Saturday 19 May 2012

حرکت میں برکت اور اقبال کے نوجوان. November 12, 2011


کیا آپ دیکھ رہے ہیں یا محسوس کر رہے ہیں کہ آج کل وطن عزیز میں ہر طرف ہلچل بپا ہے، زندگی کے مختلف شعبے حرکت میں ہیں اور یوں لگتا ہے جیسے جمود ٹوٹ رہا ہے۔ مان لیا کہ اس حرکت اور عمل کی سمت واضح نہیں لیکن میں تو دل ہی دل میں اس بات پر خوش ہوتا ہوں کہ چلئے کچھ حرکت تو ہوئی، زندگی کے آثار تو نظر آئے، زمین نے بوجھ تو محسوس کیا اور کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے ۔ اس کفر یا خاموشی اور بے حسی اور مایوسی کو سب سے پہلے توڑا اسلامی جمعیت طلبہ نے جس نے لاہور میں چند دنوں کا سالانہ اجتماع کر کے زندگی کی رگوں میں حرارت پیدا کی۔ میں خود تو وہاں نہیں گیا کہ مجھے کنارہ کشی میں سکون ملتا ہے لیکن جو پڑھا اور سنا وہ سب زندگی کا پیغام تھا اور تبدیلی کا پیش خیمہ تھا۔ آپ حیران ہوں گے میں اسے کیونکر تبدیلی کا پیش خیمہ کہہ رہا ہوں؟ اگر تو بات صرف اجتماع تک محدود رہتی تو میں اسے سالانہ رسمِ وفا اور حسب ِمعمول سمجھ کر صرفِ نظر کر دیتا لیکن ہوا یوں کہ اجتماع کے بعد ملک کے گوشے گوشے سے آئے لاکھوں طلبہ نے نہایت منظم انداز سے سڑکوں پر جلوس نکالا، اللہ اکبر کے نعروں سے فضا کو گرمایا، کفر کو توڑا اور اپنے طاقتور قدموں سے زمین کے سینے میں ہلچل مچا دیا۔ جس بات نے میرے دل کی رگوں کو چھیڑا اور مجھے انجانی سی خوشی کی کیفیت سے دوچار کیا وہ تھا ان طلبہ کا وعدہ یا حلف کہ وہ تعمیر وطن کے لئے اپنے جذبوں کو وقف کر دیں گے۔ کہنے والے کہتے ہیں، ہو سکتا ہے سچ ہی کہتے ہوں کہ یہ جلوس لاہور کے تمام جلوسوں سے بڑا تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ طلبہ کا اجتماع تھا اور غیر سیاسی جلوس تھا حیرت ہے کہ میں جماعت اسلامی کے لیڈروں کی موجودگی کے باوجود اسے غیرسیاسی جلوس سمجھتا ہوں کیونکہ اس نوجوان اجتماع کا مقصد کوئی سیاسی پیغام دینا ہرگز نہیں تھا، اس کا حاصل لاکھوں نوجوان طلبہ کا تعمیر وطن کا عہد تھا۔ نوجوان میرے قائد اور بانی ٴپاکستان کی سب سے بڑی کمزوری اور محبت تھے۔ قائد اعظم مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کو انقلاب کا ہراول دستہ اور فائر بریگیڈ کہتے تھے۔ فائر بریگیڈ جب حرکت میں آتا ہے تو ”کان پھاڑ“ گھنٹیوں یا ہارن سے اپنی آمد کا اعلان کرتا ہے، ہر مقام سے اپنا راستہ بناتا گزر جاتا ہے اور پھر آگ بجھا کر ہی دم لیتا ہے۔ اٹھارہ کروڑ کی آبادی میں پچاس پچپن فیصد نوجوان ہیں اور دراصل یہی ہمارا قیمتی ترین قومی اثاثہ ہے۔ تبدیلی اور سیاسی و معاشرتی انقلاب کے حوالے سے میری تمام تر امیدیں ان نوجوانوں سے وابستہ ہیں جو قومی خدمت اور بہتر پاکستان کے جذبے سے معمور ہیں۔ میں دل ہی دل میں اس طلوعِ حقیقت پر خوش ہوتا رہتا ہوں کہ اگر دو ڈھائی لاکھ نوجوان طلبہ تعمیر پاکستان کا خواب لے کر اور عہد و حلف اٹھا کر سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور پھر ملک بھر میں پھیل گئے ہیں تو یہ سمجھنے میں کوئی حرج نہیں کہ انشاء اللہ جلد یا بدیر ملک کے حالات بدلیں گے، جمود ٹوٹے گا اور نئی صبح طلوع ہو گی۔ میں نوجوانوں کو کمر بستہ دیکھ کر ہی کہتا ہوں کہ پاکستان انقلاب کے دہانے پر کھڑا ہے۔ نوجوانوں نے ہی قائد اعظم کی سربراہی میں پاکستان بنایا تھا اور وہ ہی اسے صحیح معنوں میں پاکستان بنائیں گے۔ ظاہر ہے کہ کرپشن، لوٹ مار، بے انصافی، فیوڈل ازم، غربت اور بدامنی سے چھٹکارا حاصل کئے بغیر پاکستان سچا اور اصلی پاکستان نہیں بن سکتا۔ تعمیر پاکستان کا عہد کرنے والے نوجوانوں کی یہی منزل ہونی چاہئے۔
اس وقت تو میں فقط اس پیش رفت سے خوش ہو رہا ہوں کہ ہمارے ملک پر طاری جمود کی زنجیریں ڈھیلی ہوئی ہیں اور فضا میں ہلچل بپا ہوئی ہے۔ میں ہلچل، حرکت، عمل اور قوت کے مظاہرے سے اس لئے خوش ہوتا ہوں کہ میرے ذہنی میں مرشد علامہ اقبال کا سارا فلسفہ ہی عمل اور حرکت کا فلسفہ ہے۔ ان کے اس فلسفے نے غلام ہندوستان کے غلام مسلمانوں کو آزادی کی لذت، عمل پیہم اور مستقل مزاجی سے روشناس کرایا اور یہ اقبال کا پیغام ہی تھا جس نے تحریک پاکستان کے لئے راہ ہموار کی اور مسلمانوں کو مایوسی کے اندھیروں سے نکال کر جدوجہد کی شاہراہ پر گامزن کر دیا۔ میرا مرشد بہتی ندی ، شوریدہ سر شور مچاتے نالے، اڑتے پرندے، لپکتے جھپکتے شاہین، بحر ظلمات میں دوڑتے گھوڑے، پہاڑوں کو روندتے ، سیلاب، مایوسی اور جمود کو توڑتے ایمان افروز نعرے اور اس انقلابی نوجوانوں سے محبت کرتا ہے جو ستاروں پر کمندیں ڈالنے کی اہلیت رکھتے ہوں۔ میرے مرشد کے نزدیک ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ساری زندگی جدوجہد اور عمل کا بہترین نمونہ ہے اور یہی ہمارے لئے اسوئہ حسنہ ہے پھر ہم پتھروں کی مانند سڑکوں کے کنارے کیوں پڑے رہیں کہ ہر گزرنے والا ہمیں ٹھوکر مارے اور ہم ٹھوکر کھا کر حال مست مال مست کی تصویر بنے رہیں۔ حرکت میں برکت ہے، عمل تبدیلی کا پہلا اور آخری قدم ہے۔ عمل ہی سے زندگی بنتی ہے اور عمل ہی سے قوموں کا مقدر سنورتا اور چمکتا ہے۔ اس لئے عمل دیکھ کر میری رگوں میں خون تیزی سے دوڑنے لگتا ہے اور امید کے چراغ میری راہوں کو منور کر دیتے ہیں۔ مجھے کہنے دیجئے کہ اسی ہلچل، ارادے، خواب اور عمل کا مظاہرہ مجھے عمران خان کے 30اکتوبر والے جلسے میں نظر آیا اور اسی جذبے نے مجھے متاثر کیا۔ یقین رکھیے میں ہجوم سے متاثر نہیں ہوتا ، جذبے سے پگھل جاتا ہوں اور سہانے خواب دیکھنے لگتا ہوں کہ موجودہ پاکستان میں خواب حقائق سے کہیں زیادہ دلکش ہیں۔ میری دعا ہے کہ یہاں حقائق بھی خوابوں کی مانند دلکش اور سہانے ہو جائیں۔
اسی ہلچل ، حرکت اور عمل کا دوسرا پہلو اسلامی جمعیت طالبات ہیں جو تعمیر وطن کے لئے طلبہ سے پیچھے نہیں رہنا چاہتیں۔ انہوں نے مختلف مقاصد کے حصول کے لئے ہفتہ وار، پندرہ روزہ اور سال بھر کے پروگرام مرتب کئے ہیں۔ حال ہی میں ان طالبات نے تعلیمی سفارشات مرتب کی ہیں جو ان کے جذبہٴ تعمیر قوم و وطن کی علامت ہیں۔ ان سفارشات میں یکساں نظام تعلیم، یکساں نصابِ تعلیم، اسلامی نظریاتی مقاصد تعلیم، بیرونی مداخلت کا خاتمہ ، اردو ذریعہ تعلیم وغیرہ وغیرہ کے مطالبات کئے گئے ہیں۔ آج کل یہ بچیاں اور مستقبل کی عفت مآب مائیں شرم و حیا کا پندرہ روزہ منا رہی ہیں۔ شاید اس کا مقصد طالبات میں شرم و حیا کو فروغ دینا اور اس حوالے سے عملی مظاہرہ کرنا ہو گا کیونکہ عمل ہی بہترین نمونہ، بہترین ترغیب اور کامیابی کا بہترین ہتھیار ہوتا ہے۔ میں نے ان بچیوں کے پروگرام کے بارے میں سنا تو مجھے سید علی ہجویری  کی کتاب کشف المحجوب میں عفت و پاکیزگی کے بارے میں پڑھی گئی کچھ باتیں اور واقعات یاد آ گئے اور ساتھ ہی حفیظ جالندھری کے کچھ اشعار بھی یاد آ گئے جنہیں کسی اور مجلس کے لئے اٹھا رکھتا ہوں۔ کہنے کا مقصد یہ تھا کہ مجھے ہر طرف نوجوانوں میں ہلچل، حرکت، عمل اور ارادے کی روشنی نظر آتی ہے اور مجھے محسوس ہوتا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ روشنی پھیلتی جائے گی اور پھر اس روشنی کا نور جمود اور مایوسی کے اندھیروں کو کھا جائے گا۔ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہمارے نوجوانوں نے علامہ اقبال کے مشورے کے مطابق ”کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے “ … تدبر شروع کر دیا ہے اور مجھے یقین ہے یہ تدبر ضرور پھل لائے گا، یہ تدبیر ضرور اجالا پیدا کرے گا اور یقین محکم کے ساتھ ساتھ عمل پیہم سے آراستہ اقبال کے شاہیں بچے انشاء اللہ قوم کا مقدر بدل دیں گے۔ 


No comments:

Post a Comment