Sunday 20 May 2012

ایک جاسوس کی چشم کشا سرگزشت May 01, 2012


ڈاکٹر جاوید رضوی نے انگلستان سے مجھے ایک کتاب بھجوائی جسے میں نے اپنے سائیڈ ٹیبل پر اس نیت سے رکھ دیا کہ جب اس کی باری آئے گی تو پڑھوں گا۔ ڈاکٹر صاحب کا فون آیا تو انہوں نے اس کتاب کے مطالعے کا شوق پیدا کر دیا۔ کتاب پڑھنی شروع کی تو اتنی دلچسپ کہ میں اس میں گم ہو گیا۔ میں چونکہ بنیادی طور پر تاریخ کا طالب علم ہوں اس لئے اس کتاب کے مطالعے نے مجھے تھوڑا سا حیران کر دیا۔ حیرانی کے اس عالم میں میں نے اس کتاب میں بیان کئے گئے واقعات کی تصدیق دوسرے مواد سے کی تو راز کھلا کہ اس میں بیان کئے گئے واقعات و حالات کافی حد تک درست ہیں۔
یہ کتاب ایک برطانوی جاسوس ہمفرے کی ڈائری ہے جس میں اس نے نہ صرف اپنی سرگرمیوں پر روشنی ڈالی ہے بلکہ برطانیہ کے وزارت نو آبادیات کے منشور، مقاصد اور منصوبوں کو بھی بے نقاب کیا ہے۔ آج کا برطانیہ وہ نہیں جو تین صدیاں قبل تھا کیونکہ اس وقت برطانیہ ایک عالمی قوت تھا جو مختلف ممالک کو سازشوں، جوڑ توڑ، معاشرتی نفاق، رشوت اور عسکری قوت کے بل پر اپنی کالونی یعنی غلام بنا رہا تھا اور ان ممالک کے وسائل پر قابض ہو کر اپنی معاشی ترقی کی راہیں تراش رہا تھا۔ اگرچہ یہ کتاب تین صدیاں پرانی داستان بے نقاب کرتی ہے لیکن اس میں بیان کی گئی بنیادی سچائیاں، خاص طور پر مسلمان معاشرے کی کمزوریاں، مذہبی نفاق، فرقہ بندی، ترقی کی خواہش اور حکمت عملی کا فقدان، غلط عقائد کی پیدا کردہ بے عملی اور بدعملی، جہالت کے سبب پسماندگی وغیرہ وغیرہ آج بھی اسی طرح موجود ہیں جس طرح تین چار صدیاں قبل موجود تھیں۔ نتیجے کے طور پر مسلمان معاشرہ جو پچاس سے زیادہ ملکوں پر محیط ہے تین صدیاں گزرنے کے باوجود تقریباً وہیں کھڑا ہے اور ہر دن سائنسی، تکنیکی ، علمی اور معاشی ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ رہا ہے۔ سنگا پور، کوریا، جاپان، چین جیسے ممالک جو چند صدیاں قبل قابل توجہ بھی نہیں سمجھے جاتے تھے آج ترقی کی دوڑ میں تیزی سے منزلیں طے کر رہے ہیں اسلامی دنیا کے پچاس سے زیادہ ممالک میں سے فقط آپ دو مثالوں کا ذکر کرتے ہیں جو ملائشیا اور انڈونیشیا اور تھوڑی حد تک یو اے ای تک محدود ہیں۔ اسلامی دنیا میں سائنس، تعلیم، مالیات کے میدانوں میں آگے بڑھنے کی سب سے بڑی صلاحیت اور وسائل پاکستان کے پاس تھے لیکن گزشتہ تیس چالیس برسوں میں ساری امیدیں خاک میں مل گئیں۔ یہ اسلامی تاریخ کا ایک بڑا سانحہ ہے کہ ہندوستان نے سیاسی حکمت عملی اور عسکری قوت کی بنا پر پاکستان کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا لیکن یہ سانحہ بھی کسی سانحے سے کم نہیں کہ پاکستان ٹوٹنے کے باوجود تمام تر انسانی اور قدرتی وسائل کے باوجود ترقی نہ کر سکا۔ بلاشبہ پاکستان ایٹمی قوت بن گیا لیکن سیاسی، معاشی، تعلیمی اور سائینسی قوت نہ بن سکا حالانکہ یہ منزلیں طے کرنے کے لئے پاکستان کے پاس وسائل موجود تھے۔ اب تو خیر عالمی سطح پر ترقی کا ذکر ہی کیا پاکستان کو سیاسی عدم استحکام، لوڈ شیڈنگ، مذہبی تشدد اور معاشی پسماندگی کے ”لالے پڑے“ ہوئے ہیں اور یہ سب کچھ ہماری بے بصیرت حکمت عملی، کرپشن اور سیاسی قیادت کی نااہلی کا کیا دھرا ہے۔ دو دہائیاں قبل اور اس سے قبل پاکستان ٹیکسٹائل کے میدان میں عالمی سطح پر ممتاز مقام رکھتا تھا لیکن آج صورت یہ ہے کہ ہماری چالیس فیصد ٹیکسٹائل بنگلہ دیش اور بہت سی تھائی لینڈ سپین اور یو اے ای منتقل ہو چکی ہے۔ یہ معاشی خود کشی نہیں تو اور کیا ہے؟
ہاں تو میں انگلستان کے جاسوس ہمفرے کی ڈائری کا ذکر کر رہا تھا جسے انگلستان کی وزارت برائے نوآبادیاتی علاقوں نے 1710 میں مصر، عراق، ایران، حجاز اور عثمانی خلافت میں جاسوسی پر مامور کیا اور جو اپنے ملک کی خدمت اور برطانوی استعمار کو ترقی دینے کے خواب آنکھوں میں سجا کر اپنا گھر بار چھوڑ کر ایک خطرناک سفر پر روانہ ہو گیا۔ اس کے اپنے الفاظ کے مطابق ”مجھے ان علاقوں میں وہ راہیں تلاش کرنی تھیں جن سے مسلمانوں کو درہم برہم کر کے مسلم ممالک میں سامراجی نظام رائج کیا جا سکے۔ میرے ساتھ نوآبادیاتی علاقوں کی وزارت کے نو اور بہترین تجربہ کار جاسوس اسلامی ممالک میں اس کام پر مامور تھے اور بڑی تندہی سے انگریز سامراج کے اثر ونفوذ اور استحکام کیلئے سرگرم عمل تھے۔ ان وفود کو وافر سرمایہ فراہم کیا گیا تھا۔ یہ حضرات مرتب شدہ نقشوں اور تازہ اطلاعات سے بہرہ مند تھے۔ ان کو امراء، وزراء، حکومتی اعلیٰ عہدیداروں، علماء اور روساء کے ناموں کی مکمل فہرست دی گئی تھی۔ میرے ذمے دو اہم کام تھے۔ اول ترکی زبانی پر عبور حاصل کرنا اور اس کے بعد عربی زبان، قرآن اس کی تفسیر اور پھر فارسی سیکھنا اور مہارت کے اعتبار سے اس پر پوری دسترس حاصل کرنا تاکہ مجھ میں اور وہاں کے لوگوں میں کوئی فرق محسوس نہ ہو۔ ہمفرے تھکا دینے والے سفر کے بعد استنبول (قسطنطنیہ) پہنچا، بحری جہاز سے اترنے سے پہلے اپنا نام محمد رکھا اور شہر کی جامع مسجد میں داخل ہو گیا۔ پھر اس نے شہر کے ایک نیک اور بزرگ عالم احمد آفندی سے تعلقات استوار کئے۔ ”احمد آفندی دن رات عبادت میں مشغول رہتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو اپنی زندگی کا مطمع نظر بنائے ہوئے تھا۔ اسے جب معلوم ہوا کہ میں غریب الوطن اور یتیم ہوں اور عثمانی سلطنت کیلئے کام کر رہا ہوں جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی جانشین ہے تو وہ مجھ پر مہربان ہو گیا۔“ شیخ سے ہمفرے نے جس طرح عربی، قرآن، تفسیر اور تجدید پڑھی، اس میں دو برس لگ گئے کس طرح ہمفرے راتیں مسجد میں سو کر گزارتا تھا اور مسجد کے خادم کو کچھ رقم دے کر راضی رکھتا تھا یہ تفصیلات خاصی دلچسپ ہیں۔ شیخ کو جب معلوم ہوا ہمفرے غیر شادی شدہ ہے تو اس نے اسے شادی کا مشورہ دیا اور اس مقصد کے لئے اپنی ہی بیٹی کا انتخاب کیا لیکن ہمفرے نے نہایت مودبانہ انداز سے اپنے آپ کو شادی کے ناقابل ظاہر کر کے خود کو شادی اور شیخ کی ناراضگی سے محفوظ کر لیا۔ استنبول میں دو سال قیام کے دوران ہمفرے ہر ماہ رپورٹ بھجواتا رہا۔ پھر اس کی وزارت نے اسے واپس بلا لیا تاکہ وہ کچھ دن اپنے خاندان کے ساتھ گزارے، وزارت کو زبانی بریفنگ دے اور مزید تربیت لے کر کسی اور مسلم ملک میں فرائض کی سرانجام دہی کے لئے بھیج دیا جائے۔ لندن میں ہمفرے نے اپنی وزارت کو تفصیلی رپورٹ دی، وزیر اس کی ترکی، عربی، تجوید قرآن اور اسلامی شریعت پر دسترس سے بہت خوش تھا۔ چنانچہ اس نے کہا ”آئندہ کے لئے تمہیں دو اہم باتوں کا خیال رکھنا ہے۔ (1) مسلمانوں کی ان کمزوریوں کی نشاندہی کرو جو ہمیں ان تک پہنچنے اور ان کے مختلف گروہوں میں پھوٹ ڈالنے میں مددگار ثابت ہوں (2) کمزوریاں جان لینے کے بعد تمہارا کام ان میں پھوٹ ڈالنا ہے۔ چھ ماہ لندن میں گزارنے کے بعد ہمفرے کی منزل بصرہ تھی۔“ صرف اتنا ذہن میں رکھیں جو کام سترہویں اٹھارویں اور انیسیویں صدی میں انگلستان کر رہا تھا وہی کام گزشتہ ایک صدی سے دوسری بڑی قوت کر رہی ہے۔ مقاصد اور حکمت عملی وہی ہے البتہ انداز اور طریقہ واردات جدید سوچ، ماڈرن ایجوکیشن اور ٹیکنالوجی میں ڈھل گئے ہیں۔ (جاری ہے)


No comments:

Post a Comment