نے ہمیں بہت سی روحانی نعمتوں سے محروم کردیا ہے۔

پاکستان میں وقت ٹھہر گیاہے. May 27, 2012

بہت دنوں بعد وطن لوٹاہوں۔ میری خوش قسمتی کہ میں جس مقام پر تھا وہاں نہ اخبارات اور نہ ہی چینلز کی رسائی مجھ تک تھی اور نہ ہی میری رسائی ان تک تھی حالانکہ اس سے کوئی فرق تو پڑتانہیں۔ اگرچہ میں نے دو ہفتوں سے زیادہ کے اخبارات نہیں پڑھے لیکن اس سے کیافرق پڑتا ہے کیونکہ میں ملک میں جو نقشہ چھوڑ گیا تھا وہ من و عن اسی طرح موجود ہے۔ وہی لوڈشیڈنگ، وہی سڑکوں پر عوام کے احتجاجی مظاہرے، سیاستدانوں کے وہی گھسے پٹے بیانات، مسلم لیگ ن اور پی پی پی کی رسہ کشی جسے بہت سے تجزیہ نگار ”فریب نظر“ قرا دیتے ہوئے نوراکشتی کہتے ہیں کیونکہ ایک طرف اعلان جنگ اور دوسری طرف خفیہ سیاسی سمجھوتے، اسمبلیوں کی نشستوں کی بندر بانٹ اور ایڈجسٹمنٹ اور خفیہ ذرائع سے پیغام رسانی یہ سب کچھ بظاہر تو نورا کشتی ہی لگتی ہے۔ اس نقشے کے اہم ترین پہلو جو بدستور اپنی جگہ پر موجود ہیں لیکن ان میں قدرِ شدت آگئی ہے، وہ ہے عدلیہ اور انتظامیہ میں تصادم کی فضا، حکمرانوں کی پارلیمینٹ کے زور پر عدلیہ کو نیچا دکھانے کی کوشش جسے آپ سازش بھی کہہ سکتے ہیں۔ وزیراعظم صاحب بضد ہیں کہ سپریم کورٹ کی سزااور ہتک عدالت سے ”ککھ“ بھی نہیں ہلا یعنی میری پوزیشن پر تنکا بھر بھی اثر نہیں پڑا۔اب اس پوزیشن کو سپیکر کی رولنگ نے اور بھی مضبوط بنا دیاہے اور یوں تاثرابھاراجارہا ہے کہ سپریم کورٹ غیرموثرہے، نہ اس کے فیصلوں پر عمل ہوتاہے، نہ ہی اس کی ہدایات انتظامیہ سنتی اور نہ ہی وزراء صاحبان سپریم کورٹ میں پیش ہوتے ہیں جیسا کہ بلوچستان میں ہوا۔ گویا اراکین اسمبلیاں پارلیمینٹ کی قوت کے زور پر عدلیہ کو غیرموثر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور یہ سلسلہ شروع ہوا ہے وزیراعظم کو سزا سنانے کے بعد۔ یہ درست ہے کہ صدر صاحب نے پہلے ہی ببانگ دہل فرما دیا تھا کہ وہ صرف پارلیمینٹ کے فیصلوں کو مانتے ہیں اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کو گھاس ڈالنے کے لئے تیار نہیں اور پھراس کے ساتھ تسلسل سے یہ میوزک بجنے لگا کہ پی پی پی کو کبھی عدلیہ سے انصاف نہیں ملا۔ غور طلب بات اتنی سی ہے کہ عدلیہ کو نیچا دکھانے کا مطلب اور مفہوم صرف قانون کی حکمرانی اورپاسداری کا راستہ روکنا ہے۔ اس حد تک حکومت اپنے ارادوں میں کامیاب ہے کہ وہ من مانی کر رہی ہے، صدر صاحب نے مختلف طریقوں سے اپنے سیاسی حلیفوں کو قابو کر رکھاہے اور اس زور پر وہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عملدرآمد ہونے نہیں دے رہے حتیٰ کہ ہتک عدالت کے مقدمے نے بھی ان کے رویئے میں لچک پیدا نہیں کی بلکہ تصادم کے امکانات کو مزید بڑھایا ہے۔ دوسری طرف کراچی میدان جنگ بنا ہواہے۔ ملک بھر میں ٹارگٹ کلنگ اور مذہبی تشدد کا دور دورہ ہے، احساس تحفظ دم توڑ چکاہے، معاشی ترقی کا ذکرہی کیا یہاں تو معیشت کا پہیہ ہی جام ہوچکا ہے جس کے سبب نہ صرف بیرونی سرمایہ کاری بند ہونے کے قریب ہے بلکہ بیروزگاری اور غربت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ بجلی گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافے نے عوام کا جینا دوبھر کر دیاہے لیکن حکومت یہ سمجھتی ہے کہ بینظیر پروگرام کے تحت لاکھوں گھروں کو ڈھائی ہزارروپے مہینہ دے کر غربت کا علاج کیاجارہا ہے حالانکہ غربت کا علاج معمولی مالی امداد سے نہیں ہوتا بلکہ غربت کا علاج معاشی ترقی اور معاشی سرگرمی سے ہوتاہے۔ کہنے کا مقصد یہ تھا کہ میں دو ڈھائی ہفتے قبل جو حالات چھوڑ کر گیا تھااور جو نقشہ دیکھ کر گیاتھااس میں ذرہ بھر بھی فرق نہیں پڑا بس اس میں ایک پہلو کا اضافہ ہوا ہے اور وہ ہے محترمہ سپیکر صاحبہ کی رولنگ جو میری توقعات کے عین مطابق ہے۔ گویا پاکستان میں وقت ٹھہرگیا ہے اور سیاسی کلاک رک گیا ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ اب اس رولنگ کا محاذ گرم ہوگا۔ اپوزیشن اور نیوٹرل طبقے اسے بہرحال قبول نہیں کریں گے کیونکہ اگر یہ معاملہ اتنا ہی سادہ ہے کہ اسے سپیکر کے چیمبر میں پہنچ کر رک جانا ہے یا ردی کی ٹوکری میں چلے جانا ہے تو پھرسپریم کورٹ کے فیصلوں کی کیاحیثیت؟ چنانچہ اب آئین کے اس پہلو کی تشریح کے لئے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے گا، کئی رٹیں (Writs) اور مقدمات عدالت میں آئیں گے اور پھر عدالت کو تشریح کرنی پڑے گی کہ کیا پارلیمینٹ کے اراکین کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلے سپیکر کے چیمبر میں ختم ہوسکتے ہیں؟ کیا ایسے مقدمات یا فیصلے مخصوص عرصہ گزرنے کے بعد خودبخود الیکشن کمیشن کومنتقل ہوجاتے ہیں یا سپیکر انہیں روک سکتاہے؟ کیاان فیصلوں کا یہی منطقی انجام ہے اور یہی قانون و آئین کی منشا ہے؟ اس طرح ایک اور محاذ گرم ہوگا جس کی حدت سپیکر اور اسمبلی تک محسوس کی جائے گی۔ ساتھ ہی ساتھ سیاسی مظاہرے سڑکوں کو گرماتے اور ایوانوں کو ہلاتے رہیں گے۔ کچھ پارٹیاں عدلیہ کے حق میں اور کچھ مخالف موسم کی گرمی میں اضافہ کریں گی جس سے عدلیہ کا وقار مجروح ہوگا اور عدلیہ متنازع ہوگی شاید یہی حکمت عملی حکمرانوں کی ہے۔ تاریخ کا مطالعہ یہی بتاتاہے کہ جب قانون کی حکمرانی کو اس طرح پامال کیا جائے، عدلیہ کو بے وقارکیا جائے، اقتدار کے لئے سب کچھ داؤ پرلگا دیاجائے، لوٹ مار کرپشن کا سلسلہ جاری رہے، عوام غربت، مہنگائی، بیروزگاری، لوڈشیڈنگ کا شکار ہوں، لوگوں کو بسوں، گلیوں سڑکوں پر قتل کیا جارہا ہو اور ہر شہری عدم تحفظ کا مریض ہو، سیاسی پارٹیاں باہم دست و گریباں ہوں ، غیرملکی قوتیں اندرونی انتشار کی آگ کو بھڑکا رہی ہوں تو پھرزیادہ دیر تک تیسری قوت کی مداخلت کاراستہ نہیں روکا جاسکتا بلکہ یہ خود لوگوں کا مطالبہ بن جاتا ہے اور عدلیہ بھی ملک بچانے کے فارمولے کے تحت اس مداخلت کو محدود عرصے کے لئے قبول کرلیتی ہے۔ غائب کا علم خدا کے پاس ہے میں صرف ظاہر کی بات کر رہا ہوں فوری نہیں لیکن لانگ رینج میں حالات اس طرف بڑھ رہے ہیں۔  

Sunday 20 May 2012

اپنی اپنی پریشانی؟ May 13, 2012


آپ حکومت کی نالائقی اور نااہلی کا رونا روتے ہیں اور مجھے پریشانی ہے قومی اداروں کے زوال کی۔ حکومتیں آنی جانی شے ہیں ،مستقبل کسی اہل اور قابل حکمران کو بھی برسر اقتدار لاسکتا ہے لیکن اگر قومی اداروں کا زوال شروع ہو جائے تو اسے روکنا یا اسے ”ریورس گیئر“ لگانا آسان نہیں ہوتا۔ ہاں میری ایک بات سن لیجئے اور نوٹ فرما لیجئے کہ قوموں کے زوال کی علامت قومی اداروں کا زوال ہوتا ہے نہ کہ سیاسی حکمرانوں کا زوال۔ اس موضوع پر میں انگلستان کے حوالے سے ایک تحقیقی مقالہ پڑھ رہا تھا جس میں ثابت کیا گیا تھا کہ جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کے پھیلتے سایوں کے باوجود اور درمیانے درجے کے حکمرانوں کے باوجود برطانوی قومی اداروں کی کارکردگی کبھی متاثر نہیں ہوئی اور یہی وجہ ہے کہ معاشی و سیاسی زوال کے باوجود برطانوی قوم آج بھی ایک مضبوط قوم ہے۔امریکہ کو اپنی دولت، عسکری قوت اور خوشحالی پر بڑا ناز ہے جبکہ برطانیہ دیکھنے میں امریکہ کی ”کالونی“ لگتا ہے لیکن عالمی سروے کے مطابق کیمبرج یونیورسٹی آج بھی عالمی سطح پر اعلیٰ ترین یونیورسٹی ہے اور اس صف میں پہلی پوزیشن پر قابض ہے حالانکہ بہت سی امریکی یونیورسٹیاں ہر سال کیمبرج سے زیادہ نوبل پرائز جیتتی اور حاصل کرتی ہیں جبکہ پاکستان تعلیم کے میدان میں کہیں بھی نظر نہیں آتا۔ پاکستان کیا پوری دنیائے اسلام میں کوئی بھی یونیورسٹی عالمی سطح کی یونیورسٹیوں میں شمار نہیں ہوتی اور یہی سبب ہے بلکہ بنیادی وجہ ہے نہ صرف مسلمانوں کی پسماندگی کی بلکہ پاکستان کے زوال کی بھی۔ قوموں کی ترقی اور قومی اداروں کی نشوو نما اعلیٰ انسانی ذہنوں کی مرہون منت ہوتی ہے لیکن گزشتہ 65برس میں ہماری کسی بھی حکومت نے اعلیٰ تعلیم کو خلوص نیت سے پہلی ترجیح نہیں بنایا۔ نتیجے کے طور پر اعلیٰ تعلیم، تحقیق، غور و فکر اور ”آر اینڈ ڈی“ کا کلچر پاکستان میں پروان چڑھ ہی نہیں سکا۔ پرویز مشرف کے دور میں بلاشبہ سینکڑوں نوجوانوں کو ڈاکٹریٹ کرنے کے لئے بیرون ملک بھجوایا گیا اور پاکستان میں بھی پی ایچ ڈی کے لئے پروگرام شروع کئے گئے لیکن اول تو اس دور میں اعلیٰ تعلیم کے نام پربے پناہ قومی وسائل ضائع کئے گئے، تعلیم کی کوالٹی بہتر بنانے کی بجائے پبلسٹی پر زیادہ زور دیا گیا اور بیرون ملک پی ایچ ڈی کے لئے طلبہ کی اکثریت کو ایسی یونیورسٹیوں میں بھیجا گیا جن کی اندرون و بیرون ملک اپنی ریٹنگ (Rating)نہایت کم درجے کی تھی اندرون ملک پی ایچ ڈی پروگراموں میں چوری اور سرقے کی داستانیں مشہور ہوئیں اور ایسے مضامین میں پی ایچ ڈی کے ڈھیر لگ گئے جن کی افادیت نہایت محدود تھی۔ اس پروگرام کو بہتر بنایا جاسکتا تھا لیکن مشرف حکومت بدلتے ہی وسائل کی قلت نے اس شعبے کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔ جب ہم نے پنجاب یونیورسٹی سے ڈگریاں حاصل کیں تو نہ جعلی ڈگری کا تصور تھا اور نہ ہی کبھی بیرون ملک کسی یونیورسٹی نے ہماری تعلیمی اہلیت کو شک کی نظر سے دیکھا تھا۔ قیام پاکستان سے 1972ء تک ہماری یونیورسٹیوں کے گریجوایٹ امریکی برطانوی یونیورسٹیوں میں کسی ٹیسٹ کے بغیر محض اپنے نمبروں پر داخلہ لیتے تھے اور ایم اے یا پی ایچ ڈی کی ڈگریاں لے کر واپس آتے تھے۔ کچھ برس قبل میں برکلے یونیورسٹی امریکہ میں تھا اور یونیورسٹی کے ایک اعلیٰ عہدے دار سے یہ بات سن کر پانی پانی ہوگیا کہ ”ہم 1972ء کے بعد کی پاکستانی ڈگریاں تحقیق کئے بغیر نہیں مانتے“۔ وجہ پوچھی تو جعلی ڈگریوں اور نقل کے ذریعے امتحانات پاس کرنے کی کہانیاں سنائی گئیں۔ ہمارے دور میں یونیورسٹیوں میں رشوت کا رواج ہرگز نہیں تھا۔ مجھے چند برس قبل ایک دوست کی ڈگری کی تصدیق کے لئے یونیورسٹی سے پالا پڑا تو پتہ چلا کہ وہاں بھی تھانوں کی مانند ہر کام کے ریٹ مقرر ہیں۔ کنٹرولر صاحب سے رابطہ کرنا چاہا تو بتایا گیا کہ وہ بہت بڑے افسر ہیں ایرے غیرے سے بات نہیں کرتے۔ پارلیمینٹ نے منتخب نمائندوں کے لئے ڈگری کا قانون بنایا تو ہر روز ایم این اے ایم پی اے ایز کی جعلی ڈگریوں کی کہانیاں سامنے آنے لگیں۔ میری تحقیق کے مطابق سب سے زیادہ جعلی ڈگریاں مسلم لیگ (ن) کے کھاتے سے برآمد ہوئیں۔ ذرا اپنے منتخب نمائندوں، اعلیٰ قانون سازوں اورقوم کے لیڈروں کا کردار ملاحظہ فرمائیں کہ ان حضرات نے نہ صرف جعلی ڈگریاں حاصل کی تھیں اور انتخاب لڑنے کے لئے پیش کی تھیں بلکہ اسمبلی میں سچ بولنے اور ”سچا“ ہونے کا حلف بھی اٹھایا تھا جس قوم کے منتخب نمائندے جعلی ڈگریاں دے کر جھوٹا حلف اٹھائیں اور جو قوم ایسے بد کردار لوگوں کو ووٹ دے اس قوم کو غربت، پسماندگی، بے روزگاری کی بجائے اپنے اخلاقی زوال کی فکر کرنی چاہئے کیونکہ تاریخ کا طے شدہ اصول ہے کہ اگر قوم کا کردار مضبوط ہو تو وہ مسائل کے طوفان سے نکل جاتی ہے لیکن اگر قوم کے کردار کا جنازہ نکل چکا ہو تو پھر وہ مالی، معاشی اور دوسرے قومی مسائل سے نکل کر بھی جھوٹ، جعل سازی، بداعتمادی، کرپشن جیسے مسائل کی دلدل میں پھنسی رہتی ہے۔ آج جاپان، سنگاپور اور کوریا جیسے ممالک جہاں قدرتی، زرعی اور دوسرے وسائل کا فقدان ہے محض انسانی وسائل کو اعلیٰ تعلیم کے ذریعے ترقی دے کر خوشحالی کی منزلیں طے کر رہے ہیں۔ جبکہ پاکستان کے نیم خواندہ حکمرانوں کو اعلیٰ تعلیم کی اہمیت کا احساس ہی نہیں۔ ہمارے تعلیمی ادارے، ہماری یونیورسٹیاں دن بدن تنزل کا شکار ہیں، ہم نالائق ڈگریوں کی کھیپ تیار کر رہے ہیں، یونیورسٹیوں میں تحقیق نامی شے اجنبی بن کر رہ گئی ہے، اساتذہ پیسے کمانے کی فیکٹریاں بن چکے ہیں، نقل، جعل سازی اور گروہ پروری کا دور دورہ ہے اور عالمی مقابلے کی اس فضا میں ہمارے طلبہ کا معیار تعلیم تنزل کا شکار ہے۔ ہر سال چند ایک طلبہ اپنے زور پر اے او لیول میں پوزیشنیں حاصل کرلیتے ہیں تو ہم خوش ہو جاتے ہیں لیکن ان کی اکثریت بھی اعلیٰ تعلیم کے لئے بیرون ملک جاتی ہے تو واپسی کا نام نہیں لیتی۔ میری سوچی سمجھی رائے ہے کہ ہم نے اخلاقی، معاشی، صنعتی اور سیاسی زوال کا راستہ روکنا ہے تو وہ کسی حد تک صرف اعلیٰ درجے کی تعلیم کے ذریعے روکا جا سکتا ہے ہم دیکھ رہے ہیں کہ موجودہ زوال کا طوفان ہمارے سارے قومی اداروں کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے اور ہر طرف قومی و حکومتی اداروں کی کارکردگی پر مایوسی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ کام چوری، رشوت، بے ایمانی، بے انصافی، ملاوٹ، لوٹ کھسوٹ، لاقانونیت، مذہبی تفریق، جہالت وغیرہ وغیرہ ہمارے اصل قومی دشمن ہیں۔ خدارا ان پر قابو پانے کی ترکیبیں سوچیں ورنہ یہ زوال معاشرے کی اخلاقی قدروں کو دیمک کی مانند چاٹ لے گا۔ 

خاکم بدہن May 11, 2012


ملکی منظر پر نظر ڈالتا ہوں تو دل دُکھتا اور کڑھتا ہے۔ پھراپنی بے بسی پر دل ہی دل میں آنسو بہا کر صبر کرلیتا ہوں کہ اللہ صابرین کے ساتھ ہے اور کمزور لوگوں کا آخری سہارا صبر ہی ہوتا ہے۔ ذرا گہری نظر سے دیکھئے کہ کیا ہو رہا ہے؟ ہم کس طر ف اورکہاں جارہے ہیں؟ ہماری منزل کیا ہے اور اگر ہم یونہی بڑھتے رہے، پھیلتے ہوئے طوفان کو روکنے کی کوشش نہ کی تو اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟
سچی بات یہ ہے کہ میں جب ملک کے منظرنامے پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے لاقانونیت اور انارکی کا سیلاب یا طوفان قوم کے دروازے پر دستک دیتا نظر آتا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ لاقانونیت اور انارکی کی آگ سارے نظام کو جلا کر خاکستر کر دیتی ہے اور انارکی کے مرض میں مبتلا قومیں ترقی کی منزلیں طے کرنے کی بجائے تنزل کی راہ پر چلتی اور بکھر کر رہ جاتی ہیں۔ چاروں طرف نگاہ دوڑایئے کیا کچھ ہو رہا ہے اور کیسی کیسی انہونی باتیں اور وارداتیں رونما ہو رہی ہیں۔ ان انہونی وارداتوں کی جڑوں پر نگاہ ڈالیں تو اس کا سبب صرف لاقانونیت کا تیزی سے بڑھتا ہوارجحان نظر آتا ہے۔ ذرا غور کیجئے کہ ہم کیسے ملک میں رہ رہے ہیں جہاں ایک چوتھائی قوم سڑکوں پر احتجا ج کر رہی ہے، سرکاری بسیں جن پر صرف عام سفر کرتے ہیں جلائی جارہی ہیں اور شہریوں کی کاروں اور نجی املاک کو جلایا جارہا ہے، چوریاں ڈاکے عام ہیں، طلبہ نقل کی مزاحمت کرنے والے اساتذہ کو مار پیٹ رہے ہیں، وکیل ججوں پر جوتے بھی پھینکتے ہیں اور کبھی کبھی خلاف ِ مرضی فیصلہ آنے پر ججوں سے دست و گریبان بھی ہو جاتے ہیں۔ پولیس علاقوں میں جاتی ہے تو وکیل حضرات اپنے ملزمان چھڑانے کے لئے پولیس کو نشانہ بناتے ہیں۔ پولیس ہر روز بیگناہ شہریوں کو ٹارچر کرکے رشوت لیتی ہے اور اگر لواحقین رشوت نہ دیں تو ٹارچر کرکے ملزم ہی کو اگلے جہان پہنچا دیتی ہے۔ کسی دفتر میں چلے جائیں رشوت کے بغیر جائز سے جائز کام نہیں ہوتا اور رشوت دے کر ناجائز سے ناجائز کام ہو جاتاہے۔ شہروں قصبوں میں قبضہ گروپ اور طاقتور مافیاز پروان چڑھ رہے ہیں جو غریب، بے اثر لوگوں، بیواؤں اوریتیم بچوں کی جائیدادوں پر قبضہ کرلیتے ہیں اور پولیس ان کی پشت پناہی کرتی ہے۔ وزراء، حکمرانوں اور سیاستدانوں پر دن رات پیسے بنانے اور جائیدادیں بنانے کے الزامات کی بارش برس رہی ہے۔ بااثر طبقے دن رات ملک کو لوٹ کر دولت بیرون ملک منتقل کرنے میں مصروف ہیں۔ سیاسی پارٹیاں کسی کو اسمبلی کا ٹکٹ دینے یا وفاداری تبدیل کرکے آنے پر پہلے اس کی جیب ٹٹولتی اور پھر فیصلہ کرتی ہیں۔ پارٹی چندے کے نام پر قوم کو لوٹنے والے، لوگوں کی جیبوں پر ڈاکے ڈالنے والے اور فراڈ کے ذریعے راتوں رات امیر ہونے والے بڑے بڑے چندے دے کر بڑی پارٹیوں پر چھا گئے ہیں اور حکمران یا مستقبل کے حکمران اُن کی دولت یا شہرت کے سامنے بچھے جارہے ہیں۔ ان ”اصول پرستوں“ کو ایسے سیاستدانوں کے ماضی کی پرواہ ہے نہ ان کے حال سے غرض ہے انہیں فقط چندے سے غرض ہے۔ نام کی حکومتیں بھی موجود ہیں اور ان حکومتوں کے ناک تلے مارکیٹ میں جعلی دوائیاں بھی بک رہی ہیں، سرکاری ہسپتالوں میں جعلی اور اکثر اوقات ایکسپائرڈ (Expired) دوائیاں دے کر غربا کی زندگیوں سے کھیلا جارہا ہے اور کھانے پینے کی اشیاء میں اس قدر ملاوٹ کی جارہی ہے کہ خدا کی پناہ۔ کل ہی ایک صاحب انکشاف کر رہے تھے کہ پولٹری کے چوزوں کو جلد جوان کرنے کے لئے ٹیکے لگائے جاتے ہیں، زیادہ انڈے حاصل کرنے کے لئے مرغیوں کو مخصوص غذا کھلائی جاتی ہے۔ پولٹری کے اس گوشت اور ان انڈوں میں ایسے اجزا موجود ہیں جن سے کھانے والوں میں مختلف بیماریاں پھیل رہی ہیں حتیٰ کہ بچے اور نوجوان بھی خطرناک بیماریوں کے شکنجے میں جکڑے جارہے ہیں لیکن منافع خوروں کو دولت بنانے سے غرض ہے۔ وہ خود دیسی مرغیاں کھاتے اور درآمد شدہ غذائی اشیاء سے لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن قوم کو ملاوٹ شدہ غذا کھلا کر آہستہ آہستہ مار رہے ہیں۔ کچھ یہی حال ان کھادوں اور سپرے کا ہے جو گندم اور سبزیاں اگانے کے لئے استعمال ہوتی ہیں۔ حکومت نہ جانے کن کاموں میں مصروف ہے جبکہ حکومت کے سائے تلے عوام کی صحت عامہ کابیڑہ غرق کیا جارہا ہے اور عوام میں ان مسائل کا شعور ہی موجود نہیں۔ یہاں اربوں روپے کے اشتہار حکمرانوں کی ذاتی پبلسٹی یا پارٹی لیڈروں کی پبلسٹی پر خرچ ہوتے ہیں جبکہ ترقی پذیر ممالک میں یہ رقم عو ام میں بیماریوں اور دیگر مسائل کے بارے شعور پیدا کرنے پر خرچ ہوتی ہے۔ ملاوٹ، جعلسازی، نمبر 2 دوائیوں اور اس قسم کے دوسرے جرائم سے نپٹنے کے لئے قوانین موجود ہیں، ادارے بھی موجود ہیں اور ان کے اوپر حکومتیں بھی پائی جاتی ہیں لیکن رشوت، لاقانونیت اور بے عملی نے ان تمام کو عضو معطل بنا رکھا ہے۔ مسائل کی اس چکی میں پس کون رہا ہے؟ عوام… وہی عوام جن کے غم میں حکمران گھلے جاتے ہیں اور وہی عوام جو اچھے برے کی تمیز کرنے کے اہل نہیں اور ان سیاستدانوں کے مکر و فریب میں آ کر پھر انہیں ہی ووٹ دیتے ہیں۔
ذرا اوپر نظر ڈالئے۔ ملک کے وزیراعظم سپریم کورٹ کے سینے پر مونگ دلنے کے لئے سارے اخلاقی اصولوں کو پامال کرتے ہوئے انگلستان تشریف لے گئے ہیں۔ انہوں نے طنز کا تیر چلاتے ہوئے لندن پہنچتے ہی یہ بھی فرما دیا کہ انہیں علم تھا ان کے غیرملکی دورے کے آغاز پر ہی تفصیلی فیصلہ آئے گا۔ گویا ان کی ملک میں موجودگی سے سپریم کورٹ تفصیلی فیصلہ دینے سے گریزاں تھی۔ اس ایک فقرے سے انہوں نے نہ صرف عدلیہ پر ”بدنیتی“ کا الزام لگا دیا ہے بلکہ عدلیہ کی جانبداری کا تاثر بھی ابھارا ہے۔ عدلیہ کی غیرجانبداری پر حملوں کا آغا ز جناب صدر مملکت نے کیا تھا اب تو خیر سے ساری پیپلزپارٹی دن رات یہی مہم چلارہی ہے اور عدلیہ کو شریف کورٹس ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ مقصد صرف عدلیہ سے انتقام لینا نہیں بلکہ اپنے آپ کو مظلوم ثابت کرنا اور ملک کی اعلیٰ عدلیہ کی بنیادوں کو کمزور کرنا بھی ہے۔ ماشاء اللہ اب تو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین نے بھی عدلیہ کا مالی احتساب کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ دیکھئے یہ سلسلہ کہاں پر رکتا ہے؟ لاقانونیت کے پھیلتے رجحان میں آئین کی تشریح و توضیح بھی اپنے اپنے مفادات کو پروان چڑھانے کے لئے کی جارہی ہے اور اس توضیح میں جلد ہی وہ مقام آنے والا ہے جب عدلیہ اور پارلیمینٹ ایک دوسرے کے سامنے یوں کھڑے ہوں گے جیسے دشمن ملک کی فوجیں… ظاہر ہے جب سپیکر قومی اسمبلی صدر صاحب اور پی پی پی کے دباؤ کے تحت سپریم کورٹ کے فیصلے کو دبا دیں گی تو دوسری طرف اس پر عمل کرنے کے لئے کارروائی شروع ہوگی۔ نتیجہ ذرا تصور کی آنکھ سے دیکھیں، منظر خوفناک لگتا ہے۔ عدالتوں، پارلیمینٹ اور بااثر محلات سے نکل کر دونوں بڑی پارٹیاں سڑکوں پر دست و گریباں ہو کر ”گھمسان کا رن“ ڈالنے والی ہیں اور اس گھمسان کے رن میں رہا سہا قانون بھی کچلا جائے گا جس سے لاقانونیت اور انارکی کا سیلاب مزید پھیلے گا۔
ملک کے جس بھی منظر پر نظر ڈالتا ہوں لاقانونیت اور انارکی کا طوفان ابھرتا نظر آتا ہے، ریاستی اور حکومتی ادارے تنزل کا شکار ہو کر گرتے نظر آتے ہیں، غریب عوام حالات کی چکی میں پستے نظر آتے ہیں، لوڈشیڈنگ ، غربت ، بیروزگاری، رشوت اور لوٹ کھسوٹ کا سلسلہ بے قابو نظر آتا ہے، بے انصافی بڑھتی نظر آتی ہے۔ آخر کب تک حالات اس نہج پر چلتے رہیں گے؟ آخر کب تک حکمران اور سیاستدان اپنے ڈھول پیٹتے رہیں گے شاید چند ماہ میں وہ لمحہ آجائے گا جب ”عزیز ہم وطنو“ مجبوری بن جائے گا اور قوم اور عدلیہ اسے مجبوری سمجھ کر قبول کرلیں گے کہ ملک بچانے کے لئے کڑوا گھونٹ پینا پڑتا ہے۔ اللہ کرے ایسا نہ ہو۔ میری یہ د عا اور تمنا ہے لیکن میں حالات کا رخ موڑنے کی صلاحیت اور اہلیت نہیں رکھتا۔ خاکم بدہن…!!
(نوٹ: دوستو! میں کچھ دنوں کے لئے بیرون ملک جارہا ہوں انشاء اللہ پھر ملاقات ہوگی)
 

ایک وضاحت جو ضروری ہے May 08, 2012


کچھ روز قبل میں نے ایک کالم لکھا تھا جس کا عنوان تھا ”زندہ کتاب کا ایک ورق“ اور اس میں کشف المحجوب کا ذکر کیا گیا تھا جو کئی صدیوں سے مسلمانوں کے دلوں کو گرما رہی ہے اور لاکھوں صاحبان حق کے باطن میں روحانیت کے چراغ جلا رہی ہے۔ غور کیجئے کہ گزشتہ آٹھ دس صدیوں میں لاتعداد کتابیں لکھی گئیں لیکن ان میں سے آج کتنی موجود ہیں، کتنی پڑھی جاتی ہیں اور حوالے بنتی ہیں اور کتنی ایسی ہیں جو صدیوں کا سفر طے کرنے کے باوجود خواص و عام کی توجہ یا عقیدت کا مرکز بنی ہیں۔ بلاشبہ لکھا ہوا لفظ ضائع نہیں جاتا لیکن کتنے الفاظ ہیں جو ذہنوں کو متاثر کرتے، فکر کی راہ متعین کرتے اور زندگی کو بدل کر رکھ دیتے ہیں۔ یونان والوں کو سقراط، ارسطو، افلاطون اور ان کی کتابوں خاص طور پر ”ریپبلک“ پر بڑا ناز ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج ان کتابوں کے فلسفے طویل سفر طے کرنے کے بعد اپنی شکل بدل چکے، سیاسی فلسفے کے میدان میں بنیادی تبدیلیاں آچکیں اور یوں یہ کتابیں محض پس منظر اور ماضی کا حوالہ بن کر رہ گئی ہیں جبکہ کشف المحجوب اور کیمیا ئے سعادت(امام غزالی) اور اس نوع کی کتابیں آج بھی اتنی ہی تازہ، برمحل اور کارآمد ہیں جتنی صدیوں قبل تھیں۔
اگر کسی شخص کا مرشد نہ ہو اور وہ اس کتاب کو خلوص نیت سے بار بار پڑھے تو یہ کتاب اس کے مرشد کا کام دے گی۔ یہ الفاظ کشف المحجوب کے بارے میں ہیں اور غور کیجئے کہ یہ الفاظ حضرت نظام الدین اولیاء  کے ہیں جنہیں ”محبوب الٰہی“ کہا جاتا ہے اور جو اولیائے کرام میں بلند رتبے پر فائز ہیں۔ گویا یہ الفاظ سند کی حیثیت رکھتے ہیں شرط جستجو کا خلوص اور استقامت ہے۔ جستجو ، خلوص اور استقامت وہ کنجیاں ہیں جن سے راہ سلوک کے قفل اور تالے کھلتے ہیں۔
میں نے اس کالم میں ذکر کیا تھا کہ جب انسان مکمل طور پر رضائے الٰہی کے تابع ہو جاتا ہے اور اپنی ذات کی نفی کر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لئے نوافل و عبادات میں مصروف رہتا ہے تو ایک وقت آتا ہے جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے کا کان، آنکھ اور ہاتھ بن جاتا ہے۔ دو دوستوں نے وضاحت چاہی ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ معاف کرے یہ قرآن مجید کا قولِ فیصل نہیں بلکہ حدیث قدسی ہے۔ حدیث قدسی اسے کہتے ہیں جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی اتری ہو لیکن الفاظ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اپنے ہوں۔ دراصل ان الفاظ میں معانی کا سمندر پنہاں ہے جنہیں مجھ جیسا گناہگار پوری طرح نہیں سمجھ سکتا کیونکہ ایسے معانی کا تعلق واردات قلبی سے ہوتا ہے۔ چنانچہ ممتاز ہستیوں کے الفاظ اور وضاحتوں کی طرف رجوع کر رہا ہوں۔ حدیث پاک ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جو شخص میرے ولی کے ساتھ عداوت رکھتا ہے میں اس کے ساتھ اعلان جنگ کرتا ہوں۔ میرا بندہ فرائض سے زیادہ اور کسی محبوب عمل کے ساتھ میرا تقریب حاصل نہیں کر سکتا، میرا بندہ نوافل پڑھ کر میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس کو محبوب سمجھتا ہوں تو میں اس کا کان ہو جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ سنتا ہے ، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ دیکھتا ہے ، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ پکڑتا ہے ، اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ چلتا ہے، اگر وہ مجھ سے سوال کرے تو اس کو دیتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے پناہ حاصل کرے تو میں اس کو دیتا ہوں“۔ (بخاری )
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی  نے اس حدیث کا یہ مطلب بیان فرمایا کہ بندہ عبادت کے ذریعے جب اللہ کا قرب حاصل کرتا ہے تو اللہ کا نور اس کو گھیر لیتا ہے پھر اسی کی برکت سے اس شخص سے ایسی چیزیں ظاہر ہوتی ہیں جو خلافِ عادت ہوتی ہیں۔ قرآن مجید میں متعدد مثالیں ملیں گی مثلاً ”اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کنکریاں تم نے نہیں، ہم نے پھینکی تھیں“ ۔ مولانا ادریس کاندھلوی فرماتے ہیں اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ بندہ کو اللہ سے قرب حاصل ہوتے ہوتے اس درجہ شدید تعلق و محبت ہو جاتی ہے گویا وہ اللہ کی آنکھ و کان اور ہاتھ سے دیکھتا، سنتا اور کرتا (معاذ اللہ اتحاد یا حلول ثابت کرنا مقصود نہیں ہے)۔ شیخ محی الدین ابن عربی  فرماتے ہیں اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ نوافل کے ذریعے سے بندے کا اللہ جل شانہ سے قرب ہو جاتا ہے پھر تمام معاملات اس پر منکشف ہونے لگتے ہیں۔ علامہ خطابی فرماتے ہیں کہ میں اس بندہ پر ان افعال و اعمال کو آسان کر دیتا ہوں جن کا تعلق ان اعضاء سے ہے اور ان اعمال و افعال کے کرنے کی توفیق دیتا ہوں یہاں تک کہ گویا اعضاء ہی بن جاتا ہوں۔ (بحوالہ روضة الصالحین جلد اول ، صفحات 298-300)
نوٹ فرما لیں کہ اللہ تعالیٰ نے دو چیزوں کے خلاف اعلان جنگ فرمایا ہے (1) سود (2) اللہ کے ولی سے عداوت۔ اس حدیث کا ذکر حضرت شیخ علی ہجویری المعروف حضرت داتا گنج بخش رحمة اللہ علیہ نے بھی کشف المحجوب میں کیا ہے۔ ملاحظہ فرمایئے ”حدیث قدسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (ترجمہ) جس چیز کو میں نے بندے پر فرض کیا ہے اس کی ادائیگی کے بغیر میرا بندہ میرا قرب حاصل نہیں کر سکتا ہاں (فرائض کی ادائیگی کے بعد) نوافل کے ذریعے وہ میرا تقرب حاصل کرتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ میں بھی اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو پھر میں ہی اس کے کان اور آنکھیں اور ہاتھ اور پاؤں اور زبان بن جاتا ہوں ۔ (ترجمہ محمد طفیل ، صفحہ 312) واضح ہوا کہ یہ الفاظ قرآن کے نہیں لیکن پیغام یا وحی اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے ہم تک پہنچی۔ جن اولیاء کرام کو اللہ تعالیٰ کا قرب اور یہ مقام حاصل ہو جاتا ہے ان کی فیوض و برکات جاری و ساری رہتی ہیں اور وہ ہستیاں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو اتنی عزیز ہوتی ہیں کہ اللہ ان سے عداوت رکھنے والوں کے خلاف اعلان جنگ کرتا ہے۔ 


برطانوی جاسوس کے چشم کشا اعترافات (آخری قسط) May 06, 2012


ہمفرے کے دلچسپ اعترافات کا ذکر کرنے سے پہلے میںآ پ کی توجہ ایک برطانوی اخبار میں چھپنے والی خبر کی جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں جو لندن سے ریاض ملک صاحب نے ارسال کی ہے۔ آج سے دس سال قبل سنڈے ٹائمز میں پانچ مئی 2002 کو خبرچھپی تھی کہ کئی درجن برطانوی مشنریوں کو خفیہ سرگرمیوں کے لئے مختلف حیلے بہانے سے مسلمان ممالک میں بھجوایا جارہا ہے۔ ان کو وہاں مختلف نوکریاں لے کردی جارہی ہیں تاکہ وہ ان کی آڑ میں خفیہ کام کرسکیں“ ظاہر ہے کہ ان لوگوں کو مسلمان ممالک میں بھجوانے سے پہلے اسلامی تعلیمات دی جاتی ہیں تاکہ وہ لوگوں میں گھل مل سکیں۔ کچھ عرصہ قبل ایک ہندوستانی خفیہ ایجنٹ نے وطن واپس پہنچ کر انکشاف کیا تھا کہ وہ پاکستان میں ایک مسجد کا امام رہا۔ آپ کو وہ پرانا واقعہ یاد ہوگا کہ گوجرانوالہ کے علاقے سے ”را“ (RAW) کا ایک ہندو ایجنٹ پکڑا گیا تھا جو کئی سا ل سے امام مسجد کے فرائض سرانجا م دے رہا تھا اور لوگوں کو مذہبی فرقہ بندی کے ذریعے بھڑکاتا تھا۔ مختصر یہ کہ مسلمان ساہ لوح لوگ ہیں اور آسانی سے فرقہ بندی کے جھانسے میں آجاتے ہیں اور یہی وہ راستہ ہے جہاں سے غیرممالک کے خفیہ ایجنٹ داخل ہو کر مسلمانوں میں منافرت پھیلاتے اور اپنا کھیل کھیلتے ہیں۔چند رو ز قبل ایک برطانوی پاکستانی بزرگ ملنے آئے۔ ان کا تعلق کتاب اور تحقیق سے ہے۔ باتوں باتوں میں انکشاف کیا کہ ایک امریکی سے ان کی دوستی ہوگئی۔ وہ اس کی پاکستان اور خاص طور پر فاٹا کے علاقے کی معلومات سے بے حد متاثر ہوئے۔ پھر راز کھلا کہ وہ صاحب اسلامی تعلیمات کے ماہر تھے اور وزیرستان کے کسی قصبے یا دیہات میں کئی برس تک امامت فرماتے اور معلومات اکٹھی کرکے سی آئی اے کو بھجواتے رہے تھے۔ اس وقت بھی پاکستان میں امریکی، برطانوی، ہندوستانی اورکئی ممالک کے جاسوسوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ میں سنڈے ٹائمز کی خبر پڑ ھ رہا تھا تو مجھے ”ہمفرے کے اعترافات“ کا ایک صفحہ یاد آگیا۔ آپ بھی پڑھئے ”میں چھٹی پر لندن گیا ہوا تھا۔ نو آبادیاتی امور کے خصوصی کمیشن کی مرضی کے مطابق وزیر نے یہ حکم دیا کہ مجھے دو اہم رازوں سے آشنا کیا جائے۔ جن سے صرف چندایک ممبران آگاہ ہیں۔ مجھے وزارت کے ایک کمرے میں لے جایا گیا جہاں لوگ گول میز کے اردگرد بیٹھے تھے۔ انہیں دیکھ کر میری چیخ نکل گئی کیونکہ اجلاس میں شریک آدمیوں کی کیفیت کچھ یوں تھی (1) ہوبہو سلطنت عثمانی کا جلالت، ترکی اور انگریزی پر مہارت (2) لباس، انداز قسطنطنیہ کے شیخ الاسلام کی سو فیصد نقل (3) دربار ایران کے شیعہ عالم کی مکمل شبیہ (4) نجف میں شیعوں کے مرجع تقلید کا بے مثل سراپا۔ آخری تین حضرات فارسی کے ماہر تھے۔ پانچوں سوانگی اپنے فرائض اور مقام و منصب سے بخوبی آشنا تھے۔ ہمفرے کو ان کا امتحان لینے کے لئے کہا گیا۔ اس نے کئی سوالات کئے۔ جوابات نہایت ماہرانہ انداز سے خالصتاً مسلمان عالموں کے لہجے میں دیئے گئے جن کی تفصیل کتاب میں موجود ہے۔
میں نے گزشتہ کالم میں ہمفرے کے شکار کا ذکر کیا تھا جسے برطانوی وزارت نے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا تھا۔ ہمفرے نے اس سے گہری دوستی قائم کرلی اور باتوں باتوں میں اسے ٹٹولنے اور اپنے جال میں پھنسانے لگا۔ ایک دن ہمفرے نے اس سے پوچھا ”عورتوں کے ساتھ متعہ جائز ہے؟“ جواب تھا ہرگز نہیں۔ پھرہمفرے نے بہت سی دلیلیں دے کر اسے خاموش کر دیا اور وقفے کے بعد پوچھا کیا تم متعہ کے ذریعے زندگی پرمسرت بنانا چاہتے ہو؟ اس نے رضا کی علامت سے سر جھکا دیا۔ ہمفرے نے اسے یقین دلایا کہ سب کچھ خفیہ رہے گا اور میں تمہارے لئے انتظام کروں گا۔ پھر ہمفرے اسے ایک بدقماش عورت کے پاس لے گیا جو برطانوی وزارت نوآبادیاتی کی طرف سے بصرہ میں عصمت فروشی کا اڈا چلاتی تھی اور مسلمان نوجوانوں کو بے راہ روی پر ابھارتی تھی۔اس کا جعلی نام صفیہ تھا۔ ہمفرے اپنے شکار کو اس کے پاس لے گیا اور ایک اشرفی مہر پر ایک ہفتے کے لئے صفیہ سے اس کا عقد کردیا۔ پھر یہ سلسلہ بڑھتا رہا۔ اپنے شکار کو صفیہ کے جال میں پھنسانے کے بعد ہمفرے نے اسے شراب پر آمادہ کرنے کے لئے تاویلیں دیں کہ صرف وہ شراب منع ہے جو نشہ آور ہو، یادِ خدا او ر نماز سے باز رکھے۔ چنانچہ شراب میں پانی ملا کر پینا جائز ہے۔ ہمفرے نے اپنی سازش سے صفیہ کو بھی آگاہ کر دیا جو اسے عملی جامہ پہنانے کے لئے بندوبست کرنے لگی۔ ہمفرے لکھتا ہے کہ اس موقعہ پر مجھے وزیر نوآبادیاتی علاقے کی بات یاد آئی جو اس نے الوداع کے وقت کہی تھی ”ہم نے اسپین کو مسلمانوں سے شراب اور جوئے کے ذریعے دوبارہ حاصل کیا۔ اب انہی دو طاقتوں کے ذریعے دوسرے علاقوں کو پامردی کے ساتھ واپس لینا ہے“
مختصر یہ کہ ہمفرے دن رات اپنے شکار کے ساتھ رہنے لگا اور مسلسل رپورٹ اپنی وزارت کو بھجواتا رہا جس کی تصدیق وزارت براہ راست صفیہ سے بھی کرتی تھی اوردوسرے ایجنٹوں کے ذریعے بھی۔ ہمفرے لکھتا ہے کہ پھرایک دن اس نے ایک جھوٹا خواب گھڑا۔ اپنے شکار کے مذہبی جذبات کو ابھارا اور اسے مذہبی فرقہ بندی پر مائل کرلیا۔ واضح رہے کہ میں نہ ہمفرے کے شکار کا انکشاف کر رہا ہوں نہ اس خواب کی تفصیلات کا اور نہ ہی اوپر بیان کئے گئے دینی امور کا میرے اعتقاد سے کوئی تعلق ہے۔ میں تو فقط دامن بچا بچا کر آپ کو یہ بتا رہا ہوں کہ ہمفرے نے اپنے نشانے پر کس طرح تیر چلائے۔
اس کے بعد ہمفرے وزارت کے حکم کے تحت کربلا اور نجف چلا گیا ’ایک بربری سوداگر کے بھیس میں نجف پہنچا اور وہاں کے شیعہ علما سے راہ و رسم بڑھانے کے لئے ان کی درسی مجلسوں اور مباحثوں میں شامل ہونے لگا۔ نجف میں وہ ایک جان لیوا بیماری میں مبتلا ہوا بالآخر تین ہفتوں بعد افاقہ ہوا تو بغداد چلا گیا۔ یہاں ہمفرے نے ان علاقوں کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ بغداد سے ہمفرے نے عراق کے بارے میں سو صفحات پر مشتمل رپورٹ بغداد میں وزارت کے نمائندے کے ذریعے بھجوائی۔ اپنے شکار سے رابطہ کیا، زکوٰة کے نام پر اسے رقم فراہم کی اور اسے ایران بھجوا دیا۔
عراق سے متعلق رپورٹ نے وزارت کے دل جیت لئے ”چنانچہ مجھے لندن بلایا گیا کہ میں وزارت کے کمیشن کے سامنے رپورٹ پیش کروں۔ وہاں پہنچا تو معلوم ہوا کہ وزارت نے کچھ افراد کو میرے پیچھے لگا رکھا تھا ان کی رپورٹوں نے میرے طرز ِ عمل اور معلومات کی تصدیق کی تھی۔ وزیر میرے شکار کے قابو آنے پر بہت خوش تھے۔
انہوں نے میرے شکار کے ساتھ عبدالکریم نامی شخص کو لگا دیا تھا جو اسے اصفہان میں ملا، گہری دوستی گانٹھ لی وغیرہ وغیرہ۔ ہمفرے لکھتا ہے کہ جب وہ چھٹی پر لندن گیا تو وزارت کی جانب سے اسے ایک کتاب پڑھنے کے لئے دی گئی جو مسلمانوں کی پسماندگی پر سیرحاصل بحث کرتی تھی۔ چند ایک بڑی کمزوریوں کا ذکر یوں تھا (1) شیعہ سنی اختلافات (2) حکمرانوں کے ساتھ قوموں کے اختلافات (3) قبائلی اختلافات (4) علماء اور حکمرانوں کے درمیان غلط فہمیاں (5) جہالت اور نادانی کی فراوانی (6) فکری جمود اور تعصب اور محنت سے جی چرانا (7) مادی زندگی سے بے توجہی اور جنت کے خواب (8) حکمرانوں کے مظالم (9)امن وامان، سڑکوں، علاج معالجے وغیرہ کا فقدان (10) حکومتی دفاتر میں بد انتظامی، قاعدے قانون کا فقدان (11) اسلحہ دفاعی سامان کی کمی (12) عورتوں کی تحقیر (13) گندگی کے انبار اشیائے فروخت کے بے ہنگم ڈھیر۔ مسلمانوں کے ان کمزور پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کے بعد لکھا گیا تھا کہ مسلمانوں کا طرز ِ زندگی شریعت اور اسلامی قوانین سے رتی برابر بھی میل نہیں کھاتا۔ مسلمانوں کو اسلام کی روح سے بے خبر رکھا جائے وغیرہ وغیرہ
ذرا غور کیجئے کہ جن کمزوریوں اور تلخ حقائق کا ذکر تین صدیاں قبل کیا گیا تھا کیا وہ آج بھی بدستور موجود نہیں؟ ان تین صدیوں میں دنیا ترقی کرتے کرتے کہاں پہنچ گئی لیکن مسلمان اسی طرح مذہبی نفرتوں، تشدد، جہالت، غربت ، پسماندگی وغیرہ کے شکار ہیں۔ میرے دوست الفت صاحب کا خیال ہے کہ یہ کتاب مصدقہ نہیں جبکہ لندن کے دو سکالر اس کے مصدقہ ہونے کی تصدیق کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ کتاب گوگل پر Confessions of british spy Humphray کے حوالے سے پڑھی جاسکتی ہے۔حقیقت کیا ہے؟ مجھے معلوم نہیں لیکن میں اتنا جانتا ہوں کہ جس طرح اس دور میں برطانوی استعمار نے مڈل ایسٹ میں مذہبی فرقہ بندی کی حکمت عملی بنائی اسی طرح انگریزوں نے 1857 کے بعد ہندوستان کے مسلمانوں میں بھی اپنی آزمودہ حکمت عملی پر عمل کیا اور ہاں میں یہ بھی جانتا ہوں کہ مسلمانوں کی کمزوریوں کا صحیح ادراک کیا گیا ہے اور یہ کہ مسلمانو ں کا اصلی دشمن مذہبی فرقہ واریت، انتہاپسندی، جہالت، جمود اور قرآن و شریعت سے دوری ہے اسلئے اگر کوئی شخص شیعہ سنی اختلافات کی آگ بھڑکانے یا مذہبی تفرقات کے ذریعے مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کی کوشش کرے تو سمجھ لیں کہ یا تو وہ کسی استعماری قوت کا ایجنٹ ہے یا پھر مسلمانوں کا دشمن!! ہمفرے ٹھیک کہتا ہے کہ جس روز مسلمانوں نے قرآن و شریعت کی روح کو اپنا لیا وہ دوبارہ دنیا پر چھا جائیں گے۔


ایک جاسوس کے چشم کشا اعترافات (2) May 04, 2012


ہمفرے نے اپنی کتاب ”ہمفرے کے اعترافات“ میں لکھا ہے کہ وہ جب استنبول کے ممتاز سکالر شیخ احمد آفندی سے وزارتِ قرآن کی تجوید اور تفسیر سیکھنے میں مصروف تھا تو روزی کمانے کا بھرم قائم رکھنے کے لئے نصف دن خالد بڑھئی کی دکان پر کام کرتا تھا۔ جہاں سے اسے حقیر سی رقم مل جاتی تھی۔ خالد بڑھئی اچھے کردار کا حامل نہ تھا۔ خالد نے اسے ایک بداخلاقی پر مجبور کیا۔ ہمفرے ہر ماہ رپورٹ برطانوی حکومت کو بھجواتا تھا۔ ایک رپورٹ میں اس نے خالد کی بدکرداری کا ذکر کیا تو اسے نوآبادیاتی وزارت کی طرف سے حکم ملا کہ وطن کی خدمت کے لئے ہر قسم کا کام کر گزرو۔ مطلب یہ کہ جاسوسی کی دنیا میں اخلاقیات نامی کوئی شے نہیں ہوتی اور اس میدان میں مقصد کے حصول کے لئے ہر قسم کے ہتھکنڈے جائز سمجھے جاتے ہیں۔ اس حکمت عملی نے برطانوی انٹیلی جنس کو کس طرح اپنے مقاصد میں کامیاب کیا، اس کا ذکر بعد میں آئے گا۔
دو سال کے دوران قرآن، تفسیر، حدیث اور تجوید پر عبور حاصل کرنے کے بعد جب وہ لندن پہنچا اور وزارت نوآبادیاتی علاقے کو رپورٹ دی تو اسے پتہ چلا کہ اس کے باقی جن نو ساتھیوں کو لندن بلایا گیا تھا ان میں صرف پانچ واپس لوٹے تھے۔ غائب شدگان میں ایک نے مصر میں شادی کرکے وہیں رہائش اختیار کرلی تھی لیکن وزارت کا سیکرٹری خوش تھا کہ اس نے راز فاش نہیں کئے۔ دوسرا جاسوس روسی نژاد تھا۔ وہ روس پہنچا تو وہیں بودوباش اختیار کرلی۔ تیسرا بغداد کے ہیضے میں مر گیا۔ چوتھا صنعا میں کہیں گم ہو گیا۔ وزارت برائے نوآبادیاتی علاقے نے جاسوسی کا وسیع جال بچھا رکھا تھا۔ اس جاسوسی کے جال کے تحت نہ صرف اپنے جاسوسوں کی نگرانی کی جاتی تھی اور ان کی کارکردگی کی جانچ پڑتال کی جاتی تھی بلکہ ان کی بھیجی گئی رپورٹوں کی خفیہ تصدیق بھی کی جاتی تھی۔ اس ساری واردات کو جاسوس سے پوری طرح اوجھل رکھا جاتا تھا۔
لندن میں جب ہمفرے اپنی وزارت کے سیکرٹری سے ملا تو ہمفرے کے الفاظ میں ”سیکرٹری نے میری آخری رپورٹ کے اہم حصوں کے مطالعے کے بعد مجھے کانفرنس میں شرکت کی ہدایت دی جس میں لندن میں بلائے گئے پانچوں جاسوسوں کی رپورٹیں سنی جانا تھیں۔ یہ کانفرنس وزیرخارجہ کی صدارت میں ہوئی اور اس میں میرے ساتھیوں کی رپورٹوں کے اہم حصوں کو پڑھ کر سنایا گیا۔ میری رپورٹ کو بہت سراہا گیا تاہم ان پانچ میں کارکردگی کے حوالے سے مجھے نمبر تین پوزیشن پر رکھا گیا اور جی بلگوڈ کو نمبر ون اور ہنری فانس کو نمبر دو قرار دیا گیا۔ میں نے ترکی عربی تجوید قرآن اور اسلامی شریعت میں سب سے زیادہ دسترس حاصل کی تھی لیکن عثمانی حکومت (سلطنت عثمانیہ ترکی) کے زوال کے سلسلے میں میری رپورٹ اعلیٰ درجے کی نہیں تھی۔ سیکرٹری نے کانفرنس کے اختتام پر میری کمزوری کا ذکر کیا اور کہا کہ آئندہ دو باتوں کا خیال رکھنااول مسلمانوں کی ان کمزوریوں کی نشاندہی کرو جو ہمیں ان تک پہنچنے اور ان کے مختلف گروہوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے میں کامیابی فراہم کریں۔ دوم تمہارادوسرا کام ان میں پھوٹ ڈالنا ہے۔ اس کام میں پوری قوت صرف کرنے کے بعد تمہیں اطمینان ہوجاناچاہئے کہ تمہارا شمار صف اول کے انگریز جاسوسوں میں ہونے لگا ہے اور تم اعزازی نشان کے حقدار ہوگئے ہو۔“ چھ ماہ لندن میں گزارنے اور شادی کے بعد جب ہمفرے کو نئے مہمان یعنی بچی بچے کا انتظار تھاتو اسے فوری طور پر عراق پہنچنے کاحکم ملا جو اس وقت خلافت ِ عثمانیہ کا حصہ تھا۔ کئی ماہ سمندروں میں دھکے کھانے اور گزارنے کے بعد ہمفرے بصرہ پہنچا۔ ہمفرے لکھتاہے: ”بصرہ میں عیسائیوں کی تعداد کم تھی۔ زندگی میں پہلا موقع تھاکہ میں اہل تشیع اور ایرانیوں سے مل رہا تھا… شیعہ سنی اختلافات کا ناقابل فہم پہلو ان کا مسلسل جاری رہنا ہے۔ اگرمسلمان حقیقتاً عقل سے کام لیتے تو تاریخ اور گزشتہ زمانے کی بجائے آج کے بارے میں سوچتے۔ ایک دفعہ میں نے شیعہ سنی اختلافات کے موضوع کو نوآبادیاتی علاقوں کی وزارت کے سامنے پیش کرتے ہوئے کہا ”مسلمان اگر زندگی کاصحیح مفہوم سمجھتے تو اختلافات کو چھوڑ کر وحدت و اتحاد کی بات کرتے“ اچانک صدر کانفرنس نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا ”تمہارا کام مسلمانوں کے درمیان اختلاف کی آگ بھڑکانا ہے نہ کہ اتحاد کی دعوت دینا“
”عراق جانے سے پہلے سیکرٹری نے اپنی ایک نشست میں مجھ سے کہا ”ہمفرے! تم جانتے ہو کہ جنگ اور جھگڑے انسان کے لئے ایک فطری امر ہیں۔ جب سے خدا نے آدم کو خلق کیا اور ہابیل اورقابیل پیدا ہوئے اختلاف نے سر اٹھایا اور اب اس کو حضرت عیسیٰ  کی بازگشت تک اسی طرح جاری رہنا ہے۔ ہم انسانی اختلافات کو پانچ موضوعات پرتقسیم کرتے ہیں۔ (۱) نسلی اختلافات (۲) قبائلی اختلافا ت (۳) ارضی اختلافات (۴) قومی اختلافات (۵) مذہبی ختلافات۔ اس سفر میں تمہارا اہم ترین مشن مسلمانوں کے درمیان اختلافات کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنا اور انہیں ہوا دینے کے طریقوں کو سیکھنا ہے۔ اس سلسلے میں جتنی بھی معلومات مہیا ہوسکیں انہیں لندن پہنچانا ہے۔ اگر تم اسلامی ممالک کے بعض حصوں میں شیعہ سنی فساد برپا کرسکو توگویا تم نے حکومت ِ برطانیہ کی عظیم خدمت کی۔ جب تک ہم نوآبادیاتی علاقوں (کالونیز) میں تفرقہ او ر اختلافات کی آگ کو ہوا نہیں دیں گے ہم عثمانی سلطنت کو شکست نہیں دے سکتے۔ اتنے بڑے علاقے پر انگریزوں کی مختصر سی قوم سوائے اس ہتھکنڈے کے اور کس طرح چھا سکتی ہے؟“
”بصرہ پہنچ کر میں ایک مسجد میں داخل ہوا جس کے پیش امام مشہور عالم شیخ عمر طائی تھے۔ میں نے ادب سے سلام کیا اور پوچھنے پر بتایا کہ میں ترکی کا رہنے والا ہوں اور مجھے قسطنطینہ کے شیخ احمد آفندی کی شاگردی کا شرف حاصل ہے۔ میں نے وہاں خالد بڑھئی کے ساتھ بھی کام کیا ہے۔ مسجد میں چند دن گزارنے کے بعد میں نے دو تین مسافر خانے بدلے اوربالٓاخر ایک ترکھان کی دکان پراس شرط میں نوکری کرلی کہ وہ مجھے رہنے سہنے کی سہولت بھی دے گا۔ ترکھان عبدالرضا شریف انسان تھا اور مجھ سے بیٹوں جیسا سلوک کرتاتھا۔ وہ خراسانی شیعہ تھا چنانچہ میں نے موقع غنیمت جانتے ہوئے اس سے فارسی سیکھنا شروع کی۔ ترکھان کی دکان پر میری ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوئی جو وہاں اکثر آتا جاتا رہتا تھا اورترکی، فارسی اور عربی میں گفتگو کرتا تھا۔ وہ دینی طالب علمو ں کا لباس پہنتا تھا اور جاہ طلب انسان تھا۔ اسے عثمانی حکومت سے نفرت تھی لیکن حکومت ایران سے اس کاکوئی سروکار نہیں تھا۔ سنی ہونے کے باوجود اس کی شیعہ ترکھان سے دوستی تھی۔ بہرحال وہ آزاد خیال انسان تھا اور کہا کرتا تھاکہ حنفی، شافعی، حنبلی اور مالکی مکاتب فکر میں سے کسی کسی بھی اہمیت نہیں کیونکہ خدا نے جو کچھ قرآن میں کہہ دیا ہے بس وہی ہمارے لئے کافی ہے۔ اس کا قرآن و حدیث کا مطالعہ بہت اچھا تھا۔ وہ بات بات پر کہتا کہ پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صرف کتاب اور سنت کو ناقابل تغیر اصول بنا کر ہمارے لئے پیش کیا ۔پس ہم پر واجب کہ ہم صرف کتاب و سنت کی پیروی کریں۔ اس کی اکثر مذہبی حوالے سے دوسروں سے جھڑپیں ہوتی رہتی تھیں اور مجھے اس کی گفتگو میں بڑا مزا آتا تھا۔ میں نے اس سے دوستی قائم کرلی۔ میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ یہ شخص برطانوی حکومت کے مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کے لئے بہت موزوں ہے۔ اس کی اونچا اڑنے کی خواہش ، جاہ طلبی، علما و مشائخ سے دشمنی اور خودسری سے فائدہ اٹھایا جاسکتا تھا۔ میں نے اس سے گہرے تعلقات قائم کرلئے اور بار باراس کے کانوں میں یہ رس گھولتا رہتا کہ اللہ نے تمہیں بڑی فضیلت اور بزرگی بخشی ہے۔ میں چاہتا ہوں اسلام میں جس انقلاب کو رونما ہونا ہے وہ تمہارے ہی مبارک ہاتھوں سے انجام پذیر ہو۔ تم ہی وہ شخصیت ہو جو اسلام کو زوال سے بچا سکتے ہو۔“
ہمفرے نے اس شخص کو مذہبی تاویلوں کے ذریعے کس طرح اپنے جال میں پھنسایا، اسے خفیہ جنسی لذت اور شراب کا عادی بنایا اور مسلمانوں میں تفرقے کے لئے استعمال کیا۔ یہ ایک چشم کشا اور ہوشربا داستان ہے جس کے لئے اگلی قسط کا انتظار کریں۔ میں اپنے بیان میں حد درجہ محتاط ہوں، قابل اعتراض حصے حذف کر رہا ہوں اور آپ کو ہمفرے کے شکار کا نام ہرگز نہیں بتاؤں گا کیونکہ مجھے وقت سے پہلے مرنے کاشوق نہیں (جاری ہے) 
 

ایک جاسوس کی چشم کشا سرگزشت May 01, 2012


ڈاکٹر جاوید رضوی نے انگلستان سے مجھے ایک کتاب بھجوائی جسے میں نے اپنے سائیڈ ٹیبل پر اس نیت سے رکھ دیا کہ جب اس کی باری آئے گی تو پڑھوں گا۔ ڈاکٹر صاحب کا فون آیا تو انہوں نے اس کتاب کے مطالعے کا شوق پیدا کر دیا۔ کتاب پڑھنی شروع کی تو اتنی دلچسپ کہ میں اس میں گم ہو گیا۔ میں چونکہ بنیادی طور پر تاریخ کا طالب علم ہوں اس لئے اس کتاب کے مطالعے نے مجھے تھوڑا سا حیران کر دیا۔ حیرانی کے اس عالم میں میں نے اس کتاب میں بیان کئے گئے واقعات کی تصدیق دوسرے مواد سے کی تو راز کھلا کہ اس میں بیان کئے گئے واقعات و حالات کافی حد تک درست ہیں۔
یہ کتاب ایک برطانوی جاسوس ہمفرے کی ڈائری ہے جس میں اس نے نہ صرف اپنی سرگرمیوں پر روشنی ڈالی ہے بلکہ برطانیہ کے وزارت نو آبادیات کے منشور، مقاصد اور منصوبوں کو بھی بے نقاب کیا ہے۔ آج کا برطانیہ وہ نہیں جو تین صدیاں قبل تھا کیونکہ اس وقت برطانیہ ایک عالمی قوت تھا جو مختلف ممالک کو سازشوں، جوڑ توڑ، معاشرتی نفاق، رشوت اور عسکری قوت کے بل پر اپنی کالونی یعنی غلام بنا رہا تھا اور ان ممالک کے وسائل پر قابض ہو کر اپنی معاشی ترقی کی راہیں تراش رہا تھا۔ اگرچہ یہ کتاب تین صدیاں پرانی داستان بے نقاب کرتی ہے لیکن اس میں بیان کی گئی بنیادی سچائیاں، خاص طور پر مسلمان معاشرے کی کمزوریاں، مذہبی نفاق، فرقہ بندی، ترقی کی خواہش اور حکمت عملی کا فقدان، غلط عقائد کی پیدا کردہ بے عملی اور بدعملی، جہالت کے سبب پسماندگی وغیرہ وغیرہ آج بھی اسی طرح موجود ہیں جس طرح تین چار صدیاں قبل موجود تھیں۔ نتیجے کے طور پر مسلمان معاشرہ جو پچاس سے زیادہ ملکوں پر محیط ہے تین صدیاں گزرنے کے باوجود تقریباً وہیں کھڑا ہے اور ہر دن سائنسی، تکنیکی ، علمی اور معاشی ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ رہا ہے۔ سنگا پور، کوریا، جاپان، چین جیسے ممالک جو چند صدیاں قبل قابل توجہ بھی نہیں سمجھے جاتے تھے آج ترقی کی دوڑ میں تیزی سے منزلیں طے کر رہے ہیں اسلامی دنیا کے پچاس سے زیادہ ممالک میں سے فقط آپ دو مثالوں کا ذکر کرتے ہیں جو ملائشیا اور انڈونیشیا اور تھوڑی حد تک یو اے ای تک محدود ہیں۔ اسلامی دنیا میں سائنس، تعلیم، مالیات کے میدانوں میں آگے بڑھنے کی سب سے بڑی صلاحیت اور وسائل پاکستان کے پاس تھے لیکن گزشتہ تیس چالیس برسوں میں ساری امیدیں خاک میں مل گئیں۔ یہ اسلامی تاریخ کا ایک بڑا سانحہ ہے کہ ہندوستان نے سیاسی حکمت عملی اور عسکری قوت کی بنا پر پاکستان کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا لیکن یہ سانحہ بھی کسی سانحے سے کم نہیں کہ پاکستان ٹوٹنے کے باوجود تمام تر انسانی اور قدرتی وسائل کے باوجود ترقی نہ کر سکا۔ بلاشبہ پاکستان ایٹمی قوت بن گیا لیکن سیاسی، معاشی، تعلیمی اور سائینسی قوت نہ بن سکا حالانکہ یہ منزلیں طے کرنے کے لئے پاکستان کے پاس وسائل موجود تھے۔ اب تو خیر عالمی سطح پر ترقی کا ذکر ہی کیا پاکستان کو سیاسی عدم استحکام، لوڈ شیڈنگ، مذہبی تشدد اور معاشی پسماندگی کے ”لالے پڑے“ ہوئے ہیں اور یہ سب کچھ ہماری بے بصیرت حکمت عملی، کرپشن اور سیاسی قیادت کی نااہلی کا کیا دھرا ہے۔ دو دہائیاں قبل اور اس سے قبل پاکستان ٹیکسٹائل کے میدان میں عالمی سطح پر ممتاز مقام رکھتا تھا لیکن آج صورت یہ ہے کہ ہماری چالیس فیصد ٹیکسٹائل بنگلہ دیش اور بہت سی تھائی لینڈ سپین اور یو اے ای منتقل ہو چکی ہے۔ یہ معاشی خود کشی نہیں تو اور کیا ہے؟
ہاں تو میں انگلستان کے جاسوس ہمفرے کی ڈائری کا ذکر کر رہا تھا جسے انگلستان کی وزارت برائے نوآبادیاتی علاقوں نے 1710 میں مصر، عراق، ایران، حجاز اور عثمانی خلافت میں جاسوسی پر مامور کیا اور جو اپنے ملک کی خدمت اور برطانوی استعمار کو ترقی دینے کے خواب آنکھوں میں سجا کر اپنا گھر بار چھوڑ کر ایک خطرناک سفر پر روانہ ہو گیا۔ اس کے اپنے الفاظ کے مطابق ”مجھے ان علاقوں میں وہ راہیں تلاش کرنی تھیں جن سے مسلمانوں کو درہم برہم کر کے مسلم ممالک میں سامراجی نظام رائج کیا جا سکے۔ میرے ساتھ نوآبادیاتی علاقوں کی وزارت کے نو اور بہترین تجربہ کار جاسوس اسلامی ممالک میں اس کام پر مامور تھے اور بڑی تندہی سے انگریز سامراج کے اثر ونفوذ اور استحکام کیلئے سرگرم عمل تھے۔ ان وفود کو وافر سرمایہ فراہم کیا گیا تھا۔ یہ حضرات مرتب شدہ نقشوں اور تازہ اطلاعات سے بہرہ مند تھے۔ ان کو امراء، وزراء، حکومتی اعلیٰ عہدیداروں، علماء اور روساء کے ناموں کی مکمل فہرست دی گئی تھی۔ میرے ذمے دو اہم کام تھے۔ اول ترکی زبانی پر عبور حاصل کرنا اور اس کے بعد عربی زبان، قرآن اس کی تفسیر اور پھر فارسی سیکھنا اور مہارت کے اعتبار سے اس پر پوری دسترس حاصل کرنا تاکہ مجھ میں اور وہاں کے لوگوں میں کوئی فرق محسوس نہ ہو۔ ہمفرے تھکا دینے والے سفر کے بعد استنبول (قسطنطنیہ) پہنچا، بحری جہاز سے اترنے سے پہلے اپنا نام محمد رکھا اور شہر کی جامع مسجد میں داخل ہو گیا۔ پھر اس نے شہر کے ایک نیک اور بزرگ عالم احمد آفندی سے تعلقات استوار کئے۔ ”احمد آفندی دن رات عبادت میں مشغول رہتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو اپنی زندگی کا مطمع نظر بنائے ہوئے تھا۔ اسے جب معلوم ہوا کہ میں غریب الوطن اور یتیم ہوں اور عثمانی سلطنت کیلئے کام کر رہا ہوں جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی جانشین ہے تو وہ مجھ پر مہربان ہو گیا۔“ شیخ سے ہمفرے نے جس طرح عربی، قرآن، تفسیر اور تجدید پڑھی، اس میں دو برس لگ گئے کس طرح ہمفرے راتیں مسجد میں سو کر گزارتا تھا اور مسجد کے خادم کو کچھ رقم دے کر راضی رکھتا تھا یہ تفصیلات خاصی دلچسپ ہیں۔ شیخ کو جب معلوم ہوا ہمفرے غیر شادی شدہ ہے تو اس نے اسے شادی کا مشورہ دیا اور اس مقصد کے لئے اپنی ہی بیٹی کا انتخاب کیا لیکن ہمفرے نے نہایت مودبانہ انداز سے اپنے آپ کو شادی کے ناقابل ظاہر کر کے خود کو شادی اور شیخ کی ناراضگی سے محفوظ کر لیا۔ استنبول میں دو سال قیام کے دوران ہمفرے ہر ماہ رپورٹ بھجواتا رہا۔ پھر اس کی وزارت نے اسے واپس بلا لیا تاکہ وہ کچھ دن اپنے خاندان کے ساتھ گزارے، وزارت کو زبانی بریفنگ دے اور مزید تربیت لے کر کسی اور مسلم ملک میں فرائض کی سرانجام دہی کے لئے بھیج دیا جائے۔ لندن میں ہمفرے نے اپنی وزارت کو تفصیلی رپورٹ دی، وزیر اس کی ترکی، عربی، تجوید قرآن اور اسلامی شریعت پر دسترس سے بہت خوش تھا۔ چنانچہ اس نے کہا ”آئندہ کے لئے تمہیں دو اہم باتوں کا خیال رکھنا ہے۔ (1) مسلمانوں کی ان کمزوریوں کی نشاندہی کرو جو ہمیں ان تک پہنچنے اور ان کے مختلف گروہوں میں پھوٹ ڈالنے میں مددگار ثابت ہوں (2) کمزوریاں جان لینے کے بعد تمہارا کام ان میں پھوٹ ڈالنا ہے۔ چھ ماہ لندن میں گزارنے کے بعد ہمفرے کی منزل بصرہ تھی۔“ صرف اتنا ذہن میں رکھیں جو کام سترہویں اٹھارویں اور انیسیویں صدی میں انگلستان کر رہا تھا وہی کام گزشتہ ایک صدی سے دوسری بڑی قوت کر رہی ہے۔ مقاصد اور حکمت عملی وہی ہے البتہ انداز اور طریقہ واردات جدید سوچ، ماڈرن ایجوکیشن اور ٹیکنالوجی میں ڈھل گئے ہیں۔ (جاری ہے)


اور کیا کہوں؟ April 29, 2012


میں بھی آپ کی مانند پاکستان کے آئین کا چھوٹا سا طالب علم ہوں لیکن میں وزیر اعظم کی سزا اور ڈس کوالیفیکیشن کے حوالے سے قانونی موشگافیوں میں الجھ کر اپنی رائے کا اظہار نہیں کرنا چاہتا کیونکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد آئینی تشریحات اور توضیحات کا ”ہڑ“ یا سیلاب آ گیا ہے اور ماشاء اللہ قوم کی مانند یہاں بھی بے پناہ نفاق اور اختلاف پایا جاتا ہے۔ جتنے منہ اتنی باتوں کے مصداق ہر کوئی اپنی اپنی توضیح پیش کر رہا ہے اور صرف اپنی ہی رائے کو معتبر اور حرف ِ آخر سمجھتا ہے۔ ٹیلی ویژن چینلوں پر بھی آئینی توضیحات اور تشریحات کا میلہ سجا ہے اور بیچاری نیم خواندہ قوم پریشان ہے کہ آخر آئین کی ایک شق پر اتنا اختلاف کیوں پایا جاتا ہے۔ شاید اس کا ایک سبب یہ ہے کہ ہم مزاجاً رنگ برنگی تشریحات اور ”نقطہ انگیزی“ کے عادی ہیں اور ہماری اس عادت نے کم از کم مذہبی میدان میں بے حد فساد پیدا کیا ہے۔ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ ہر فرقہ اور ہر مذہبی گروہ قرآن حکیم سے اپنی حقانیت ثابت کرتا ہے۔ بہرحال قابل فہم بات فقط اتنی سی ہے کہ جب ہمارے ہاں آئینی توضیحات کے حوالے سے اس قدر اختلاف پایا جاتا ہے تو ہمیں “آخری رہنمائی “ کے لئے سپریم کورٹ سے رجوع کرنا چاہئے کہ آئین کے مطابق آئین کی تشریح و توضیح سپریم کورٹ کا دائرہ کار ہے۔ پھر سپریم کورٹ ہی سے پوچھا جائے کہ حضور بتایئے آئندہ لائحہ عمل کیا ہو گا؟ اگر سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں اس حوالے سے راہنمائی نہ ہو تو پھر الیکشن کمیشن کا فرض ہے کہ وہ سپریم کورٹ سے راہنمائی لے اور قوم کو تشریحات و توضیحات کے طوفان سے بچائے۔
کامن سینس کی بات ہے کہ وزیر اعظم صاحب کا اقتدار اس لئے خطرے میں ہے کہ اُن کی اسمبلی رکنیت خطرے میں ہے اور سزا کے بعد ان کی رکنیت مشکوک ہو گئی ہے۔ کچھ ایسا ہی مخمصہ اس وقت پیش آیا جب اسمبلیوں میں جعلی ڈگریوں والے اراکین دریافت ہوئے۔ اس وقت ہمارے قانون دانوں اور قانون سازوں نے آئینی موشگافیوں میں پھنسنے کی بجائے مقدمات الیکشن کمیشن کو بھجوا دیئے جس نے انہیں رکنیت سے محروم کر دیا۔ وزیر اعظم بھی اسی طرح قومی اسمبلی کے رکن ہیں اور انہیں توہین عدالت میں سزا ہو چکی ہے تو پھر روایت کے مطابق ان کا معاملہ بھی الیکشن کمیشن کے پاس جانا چاہئے۔
قانونی تشریحات اپنی جگہ لیکن آپ دنیا بھر کے قدرے مضبوط جمہوری ممالک پر نظر ڈالئے تو آپ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ ان ممالک میں آئینی موشگافیوں کی بجائے اخلاقی قدروں پر عمل کیا گیا جس سے جمہوری نظام مضبوط ہوا۔ اگر آپ جمہوریت کی روح کا تجزیہ کریں تو اس کی روح جس قدر آئینی ہے اسی قدر اخلاقی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جمہوری ممالک میں جس عوامی عہدیدار پر کوئی الزام لگتا ہے وہ فوری طور پر مستعفی ہو جاتا ہے۔ ہندوستان کی خاتون صدر اپنے عہدے سے ریٹائرمنٹ کے بعد سرکاری رہائش گاہ کی مستحق ہیں لیکن انہوں نے اخلاقی قوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ چونکہ ان سے بے ضابطگی ہوئی اس لئے وہ سرکاری گھر نہیں لیں گی۔ اس رویے سے ایک احتسابی روایت نے جنم لیا جس سے جمہوری قدریں مضبوط ہوئیں۔ ہمارا وزیر اعظم سزا پانے کے بعد عوامی عہدے کا اخلاقی جواز کھو چکا ہے لیکن وہ بضد ہے کہ اسے مسلم لیگ (ن) عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے محروم کرے۔ وزیر اعظم صاحب کا فرمان ہے کہ وہ صرف پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ ہیں مطلب یہ کہ سپریم کورٹ کی سزا اور اخلاقیات جائے بھاڑ میں۔ ظاہر ہے کہ اخلاقی قدروں کی مضبوطی کے لئے ایثار کرنا پڑتا ہے جبکہ ہمارے وزیر اعظم صاحب ہر قیمت پر اقتدار سے چمٹے رہنا چاہتے ہیں اور اس حکمت عملی میں انہیں اپنے سیاسی حلیفوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ گویا حکومت اقتدار کے بل بوتے پر سپریم کورٹ سے تصادم کی فضا پیدا کر رہی ہے اور تصادم کی آگ بھڑکانے میں ان کے حلیف بھی شامل ہیں۔ اس سوچ کو علم سیاست کے ماہرین پارلیمانی ڈکیٹر شپ کا نام دیتے ہیں جس پر سینکڑوں کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ محققین کی رائے یہ بھی ہے کہ عام طور پر یہی پارلیمانی ڈکیٹر شپ اصلی ڈکٹیٹر شپ کے لئے راہ ہموار کرتی ہے۔ حکمران زبانی دعوے کرتے ہیں کہ وہ عدلیہ کا دل سے احترام کرتے ہیں لیکن انہوں نے عدلیہ کے فیصلے کو ہوا میں اڑا کر ثابت کر دیا ہے کہ یہ محض بیان بازی ہے۔ حکمران دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ آئین کا احترام کرتے ہیں اور آئین یہ کہتا ہے کہ سزایافتہ اسمبلی کا رکن نہیں رہتا۔ گویا عملی طور پر آئین کے احترام کا دعویٰ بھی فقط بیان بازی اور نظر کا دھوکہ ہے۔ حکمران اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ یوں اقتدار سے چمٹے رہنا ملکی مفاد میں نہیں کیونکہ جب آئینی حوالے سے مشکوک حکومت اقتدار پر قابض رہے تو اس سے نظام کمزور ہوتا ہے، ملک تعطل کا شکار ہو جاتا ہے، انتظامیہ اہم فیصلے پس پشت ڈال دیتی ہے، بین الاقوامی برادری ہاتھ کھینچ لیتی ہے اور حکومتی فیصلوں کو آئینی بنیادوں پر چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ خود سوچئے سزا یافتہ وزیر اعظم کے فیصلوں کی حیثیت کیا ہو گی؟ کیا اسے انتظامیہ سنجیدگی سے لے گی؟
سچی بات یہ ہے کہ میں پیپلز پارٹی کی قوت کا قائل ہوں اور یہ بھی جانتا ہوں کہ پی پی پی ایک سوچ اور رویے کا نام ہے اور اس سوچ میں مخالف یا اختلاف کرنے والے کا کوئی مقام نہیں ہوتا کیونکہ پی پی پی صرف اپنے آپ کو ”سچا“ سمجھتی ہے۔ اس سوچ پر کسی اختلافی رائے کا کوئی اثر نہیں ہوتا اور اسی سوچ اور رویے کی مدد سے زرداری صاحب ایوان صدر میں پہنچے ہیں اور گیلانی صاحب کرپشن کے ہزار الزامات کے باوجود جیالوں کی نظر میں ”پوتر“ ہیں۔ یہ سوچ ہر قیمت پر اقتدار پر قابض رہنا چاہتی ہے اور اگر اقتدار نہ رہے تو ملکی و قومی مفاد کو بھی داؤ پر لگا دیتی ہے۔ اس سوچ کے بیج 1970ء میں بوئے گئے تھے چنانچہ 1970-71میں پیپلز پارٹی نے اقتدار حاصل کرنے کے لئے ملکی اتحاد کو قربان کر دیا تھا اور اکثریتی وزیر اعظم شیخ مجیب الرحمن کو اقتدار منتقل کرنے کے راستے میں دیوار بن گئی تھی۔
1971ء کی اسمبلی کے اجلاس میں جانے والوں کی ٹانگیں توڑنے کا اعلان اور ادھر ہم اُدھر تم کا نعرہ اسی سوچ کی علامتیں تھیں۔ اگر غلام اسحاق خان کو 58(2)B اور فوج کی حمایت حاصل نہ ہوتی تو پی پی پی دونوں دفعہ اقتدار چھوڑنے سے انکار کر دیتی کیونکہ اسے قومی اسمبلی میں اکثریت کی حمایت حاصل تھی اس لئے جب سپریم کورٹ میں توہین عدالت کا مقدمہ چل رہا تھا تو میں نے دوبار لکھا کہ سزا ہونے کی صورت میں وزیر اعظم اقتدار نہیں چھوڑیں گے لیکن اگر عدالت نے ایسا حکم نامہ جاری کر دیا تو صدر صاحب ایک اور قربانی کا بکرا لائیں گے جو گیلانی صاحب کے نقش قدم پر چلے گا کیونکہ تصادم اور عوامی قوت کے نام پر دوسروں کو نیچا دکھانا پی پی پی کا مزاج ہے اور اس میدان میں صدر صاحب انشاء اللہ آخری حد تک جائیں گے اسی لئے میں کہتا رہا ہوں کہ پی پی پی کی ساری سیاست دو ”میموں“ پر کھڑی ہے اوّل ’م‘ مزاحمت اور دوسرا ’م‘ مظلومیت ۔
پی پی پی کی کامیابی کا راز اس حکمت عملی میں ہے کہ وہ جب اقتدار میں ہو تو ”مال غنیمت“ میں سارے کارکنوں کو شامل کرتی ہے اور مخالفین کے وجود کو بھی تسلیم کرنے سے انکار کر دیتی ہے۔
اب تو ماشاء اللہ پی پی پی کو ایک ایسا قائد مل گیا ہے جو بچپن ہی سے قبضے جمانے کا فن جانتا ہے۔ جس بے نظیر کے ذریعے وہ اقتدار کی سیڑھیاں چڑھے اس سے ان کی محبت اور سلوک پر تو محترمہ کی امریکی سہیلی ڈیفنی اپنے مشاہدات پر مشتمل کتاب لکھ چکی ہے اور آپ اس کی جھلک عظیم میاں کے ذریعے دیکھ چکے ہیں لیکن میں ان کے بچپن کے شوق کا ذکر کر رہا تھا۔ کیڈٹ کالج پیٹرو (Petaro) ایک ممتاز تعلیمی ادارہ ہے جو اپنے فوجی انداز کے نظم و ضبط کی شہرت رکھتا ہے۔
اپریل 1972 میں اس کالج کے چند طلبہ نے ایک منظم سازش کے ذریعے کالج پر قبضہ کر لیا، کالج کے پرنسپل، وائس پرنسپل، برسر (خزانچی) ، آفس سپرنٹنڈنٹ، چیف اکاؤنٹینٹ اور ٹیلی فون کمرے پر قبضہ کر لیا اور اپنے آپ کو پرنسپل خزانچی وغیرہ ہونے کا اعلان کر دیا۔ طلبہ کے ساتھ بدتمیزی کی، کالج ریکارڈ میں ہیرا پھیری کی اور اساتذہ کی توہین کے مرتکب ہوئے۔ ان طلبہ کو پانچ اپریل 1972کے دن بذریعہ نوٹیفیکیشن CDT/5940/72 کالج سے نکال دیا گیا اور ان پر کالج کی حدود میں داخلے پر پابندی لگا دی گئی۔ یہ نوٹیفیکیشن میرے سامنے رکھی ہے اور نکالے جانے والوں میں جناب آصف علی بلوچ بھی شامل ہیں۔
ماشاء اللہ اس وقت بھی انہوں نے اپنے لئے خزانچی کے عہدے کا انتخاب کیا تھا۔ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات۔ اس سے زیادہ اور کیا کہوں، ساری بات تو بین السطور کہہ دی ہے۔ 
 

انوکھی جمہوریت! April 28, 2012


پنجاب میں ہی کیا سارے پاکستان میں”جمعرات“ کو پیروں فقیروں کا دن سمجھا جاتا ہے اوراس روز عام طور پر لوگ مزاروں پرحاضری دیتے او ر نوافل ادا کرکے دعائیں یا منتیں مانگتے ہیں۔ جمعرات کے دن ہی پاکستان کے پیر اور گدی نشین اور وزیراعظم کو توہین عدالت کی مختصر ترین سزا ہوئی اور اسی روز وہ سزا بھگت کر عالمی تاریخ میں پہلے سزا یافتہ وزیراعظم کا منفرد اعزاز حاصل کرگئے۔ جناب گیلانی صاحب نے کئی بار انکشاف کیا کہ ان کا تعلق ایک بہت بڑی روحانی گدی سے ہے اور پھران کے وکیل نے بھی سپریم کورٹ میں کہا کہ وزیراعظم ”بڑے پیر“ اورگدی نشین ہیں لیکن اس کے باوجود عدالت نے ان کی استدعا قبول نہ کی اور پھر سزا سنانے کے لئے بھی جمعرات کا دن چنا۔ مجھے تو یہ بھی چھوٹی سی سازش لگتی ہے ورنہ وزیراعظم کو کسی اور دن طلب کرکے 35/36 سیکنڈز کی سزاسنائی جاسکتی تھی۔اگر اس کا مقصد گدی نشینوں کے غبارے سے ہوا نکالنا ہے اور یہ بتانا ہے کہ اب پیروں گدی نشینوں کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں تو مجھے اس سے اختلاف ہے۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ بے انصافی کاواویلا محض دکھاوے کا سیاسی کھیل ہے ورنہ اندر سے خود پیر یوسف رضا گیلانی بھی یہی چاہتے تھے کہ انہیں سزا ہو اوروہ پیپلزپارٹی کے شہیدوں کی فہرست میں شامل ہوں۔ غور کیجئے ان کو پی پی پی کے شہداء پر سبقت حاصل ہے کہ وہ واحد شہید ہیں جو زندہ بھی ہیں اور وہ اس شہادت کا مطلب اور فائدہ زندگی کے آخری سانس تک اٹھاتے رہیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ انہوں نے اپنے بزرگوں کے مزار پرجا کر یہی دعا مانگی ہوگی جو قبول ہوئی بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ خود صدر زرداری بھی دل میں یہی دعا مانگتے تھے کیونکہ انتخابات کے قریب پی پی پی کو ایک بڑے شہید کی ضرورت تھی جو نہ صرف جیالوں کو گرما سکے بلکہ پی پی پی کے تن کمزور میں بھی نئی روح پھونک سکے۔ بھلا صدر زرداری کو کیا فرق پڑتا ہے کہ گیلانی صاحب وزیراعظم رہیں یا نہ رہیں۔ وہ ضرورت پڑنے پر کسی اور کو ممنون اور مشکور کرلیں گے اور وزیراعظم کا حلف اٹھوا لیں گے کیونکہ ایک بات ثابت ہے جو میں ایک درجن بار سے زیادہ لکھ چکا ہوں کہ صدر صاحب کسی صورت بھی اپنی محنت کی کمائی سے دستبردار نہیں ہوں گے جو انہوں نے سوئٹزرلینڈ کے بنک میں سنبھال کر رکھی ہوئی ہے۔ اب تو شاید وہاں سے بھی یہ کمائی کہیں او ر چلی گئی ہے۔ اس رقم کو بچانے کے لئے انہیں جتنے بھی وزراء اعظم قربان کرنا پڑے وہ دیدہ دلیری سے کریں گے اور مزاحمت کے ذریعے عدلیہ سے ٹکر لے کر اسے نیچا بھی دکھانے کی کوشش کریں گے کیونکہ وہ اعلان کرچکے ہیں کہ وہ صرف عوام کی عدالت کو مانتے ہیں اور ججوں کی عدالت صرف اس صورت مانیں گے جب وہ ڈوگر عدالت کی مانند ان سے پوچھ کر فیصلے کریں چنانچہ موجوہ عدالتوں کے خلاف مزاحمت نہایت ضروری ہے تاکہ قوم کو سمجھایا جاسکے کہ پی پی پی ایک مظلوم پارٹی ہے اور اسے عدالتوں سے کبھی انصاف نہیں ملااس لئے بقول اقبال جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو۔ کبھی آپ نے سوچا کہ ہم کس قدر”خوش قسمت“ قوم ہیں اور اللہ سحانہ  تعالیٰ نے ہمیں کتنی اعلیٰ اور بلند پائے کی قیادت عطا کی ہے جسے اگر عدالت سے من پسندانصاف نہ ملے تووہ اس عدالت کے خلاف گھیراؤ جلاؤ کا اعلان کردیتی ہے، ججوں کیخلاف سڑکوں پر نکل آتی ہے اور عدلیہ کے وجود ہی سے انکار کردیتی ہے۔ آپ اگر تاریخ کے ماہر ہیں تو مجھے گزشتہ صدی کی تاریخ سے ایسی ایک مثال ڈھونڈ دیجئے جہاں منتخب اور جمہوریت کے دعویدار صدر نے کہا ہو کہ وہ سپریم کورٹ کو نہیں مانتے صرف عوام کی عدالت کو مانتے ہیں۔ بادشاہتوں کے دور میں توعدلیہ سے انکار کیا جاتا رہا ہے لیکن جمہوری دور میں یہ انکارپہلی مثال کی حیثیت رکھتا ہے اورشاید آخری بھی۔
ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ خود گیلانی صاحب نے بھی یہی دعا مانگی تھی کیونکہ وہ چار سال سے زیادہ اقتدار کے مزلے لوٹ چکے، ماشاء اللہ سارا خاندان تجوریاں بھرچکا اور نوبت بہ ایں جا رسید کہ خود پی پی پی کے جیالے خاتون اول کے سیکرٹری کے خلاف احجاج کرتے پائے گئے کہ اس نے لوگوں سے بیرون وطن بھجوانے کا وعدہ کرکے لاکھوں روپے کما لئے۔ خربوزے کو دیکھ کر خربوزو رنگ پکڑتا ہے۔ جب اوپر کے خربوزے کا رنگ پیلا ہو تو نیچے والے بھی آہستہ آہستہ وہی رنگ پکڑ لیتے ہیں۔ سمندر میں دامن خشک رکھنا اولیاء اللہ کی کرامت ہے۔ یہ کسی عام آدمی کے بس کا روگ نہیں جب لوٹ کھسوٹ کا سمندر بہہ رہا ہو تو ہر کوئی چندگھونٹ پینے کی کوشش کرتا ہے۔ گیلانی صاحب کی دعا قبول ہوئی۔ وہ چار سال کی کمائی کو اب سنبھالیں گے بلکہ ٹھکانے لگائیں گے اور ساتھ ہی ساتھ وفادار اور مظلوم بن کر اپنے لئے ہمدردی کی لہر بھی پیدا کریں گے۔ ہے نا کمال کہ لوگ ان کی دولت اور نااہلی کو بھول کر ان پر پھول کی پتیاں برسائیں اور گیلانی زندہ باد کے نعرے لگائیں۔ ہر قسم کی اخلاقی قدروں اورصحت مند روایات سے محروم پاکستانی جمہوریت میں ہی ایسا ممکن ہے۔ یارو اپنے عوام کو داد دو، ان کے شعور کا ماتم نہ کرو کیونکہ وہ آپ کے گھر پر پتھر برسانے پہنچ جائیں گے اور خاموش اکثریت تماشائی بنی آپ کے سر پھٹنے کا تماشہ دیکھتی رہے گی۔ سچی بات یہ ہے کہ ہمارے سمارٹ اور ”قیمتی لباس“ سزایافتہ وزیراعظم ہرگز سزا پا کر گھاٹے میں نہیں رہے۔ گھاٹے میں تو ملک و قوم رہے ہیں جنہیں اس فیصلے نے باہم تقسیم کردیا ہے اور محاذ آرائی کی صورت پیدا کردی ہے۔ ایک طرف جیالے نکلیں گے اور دوسری طرف مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف خم ٹھونک کر کھڑی ہوں گی۔ کارکن اور چھوٹے لیڈران باہم دست وگریباں ہوں گے، پولیس لاٹھی چارج کرے گی یا گولی چلائے گی اور پی پی پی کو سیاسی شہید فراہم کرے گی تو اس سے گیلانی صاحب کو کیا فرق پڑتا ہے؟ وہ پی پی پی کے ہیرو ہیں فرق پڑے گا تو ملک و قوم کو جس کا کام ٹھپ ہو جائے گا اور مزدور مزدوری کو ترسیں گے۔
بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی ساکھ داؤ پر لگے گی، عالمی سرمایہ کاری فوری طور پر رک جائے گی، دوسری حکومتیں سزایافتہ وزیراعظم کی حکومت سے گفتگو، سمجھوتے اور معاہدے کرنے سے کنی کترائیں گی، عالمی رائے عامہ اورمیڈیا ہمارا تمسخر اڑائے گا، انتظامی ڈھانچہ اندر سے نہایت کمزور ہو جائے گا، صوبے اور مرکز آپس میں لڑیں گے، کابینہ کے فیصلے عضو معطل بن جائیں گے وغیرہ وغیرہ تو اس سے گیلانی صاحب کی صحت پر کیا اثر پڑتا ہے یا صدر صاحب کی معنی خیز مسکراہٹ کیسے متاثر ہوتی ہے؟ وہ تو اقتدار کی کرسیوں پر براجمان ہیں۔ فرق پڑے گاتو ملک و قوم کو اور اگر صدر صاحب یا گیلانی صاحب کو ملک و قوم کا ذرہ بھر غم ہوتا تو وہ وزیراعظم کو مستعفی ہونے کا مشورہ دیتے۔ یہاں تو ذاتی مفاد، گروہی سیاست اور جماعتی اقتدار کو قومی مفاد پر ترجیح دی جاتی ہے اور اسے جمہور کی حکومت یعنی جمہوریت کہا جاتا ہے۔ یہ دنیاکی انوکھی جمہوریت ہے جو خود اپنی بنیادیں کمزور کرتی اور فوجی راج کی راہ ہموار کرتی ہے۔ دیکھ لینا جلد ہی مقتدراتحاد سے اختلاف کی آوازیں بلند ہوں گے، حکومت کو سہارا دینے والے کچھ سیاسی ساتھی عدلیہ سے تصادم کی حمایت نہیں کریں گے، انتظامی مشینری تعطل کاشکار ہو جائے گی، ترقی اور مسائل کے حل کا عمل رک جائیگا، بین الاقوامی برادری ہاتھ کھینچ لے گی اور وزیراعظم پر سزایافتہ کا لیبل لگا کر اسے تمسخر کا ٹارگٹ بنا دیا جائے گا جس سے اس اعلیٰ عہدے کاوقار خاک میں مل جائے گا۔ ملتان میں پی پی پی الیکشن جیت چکی، ہمدردی کی لہر جنم لینے والی ہے کیا اس بحران سے نکلنے کا بہترین راستہ عام انتخابات کا اعلان نہیں؟

زندہ کتاب کا ایک ورق April 22, 2012


عادت کے ہاتھوں انسان مجبور ہوتاہے۔ میری عادت ہے کہ کبھی کبھی حضرت شیخ علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش کی کتاب ”کشف المحجوب“ کھولتا ہوں اور اس صفحے پر جو بھی کھلا ہو اس پر غور کرتاہوں۔ اس کی بنیادی وجوہ یہ ہیں کہ اول تو کشف المحجوب ان کتابوں میں سے ہے جو ہمیشہ زندہ رہیں گی اور جو صدیوں کا طویل سفر کرنے کے باوجود آج بھی زندہ ہیں۔ زندہ کتاب وہ ہوتی ہے جو صدیوں تک لوگوں کی توجہ، مطالعے اور رہنمائی کا باعث بنی رہے اورصدیوں تک لوگوں کے دلوں اور ذہنوں میں اس طرح زندہ رہے کہ ان کی زندگیوں کو متاثر کرتی رہے۔ تصوف کی دنیا میں کشف المحجوب کا یہی مقام ہے۔ 400ء ہجری میں غزنی شہر سے متصل ہجویر میں پیدا ہونے والے شیخ ابوالحسن علی ہجویری محمود غزنوی کے بیٹے مسعود غزنوی کے ساتھ ہندوستان تشریف لائے اور پھر لاہور ہی کے ہو کر رہ گئے کہ اللہ سبحانہ  تعالیٰ نے ان کے مقدر میں اس علاقے کے لاتعدادغیرمسلموں کا ان کے مبارک ہاتھوں پرمسلمان ہونا لکھا تھا۔ صدیاں گزر گئیں لیکن سید علی ہجویری کا مزار دن رات اسی طرح آباد رہتا ہے جس طرح ان کی زندگی میں ان کی مجلس آباد رہتی تھی۔ہندوستان میں کفر کی تاریکی کو گھٹانے اور اسلام کا چراغ روشن کرنے میں آپ کا کردار نہایت اہم ہے اور ان کی اسی روحانیت کا یہ چھوٹا سا ”انعام الٰہی“ ہے کہ سید علی ہجویری کے بعد آنے والے سینکڑوں بادشاہوں ، حکمرانوں اور حملہ آوروں کے نام تو لوگ بھول گئے لیکن داتا گنج بخش کو نہیں بھولے۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی  عرف خواجہ غریب نواز آف اجمیر شریف نے ہی حضرت سید علی ہجویری کو داتا گنج بخش کا خطاب دیا تھا اور یہ خطاب آپ نے سید علی ہجویری کے قدموں میں چالیس دن تک چلہ کشی کے بعد دیا تھا۔ ذرا سوچئے کہ کیاحضرت معین الدین چشتی  جیسے عالی مرتبت ولی اللہ اورشہنشائے روحاینت کسی کوایسا خطاب بلاوجہ دے کر ”جھوٹ“ کے مرتکب ہوسکتے تھے؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ بزرگ منشائے الٰہی کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھاتے تھے۔ اگر ان بزرگوں کی معصوم ذاتی زندگیاں تسلیم و رضا کے سانچے میں ڈھل کر مکمل طور پر منشائے الٰہی کے تابع نہ ہوتیں تو وہ کبھی یہ مقام اور انعام نہ پاسکتے۔ انہی لوگوں کے بارے میں قرآن حکیم نے فرمایا ہے کہ ”پھر میں (اللہ) ان کے ہاتھ پاؤں اور زبان بن جاتا ہوں۔“
کشف المحجوب کوکبھی کبھار اور بار بارپڑھنے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ خود حضرت سید علی ہجویری کا فرمان ہے کہ جس شخص کا کوئی مرشد نہ ہو اگر وہ اس کتاب کو ”دل کی آنکھ“ سے پڑھے تو یہ کمی پوری ہو جائے گی گویااس پر عمل کرکے کشف المحجوب سے مرشد کا کام لیا جاسکتاہے بشرطیکہ آپ کو اس کی طلب ہو، آرزو ہو اور اس آرزو میں استقامت ہو۔ میں توبہرحال گناہگار، دنیادار، کمزور انسان ہوں لیکن مجھے یقین ہے کہ حضرت سید علی ہجویری کے یہ الفاظ حقیقت پر مبنی ہیں اور جوحضرات خلوص نیت، یکسوئی اور حسن طلب کے جذبے سے اس کتاب کو پڑھیں او ر اس پر عمل کریں وہ اپنی روحانی منزل پاسکتے ہیں۔ حضرت سید علی ہجویری نے اس کتاب میں بہت سے اولیا اکرام اور عظیم روحانی ہستیوں کا ذکر کیاہے اور ان کی کرامات کا احوال بھی لکھا ہے جنہیں پڑھ کر مسلمانوں کا ایمان تازہ ہوتا ہے اور روح کو تقویت ملتی ہے جبکہ کچھ حضرات ان کا تمسخر بھی اڑاتے ہیں۔ ان کے نزدیک ان عظیم ہستیوں کی کرامات افسانے ہیں اور تصوف کمزور ایمان کی علامت ہے حالانکہ تصوف اسلام کا ناگزیر پہلو اور حضور نبی کریم کی سیرت حسنہ کا اہم حصہ ہے۔ یقین رکھئے کہ اگر حضرت سید علی ہجویری، حضرت معین الدین چشتی ، بابا فرید گنج شکر، حضرت نظام الدین اولیا جیسی ہستیاں ہندوستان میں نہ ہوتیں تو یہاں کبھی بھی کفر کی تاریکی نہ ہٹتی اور اگر ان ہستیوں کو اللہ سبحانہ  تعالیٰ نے چھوٹی چھوٹی کرامات کا انعام نہ دیا ہوتا تو وہ کبھی بھی اتنی بڑی تعداد میں غیرمسلموں کو اسلام کے حلقے میں شامل نہ کرسکتیں۔ یہ بھی ایک کرامت سے کم نہیں کہ صدیوں کے فاصلے ان کی عقیدت و محبت میں کمی نہیں کرسکے بلکہ سیکولر تعلیم میں اضافے کے باوجود اور ہندوستان میں سرکاری سطح پر سیکولرازم کے پرچار کے باوجود ان ہستیوں کے عقیدت مندوں میں روزبروز اضافہ ہو رہا ہے حتیٰ کہ ان کے عقیدت مندوں میں غیرمسلمان بھی شامل ہیں اوربڑی تعداد میں شامل ہیں۔ کیا یہ بذات خود ایک کرامت نہیں؟ رہے ان کرامات کا طریقے طریقے سے تمسخر اڑانے والے تو ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ ایسے لوگ بھی ہیں جومعجزات ِ نبوی میں یقین نہیں رکھتے اور ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں ۔
جنہیں خود مشاہدات سے نوازا گیا ہے۔ میں گوشہ نشین فقیروں کی بات نہیں کرتا۔ آپ نے تحریک پاکستان اور مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے حوالے سے مولانا عبدالستار نیازی کا نام سنا ہوگا۔ مولانا نیازی ایک عاشق رسول اور فقیر منش انسان تھے۔ ان کا انتقال ہوئے عرصہ گزرا۔میں نے 1987 میں تحریک ِ پاکستان کے کارکنوں کے لئے طلائی تمغوں ، مالی امداد ، عزت افزائی وغیرہ کا سلسلہ شروع کیا تو مولانا نیازی صاحب مجھ پر مہربان ہوئے۔ غالباً 1988 کا واقعہ ہے کہ ایک روز ان کا فون آیا۔ نہ جانے کس طرح بات اس طرف کیسے چلی گئی اور مولانا نیازی صاحب نے مجھے بتایاکہ میں جب عمرہ ادا کرنے کے بعد مدینہ منورہ گیا تو نوافل پڑھنے مسجد قبا بھی گیا۔آپ کو علم ہے کہ مسجد قبا مدینہ منورہ کے راستے میں واقع ہے۔ ہجرت کے بعد اس کی بنیاد خود حضور نبی کریم نے رکھی تھی اور تعمیر میں حصہ لی تھا۔ حدیث مبارکہ کے مطابق مسجد قبا میں نوافل ا دا کرنے کا ثواب عمرے کے برابر ہے۔ مولاناعبدالستار نیازی نے بتایا کہ میں جب مسجد قبا کے باہر گاڑی سے اترا تو فٹ پاتھ پر کھڑا ہو کر سوچنے لگا کہ نہ جانے حضور نبی کریم اس کٹھن دور میں یہاں کیسے اور کس طرف سے آئے ہونگے۔ مولانا کا کہنا تھا کہ میں سوچ میں گم تھاکہ میں نے جاگتی آنکھوں سے مکہ مکرمہ کی جانب سے ایک اونٹ آتے دیکھا، وہ اونٹ میرے دیکھتے دیکھتے زمین پربیٹھااور میں نے بیدار آنکھوں سے حضور نبی کریم کو اونٹ سے اترتے دیکھا۔ یہ مشاہدہ چند سیکنڈوں پر تھا لیکن صدیوں کی روشنی دے گیا۔ لگتا ہے کہ یہ روحانی تجربہ سچے عاشق رسول کے عشق کا چھوٹاسااعجاز اور معمولی سا انعام تھا۔ باقی اللہ بہتر جانتا ہے میں کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ میں ہرگز اس قابل نہیں۔کبھی کبھی بات دور نکل جاتی ہے۔ بات شروع ہوئی تھی کہ میں کبھی کبھار عاد تاً کشف المحجوب کھول لیتا ہوں او رجس صفحے پر نظر پڑے اسے پڑھ کر سمجھنے کی کوشش کرنے لگتا ہوں۔ آ ج کشف المحجوب کھولی تو اس عبارت پر نظر پڑی اور میرا جی چاہا کہ اسے آپ کی خدمت میں پیش کروں …
”ایک شیخ کابیان ہے کہ میں نے جس گناہ سے توبہ کی بار بار مجھ سے ارتکاب ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ 70 مرتبہ میری توبہ ٹوٹی اور اکہترویں مرتبہ استقامت نصیب ہوئی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے اے نبی! میری یہ بات بندوں تک پہنچا دو کہ میرے وہ بندے جنہوں نے گناہ اور سرکشی کی کوئی حد نہ چھوڑی ہے اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں۔ جب بندہ اخلاص کے ساتھ توبہ کرکے رجوع کرے تو وہ گناہ معاف کردیتاہے۔ (53:39) حضرت ابوعمر جنید فرماتے ہیں میں نے ابتدا میں حضرت ابوعثمان حیری کی مجلس میں توبہ کی۔ تھوڑے دن گزرے توبہ توڑ دی۔ پھر اپنے پیر کی محبت سے روگردانی کرنے لگا۔ ایک دن اچانک ملاقات ہوئی تو فرمایا بیٹا اپنے دشمنوں سے محبت نہ رکھ۔ جب تو عیب کرتا ہے وہ خوش ہوتے ہیں۔ تو میرے پاس آ کہ میں تیری بلائیں اٹھاؤں اور تو دشمن کے مقصد کو پورا کرنے سے بچ جائے۔ جنید فرماتے ہیں اس کے بعد میری توبہ پختہ ہوگئی“ زیادہ نہیں صرف تین باتوں پرغور کریں۔ (۱) اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہو (۲) گناہ کی ترغیب دینے والے دشمن ہوتے ہیں (۳) صرف توبہ نہیں بلکہ سچی توبہ انسان کو پھر سے معصوم بنا دیتی ہے۔


جارحیت کے سائے April 21, 2012


یہ انتہائی دلچسپ واقعہ گاندھی جی نے خود مزے لے لے کر ابو الکلام آزاد کو سنایا اوراس کا ذکر مولانا ابوالکلام آزاد کی کتاب ”انڈیا وِنز فریڈم“ میں بھی موجود ہے۔ جنگ ِ عظیم کے دوران جب ہٹلر فرانس کو پچھاڑ کر انگلستان پربار بار حملہ آور ہو رہا تھا تو 29جون 1940 کو گاندھی جی ہندوستانی وائسرائے لنلتھگو سے ملنے گئے۔ گاندھی جی عدم تشدد کے شدید حامی تھے اور اپنے فلسفے کے مطابق ضرورت پڑنے پر شکست کوبھی فتح قرار دے دیتے تھے چنانچہ اس ملاقات میں گاندھی جی نے عدم تشدد کی اہمیت پر روشنی ڈالنے کے بعد انگریز وائسرائے کو مشورہ دیا ”برطانیہ میں اتنی جرأت ہونی چاہئے کہ وہ ہٹلر کو برطانیہ کی خوبصورت سرزمین پر قبضہ کرنے دے۔ جرمنی کو قبضہ کرنے دیجئے اوراگر ہٹلر آپ کے گھر پر قبضہ کرنا چاہے تو گھر خالی کردیجئے۔ اگر وہ آپ کو ملک سے نکلنے کے لئے محفوظ راستہ نہ دے تو اسے اجازت دیجئے کہ وہ آپ کی خواتین، بچوں اور مردوں کو ذبح کردے“ انگریز وائسرائے لنلتھگو اس مشورے پر اس قدر پریشان اور حیران ہواکہ وہ اپنے آپ میں گم ہو کررہ گیا۔ اصول اور رسم کے مطابق جب گاندھی جی جیسا کوئی بڑا لیڈر وائسرائے سے مل کر نکلتا تو وائسرائے گھٹنی بجاتا تھا۔ چنانچہ وائسرائے کا اے ڈی سی فوراً آ کرمہما ن کو باہر لے جاتااور گاڑی میں بٹھا کر رخصت کرتا تھا۔ مولانا ابوالکلام نے لکھا ہے کہ اس روز وائسرائے گھنٹی بجانا بھول گیا اور گاندھی جی کو خود ہی باہر کاراستہ تلاش کرنا پڑا اور خود ہی اپنی گاڑی ڈھونڈنا پڑی (بحوالہ نریندر سنگھ سابق اے ڈی سی ماؤنٹ بیٹن The untold story of partition pg # 34-5)
اگر آپ ٹھنڈے دل و د ماغ سے غور کریں تو محسوس کریں گے کہ جو حضرات پاکستان کو سیاچن سے فوجیں بلانے میں پہل کا مشورہ دے رہے ہیں اور ہندوستان سے معاہدہ کئے بغیر واپسی کاکہہ رہے ہیں دراصل وہ وہی مشورہ دے رہے ہیں جو گاندھی جی نے برطانوی وائسرائے کو دیا تھا۔ جب سیفما کے امتیازعالم نے موجودہ سانحے اور سوگوار فضا کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ”حکم“ دیا کہ پاکستان کو فوراً اپنی فوجیں سیاچن سے واپس بلا لینی چاہئیں تو ان کا مشورہ قابل فہم تھا اگرچہ ان سے کسی نے نہ پوچھاکہ حضور آپ یہ کام ہندوستان سے کیوں نہیں کرواتے جس کی محبت میں آپ ”لہولہان“ ہو رہے ہیں۔ البتہ جب میرے محترم میاں نواز شریف صاحب نے سیاچن سے فوجیں ہٹانے میں پہل کی بات کی تو ان کا مشورہ میرے لئے قابل فہم نہیں تھاکیونکہ میاں صاحب پاکستان سے محبت کرتے ہیں اور پاکستان کے وقار کے محافظ ہیں۔ میاں صاحب پاکستان کے دو بار وزیراعظم رہے ہیں اور وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ تاریخی طور پر سیاچن کے علاقے پر پاکستان کا انتظامی کنٹرول تھااور عالمی نقشوں میں اسے پاکستان کا حصہ دکھایاجاتا تھا لیکن ہندوستان نے ایک سازش کے تحت 1984 میں سیاچن کی چوٹیوں پر قبضہ کرلیا۔ سوال یہ ہے کہ جارحیت کس نے کی؟ ظاہر ہے کہ طاقت کے بل بوتے پر ہندوستان نے پاکستان کے علاقے پر قبضہ کرلیا۔ فوجیں واپس بلانے میں پہل کا مشورہ دینے والے ہٹلر کو انگلستان کی سرزمین پر قبضہ کا مشورہ دے رہے ہیں۔یہ بھی تاریخ کاحصہ ہے کہ پاکستان نے سیاچن سے بھارتی جارحیت کو ختم کرانے کی پانچ دفعہ کوشش کی جس میں خاصا جانی و مالی نقصان ہوالیکن چونکہ ہندوستان چوٹیوں پر قابض ہے اس لئے پاکستان کامیاب نہ ہوسکا۔ کئی دہائیوں سے اس ضمن میں ہندوستان سے گفتگو اور میٹنگوں کا سلسلہ جاری ہے لیکن ہندوستان قبضہ چھوڑنے اور 1984سے پہلے والی پوزیشن پر آنے کے لئے تیار نہیں۔ہزاروں فوجی مروانے اور ایک ملین ڈالر روزانہ خرچ کرنے کے باوجود ہندوستان اپنے رویئے میں لچک دکھانے کے لئے تیار نہیں جبکہ ہمارے ہاں ایسے سطحیت پسندوں کی کمی نہیں جو باربارایک ہی نغمہ الاپ رہے ہیں کہ سیاچن پر تو گھاس بھی نہیں اُگتی۔ اگر ضیاء الحق نے یہ کہا تھا تو یقینا شکست خوردہ ذہنیت کا مظاہرہ کیا تھا ورنہ اصلی فوجی کی زندگی کافلسفہ ہی یہ ہوتا ہے کہ ”یاغازی یا شہید“فوجی زندگی عشق کی زندگی ہے اور عشق کی زندگی میں سب کچھ داؤ پر لگایا جاتا ہے۔ اس میں کوئی آسان راستہ نہیں ہوتا۔
میں جب اپنے دانشوروں کے یہ نغمے سنتاہوں کہ وہاں تو گھاس بھی نہیں اُگتی اس لئے 3500مربع میل کا علاقہ ہندوستان کی جارحیت کی نذرکردو تو مجھے خیال آتا ہے کہ اللہ نہ کرے کل کلاں کوئی بڑاحادثہ چولستان میں رونما ہو گیا تو ہمارے یہی دانشور کہیں گے کہ یہ علاقہ بھی ہندوستان کو دے دو، وہاں تو گھاس بھی نہیں اُگتی۔ وزیرستان ، سوات اورفاٹا کے علاقے میں ہزاروں فوجی شہید ہوئے ہیں، ہزاروں سویلین مارے گئے ہیں، بڑی تعداد میں فوجی اغوا ہوئے ہیں بعید نہیں کہ کل کلاں وہاں سے بھی فوجیں واپس بلانے کا مشورہ داغ دیا جائے اور ان علاقوں کو مکمل طور پر طالبان کے حوالے کردیا جائے۔ خدارا جذبات سے مغلوب ہو کر شکست خوردہ مشورے دینے والو ذراسوچو کہ ملک کی سرزمین کے ایک ایک انچ کی حفاظت ہمارا قومی فریضہ اور فوج کااولین فرض ہے اور یہی وہ حلف ہے جو ہر فوجی اٹھاتا اور حرز ِ جاں بناتا ہے۔
جنرل کیانی اور میاں نوازشریف کے موقف میں ایک واضح فرق ہے لیکن میں اس بحث میں الجھنے کی بجائے صرف یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیاآپ سیاچن کی بلندیوں کی فوجی اہمیت، سٹریٹجک حیثیت اورپانی کے حوالے سے ”چشمہ آب“ کی حیثیت کا شعور رکھتے ہیں؟ کیا آپ نے غور کیاکہ آخر 37برس بعد 1984 میں ہندوستان نے ایک منصوبے کے تحت وہاں قبضہ کیوں کیا؟ کیا آپ نے تجزیہ کیا کہ ہزاوں فوجی مروانے اور دس لاکھ ڈالر یومیہ خرچ کرنے کے باوجود ہندوستان سیاچن سے ہٹنے کے لئے کیوں تیار نہیں؟ طویل عرصے پر محیط مذاکرات میں ہندوستان کیوں بضدہے کہ اس کے قبضے کو تسلیم کرلیاجائے اور اسے لائن آف کنٹرول کا درجہ دے دیاجائے؟ ہمارے 135 فوجیوں اور جانثار سویلین کے برف تلے دبتے ہی ہندوستان نے ہماری دکھتی ہوئی رگ پر انگلی دباکر یہ نغمہ کیوں الاپنا شروع کردیا ہے کہ وہاں تو گھاس بھی نہیں اُگتی؟مشکلیں، امتحانات وسانحات قومی زندگی کاحصہ ہوتے ہیں اور یاد رکھئے غم کے پہاڑ تلے دب کر توازن اور ہوش کھو بیٹھنا مزید سانحات کی راہ ہموار کرتا ہے۔
ہندوستان اب تک سیاچن کی چوٹیوں پر قبضہ قائم رکھنے کے لئے دس ارب ڈالر خرچ کرچکاہے بھلاکیوں؟ جنرل کیانی نے فقط اتناکہا ہے کہ سیاچن کے گلیشیئر سے دریائے سندھ میں پانی آتا ہے جوہمارے لئے رگ جان کی اہمیت رکھتاہے۔ مطلب یہ کہ اگر ہندوستان نے اس پانی کارخ موڑ لیا تو ہمارا بڑاعلاقہ بنجر ہو جائے گا۔ اول تو یہ بات ذہن میں رکھئے کہ ہندوستان نے بزور طاقت اس علاقے اور سالٹرورج کی بلندی پر قبضہ کرکے نہ صرف نادرن ایریاز بلکہ کشمیر کو بھی فوجی نگاہ میں گھیر لیا ہے بلکہ اب وہ چین اور پاکستان کے دروازے پربھی بیٹھا ہے اور تبت پر بھی نگاہ رکھے ہوئے ہے۔ مختصر یہ کہ سیاچن پر ہندوستانی قبضے کے بہت سے مضمرات ہیں اور ہندوستان کاقبضہ پاکستان اور چین دونوں کے لئے خطرہ بن گیا اس لئے اگر کسی معاہدے اور بین الاقوامی ثالثوں کے بغیر وہاں سے فوجیں ہٹالی جائیں اور ہندوستانی فوج کی واپسی کے بغیر علاقہ خالی کردیاجائے تو مستقبل میں اس سے پاکستان کی سکیورٹی کو بے شمار خطرات جنم لے سکتے ہیں۔
سچی بات یہ ہے کہ جب سے گیاری کاسانحہ ہواہے غمگین ہوں اور ہمہ وقت برف تلے دبے جوانوں اور جانثاروں کی زندگیوں کے لئے دعاگو ہوں۔ میں اللہ کی رحمت پر یقین رکھتاہوں۔ میں ہندوستان سے بھی دوستانہ تعلقات کا حامی ہوں۔ میری آرزو ہے کہ ہندوستان سے اختلافات اور مسائل کا حل ڈھونڈا جائے اور دونوں ممالک میں ”اعتماد“ کو مضبوط بنیادوں پر تعمیر کیاجائے لیکن اگر سمجھوتوں کے بغیر ہم کشمیر سے لے کر سیاچن تک ہندوستانی جارحیت کو تسلیم کرتے گئے تواس کے نتائج نہایت خطرناک ہوں گے۔


باوجود April 18, 2012


حسین ان نوجوانوں میں سے ہے جو زندگی کے بہتر مواقع کی تلاش میں بیرون ملک چلے گئے اور وہاں اپنے خوابوں کو عملی جامہ پہناتے رہے جبکہ میں ان ”جوانوں“ میں سے ہوں جنہیں زندگی نے کئی بار مواقعے دیئے لیکن انہوں نے اپنی دھرتی پر ہی رہنے کو ترجیح دی۔حسین بیرون ملک بہت خوش ہے کیونکہ اس کے پاس خوبصورت بنگلہ، قیمتی کاریں اور اچھی بیوی ہے اور اس کے بچے عالمی سطح کے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہیں۔ یہی اس کے خواب تھے اور انہی کی عملی تعبیر کے لئے وہ باہر گیا تھا۔ میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اگر میں بھی جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی سینے پر اچھی تعلیمی ڈگریاں سجا کر بیرون ملک چلا جاتا تو میرے پاس بھی زندگی کی وہ ساری نعمتیں ہوتیں جو پاکستان میں کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہیں۔ نہ جانے کیوں جب میں یہ تصور کرکے ماضی کی وادیوں کا سفر کرتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ بیرون ملک مجھے قیمتی گاڑیاں، خوبصورت بنگلہ، صاف شفاف فضا اور اعلیٰ معیار زندگی تو مل جاتا لیکن گھٹ گھٹ کر وقت سے پہلے مرجاتا۔ یہ میری ذاتی کیفیت ہے اس لئے اس نسخے کا اطلاق باقی لوگوں پر نہیں ہوتا۔ ہر شخص کا اپنا اپنا مزاج اور اپنی اپنی فطرت ہوتی ہے مجھے لگتا ہے کہ اگر میں بیرون ملک ہجرت کر گیا ہوتا تو میں صفدر محمود نہ بن سکتا، کوئی اور شے ہی بنتا۔ کوئی اور شے سے میری مراد نیم پاکستانی، نیم برطانوی، نیم کینیڈین یا نیم امریکی ہے۔ میرے بے شمار دوست، عزیز اور جان پہچان والے لوگ بیرون ملک ہجرت کر چکے ہیں۔ میں ان سے بیرون ملک ملتا ہوں تو ہ ہر لمحے وطن کی یاد میں ٹھنڈی آہیں بھرتیں پائے جاتے ہیں لیکن جب برسوں بعد ایک ماہ کی چھٹی پر وطن تشریف لاتے ہیں تو ایک ہفتے بعد اپنے دوسرے وطن کی یاد میں ٹھنڈی آہیں بھرنی شروع کر دیتے ہیں اور اکثر دو ہفتے گزار کر واپس فلائی کر جاتے ہیں۔ ان کی اولاد سے ملو تو وہ نہ پاکستانی لگتے ہیں اور نہ ہی پاکستان کے بارے میں کچھ جانتے ہیں چنانچہ ان گھروں کا ماحول چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پستا رہتا ہے۔ اوپر والا پاٹ جو بچوں پر مشتمل ہوتا ہے خالصتاً اس ملک کی نمائندگی کرتا ہے جہاں وہ ہجرت کرکے گئے جبکہ نیچے والا پاٹ ماں باپ پر مشتمل ہوتا ہے جو پاکستان میں پروان چڑھے اور جن کے خون میں دھرتی، محلے، گلی، شہر، کالج کی یادیں رچی بسی ہیں اور جن کی رگوں میں پاکستان سے محبت موجزن ہے جسے وہ کوشش کے باوجود نہ بھلا سکے ہیں نہ اندر سے نکال سکے ہیں۔
اس نوجوان حسین کا (والد) میرا گہرا دوست تھا لیکن عمر میں مجھ سے کافی بڑا تھا۔ وہی ہوا جو عام طور پر ایسے رشتوں میں ہوتا ہے۔ آج سے کئی برس قبل وہ مجھے چھوڑکر ہمیشہ کے لئے شہر خاموشاں میں چلا گیا۔ دراصل مخلص دوست زندگی کا قیمتی ترین اثاثہ ہوتا ہے اور اس کی اس جہاں سے رخصتی نہ صرف قلب و ذہن کو ہمیشہ کے لئے مغموم کر دیتی ہے بلکہ یادوں کی ایک بھاری گٹھڑی بھی ذہن پر لاد دیتی ہے جس سے چھٹکارا حاصل کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ کچھ عرصہ قبل میں سمن آباد لاہور سے اپنے مخلص دوست جناب مصطفی صادق صاحب کی نماز جنازہ ادا کرکے لوٹ رہا تھا تو مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اس علاقے کی ہر سڑک اور گلی کے ساتھ میری اور ان کی یادیں لپٹی ہوئی ہیں۔ دوست چلے جاتے ہیں لیکن یادوں کا گلستان چھوڑ جاتے ہیں بس یہی زندگی ہے حسین کا والد میرا پیارا دوست تھا اور حسین کو اپنے والد سے بے پناہ پیار ہے۔ وہ اپنے والد کے جنازے میں تو شرکت نہ کر سکا لیکن جب بھی وطن آتا ہے اپنے والد کی قبر پر آنسو بہاتا رہتا ہے اور پھر اپنے والد کاذکر سننے کے لئے، ان کی یادوں کے پھولوں کی مہک سونگھنے کے لئے اپنے والد کے دو تین قریبی دوستوں سے ضرور ملتا ہے۔ میرے ساتھ وہ سب سے زیادہ وقت گزارتا ہے اور کبھی کبھی مجھے یوں لگتا ہے جیسے وہ میرے ناتواں جسم میں اپنے والد کو تلاش کر رہا ہے جو نہایت مضبوط جسم کے مالک تھے۔
چند روز قبل وہ مجھے ملنے آیا تو میں اخبارات کھولے خبریں ”سونگھ“ رہا تھا۔ وہ کوئی سات آٹھ برس بعد پاکستان آیا تھا اور اس ملک کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں رکھتا تھا۔ میرے سامنے کھلے اخبارات پر نظریں دوڑانے لگا، خبریں پڑھتے پڑھتے اچانک بولا ”انکل! یہ کیا خبر ہے کہ بنوں کی جیل پر حملہ کرکے سینکڑوں قیدی چھڑا لئے گئے، ان میں مشرف کے ملزم اور بہت سے خطرناک قیدی بھی تھے؟“ میں نے جواباً کہا کہ ”ہاں، ایسا ہی ہے“ پھر کہنے لگا کہ ”انکل! یہ کوئٹہ میں ہزارہ قبیلے کے بے شمار لوگ احتجاج کر رہے ہیں، گزشتہ چند ماہ میں اس قبیلے کے بے شمار لوگوں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا ہے“ میں نے ہاں میں جواب دیا اور اخبار پر نظریں دوڑانے لگا۔ چندلمحوں بعد حسین پھر بولا ”انکل! یہ کراچی لیاری میں کیا میدان جنگ سجا ہے، سڑکوں پر احتجاج اور ٹائر جلائے جا رہے ہیں، گولیاں چل رہی ہیں، لوگ مر رہے ہیں“۔ اس بار میں خاموش رہا اور ایک عجیب سے احساس ندامت نے مجھے گھیرلیا۔ وہ میری ذہنی کیفیت نہ پڑھ سکا۔ بولا ”میں جب سے آیا ہوں پنجاب میں بہت سی گینگ ریپ کی خبریں پڑھ چکا ہوں۔ تین وارداتوں میں پولیس خود ملوث تھی۔ چند ایک ایسی خبریں بھی میری نظر سے گزری ہیں جہاں پولیس والوں نے کسی ملزم کو اتنا مارا کہ وہ مر گیا اور پولیس والے اس کی میت اس کے گھر کے باہر پھینک آئے۔ شاید ہی کوئی دن گزرتا ہو کہ پنجاب پولیس کے ٹارچر سے کوئی ملزم مرتا نہ ہو۔ آپ شہباز شریف کی تعریف کرتے ہیں لیکن یہ سامنے والے اخبار میں خبر چھپی ہوئی ہے کہ وزیراعلیٰ کی لیپ ٹاپ تقسیم کرنے کی تقریبات پر دس کروڑ روپے صرف ہو چکے ہیں اور بہت سے تعلیمی ادارے ان اخراجات کے بوجھ تلے دب کر کنگال ہوچکے ہیں۔ دوسری طرف یہ عالم ہے کہ پنجاب میں تیس (30)ہزار سکول ایسے ہیں جہاں تعلیم کی بنیادی سہولتیں میسر نہیں اور ان سکولوں میں غریب بچے پڑھتے ہیں۔ لاہور میں ایک فلائی اوور کو سال دو سال کے لئے ملتوی کرکے ان سکولوں کی ضروریات پوری کی جاسکتی ہیں۔ ان سکولوں میں پڑھنے والے بچوں کا مستقبل کیا ہے؟ وہ بڑے ہو کر کیا کریں گے اور اپنی بدحالی کے لئے کس کو دعائیں دیں گے؟ یہ سامنے رکھے ہفت روزہ میں لکھا ہے کہ خادم اعلیٰ پنجاب نے پانچ گھروں کو سرکاری رہائش گاہیں قرار دے رکھا ہے اور لاکھوں روپے روزانہ کا بوجھ خزانے پر پڑ رہا ہے“۔ میں خاموشی سے اس کی باتیں سنتا رہا اور وہ وقفے وقفے سے تیر چلاتا رہا۔ جب اس نے محسوس کیا کہ اب میں ”ہوں ،ہاں“ میں بھی جواب نہیں دیتا تو وہ قدرے اونچی آواز سے بولا ”انکل! کیا پاکستان میں کوئی حکومت ہے“؟ میں نے جواباًکہا ”کیوں نہیں۔ ماشا اللہ منتخب جمہوری حکومت موجود ہے“۔ وہ مسکرایا اور بولا ”انکل میرے ساتھ مذاق نہ کریں، جہاں حکومتیں ہوں وہاں جیلوں پر حملہ کرکے قیدی نہیں چھڑائے جاتے، وہاں ایک ہی مقام پر مخصوص لوگوں کو بار بار قتل عام کا نشانہ نہیں بنایا جاتا، وہاں شہری علاقے میدان جنگ نہیں بنتے اور نہ ہی اخبارات پولیس مظالم سے بھرے ہوتے ہیں، وہاں شہریوں کو گھروں سے اٹھایا جاتا ہے نہ اس طرح لوٹ مار اور بے انصافی کے بازار سجتے ہیں…؟“ میں اس کے الزامات سنتا رہا۔ وہ خاموش ہوا تو میں نے کہا ”بیٹا تم ٹھیک کہتے ہو لیکن یہ میرا پاکستان ہے اور ان تمام حقائق کے باوجود مجھے دل و جان سے پیارا ہے“۔ حسین نے لمبی سانس لی اور کہنے لگا ”انکل آپ ٹھیک کہتے ہیں“۔ 
 

کیسے مان لوں؟ April 17, 2012


یہ واقعہ جنگ عظیم دوم کا ہے جب امریکہ میں صدر روز ویلیٹ کا ڈنکا بجتا تھا اور انگلستان کا وزیراعظم مشہور سیاستدان، مصنف اور دانشور ونسٹن چرچل تھا۔ آپ جانتے ہیں کہ جنگ عظیم کی تباہ کاریوں نے لاکھوں انسانی جانوں کو بارود کی آگ میں بھسم کردیا، لاکھوں گھراجاڑ دیئے اور یورپی ممالک کی معیشت کو اس قدر نقصان پہنچایا کہ ان اقوام کو اپنے قدموں پرکھڑا ہونے میں دہائیاں لگ گئیں۔ آپ کو یہ بھی یاد ہوگا کہ امریکہ قدرے تاخیر سے جنگ کے میدان میں اترا تھا اور ان دنوں امریکہ اور برطانیہ کی گاڑھی چھنتی تھی۔ امریکی صدر روز ویلیٹ انگلستان کے سرکاری دورے پر آیا تواس نے کسی سرکاری مہمان خانے میں ٹھہرنے کی بجائے برطانوی وزیراعظم کی سرکاری رہائش گاہ 10۔ ڈاؤننگ اسٹریٹ میں ٹھہرنے کی خواہش کا اظہار کیا کیونکہ اس کے نزدیک مقابلتاً یہ محفوظ ترین جگہ تھی۔
آج یہ تصور کرنا محال ہے کہ ان دنوں ہٹلر کے طیارے لندن کی فضاؤں میں اچانک حملہ آور ہوتے اور بم پھینک کر غائب ہو جاتے تھے۔ اس لئے احساس تحفظ پہلی ترجیح ہوتی تھی۔ مختصر یہ کہ روز ویلیٹ -10ڈاؤننگ سٹریٹ میں ہی قیام پذیر ہوا۔ صبح تیار ہو کر وقت پر ناشتے کے لئے آیا تو دیکھا کہ کھانے کی میز کے اردگرد چار کرسیاں لگی تھیں اور تین افراد کے لئے پلیٹیں اور پیالیاں رکھی تھیں۔ جب وہ اپنی کرسی پر بیٹھا تو اس نے نوٹ کیا کہ امریکی صدر کی پلیٹ میں فقط ایک ابلا ہوا انڈا رکھا تھا جبکہ ونسٹن چرچل کی پلیٹ میں دو ابلے انڈے پڑے تھے۔ میں نے اتفاق سے چرچل اور روز ویلیٹ کی خط و کتابت پر نظر ڈالی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دونوں حاضر جواب، وٹی (Witty)اور پڑھے لکھے سیاستدان تھے۔ چنانچہ صدر وز ویلیٹ نے طنزیہ انداز سے مسکراتے ہوئے پوچھا کہ مسٹر وزیراعظم میں یہ کیا دیکھ رہا ہوں؟ آپ کی پلیٹ میں دو ابلے انڈے پڑے ہیں اور میری میں صرف ایک۔ چرچل جواباً مسکرایا اور کہا کہ جناب صدر یہ سوال سارہ چرچل سے پوچھیں جو کھانے کے بندوبست کی انچارج ہے۔ سارہ چرچل وزیراعظم چرچل کی بیٹی تھی اور اپنے باپ کے لئے کھانا تیار کرتی تھی۔ اتنے میں سارہ بھی آگئی۔ وہ ناشتے کی میز پر تیسری ”مہمان“ تھی بلکہ میزبان تھی۔
صدر روز ویلیٹ نے وہی سوال سارہ سے پوچھا تو اس نے جواب دیا کہ مسٹر صدر! جنگ عظیم کی وجہ سے ہمارے ملک میں راشننگ کا نظام جاری ہے۔راشننگ ہم پر اسی طرح لاگو ہے جس طرح عام شہری پر۔ راشننگ کے اصول کے تحت ایک شخص کو صرف ایک انڈا ملتا ہے۔میرا باپ دو انڈے کھانے کا عادی ہے چنانچہ میں انہیں اپنے حصے کا انڈا بھی دے دیتی ہوں۔ اسی لئے آپ دیکھ رہے ہیں کہ میری پلیٹ میں صرف ٹوس رکھے ہیں، انڈا کوئی نہیں۔ راشننگ کے نظام کے تحت مہمان کو بھی ایک ہی انڈا ملتا ہے چنانچہ آپ کو ایک ہی انڈے پر گزارہ کرنا پڑے گا۔ سارہ کا جواب سن کر روز ویلیٹ کھسیانی ہنسی ہنسا اور ناشتے میں مصروف ہوگیا۔ میں نے جب یہ واقعہ سنا تومجھے حضرت عمر کی قمیض اور دو چادروں والا واقعہ یاد آگیا۔ ان کو بھی اپنے حصے کی چادر ان کے بیٹے نے دی تھی لیکن ظاہرہے کہ اس طرح کے واقعات صرف ان ملکوں اور معاشروں میں ہوتے ہیں جہاں قانون کی حاکمیت اور انسانی برابری کے اصولوں پر خلوص نیت سے عمل کیا جاتا ہو اور جہاں حاکم یا حکمران اپنے آپ کو مخلوق خدا اور خدا کے سامنے جوابدہ سمجھتے ہوں یا کم از کم اپنے ضمیر کی عدالت میں جوابدہی سے ڈرتے ہوں۔ ذرا غور کیجئے کہ کیا آپ اس طرح کے طرز عمل کی توقع پاکستان میں کرسکتے ہیں جہاں حکمران تو دور کی بات ہے حکمرانوں کے کارندے، بااثر شہری، فیوڈل لارڈ، بیورو کریٹ، اسمبلیوں کے اراکین، روساء اور وزراء نہ صرف اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں بلکہ قانون کی پامالی کو طرہ امتیاز اور باعث فخر سمجھتے ہیں۔ اگر آپ ذرا گہری نظر سے دیکھیں تو آپ کو تصور خدا سے عاری مغربی جمہوریتوں کی ترقی کا راز قانون کی حکمرانی، مساوات اور انصاف میں ملے گا اور اپنی تباہی کا سامان ان اقدار کی نفی میں نظر آئے گا۔
یہی وجہ ہے کہ قائداعظم کی سینکڑوں تقاریر میں آپ کو قانون کی حاکمیت، انسانی برابری، معاشی عدل اور انصاف کا ذکر بار بار ملے گا کیونکہ انہوں نے مغربی معاشرے کی ترقی اور نظم و ضبط کا راز ان اصولوں میں پایا تھا جبکہ انہیں علم تھا کہ ہمارے ذات پات زدہ فیوڈل معاشرے، جاگیردارانہ ذہن اور غیر اسلامی رویوں نے ہماری انسانی اور معاشرتی ترقی کا راستہ روک رکھا ہے۔ قائداعظم جب اسلامی فلاحی معاشرے یا پاکستان کے لئے ایسے جمہوری نظام کی بات کرتے تھے جو اسلامی اصولوں پر استوار کیا جائے گا تو ان کے پیش نظر وہی اصول تھے جنہوں نے خلافت راشدہ کے دور کو چار چاند لگا دیئے تھے اور مسلمانوں کو ”آئیڈیل“ فراہم کر دیا تھا۔ خلافت راشدہ یا اسلامی نظام کی ایک اہم بنیاد یا اہم ستون سادگی بھی تھا جسے مغربی حکمرانوں نے کسی حد تک اپنا لیا ہے لیکن ہمارے رئیس مزاج جاگیردار اور خزانہ چور حکمران انہیں قبول کرنے کے لئے تیار نہیں۔ سچ یہی ہے کہ جب تک اقتدار روایتی سیاستدانوں اور موروثی حکمرانوں کے پاس رہے گا اس رویے، شاہانہ انداز حکومت اور قومی خزانے کو پانی کی طرح استعمال کرنے کا سلسلہ جاری رہے گا۔ ہاں اگر کبھی اس ملک کو قوم کا درد رکھنے والی مخلص قیادت میسر ہوگئی تو آپ قائداعظم کی سادگی کے واقعات کو اصلی روپ میں دیکھ سکیں گے۔
یاد آیا۔ ایم اے اصفہانی قائداعظم کے دیرینہ دوست اور پرانے ساتھی تھے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان کے امریکہ میں پہلے سفیر مقرر ہوئے۔ اگر میرا حافظہ مجھے دھوکہ نہیں دے رہا تو میری اطلاع کے مطابق واشنگٹن میں اصفہانی صاحب نے ایک عمارت خرید کر حکومت پاکستان کو تحفہ میں دی تھی اسی لئے میں قائداعظم کے ساتھیوں کو قوم کو ”دینے والے“ کہتا ہوں کیونکہ ان کے بعد پھر ہم نے صرف ”لینے والے“ ہی دیکھے۔ اس دور میں اس طرح کے ایثار اور قومی خدمت کی کہانیاں خاصی تعداد میں ملتی ہیں اور قلب و ذہن کو گرماتی ہیں۔ میرے دوست حسین حقانی نے ایک تجربہ کار شوہر کی مانند تیسری شادی بہت سوچ سمجھ کرکی کیونکہ ان کی تیسری بیگم فرح اصفہانی ہیں جو ایم اے اصفہانی کی پوتی ہیں۔ اصفہانی صاحب نے قائداعظم پر ایک اچھی کتاب بھی لکھی ہے۔
اصفہانی صاحب کہتے ہیں کہ میں کراچی میں قائداعظم سے ملنے گورنر جنرل ہاؤس گیا۔ جب ہماری ملاقات ختم ہوئی اور قائداعظم مجھے خدا حافظ کہنے باہر نکلے تو انہوں نے برآمدے میں قدم رکھتے ہی کمرے کی بتی بجھا دی۔ ہم سیڑھیوں کی جانب بڑھ رہے تھے میں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ”مسٹر جناح گورنر جنرل ہاؤس کی بتیاں جلتی رہنی چاہئے“۔ اتنے میں ہم سیڑھیوں کے پاس پہنچ گئے جہاں گورنر جنرل نے مجھے رخصت کرنا تھا۔ قائداعظم بولے ”آپ سیڑھیاں اتر جائیں گے تو میں یہ بتی بھی بجھا دوں گا، میرے غریب ملک کا خزانہ ایک پائی کا ضیاع بھی برداشت نہیں کرسکتا“۔
یہ الفاظ کس کے تھے؟ یہ الفاظ اس شخص کے تھے جس کے دل اور رگ و پے میں قوم کا درد موجزن تھا۔ آج کے حکمران آپ کے سامنے ہیں وہ کس طرح عیش و عشرت کے لئے قومی خزانے کو پانی کی طرح استعمال کر رہے ہیں اور کس طرح بے دریغ لوٹ مار میں مصروف ہیں یہ سب کچھ آپ دیکھ رہے ہیں۔
عالمی معاشی رپورٹ کے مطابق نو کروڑ پاکستانی انتہائی غربت کا شکار ہیں جبکہ حکمرانوں کا روزانہ خرچہ لاکھوں روپوں میں ہے۔ پھر میں یہ کیسے مان لوں کہ ان کے دلوں میں قوم کے درد کی کوئی رمق بھی باقی ہے اور وہ غریبوں کا دکھ محسوس کرتے ہیں، ان غریبوں کا جن کے جذباتی استحصال کے لئے وہ دن رات نعرے لگاتے اور بڑھکیں مارتے ہیں۔ اب اس کا کیا کیجئے کہ وہ غریب پھر انہی کے جھانسے اور فریب میں آجاتے ہیں؟ پھر انہیں کو ووٹ دے کر سر پر بٹھا لیتے ہیں؟