Saturday 19 May 2012

مغربی شعبدوں کا طوفان. December 04, 2011


کبھی آپ نے غور کیا کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں کس طرح عوام کو بے وقوف بناتی اور دونوں ہاتھوں سے لوٹتی ہیں۔ حسن اتفاق کہ ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اکثریت کا تعلق امریکہ اور یورپی ممالک سے ہے اور یہ کمپنیاں بڑی کاریگری اور ہوشیاری سے پسماندہ اور غریب ممالک سے سرمایہ کما کر اپنے رئیس اور خوشحال ممالک میں منتقل کرتی رہتی ہیں۔ امریکہ کی ایک عالمی سطح کی ملٹی نیشنل کمپنی کے ایک ملازم نے مجھے بتایا کہ اس کی کمپنی ہرسال پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک سے کروڑوں ڈالر کماتی ہے جو سفر طے کرتے کرتے امریکہ پہنچ جاتے ہیں۔ ان کمپنیوں کا سارا فوکس آئیڈیا اچھوتا خیال یا پرکشش منصوبے پر ہوتا ہے اور اس مقصد کے لئے انہوں نے سینکڑوں برین یا قابل دماغ ملازم رکھے ہوتے ہیں جوسال بھرکمپنی کے لئے سوچتے، اسے نئے نئے آئیڈیاز دیتے اور پرانے منصوبوں کو بہتر سے بہتر بنانے میں مصروف رہتے ہیں۔ پھر یہ کمپنیاں ان آئیڈیاز یا منصوبوں پرعمل کرنے کے لئے سرمایہ کاری کرتی ہیں اور دنیا بھر میں ان کی مارکیٹنگ کرتی ہیں ایک اندازے کے مطابق یہ کمپنیاں پہلے ہی ”ہلے” میں کئی گنا منافع کما لیتی ہیں ۔
آپ ان منصوبوں کو ایجادات بھی کہہ سکتے ہیں اگرچہ اپنی نوعیت کے حوالے سے یہ ایجادات چھوٹی چھوٹی ہوتی ہیں تاہم بے تحاشا منافع کماتی ہیں، پسماندہ اور ترقی یافتہ ممالک کے لوگ ان کے ظاہری حسن، پبلسٹی اور گلیمر کے جال میں پھنس کر اپنی جیبوں پر بوجھ ڈالتے رہتے ہیں اور بالآخر یہ کمائی کئی ہاتھوں سے گزر کر امریکہ اور دوسرے یورپی ممالک میں پہنچ جاتی ہے۔ ہم بنیادی طور پر نہ ہی صرف اس طرح کے کمرشل برین اور ایجاداتی سوچ سے محروم ہیں بلکہ ہمارے ہاں ایسے آئیڈیاز پرسرمایہ کاری کے امکانات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ایک اور اہم مسئلہ نفسیاتی نوعیت کا ہے وہ یہ کہ نصف صدی سے زیادہ آزادی کے باوجود ہم ذہنی اور اندرونی طورپر نفسیاتی غلامی کا شکار ہیں اور مغرب سے آنے والی ہر رسم کو اندھا دھند اپناتے اور بلا سوچے سمجھے اس پر تفاخر کا اظہار کرتے ہیں۔ چلئے اس بات کو تو آپ اہمیت نہ دیں کہ جرمنی کی جینز بنانے والی کمپنی ہمارے کل بجٹ سے تین گنا زیادہ کماتی ہے اور تقریباً دنیا کے سارے ممالک میں جین پہننے کو مقبولیت کا درجہ حاصل ہو چکا ہے۔ اس خطے کا روایتی اور صدیوں پرانا لباس دھوتی اور پھر شلوار پاجامہ بہت سی وجوہ کی بنا پر آرام دہ اور کارآمد نہیں رہا اوراس کا استعمال مہنگا بھی پڑتا ہے لیکن کیا ہماری کسی کمپنی یا ادارے نے اس کا حل ڈھونڈھا؟ اس خلاء کو جین اور پتلون نے پر کیا کیونکہ نوجوان کاریگر اور کام کرنے والے اسی جین میں سوتے اور پھر اسی طرح کالج سکول کارخانے یا کام والی جگہ پر چلے جاتے ہیں ایک جین کئی برس چل جاتی ہے اور جوں جوں پرانی ہوتی ہے فیشن کی دنیا میں زیادہ مقبولیت کا درجہ پاتی ہے۔ اسی طرح سویڈن اوردوسرے بعض ممالک نے چاکلیٹ کی دنیا پر خاص حد تک موناپلی قائم کر رکھی ہے جس سے وہ ہرسال اربوں ڈالر کماتے ہیں۔ کیا ہم نے اپنی کھانے والی اشیاء یا مٹھائیوں کوفوڈ ویلیو کے ماڈرن پیمانوں کے مطابق اس قابل بنایا کہ اس کی بین الاقوامی مارکیٹنگ کی جاسکے؟ ہماری فوڈ آج بھی کولیسٹرول اور شوگر جیسے امراض کی حوصلہ افزائی کرتی ہے اور معدے پربوجھ بنتی ہے چنانچہ وہ لوگ جو امراض کا شعور رکھتے ہیں اپنی ہی مٹھائیوں، کیک وغیرہ سے پرہیز کرتے ہیں ۔ ہم دودھ ، لسی پینے والی قوم تھے لیکن ملٹی نیشنل کمپنیوں نے ہمیں سافٹ ڈرنکس وغیرہ کا عادی بنا دیا ہے ۔ان میں اکثر ڈرنکس برگر کی مانند صحت کے لئے مضر ہیں لیکن ہم فیشن اور عادت کے طور پر انہیں کھاتے اور پیتے ہیں اور اس عادت سے امریکہ کی یہودی کمپنیاں اربوں ڈالر کماتی ہیں۔ آج سے دو دہائیاں قبل ہم نے مدر ڈے (Mother Day)، فادر ڈے (Father Day)یا ویلنٹائن ڈے کا نام تک نہ سنا تھا کیونکہ ہماری اقدار کے مطابق والدین مستقل احترام اور خدمت کا درجہ رکھتے ہیں چنانچہ ہمارے ہاں ہر دن یوم ماں اوریوم باپ ہوتا ہے ماسوا ء نافرمان اولاد کے یہ المیہ مغرب کا ہے کہ وہاں لوگ اپنی انفرادی زندگی میں اس قدر مصروف رہتے ہیں کہ انہیں صرف برتھ ڈے کی ہوش ہوتی ہے اور باقی ہرشے ہر روز کی تفریح کے سمندر میں بہہ جاتی ہے۔ مجھے آکسفورڈ کی ایک سرد ترین رات نہیں بھولتی۔ نہایت سرد ہواکے ساتھ ساتھ آسمان سے روئی کے گالوں کی مانند تھوڑی تھوڑی برف بھی برس رہی تھی اور میں اپنے ہوسٹل جانے والی ویران سڑک کے فٹ پاتھ پر تنہا چل رہا تھا۔ اتنے میں اچانک نظر پڑی تو میں نے ایک بوڑھی عورت کو ایک گھر کی دہلیز پر پھول پکڑے ٹھٹھرتے دیکھا۔ اس نے ایک دوبار گھر کی گھنٹی بجائی اور پھر دروازہ کھلنے کا انتظار کرنے لگی۔ گھر کے قریب پہنچا تو اندر سے ”ببانگ دہل‘’ میوزک نے میرا استقبال کیا۔ میرے لئے یہ اندازہ کرنا مشکل نہ تھاکہ اندر برتھ ڈے پارٹی کا اودھم عروج پر ہے اور یہ ماں ہے جو دہلیز پرکھڑی بیٹے کوہیپی برتھ ڈے کہنے اور پھول دینے کا انتظار کر رہی ہے۔ اس مجبوری، مصروفیت اور کلچر کا فائدہ اٹھا کر ملٹی نیشنل کمپنیوں نے مدر ڈے، فادر ڈے وغیرہ وغیرہ ایجاد کر لئے ہیں۔
یوں سال میں ایک روز والدہ اور ایک روز والد کے لئے تحفے اور کارڈ مجبوری بن گئے ہیں۔ صرف ان دو ایام پر اربوں ڈالر کے تحائف، پھول اور کارڈ بک جاتے ہیں اور یہ کمپنیاں خاصا منافع کما لیتی ہیں۔ ہماری قوم کا نفسیاتی غلام طبقہ جسے بالاتر طبقہ بھی کہاجاسکتا ہے۔ مغرب کے تہواروں، فیشن اورتماشوں کی نقالی باعث افتخارسمجھتا ہے حالانکہ آپ غور کریں تو ان جذباتی شعبدوں کے پس پردہ کمرشل سوچ اور منافعے کمانے کے محرکات نظر آئیں گے۔ گزشتہ دنوں مجھے لاہور کے ایک پسماندہ علاقے کا سکول ٹیچر ملنے آیا اور باتوں باتوں میں اس سے یہ بات سن کر مجھے حد درجہ خوشی ہوئی ۔ اس نے بتایا کہ میں ہرروز سکول جاتے ہوئے اور گھر واپسی پر سب سے پہلے والدین کے کمرے میں جاتا ہوں، سلام کرتا اور دعائیں لیتا ہوں،یہ ہمارے دین کی دین اورہمارے اسلامی کلچر کا تقاضا ہے مجھے اس وقت حضرت امام حسین کا یہ قول بہت یاد آیا ”جب بھی وقت ملے اپنی ماں کے پاس بیٹھ جایا کرو، کیونکہ ماں کے ساتھ گزرا وقت قیامت کے دن نجات کا باعث بنے گا“۔ ہاں ہمارے ہاں بھی نافرمان فرزندوں کی کمی نہیں لیکن انہیں اپنے حال پر چھوڑ دو کہ غلط پرورش کا علاج مدر ڈے بھی نہیں کرسکتا۔ ویلنٹائن ڈے کی وباء نے تو ہمارے تعلیمی اداروں کو محبت کا اکھاڑہ بنا دیا ہے اور بے حیائی کو تیزی سے فروغ دیا ہے۔
یہ مغربی شعبدے مغرب کے کلچر کا حصہ ہیں اور ان کا محرک کمرشل یعنی پیسہ کمانا ہے یہ میڈیا کا کمال ہے کہ ہم انہیں فیشن کے طورپر اپنا رہے ہیں اور اپنی معاشرتی اتوار سے دورہوتے جا رہے ہیں ہم مغرب کی عسکری یلغار، ڈرون حملوں اور نیٹو حملوں کے خلاف تو زوردار احتجاج کرتے ہیں، امریکی جھنڈے جلاتے اور امریکی صدر کے پتلے بھی جلاتے ہیں اور یہودی منصوبوں سے بھی خوفزدہ رہتے ہیں لیکن امریکی، یہودی اور مغربی فیشن اور تہواروں کے شعبدوں کو اپنانا باعث صد افتخار سمجھتے ہیں حالانکہ یہ بھی ڈرون حملوں اورعسکری یلغار سے کم خطرناک نہیں وہ ان ہتھکنڈوں سے ہمارے ذہنوں کو متاثر کرتے اور جیبوں پر ڈاکے ڈالتے ہیں اور ہمیں بیوقوف بناتے رہتے ہیں۔ بعض معاملات میں سڑکوں پر احتجاج بھی ضروری ہوتا ہے لیکن اس سے زیادہ ضروری مغرب کی فیشن یلغار اور کمرشل ہتھکنڈوں کا بائیکاٹ ہے جو ہماری اقدار کو پامال کرتے اور ہماری قیمت پر ان کے معاشی ہاتھ مضبوط کرتے ہیں۔ خدارا غور کیجئے اور اس طوفان کے سامنے بند باندھنے کی تدبیر کیجئے۔ 
 

No comments:

Post a Comment