Sunday 20 May 2012

انوکھی جمہوریت! April 28, 2012


پنجاب میں ہی کیا سارے پاکستان میں”جمعرات“ کو پیروں فقیروں کا دن سمجھا جاتا ہے اوراس روز عام طور پر لوگ مزاروں پرحاضری دیتے او ر نوافل ادا کرکے دعائیں یا منتیں مانگتے ہیں۔ جمعرات کے دن ہی پاکستان کے پیر اور گدی نشین اور وزیراعظم کو توہین عدالت کی مختصر ترین سزا ہوئی اور اسی روز وہ سزا بھگت کر عالمی تاریخ میں پہلے سزا یافتہ وزیراعظم کا منفرد اعزاز حاصل کرگئے۔ جناب گیلانی صاحب نے کئی بار انکشاف کیا کہ ان کا تعلق ایک بہت بڑی روحانی گدی سے ہے اور پھران کے وکیل نے بھی سپریم کورٹ میں کہا کہ وزیراعظم ”بڑے پیر“ اورگدی نشین ہیں لیکن اس کے باوجود عدالت نے ان کی استدعا قبول نہ کی اور پھر سزا سنانے کے لئے بھی جمعرات کا دن چنا۔ مجھے تو یہ بھی چھوٹی سی سازش لگتی ہے ورنہ وزیراعظم کو کسی اور دن طلب کرکے 35/36 سیکنڈز کی سزاسنائی جاسکتی تھی۔اگر اس کا مقصد گدی نشینوں کے غبارے سے ہوا نکالنا ہے اور یہ بتانا ہے کہ اب پیروں گدی نشینوں کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں تو مجھے اس سے اختلاف ہے۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ بے انصافی کاواویلا محض دکھاوے کا سیاسی کھیل ہے ورنہ اندر سے خود پیر یوسف رضا گیلانی بھی یہی چاہتے تھے کہ انہیں سزا ہو اوروہ پیپلزپارٹی کے شہیدوں کی فہرست میں شامل ہوں۔ غور کیجئے ان کو پی پی پی کے شہداء پر سبقت حاصل ہے کہ وہ واحد شہید ہیں جو زندہ بھی ہیں اور وہ اس شہادت کا مطلب اور فائدہ زندگی کے آخری سانس تک اٹھاتے رہیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ انہوں نے اپنے بزرگوں کے مزار پرجا کر یہی دعا مانگی ہوگی جو قبول ہوئی بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ خود صدر زرداری بھی دل میں یہی دعا مانگتے تھے کیونکہ انتخابات کے قریب پی پی پی کو ایک بڑے شہید کی ضرورت تھی جو نہ صرف جیالوں کو گرما سکے بلکہ پی پی پی کے تن کمزور میں بھی نئی روح پھونک سکے۔ بھلا صدر زرداری کو کیا فرق پڑتا ہے کہ گیلانی صاحب وزیراعظم رہیں یا نہ رہیں۔ وہ ضرورت پڑنے پر کسی اور کو ممنون اور مشکور کرلیں گے اور وزیراعظم کا حلف اٹھوا لیں گے کیونکہ ایک بات ثابت ہے جو میں ایک درجن بار سے زیادہ لکھ چکا ہوں کہ صدر صاحب کسی صورت بھی اپنی محنت کی کمائی سے دستبردار نہیں ہوں گے جو انہوں نے سوئٹزرلینڈ کے بنک میں سنبھال کر رکھی ہوئی ہے۔ اب تو شاید وہاں سے بھی یہ کمائی کہیں او ر چلی گئی ہے۔ اس رقم کو بچانے کے لئے انہیں جتنے بھی وزراء اعظم قربان کرنا پڑے وہ دیدہ دلیری سے کریں گے اور مزاحمت کے ذریعے عدلیہ سے ٹکر لے کر اسے نیچا بھی دکھانے کی کوشش کریں گے کیونکہ وہ اعلان کرچکے ہیں کہ وہ صرف عوام کی عدالت کو مانتے ہیں اور ججوں کی عدالت صرف اس صورت مانیں گے جب وہ ڈوگر عدالت کی مانند ان سے پوچھ کر فیصلے کریں چنانچہ موجوہ عدالتوں کے خلاف مزاحمت نہایت ضروری ہے تاکہ قوم کو سمجھایا جاسکے کہ پی پی پی ایک مظلوم پارٹی ہے اور اسے عدالتوں سے کبھی انصاف نہیں ملااس لئے بقول اقبال جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو۔ کبھی آپ نے سوچا کہ ہم کس قدر”خوش قسمت“ قوم ہیں اور اللہ سحانہ  تعالیٰ نے ہمیں کتنی اعلیٰ اور بلند پائے کی قیادت عطا کی ہے جسے اگر عدالت سے من پسندانصاف نہ ملے تووہ اس عدالت کے خلاف گھیراؤ جلاؤ کا اعلان کردیتی ہے، ججوں کیخلاف سڑکوں پر نکل آتی ہے اور عدلیہ کے وجود ہی سے انکار کردیتی ہے۔ آپ اگر تاریخ کے ماہر ہیں تو مجھے گزشتہ صدی کی تاریخ سے ایسی ایک مثال ڈھونڈ دیجئے جہاں منتخب اور جمہوریت کے دعویدار صدر نے کہا ہو کہ وہ سپریم کورٹ کو نہیں مانتے صرف عوام کی عدالت کو مانتے ہیں۔ بادشاہتوں کے دور میں توعدلیہ سے انکار کیا جاتا رہا ہے لیکن جمہوری دور میں یہ انکارپہلی مثال کی حیثیت رکھتا ہے اورشاید آخری بھی۔
ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ خود گیلانی صاحب نے بھی یہی دعا مانگی تھی کیونکہ وہ چار سال سے زیادہ اقتدار کے مزلے لوٹ چکے، ماشاء اللہ سارا خاندان تجوریاں بھرچکا اور نوبت بہ ایں جا رسید کہ خود پی پی پی کے جیالے خاتون اول کے سیکرٹری کے خلاف احجاج کرتے پائے گئے کہ اس نے لوگوں سے بیرون وطن بھجوانے کا وعدہ کرکے لاکھوں روپے کما لئے۔ خربوزے کو دیکھ کر خربوزو رنگ پکڑتا ہے۔ جب اوپر کے خربوزے کا رنگ پیلا ہو تو نیچے والے بھی آہستہ آہستہ وہی رنگ پکڑ لیتے ہیں۔ سمندر میں دامن خشک رکھنا اولیاء اللہ کی کرامت ہے۔ یہ کسی عام آدمی کے بس کا روگ نہیں جب لوٹ کھسوٹ کا سمندر بہہ رہا ہو تو ہر کوئی چندگھونٹ پینے کی کوشش کرتا ہے۔ گیلانی صاحب کی دعا قبول ہوئی۔ وہ چار سال کی کمائی کو اب سنبھالیں گے بلکہ ٹھکانے لگائیں گے اور ساتھ ہی ساتھ وفادار اور مظلوم بن کر اپنے لئے ہمدردی کی لہر بھی پیدا کریں گے۔ ہے نا کمال کہ لوگ ان کی دولت اور نااہلی کو بھول کر ان پر پھول کی پتیاں برسائیں اور گیلانی زندہ باد کے نعرے لگائیں۔ ہر قسم کی اخلاقی قدروں اورصحت مند روایات سے محروم پاکستانی جمہوریت میں ہی ایسا ممکن ہے۔ یارو اپنے عوام کو داد دو، ان کے شعور کا ماتم نہ کرو کیونکہ وہ آپ کے گھر پر پتھر برسانے پہنچ جائیں گے اور خاموش اکثریت تماشائی بنی آپ کے سر پھٹنے کا تماشہ دیکھتی رہے گی۔ سچی بات یہ ہے کہ ہمارے سمارٹ اور ”قیمتی لباس“ سزایافتہ وزیراعظم ہرگز سزا پا کر گھاٹے میں نہیں رہے۔ گھاٹے میں تو ملک و قوم رہے ہیں جنہیں اس فیصلے نے باہم تقسیم کردیا ہے اور محاذ آرائی کی صورت پیدا کردی ہے۔ ایک طرف جیالے نکلیں گے اور دوسری طرف مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف خم ٹھونک کر کھڑی ہوں گی۔ کارکن اور چھوٹے لیڈران باہم دست وگریباں ہوں گے، پولیس لاٹھی چارج کرے گی یا گولی چلائے گی اور پی پی پی کو سیاسی شہید فراہم کرے گی تو اس سے گیلانی صاحب کو کیا فرق پڑتا ہے؟ وہ پی پی پی کے ہیرو ہیں فرق پڑے گا تو ملک و قوم کو جس کا کام ٹھپ ہو جائے گا اور مزدور مزدوری کو ترسیں گے۔
بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی ساکھ داؤ پر لگے گی، عالمی سرمایہ کاری فوری طور پر رک جائے گی، دوسری حکومتیں سزایافتہ وزیراعظم کی حکومت سے گفتگو، سمجھوتے اور معاہدے کرنے سے کنی کترائیں گی، عالمی رائے عامہ اورمیڈیا ہمارا تمسخر اڑائے گا، انتظامی ڈھانچہ اندر سے نہایت کمزور ہو جائے گا، صوبے اور مرکز آپس میں لڑیں گے، کابینہ کے فیصلے عضو معطل بن جائیں گے وغیرہ وغیرہ تو اس سے گیلانی صاحب کی صحت پر کیا اثر پڑتا ہے یا صدر صاحب کی معنی خیز مسکراہٹ کیسے متاثر ہوتی ہے؟ وہ تو اقتدار کی کرسیوں پر براجمان ہیں۔ فرق پڑے گاتو ملک و قوم کو اور اگر صدر صاحب یا گیلانی صاحب کو ملک و قوم کا ذرہ بھر غم ہوتا تو وہ وزیراعظم کو مستعفی ہونے کا مشورہ دیتے۔ یہاں تو ذاتی مفاد، گروہی سیاست اور جماعتی اقتدار کو قومی مفاد پر ترجیح دی جاتی ہے اور اسے جمہور کی حکومت یعنی جمہوریت کہا جاتا ہے۔ یہ دنیاکی انوکھی جمہوریت ہے جو خود اپنی بنیادیں کمزور کرتی اور فوجی راج کی راہ ہموار کرتی ہے۔ دیکھ لینا جلد ہی مقتدراتحاد سے اختلاف کی آوازیں بلند ہوں گے، حکومت کو سہارا دینے والے کچھ سیاسی ساتھی عدلیہ سے تصادم کی حمایت نہیں کریں گے، انتظامی مشینری تعطل کاشکار ہو جائے گی، ترقی اور مسائل کے حل کا عمل رک جائیگا، بین الاقوامی برادری ہاتھ کھینچ لے گی اور وزیراعظم پر سزایافتہ کا لیبل لگا کر اسے تمسخر کا ٹارگٹ بنا دیا جائے گا جس سے اس اعلیٰ عہدے کاوقار خاک میں مل جائے گا۔ ملتان میں پی پی پی الیکشن جیت چکی، ہمدردی کی لہر جنم لینے والی ہے کیا اس بحران سے نکلنے کا بہترین راستہ عام انتخابات کا اعلان نہیں؟

No comments:

Post a Comment