Saturday 19 May 2012

آغاز تو اچھا ہے انجام خدا جانے November 02, 2011


تاریخ کا طالب علم ہونے کا ایک ”نقصان“ یہ ہوتا ہے کہ انسان ہر واقعے کو تاریخ کے حوالے سے دیکھنا شروع کر دیتا ہے۔ اسی حوالے سے میں یہ بات سوچ سمجھ کر عرض کر رہا ہوں اور اسے نوٹ کر لیجئے کہ حصول پاکستان کی تحریک کا آغاز بھی 23/ مارچ 1940ء کو اسی جگہ سے ہوا تھا اور نئے پاکستان کے حصول کی تحریک کا آغاز بھی بین ہی اسی جگہ سے 30/ اکتوبر 2011ء کو ہوا ہے۔ جس طرح قرارداد پاکستان منظور کرنے کے بعد قائداعظم مسلمانوں کے ایک منفرد اور متفقہ لیڈر بن کر ابھرے تھے اسی طرح عمران خان تبدیلی اور انقلاب کی علامت بن کر ابھرا ہے۔ مقصد قائداعظم اور عمران خان کا موازنہ نہیں کیونکہ قائداعظم تو صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں اور بقول مولانا شبیر احمد عثمانی محمد علی جناح اورنگ زیب عالمگیر (1707) کے بعد مسلمانوں کے سب سے بڑے لیڈر تھے گویا مسلمانوں کی تاریخ نے تقریباً ڈھائی صدیاں کروٹیں لیں اور طویل سفر طے کیا تب مسلمانوں کو ایک لیڈر نصیب ہوا۔ اسی لئے تو اقبال نے کہا تھا کہ بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا۔
میں تو فقط معروضی حالات اور زمینی حقائق کا موازنہ کر رہا ہوں کہ قوموں کا مقدر دنوں، ہفتوں اور چند برسوں میں نہیں بدلتا اور ہر تبدیلی۔ ہر انقلاب۔ ہر منزل اپنے ساتھ ایک لیڈر لاتی ہے اور پھر وہ لیڈر اور تحریک یکجا اور ہم نام ہو جاتے ہیں جس طرح تحریک پاکستان اور قائداعظم ایک ہی جذبے کا نام ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ نیا پاکستان اور تبدیلی عمران خان کے ساتھ یکجا اور ہم نام ہو چکے۔ لیڈر کون ہوتا ہے؟ لیڈر وہ ہوتا ہے جو لوگوں کے دلوں میں پوشیدہ آرزوؤں اور خوابوں کا ادراک کر سکے۔ قائداعظم نے کہا تھا کہ مسلمان عوام مجھے اس لئے آنکھوں پر اٹھاتے اور دلوں میں سجاتے ہیں کیونکہ میں نے وہ بات ببانگ دہل کہہ دی ہے جو ان کے دلوں میں دھڑکتی تھی۔ اور وہ بات ایک اسلامی ریاست کے قیام کا خواب ہے جسے مسلمان اپنی آنکھوں میں سجائے پھرتے ہیں۔ عمران کا کمال بھی فقط اتنا سا ہے کہ اس نے لوگوں خاص طور پر نوجوانوں کے دلوں میں جھانک کر تبدیلی کی خواہش کو تڑپتے دیکھ لیا چنانچہ وہ عوام کو آزمائے ہوئے اور مفاد پرست لیڈروں سے نجات دلانے کا نعرہ لے کر نکلا اور دیکھتے ہی دیکھتے چھا گیا۔ لوڈ شیڈنگ، کرپشن، لوٹ مار، مہنگائی، غربت، بے روزگاری، ظلم و ستم، انصاف کا فقدان اور لاقانونیت اور نا اہل لیڈروں سے نالاں لوگوں کا جم غفیر بلکہ ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تبدیلی کی خواہش کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے مینار پاکستان پہنچ گیا ان میں بوڑھے، نوجوان، معذور، مزدور، عورتیں، بچے سبھی شامل تھے جنہیں ایک جذبہ کھینچ لایا تھا، ایک خواب اپنے پروں پر بٹھا کر لے آیا تھا چنانچہ میں نے دیکھا کہ ہر شخص جذبے سے شعلہ جوالہ بنا ہوا ہے، ہر شخص جذبات کا دامن تار تار کر دینا چاہتا ہے، ہر شخص تبدیلی کی خواہش سے ابل رہا ہے اور ہر شخص نئے پاکستان کے حوالے سے یقین محکم کی دولت سے مالا مال ہے۔ میں نے کچھ جلسے تاریخ کی آنکھ سے دیکھے اور کچھ اپنی گناہگار آنکھوں سے دیکھے۔
عمران کے جوش آفریں جلسے پر نگاہ ڈالتے ہوئے میرا شعوری احساس کہہ رہا تھا کہ قائداعظم کے مارچ 1940 اور بے نظیر بھٹو کے اپریل 1986ء کے جلسوں کے بعد یہ سب سے بڑا اور اصلی جلسہ ہے۔ اصلی جلسہ وہ ہوتا ہے جسے ضلعی انتظامیہ، سرکاری کارندوں اور سرکاری سیاستدانوں نے نہ سجایا ہو بلکہ اس میں لوگ اپنے جذبے سے مجبور ہو کر خود آئے ہوں۔ نقلی جلسوں میں لوگ بیزار، تھکے ہوئے اور قیدیوں کی مانند بیٹھے یا کھڑے ہوتے ہیں جبکہ پیشہ ور نعرے باز یا خوشامدی گلے پھاڑتے رہتے ہیں لیکن اصلی جلسہ وہ ہوتا ہے جس میں شرکاء کے جسم کا انگ انگ انگاروں کی مانند دہکتا اور جذبات سے تھرکتا نظر آتا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ تعداد بھی ایک نہایت اہم فیکٹر ہوتا ہے کیونکہ تعداد ذہنوں کو متاثر کرتی اور قومی نفسیات پر اثر انداز ہوتی ہے لیکن میرے نزدیک تعداد سے زیادہ اہم فیکٹر جذبہ ہوتا ہے کیونکہ یہ جذبہ ہی ہے جس کا سونامی پہاڑوں اور چٹانوں کو روندتا اور تاریخ کا دھارا بدل دیتا ہے۔ جذبے کی آنکھ سے دیکھیں تو عمران کا جلسہ ذہنوں کو متاثر کرتا اور دل میں اتر جاتا تھا۔ گویا اس جلسے نے نئے پاکستان کی تحریک کا آغاز تو کر دیا لیکن ابھی اس تحریک کو منزل پر پہنچنے کے لئے طویل سفر طے کرنا ہے۔ اس کا انحصار جہاں قیادت کے خلوص، ویژن اور محنت پر ہوتا ہے وہاں اس کی کامیابی کا انحصار خاص حد تک قدرت کی مہربانی اور آسمان پر ہونے والے فیصلوں پر بھی ہوتا ہے۔ خود قائداعظم کو علم نہیں تھا کہ 1940ء کے بعد وہ سات برسوں میں پاکستان حاصل کر لیں گے۔ تاریخ کا فیصلہ ہے کہ تحریک پاکستان نے ان سات برسوں میں کم سے کم نصف صدی کا سفر طے کیا کیونکہ یہی مشیت ایزدی تھی۔ میرا دل کیوں کہتا ہے کہ پاکستان اس انتہائی پستی سے ابھر کر بلندی پر جائے گا۔
پاکستان کو اگلے سال کے دوران امن اور بہتری نصیب ہو گی اور پھر 2013ء تک پاکستان اپنے بنیادی مسائل پر قابو پا کر خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو گا۔ دنیائے اسلام کی راہنمائی ایک نہ ایک دن پاکستان کے مقدر میں لکھی ہوئی ہے۔ میرا دل اس لئے اس پر یقین رکھتا ہے کہ کیونکہ اسے اطمینان ہے کہ اس ملک پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی رحمتوں اور میرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعاؤں کا سایہ ہے۔ ہم مصیبت کے امتحان سے گزر رہے ہیں اور یہ آزمائش اب ختم ہونے والی ہے۔ تبدیلی کی ہوا چل پڑی ہے اور لوگوں نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ایسی صورت میں عوامی لہر قیادت کا رخ خود متعین کرتی ہے۔ اگر عمران خان اس جذبے اور لہر کو کیش نہ کر سکا تو کوئی اور کر لے گا کیونکہ اب تبدیلی ناگزیر ہو چکی ہے۔ میں عمران سے کبھی نہیں ملا، بلکہ شاید اسے دیکھا بھی نہیں۔ میرا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں۔ میرا مکمل ترین لیڈر میرا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، میرا سیاسی لیڈر محمد علی جناح، میرا جذباتی و فکری لیڈر اقبال اور میری پارٹی پاکستان ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے کرم کرتے ہوئے میرا دل خاص حد تک دنیاوی آلائشوں، خواہشات اور سرکاری منصب کی آرزو سے پاک کر دیا ہے لیکن میں بہرحال ایک کمزور انسان ہوں۔ مجھے اعتماد ہے کہ میں نے سرکاری زندگی کے دوران رزق حلال کھایا اور کبھی جان بوجھ کر کسی سے بے انصافی یا زیادتی نہیں کی۔ چنانچہ جب عمران خان نے اسٹیج پر مغرب کی نماز کی نیت کی تو میرے دل نے کہا کہ عمران بدل چکا ہے، اس کے قلب پر کسی صوفی کی نگاہ نے نقش مرتب کر دیا ہے۔
اب یہ وہ پلے بوائے عمران نہیں۔ اس نے تقریر کا آغاز کرتے ہوئے آسمان کی طرف دیکھا بہ آواز بلند پڑھا ”تیری عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں“ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے مسلمانی عمران کے اندر اتر چکی ہے۔ مسلمان وہی ہوتا ہے جو صرف اللہ کی عبادت کرے اور صرف اللہ ہی سے مدد مانگے۔ دل نے کہا کہ شاید یہ وہی شخص ہے جو اللہ سے مدد مانگ کر اس قوم کو غیروں کی پرستش اور غلامی سے نجات دلائے گا۔ اس نے پاکستان کے مسائل کا حل پیش کیا تو کئی مقامات پر اختلاف کے باوجود دل نے گواہی دی کہ یہ شخص خلوص نیت سے اور ایمانداری سے بات کر رہا ہے اور جب خلوص نیت اور ایمانداری سے بات کی جائے تو خدائی مدد شامل حال ہو جاتی ہے۔ یہی قائداعظم کا قیمتی ترین سیاسی اثاثہ تھا اور اگر عمران اس راہ پر چلتا رہے تو یہی اس کا اثاثہ بنے گا۔ میں جانتا ہوں کہ یہ ابھی کٹھن سفر کی شروعات ہے عمران کو سارے ملک میں پارٹی کا جال بچھانا اور کارکنوں کو منظم کرنا ہے۔ گویا سفر کٹھن اور طویل ہے لیکن مجھے یقین ہے جب سچے دل سے اللہ کی عبادت کی جائے اور سچے دل سے اس کی مدد مانگی جائے تو برسوں کا سفر دنوں میں طے ہو جاتا ہے۔ انشاء اللہ باقی پھر…!!

No comments:

Post a Comment